برائے اصلاح: مدہوشیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
تمام اہلِ علم سے اصلاح کی درخواست ہے

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

کیوں مدہوشیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
نہیں پتھر کی اس سل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
انا کے پردے یوں حائل رہے سارے سفر کے بیچ
سخن آرائیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
ذرا سی بات تھی جس پر مرا بھی ضبط ٹوٹا ہے
ابھی آدابِ محفل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
بہت کی آرزو میں سب گنوایا جو بھی حاصل تھا
گنوا کر کے بھی حاصل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

اگر طوفان آ جائے ہاں ساحل اک پڑاو ہے
مگر کیوں اپنی منزل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
وہاں تقسیم در تقسیم کا آزار تو ہو گا
جہاں اپنے ہی قاتل کو نہ ہم سمجھے نہ تم سمجھے
 
جناب عبدالرؤف صاحب، آداب!

کیوں مدہوشیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
نہیں پتھر کی اس سل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
کیوں کو ’’کی۔یوں‘‘ تقطیع کرنا درست نہیں۔ کیوں کا وزن فا ہوتا ہے اور اسے ’’کُو‘‘ تقطیع کیا جاتا ہے۔

انا کے پردے یوں حائل رہے سارے سفر کے بیچ
سخن آرائیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
دورانِ سفر دو لوگوں کے بیچ تو پردہ حائل ہوسکتا ہے، مگر خود سفر کے بیچ میں پردہ؟؟؟ پھر ’’سارے سفر‘‘ کہنا بھی غیر فصیح ہے، ’’پورے سفر‘‘ کہنا درست ہوگا۔

ذرا سی بات تھی جس پر مرا بھی ضبط ٹوٹا ہے
ابھی آدابِ محفل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی ہے۔

بہت کی آرزو میں سب گنوایا جو بھی حاصل تھا
گنوا کر کے بھی حاصل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
’’گنوا کر کے‘‘ کہنا ٹھیک نہیں ۔۔۔ یہاں کے زائداور فصاحت کے خلاف ہے۔

اگر طوفان آ جائے ہاں ساحل اک پڑاو ہے
مگر کیوں اپنی منزل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
پہلے مصرعے میں ’’ہاں‘‘ نہ صرف یہ کہ بھرتی کا ہے، بلکہ محض ’’ہَ‘‘ تقطیع ہورہا ہے۔ یہاں پر ’’تو‘‘ سے بھی کام چلایا جاسکتا تھا، نجانے کیوں آپ ہاں لے آئے!
ایک بار پھر، دونوں مصرعے مربوط معلوم نہیں ہوتے۔

وہاں تقسیم در تقسیم کا آزار تو ہو گا
جہاں اپنے ہی قاتل کو نہ ہم سمجھے نہ تم سمجھے
اپنے قاتل کو پہچان نہ پانے سے تقسیم در تقسیم کا تعلق واضح نہیں۔

دعاگو،
راحلؔ
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کیوں کو ’’کی۔یوں‘‘ تقطیع کرنا درست نہیں۔ کیوں کا وزن فا ہوتا ہے اور اسے ’’کُو‘‘ تقطیع کیا جاتا ہے۔
کبھی مدہوشیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
کبھی پتھر کی اس سل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

دورانِ سفر دو لوگوں کے بیچ تو پردہ حائل ہوسکتا ہے، مگر خود سفر کے بیچ میں پردہ؟؟؟ پھر ’’سارے سفر‘‘ کہنا بھی غیر فصیح ہے، ’’پورے سفر‘‘ کہنا درست ہوگا۔
انا یوں عمر بھر حائل رہی جو ہم سفر کے بیچ
سخن آرائیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

’’گنوا کر کے‘‘ کہنا ٹھیک نہیں ۔۔۔ یہاں کے زائداور فصاحت کے خلاف ہے۔
بہت کی آرزو میں سب گنوایا جو بھی حاصل تھا
گنوا کے بھی تو حاصل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

پہلے مصرعے میں ’’ہاں‘‘ نہ صرف یہ کہ بھرتی کا ہے، بلکہ محض ’’ہَ‘‘ تقطیع ہورہا ہے۔ یہاں پر ’’تو‘‘ سے بھی کام چلایا جاسکتا تھا، نجانے کیوں آپ ہاں لے آئے!
ایک بار پھر، دونوں مصرعے مربوط معلوم نہیں ہوتے۔
اگر طوفان آ جائے تو ساحل بس پڑاو ہے
پڑاو اور منزل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے

اپنے قاتل کو پہچان نہ پانے سے تقسیم در تقسیم کا تعلق واضح نہیں۔
کہ اب تقسیم در تقسیم کا آزار تو ہو گا
نہ کر پائے بہم دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
 
آخری تدوین:
کبھی مدہوشیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
کبھی پتھر کی اس سل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
مطلع اب بھی دولخت ہے۔ دونوں مصرعوں میں ربط کا فقدان ہے۔

انا یوں عمر بھر حائل رہی جو ہم سفر کے بیچ
سخن آرائیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
اولاً یہ کہ جب دو لوگوں کا ذکر ہورہا ہے تو واحد کی بجائے جمع کا صیغہ استعمال کرنا چاہیئے۔
ثانیاً یہ کہ پہلے مصرعے میں ضمیرِ غائب یا تھرڈ پرسن کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، جس کا مرجع ہمسفر ہے، جبکہ دوسرے مصرعے میں ضمیر متکلم و مخاطب استعمال کئے گئے ہیں، جو گرائمر کے اصولوں کے منافی ہے۔
پہلے مصرعے میں ہمارے بیچ، ہم دونوں کے بیچ، دونوں کے درمیان وغیرہ ہونا چاہیئے۔

بہت کی آرزو میں سب گنوایا جو بھی حاصل تھا
گنوا کے بھی تو حاصل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
دوسرے مصرعے میں ’’تو‘‘ بھرتی کا ہے، محض وزن پورا کرنے لئے۔ اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔

اگر طوفان آ جائے تو ساحل بس پڑاو ہے
پڑاو اور منزل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
پڑاؤ کو ’’پ۔ڑا۔وْ‘‘ تقطیع کیا جاتا ہے یعنی و ساکن ہوتی ہے، جبکہ آپ نے ’’پ۔ڑآو‘‘ تقطیع کیا ہے، جو درست نہیں۔
مزید یہ کہ دوسرے مصرعے میں غالباً آپ کا مافی الضمیر یہ ہے کہ ’’پڑاؤ اور منزل کے فرق کو تم سمجھے نہ ہم سمجھے‘‘۔ ظاہر ہے کہ آپ کے مصرعے سے یہ مفہوم مکمل ادا نہیں ہورہا۔

کہ اب تقسیم در تقسیم کا آزار تو ہو گا
نہ کر پائے بہم دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
یہ شعر بھی دولختی کا شکار ہے۔ علاوہ ازیں ’’کہ‘‘ سے پہلے مصرعے کا آغاز پسندیدہ نہیں ہوتا۔ نثر میں بھی کوئی جملہ کبھی ’’کہ‘‘ سے شروع نہیں ہوتا۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 
Top