غزل

مجھے تم سے کوئی غرض نہیں،مری تم سے کوئی طلب نہیں
مری تم پہ کیوں ہیں نوازشیں،مرے علم میں وہ سبب نہیں

نہ ہی مجھ پہ کوئی فریفتہ، نہ کسی کی مجھ پہ نظر پڑی
نہ ہی آنکھ مجھ سے کوئی لڑی، کبھی ڈھایا میں نے غضب نہیں

سبھی میرے دل کے قریب ہیں، مرے کتنے اعلیٰ نصیب ہیں
کیا کسی کے میں بھی قریب ہوں، مرا اونچا نام و نسب نہیں

کیوں حقیر اتنی حیات ہے، نہیں اس سے کوئی نجات ہے
پیا سب نے آبِ حیات ہے، کوئی جان جان بہ لب نہیں

ترے در پہ میں ہی پڑا رہا، تو انا پہ اپنی اڑا رہا
ترے راستوں سے پلٹ گیا، وہی راستے، نہیں اب نہیں​
 
مدیر کی آخری تدوین:

Anees jan

محفلین

الف عین

لائبریرین
مجھے تم سے کوئی غرض نہیں،مری تم سے کوئی طلب نہیں
مری تم پہ کیوں ہیں نوازشیں،مرے علم میں وہ سبب نہیں
... درست

نہ ہی مجھ پہ کوئی فریفتہ،نہ کسی کی مجھ پہ نظر پڑی
نہ ہی آنکھ مجھ سے کوئی لڑی، کبھی ڈھایا میں نے غضب نہیں
... مفہوم عجیب ہے، طرز بیان میں پڑی اور لڑی کو ایک مصرع کر دیں تو بہتر ہو
یعنی
نہ کسی کی مجھ پہ نظر پڑی، نہ ہی آنکھ مجھ سے کوئی لڑی

سبھی میرے دل کے قریب ہیں، مرے کتنے اعلیٰ نصیب ہیں
کیا کسی کے میں بھی قریب ہوں، مرا اونچا نام و نسب نہیں
.. تیسرا ٹکڑا بدل دیں، کچھ متبادل سمجھ میں نہیں آ رہا ہے میرے

کیوں حقیر اتنی حیات ہے، نہیں اس سے کوئی نجات ہے
پیا سب نے آبِ حیات ہے، کوئی جان جان بہ لب نہیں
.. واضح نہیں.، نجات کس سے؟

ترے در پہ میں ہی پڑا رہا، تو انا پہ اپنی اڑا رہا
ترے راستوں سے پلٹ گیا، وہی راستے، نہیں اب نہیں
.. میں 'ہی' پڑا... ، اس 'ہی' کی معنویت سمجھ میں نہیں آئی
دوسرے مصرعے میں بھی دو بار راستے کی جگہ یوں کر دیں
تری راہ سے میں پلٹ گیا... ویسے 'پلٹ آیا' آ سکتا تو بہتر تھا
 
سبھی میرے دل کے قریب ہیں، مرے کتنے اعلیٰ نصیب ہیں
کیا کسی کے میں بھی قریب ہوں، مرا اونچا نام و نسب نہیں
سبھی میرے دل کے قریب ہیں، سبھی مجھ کو دل سے عزیز ہیں
میں حبیب ہوتا کسی کا کیا ، مرا اونچا نام و نسب نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کسی کا ہوتا حبیب کیا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کسی کا ہوتا حبیب پر ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بھی ہوتا سب کا حبیب پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
محترمین۔۔۔شکیل احمد خان اور الف عین
میں انتہاءی ممنون ہوں اتنی عمدہ رہنماءی اور اصلاح پر۔میں انشاءاللہ اصلاح کے بعد پوسٹ کروں گا ۔جزاکاللہ خیر
 
Top