آزادیِ نسواں۔۔۔ آخری حد کیا ہے؟؟؟

زیک

مسافر
آپ کی سمجھ کو َبردست
آپ نے بھی ٹرول شروع کردیا واہ جی واہ
امریکہ جانے کا کیا فائدہ
آپ جیسے سمجھدار ڈاکٹر سے امید نہ تھی کہ مخلوطیت کے ایسے مخالف نکلیں گے۔ اگر واقعی مخلوط محافل غلط ہیں تو ان کا اصول یہاں بھی لاگو ہونا چاہیئے۔ لیکن ہم اکثر ایسے معاملات میں استثنی ڈھونڈ لیتے ہیں
 

فاخر رضا

محفلین
آپ جیسے سمجھدار ڈاکٹر سے امید نہ تھی کہ مخلوطیت کے ایسے مخالف نکلیں گے۔ اگر واقعی مخلوط محافل غلط ہیں تو ان کا اصول یہاں بھی لاگو ہونا چاہیئے۔ لیکن ہم اکثر ایسے معاملات میں استثنی ڈھونڈ لیتے ہیں
مخلوط محافل کی مخالفت کی بات نہیں. اپنی اپنی ترجیحات کی بات ہے.
میں اسپتال میں کام کرتا ہوں اور وہ بھی ICU میں. وہاں مخلوطیت ہی ہوتی ہے. مگر اگر عورت مرد کے اسپتال الگ ہوں تو کیا حرج ہے.
کم از کم ترقی یافتہ ممالک میں تو ایسا ضرور ہونا چاہیے. وہاں تو وسائل کی کوئی کمی نہیں. مزیدار بات یہ ہے کہ کچھ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہو بھی رہا ہے. عورتیں competence میں کسی سے کم نہیں ہیں. ماشاءاللہ
 

فاخر رضا

محفلین
آپ جیسے سمجھدار ڈاکٹر سے امید نہ تھی کہ مخلوطیت کے ایسے مخالف نکلیں گے۔ اگر واقعی مخلوط محافل غلط ہیں تو ان کا اصول یہاں بھی لاگو ہونا چاہیئے۔ لیکن ہم اکثر ایسے معاملات میں استثنی ڈھونڈ لیتے ہیں
اگر آپ اردو محفل فورم کی بات کررہے ہیں تو بھی جی ہاں اس میں بھی عورت مرد الگ الگ ہی رہیں تو کیا حرج ہے.

بہت سے مجھ جیسے مولوی رفو چکر ہوجائیں گے
 

سید عمران

محفلین
اللہ معاف کرے میں آپ کی طرح کسی بھی درندے کی حمایت کے مرض میں مبتلا نہیں۔ اپنے خیالات مجھ پہ تھونپنے پر اور اپنی اصل مجھ پہ ظاہر کرنے کا شکریہ۔ :)
آپ کے لیے امریکہ جیسے بڑے درندے کی حمایت کافی ہے جس نے عراق، افغانستان، پاکستان، شام، لیبیا میں کروڑوں مسلمانوں کے خون ناحق کی ندیاں بہادیں۔۔۔
آپ کو کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
یہ ان کا کلچر ہے، آپ کو کیا تکلیف ہے؟ کم از کم پاکستانی ارینج میرج کی طرح مغربی مرد جبرا بیوی کو اپنے ساتھ نہیں سلاتا۔
ہمیں آپ کے گندے کلچر سے کوئی تکلیف نہیں۔۔۔
بس اس عریانیت کو اپنے پاس رکھ کر ہمیں اس سے محفوظ رکھیں!!!
 

سید عمران

محفلین
مغرب کی ہر عورت ہلکے پھلکے کپڑے پہن کر نہیں پھرتی۔ معلوم نہیں یہ تاثرات کہاں سے اخذ کئے گئے ہیں۔
ہر ہر کی بات تو ہم نے بھی نہیں کی۔۔۔
اکثریت کی بات کی ہے۔۔۔
بحیثیت انسان ان میں بھی اچھی بری طبعیت کے لوگ پائے جاتے ہیں۔۔۔
بحیثیت انسان ہم ان کو برا نہیں کہہ رہے۔۔۔
صرف عریانیت اور فحاشی کو برا کہا جارہا ہے!!!
 

فاخر رضا

محفلین
آخری بات یہ کہ میں غیرمشروط طور پر حقوق کے حصول کی اس مقدس جنگ میں ان کے ساتھ ہوں۔تیری روح تیری مرضی تیری ذات تیری مرضی تیری سوچ تیری مرضی کہ’’جسم‘‘ فانی اور محدود ہے اور آپ لافانی اور لامحدود!

