امریکا اور طالبان میں امن معاہدے پر دستخط؛ امریکی فوج 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل انخلا کرے گی

جاسم محمد

محفلین
عامر خاکوانی لکھتے ہیں:
یہ طالبان کی فتح ہے، ایک بڑی، واضح کامیابی۔ فتح مبین۔ امریکی انہیں توڑنے، جھکانے ،شکست دینے، ختم کرنے میں ناکام رہے۔ وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ طالبان ختم ہوگئے، وہ ماضی کا ایک باب بن گئے ہیں.... ہفتہ کی شام ان سب کو اپنے تجزیے غلط ہونے، اندازے الٹ جانے پر دل ہی دل میں سہی، شرمندگی تو محسوس ہوئی ہوگی۔
طالبان اپنی جگہ پرڈٹ کر کھڑے ہوئے اور بے شمار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود کھڑے ہوئے۔ وقت نے ثابت کیا کہ تاریخ ہمیشہ جرات مندوں اور بلند حوصلہ لوگوں کا ساتھ دیتی ہے۔
امریکہ نے طویل مزاحمتی جنگ کے بعد ویتنام کے مچھیرے کمیونسٹوں سے بھی امن معاہدہ کرکے ان کا ملک چھوڑ دیا تھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ملکہ وکٹوریہ کے عہدِ حکومت میں انگریزوں نے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر حملہ کیا ۔ حضور شمس العارفین خواجہ شمس الدین سیالویؒ اپنے حجرہ مبارکہ میں تشریف فرما تھے، آپ اچانک اٹھے اور جنوبی دروازے کے قریب جا کر بڑے جلال سے فرمایا:
"جب افغان تلوار اٹھائیں گے تو اِس عورت (ملکہ وکٹوریہ) کا لندن میں اپنے لباس میں ہی (خوف کے مارے) پیشاب خطا ہو جائے گا"
حضرت اعلیٰ نے یہ الفاظ دو یا تین مرتبہ دہرائے اور اس جلالی کیفیت میں اپنی جگہ واپس تشریف لے گئے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ برطانوی افواج نے عین اس وقت کابل پر حملہ کیا تھا ، لیکن پٹھانوں نے انہیں شکست سے دوچار کیا
(برصغیر میں برطانوی راج کی مخالفت میں صوفیائے سیال شریف کا کردار از پروفیسر ڈاکٹر محمد سلطان شاہ صدر شعبہ عربی و علوم اسلامیہ جی سی یونیورسٹی لاہور)
---
خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ سرگودھا میں تشریف فرما تھے کہ آپ کی پوتیاں آپ کے پاس آ کر کہنے لگیں کہ ہمارے سکول کی معلمات نے ہمیں افغان مجاہدین کے لیے چندہ لانے کو کہا ہے، اس وقت آپ نے بچوں کے سامنے جہاد کا مفہوم بتایا ، شہداء اور مجاہدین کی شان بیان فرمائی ۔ اس کے بعد خورد و نوش کا بہت سا سامان اپنی گاڑی بازار بھیج کر منگوایا اور افغان مجاہدین کے لیے بچیوں کے حوالے کیا۔
بحوالہ انوارِ قمریہ جلد دوم ،صفحہ 147
لر(پاکستان) او بر(افغانستان) یو مسلمان
---
انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور بری طرح شکست کھائی ۔
حضرت قاضی احمد الدین چکوالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو فارسی اشعار میں حافظ شیرازی کی پہلی غزل پر تضمین کرتے ہوئے بڑے موثر انداز میں بیان کیا
پہلا شعر یہ ہے
نصاریٰ پرخسارہ اہلِ کابل را مقابل شد
الا یا ایھا الساقی ادر کاسا و ناولھا

(بحوالہ فوز المقال فی خلفاء پیر سیال)
لر(پاکستان) او بر (افغانستان) یو مسلمان
 

محمد سعد

محفلین
میرا خیال ہے کہ بجائے ایک بار پھر آپس میں سر پھوڑنے کا سلسلہ شروع کرنے کے، اس بات پر تھوڑی خوشی محسوس کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ افغانستان کے شہریوں کو ایک طویل جنگ کے بعد کچھ سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا۔ امید کرتا ہوں کہ وہاں اب دیرپا امن قائم ہو سکے۔
 

محمد سعد

محفلین
امریکہ اور طالبان جیسے سخت ترین دشمنوں نے آپس میں طریقے سے بیٹھ کر بات چیت کر لی۔ آپ سب بھی کچھ سیکھ لیں اس مثال سے۔ :p
 