عورت مارچ

A must read. See how to present your opinion
 

سید عمران

محفلین
آخری بات یہ کہ میں غیرمشروط طور پر حقوق کے حصول کی اس مقدس جنگ میں ان کے ساتھ ہوں۔تیری روح تیری مرضی تیری ذات تیری مرضی تیری سوچ تیری مرضی کہ’’جسم‘‘ فانی اور محدود ہے اور آپ لافانی اور لامحدود!

عورت مارچ

A must read. See how to present your opinion
فاخر بھائی حقوق نسواں اور لباس سے آزادی نسواں میں مشرق مغرب کا بُعد ہے۔۔۔
کاش کوئی ایک چارٹ بنائے، اس میں مختلف مذاہب کے کالم ہوں۔ان کالمز میں اسلام نے عورت کو جو حقوق دئیے ہیں اور دیگر مذاہب میں ان کے جو حقوق ہیں سب کا موازنہ ہو۔۔۔
بے دین لوگوں کا مقصد عورتوں کو ان کا کوئی حق دلانا نہیں کٹی پتنگ بنا کر گھر سے نکال پھینکنا ہے تاکہ وہ اپنے مردوں کے محفوظ حصار سے نکل آئیں اور دنیا بھر کے مردوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوں۔۔۔
ورنہ کسی کو کیا پڑی کہ کسی کے حقوق کے لیے لڑتا مرتا رہے !!!
 

سید عمران

محفلین
عورتوں کے حقوق تو دار الافتاء میں بیٹھے یہی مولوی دلاتے ہیں۔۔۔
آئے دن ہمارے پاس کتنے لوگ آتے ہیں، کسی نے بیوی کو طلاق دے دی ہوتی ہے، کوئی بیوی کے کردار پر شک کرتا ہے، بھائی بہن کو والدین کی جائداد میں سے حصہ نہیں دیتے، بچیوں کے لیے رشتہ کے سلسلہ میں والدین پریشان ہوتے ہیں۔۔۔
آپ لوگوں کو کیا پتا صحیح مشوروں سے، فریقین کو سمجھانے سے سینکڑوں بچیوں کے گھر بس گئے، ان کے پیارے پیارے معصوم بچے والدین کی تفریق کے باعث ہونے والی بربادی سے محفوظ ہوگئے۔ کتنی بچیوں کے اچھی جگہ رشتہ ہوگئے جو ان کے والدین ناسمجھی کے باعث ٹھکرانے جارہے تھے۔ کتنی بہنوں کو والدین کی وراثت سے مال ملا، ان کی معاشی آسودگی کا باعث بنا۔۔۔
کی بورڈ پر ٹائپنگ کرکے دل کی بھڑاس نکالنے یا مسلمانوں میں گمراہی پھیلانے والے ٹولہ کی پُر فتنہ و فساد باتیں بنانے اور عملی طور پر کسی کا گھر بسانے اور بچانے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے!!!
ہم سے زیادہ کسی کو نہیں پتا کہ معاشرہ میں کیا ہورہا ہے، لوگ ہم سے اپنے بھید، انتہائی ذاتی احوال، چار دیواری میں ہونے والی پوشیدہ باتیں ڈسکس کرتے ہیں، اور یقیناً اچھی باتیں کوئی نہیں بتاتا کہ میں رات بھر تہجد پڑھتا ہوں یا تلاوت کرتا ہوں، سب گناہ کی باتیں بتاتے ہیں کہ میں نے کسی کے ساتھ کیا کردیا یا کسی نے میرے ساتھ کیا کیا۔۔۔
اب اس کا حل، اس کا کفارہ، اس کی تلافی کیوں کر ہو!!!
 

سید عمران

محفلین
کیا یہ محفل واقعی مخلوط ہے؟ یہ بھی اپنی جگہ ایک سوال ہے۔
مشہور زمانہ اختلاط کے لیے مرد و زن کی جسمانی طور پر موجودگی اور آپس میں خلط ملط ہونا ضروری ہے۔۔۔
جیسے دفتروں میں، تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔۔۔
ورنہ بظاہر اختلاط تو بازاروں میں، راستوں میں، حرم میں بھی ہوتا ہے۔۔۔
لیکن وہاں سب اجنبیوں کی طرح گزر جاتے ہیں، قرار پکڑ کر آشنائی، شناسائی اور میل ملاقات نہیں بڑھاتے!!!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اسلام اور حقوقِ نسواں
نگہت فرمان جمع۔ء 6 مارچ 2020
2012555-womenislamic-1583438493-584-640x480.jpg

جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے فوٹو : فائل


جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے، اسے حقوق سے محروم اور قیدی بناکر رکھا ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے ممالک اور ادارے تو ابھی سو برس پہلے ہی سامنے آئے ہیں۔ جب کہ اسلام نے پندرہ سو برس قبل ہی عورتوں کو مظالم اور زیادتیوں سے آزادی دلائی تھی۔ سب سے پہلے اسلام کی رُو سے بہ حیثیت انسان مرد و عورت دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں اشرف المخلوقات ہیں، ورنہ اس سے پہلے کے مذاہب اور تہذیبیں تو عورت کو انسان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔

جو حقوق عورتوں کو اسلام نے دیے ہیں وہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب یا ادارہ آج تک نہیں دے سکا۔ اسلام نے عورت کو ہر حیثیت سے ایک منفرد مقام دیا ہے اور اس کے حقوق کا تعین کیا ہے۔ اگر وہ بیوی ہے تو گھر کی ملکہ، بیٹی ہے تو رحمت و نعمت، بہن ہے تو اس کی پرورش کرنے والے بھائی کے لیے جنّت کی بشارت ہے اور ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنّت ہے۔ عورت کے حوالے سے اسلام کا یہ مجموعی تصوّر ہے۔ کیا اتنا پاکیزہ اور جامع تصور کوئی بھی تہذیب پیش کر سکتی ہے؟

اسلام نے عورتوں کی تعلیمی، معاشرتی و معاشی حقوق و اختیارات کو بھی واضح طور پر بیان کیا ہے۔ ما ں کی گود کو بچے کا پہلا مکتب قرار دیا گیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ عورت کا تعلیم یافتہ اور مہذّب ہونا کتنا ضروری ہے۔ انہیں حلال روزی کمانے اور اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرّف کا پورا اختیار ہے۔ شادی بیاہ کے معاملے میں اگرچہ ولی کو لڑکا تلاش کرنے اور پسند کرنے کا اختیار ہے، لیکن لڑکی کی مرضی اور خواہش کے بغیر کہیں بھی اس کی شادی نہیں کی جاسکتی اور اس کی رضامندی لازم اور ضروری ہے۔ اسلام عورت، مرد دونوں کے لیے حقوق اور اختیارات طے کرتا ہے، اگر دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر انہیں برتیں تو انسانی معاشرہ ہر طرح سے خوش حال اور مامون بن سکتا ہے۔

آج مسلمانوں کی کچھ خواتین یورپ کی تقلید میں آزادی نسواں کے نام پر دھوکے کا شکار ہیں۔ جب کہ یورپ کی مظلوم عورتیں بے راہ روی کے بھیانک نتائج کے مشاہدے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہیں۔ یہ آزادی نسواں کا دل فریب نعرہ نرا دھوکا ہے۔ اس نعرے کی آڑ میں ان کی عزت و عفّت سے کھیلا جاتا اور عورت سے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا مرتبہ چھینا جا رہا ہے۔ وہ خاتون جو گھر میں شرافت کا مجسم نمونہ بن کر احترام و توقیر کی علامت تھی، اس نعرے کی بہ دولت اس کی نسوانیت جیسی متاع بے بہا چھین کر ہول ناک شہوانی نگاہوں کا شکار بنا دیا گیا۔ یہ سب استحصالی ٹولے کی کارستانی ہے کہ آج بنت حوّا کی شرم و حیا اور عفت و عصمت سرِ بازار نیلام کی جارہی ہے۔

دور حاضر میں یورپ و امریکا میں عورت ایک ایسی مخلوق ہے جو صرف تجارتی اشیاء کی فروخت کے لیے استعمال ہورہی اور اس کے جسم کو تجارتی اشیاء کی فروخت میں اضافے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ کیا یہی عورت کی آزادی اور اس کی عزت و تکریم اور اس کے حقوق کی علامت ہے۔۔۔ ؟

یاد رہے کہ یہ سلوک بھی عورت کے ساتھ اس وقت تک برتا جاتا ہے جب تک وہ مردوں کے لیے پُرکشش رہتی ہے، اور جب اس کی جاذبیت کم ہوجاتی ہے تو اس کی قیمت لگنا بھی بند ہوجاتی اور جب اس کی تمام جسمانی چمک دمک ماند پڑجاتی ہے تو یہ سرمایہ دارانہ معاشرہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔ پھر وہ ادارے جہاں اس نے جوہر کمال دکھائے تھے، اسے مسترد کردیتے ہیں اور پھر وہ تنہا یا کسمپرسی کی حالت میں کسی اولڈ ہوم یا نفسیاتی اسپتال میں زندگی کے دن پورے کرتی ہے۔

اگر آپ اس تحریک کے علم برداروں کی تحریریں پڑھیں اور تقریریں سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس تحریک کے علم برداروں نے عورتوں کی آزادی اور حقوق کا سارا دائرہ جنسی آزادی میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ کیا جنسی انارکی کو رواج و فروغ دینا کسی بھی طرح سے آزادی نسواں کہلایا جاسکتا ہے۔۔۔۔ ؟

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے اعداد و شمار بتا تے ہیں کہ مغربی معاشرے میں اتنی آزادی ہونے کے باوجود عورتیں مردوں کی نسبت 20 فی صد زیادہ کام کرتی ہیں۔ کیوں کہ وہ باہر بھی کام کرتی ہیں اور گھر کے معاملات بھی انہیں نمٹانے پڑتے ہیں۔ دنیا بھر کے تمام کاموں کا اندازہ لگایا گیا تو پتا چلا کہ ان کاموں کا 66 فی صد عورتوں کے ذمے ہے اور مرد صرف 34 فی صد کام کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ان کے بنائے ہوئے ہیں جو عورتوں کی آزادی کے بڑے علم بردار ہیں۔ خواتین اب یہ خود سوچ لیں کہ وہ آزادی حاصل کررہی ہیں یا مزید شکنجوں میں جکڑی جارہی ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
اسلام اور حقوقِ نسواں
نگہت فرمان جمع۔ء 6 مارچ 2020
2012555-womenislamic-1583438493-584-640x480.jpg

جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے فوٹو : فائل


جب بھی عورتوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورتوں پر بہت ظلم کیا ہے، اسے حقوق سے محروم اور قیدی بناکر رکھا ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے ممالک اور ادارے تو ابھی سو برس پہلے ہی سامنے آئے ہیں۔ جب کہ اسلام نے پندرہ سو برس قبل ہی عورتوں کو مظالم اور زیادتیوں سے آزادی دلائی تھی۔ سب سے پہلے اسلام کی رُو سے بہ حیثیت انسان مرد و عورت دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں اشرف المخلوقات ہیں، ورنہ اس سے پہلے کے مذاہب اور تہذیبیں تو عورت کو انسان بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔

جو حقوق عورتوں کو اسلام نے دیے ہیں وہ دنیا کی کوئی بھی تہذیب یا ادارہ آج تک نہیں دے سکا۔ اسلام نے عورت کو ہر حیثیت سے ایک منفرد مقام دیا ہے اور اس کے حقوق کا تعین کیا ہے۔ اگر وہ بیوی ہے تو گھر کی ملکہ، بیٹی ہے تو رحمت و نعمت، بہن ہے تو اس کی پرورش کرنے والے بھائی کے لیے جنّت کی بشارت ہے اور ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنّت ہے۔ عورت کے حوالے سے اسلام کا یہ مجموعی تصوّر ہے۔ کیا اتنا پاکیزہ اور جامع تصور کوئی بھی تہذیب پیش کر سکتی ہے؟

اسلام نے عورتوں کی تعلیمی، معاشرتی و معاشی حقوق و اختیارات کو بھی واضح طور پر بیان کیا ہے۔ ما ں کی گود کو بچے کا پہلا مکتب قرار دیا گیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ عورت کا تعلیم یافتہ اور مہذّب ہونا کتنا ضروری ہے۔ انہیں حلال روزی کمانے اور اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرّف کا پورا اختیار ہے۔ شادی بیاہ کے معاملے میں اگرچہ ولی کو لڑکا تلاش کرنے اور پسند کرنے کا اختیار ہے، لیکن لڑکی کی مرضی اور خواہش کے بغیر کہیں بھی اس کی شادی نہیں کی جاسکتی اور اس کی رضامندی لازم اور ضروری ہے۔ اسلام عورت، مرد دونوں کے لیے حقوق اور اختیارات طے کرتا ہے، اگر دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر انہیں برتیں تو انسانی معاشرہ ہر طرح سے خوش حال اور مامون بن سکتا ہے۔

آج مسلمانوں کی کچھ خواتین یورپ کی تقلید میں آزادی نسواں کے نام پر دھوکے کا شکار ہیں۔ جب کہ یورپ کی مظلوم عورتیں بے راہ روی کے بھیانک نتائج کے مشاہدے کے بعد اسلام کی طرف مائل ہیں۔ یہ آزادی نسواں کا دل فریب نعرہ نرا دھوکا ہے۔ اس نعرے کی آڑ میں ان کی عزت و عفّت سے کھیلا جاتا اور عورت سے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا مرتبہ چھینا جا رہا ہے۔ وہ خاتون جو گھر میں شرافت کا مجسم نمونہ بن کر احترام و توقیر کی علامت تھی، اس نعرے کی بہ دولت اس کی نسوانیت جیسی متاع بے بہا چھین کر ہول ناک شہوانی نگاہوں کا شکار بنا دیا گیا۔ یہ سب استحصالی ٹولے کی کارستانی ہے کہ آج بنت حوّا کی شرم و حیا اور عفت و عصمت سرِ بازار نیلام کی جارہی ہے۔

دور حاضر میں یورپ و امریکا میں عورت ایک ایسی مخلوق ہے جو صرف تجارتی اشیاء کی فروخت کے لیے استعمال ہورہی اور اس کے جسم کو تجارتی اشیاء کی فروخت میں اضافے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ کیا یہی عورت کی آزادی اور اس کی عزت و تکریم اور اس کے حقوق کی علامت ہے۔۔۔ ؟

یاد رہے کہ یہ سلوک بھی عورت کے ساتھ اس وقت تک برتا جاتا ہے جب تک وہ مردوں کے لیے پُرکشش رہتی ہے، اور جب اس کی جاذبیت کم ہوجاتی ہے تو اس کی قیمت لگنا بھی بند ہوجاتی اور جب اس کی تمام جسمانی چمک دمک ماند پڑجاتی ہے تو یہ سرمایہ دارانہ معاشرہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔ پھر وہ ادارے جہاں اس نے جوہر کمال دکھائے تھے، اسے مسترد کردیتے ہیں اور پھر وہ تنہا یا کسمپرسی کی حالت میں کسی اولڈ ہوم یا نفسیاتی اسپتال میں زندگی کے دن پورے کرتی ہے۔

اگر آپ اس تحریک کے علم برداروں کی تحریریں پڑھیں اور تقریریں سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس تحریک کے علم برداروں نے عورتوں کی آزادی اور حقوق کا سارا دائرہ جنسی آزادی میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ کیا جنسی انارکی کو رواج و فروغ دینا کسی بھی طرح سے آزادی نسواں کہلایا جاسکتا ہے۔۔۔۔ ؟

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے اعداد و شمار بتا تے ہیں کہ مغربی معاشرے میں اتنی آزادی ہونے کے باوجود عورتیں مردوں کی نسبت 20 فی صد زیادہ کام کرتی ہیں۔ کیوں کہ وہ باہر بھی کام کرتی ہیں اور گھر کے معاملات بھی انہیں نمٹانے پڑتے ہیں۔ دنیا بھر کے تمام کاموں کا اندازہ لگایا گیا تو پتا چلا کہ ان کاموں کا 66 فی صد عورتوں کے ذمے ہے اور مرد صرف 34 فی صد کام کرتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ان کے بنائے ہوئے ہیں جو عورتوں کی آزادی کے بڑے علم بردار ہیں۔ خواتین اب یہ خود سوچ لیں کہ وہ آزادی حاصل کررہی ہیں یا مزید شکنجوں میں جکڑی جارہی ہیں۔
جب آپ کو سب پتا ہے پھر اِدھر اُدھر کےکمالات کیوں دکھاتے پھرتے ہیں؟؟؟
:at-wits-end::at-wits-end::at-wits-end:
 

زیدی

محفلین
آپ کے لیے امریکہ جیسے بڑے درندے کی حمایت کافی ہے جس نے عراق، افغانستان، پاکستان، شام، لیبیا میں کروڑوں مسلمانوں کے خون ناحق کی ندیاں بہادیں۔۔۔
آپ کو کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں!!!
دو درندوں میں سے چھوٹے درندے یعنی طالبان کی حمایت جائز ہے؟ درندوں کی حمایت کرنے والا خود درندہ ہے چاہے حمایت چھوٹے درندے کی ہو یا بڑے۔ درندگی درندگی ہوتی ہے کرنے والا چھوٹا ہو یا بڑا اس سے درندگی یا اس کی حمایت جائز نہیں ہو جاتی کیونکہ اسلام میں ایک معصوم انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے وہ بلا تفریق امریکہ کرے یا طالبان۔ دہرا معیار اور اپنے من پسند درندے کی حمایت ان کو ہی قبول ہو جن میں غلط کو غلط کہنے کی ہمت چھو کے بھی نہیں گزری اور اس کے باوجود امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے چیمپئن کا ڈھونگ رچائے پھرتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top