زیدی

محفلین
ملکہ وکٹوریہ کے عہدِ حکومت میں انگریزوں نے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر حملہ کیا ۔ حضور شمس العارفین خواجہ شمس الدین سیالویؒ اپنے حجرہ مبارکہ میں تشریف فرما تھے، آپ اچانک اٹھے اور جنوبی دروازے کے قریب جا کر بڑے جلال سے فرمایا:
"جب افغان تلوار اٹھائیں گے تو اِس عورت (ملکہ وکٹوریہ) کا لندن میں اپنے لباس میں ہی (خوف کے مارے) پیشاب خطا ہو جائے گا"
حضرت اعلیٰ نے یہ الفاظ دو یا تین مرتبہ دہرائے اور اس جلالی کیفیت میں اپنی جگہ واپس تشریف لے گئے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ برطانوی افواج نے عین اس وقت کابل پر حملہ کیا تھا ، لیکن پٹھانوں نے انہیں شکست سے دوچار کیا
(برصغیر میں برطانوی راج کی مخالفت میں صوفیائے سیال شریف کا کردار از پروفیسر ڈاکٹر محمد سلطان شاہ صدر شعبہ عربی و علوم اسلامیہ جی سی یونیورسٹی لاہور)
---
خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ سرگودھا میں تشریف فرما تھے کہ آپ کی پوتیاں آپ کے پاس آ کر کہنے لگیں کہ ہمارے سکول کی معلمات نے ہمیں افغان مجاہدین کے لیے چندہ لانے کو کہا ہے، اس وقت آپ نے بچوں کے سامنے جہاد کا مفہوم بتایا ، شہداء اور مجاہدین کی شان بیان فرمائی ۔ اس کے بعد خورد و نوش کا بہت سا سامان اپنی گاڑی بازار بھیج کر منگوایا اور افغان مجاہدین کے لیے بچیوں کے حوالے کیا۔
بحوالہ انوارِ قمریہ جلد دوم ،صفحہ 147
لر(پاکستان) او بر(افغانستان) یو مسلمان
---
انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور بری طرح شکست کھائی ۔
حضرت قاضی احمد الدین چکوالی رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو فارسی اشعار میں حافظ شیرازی کی پہلی غزل پر تضمین کرتے ہوئے بڑے موثر انداز میں بیان کیا
پہلا شعر یہ ہے
نصاریٰ پرخسارہ اہلِ کابل را مقابل شد
الا یا ایھا الساقی ادر کاسا و ناولھا

(بحوالہ فوز المقال فی خلفاء پیر سیال)
لر(پاکستان) او بر (افغانستان) یو مسلمان
شمس العارفین حضرت اعلیٰ حضرت چکوالی حضرت سیالوی بت پرستوں کے لاحقے ہیں اور ان کی باتوں کو اسلام تعبیر کرنا سراسر دھوکے میں رہنا ہے ایسے سابقے لاحقے کسی نبی کسی رسول کے اقوال اور آیات قرانی میں نہیں ملتے۔ یہ شوق برصغیر پاک و ہند میں ہی کثرت سے ہے اور بت پرستوں کے ساتھ رہنے کے اثرات ہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کے بارے میں جو صاحب نے کہا ایسے الفاظ حضور اقدس کی تعلیمات کا نتیجہ نہیں ہو سکتے۔
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
سال 2015ء کا ایک قصہ یاد آیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں آسٹروفزکس کی ایک کانفرنس تھی۔ وہاں ایک افغان نوجوان سے ملاقات ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ افغانستان میں بھی ایک محدود سا سپیس پروگرام ہے جس کو فی الوقت امریکی اپنے جنگی سیٹلائٹس سے رابطے جیسے کاموں کے لیے ہی چلا رہے ہیں۔ اس وقت ورنر وان بران (Werner von Braun) کا خیال آیا جس کا کام جرمنی کے وی ٹو راکٹ سے شروع ہوا اور بالآخر امریکہ میں اس کے بنائے راکٹ نے انسان کو چاند پر پہنچایا۔ امید کرتا ہوں کہ اس سپیس پروگرام کا انفراسٹرکچر افغانوں کے ہاتھ آئے گا اور بالآخر پرامن مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو پائے گا۔
 

عدنان عمر

محفلین
امریکہ اور طالبان جیسے سخت ترین دشمنوں نے آپس میں طریقے سے بیٹھ کر بات چیت کر لی۔ آپ سب بھی کچھ سیکھ لیں اس مثال سے۔ :p
ماشاءاللہ اچھی حسِ مزاح کے حامل ہیں آپ۔ ہم جنگ لڑے بغیر بھی آپس میں طریقے سے بیٹھ کر بات چیت کرنے کو پسند کرتے ہیں۔
ہاں! آستین کے سانپوں کا زہر نکالے بغیر ان سے بات چیت کرنا غیر مفید بلکہ مضر ثابت ہو سکتا ہے۔:)
 

عدنان عمر

محفلین
میرا خیال ہے کہ بجائے ایک بار پھر آپس میں سر پھوڑنے کا سلسلہ شروع کرنے کے، اس بات پر تھوڑی خوشی محسوس کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ افغانستان کے شہریوں کو ایک طویل جنگ کے بعد کچھ سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا۔

اللہ تعالیٰ آپ کو اس پیرانویا کے مرض سے جلد از جلد صحت یاب فرمائے۔
آمین، و انت ايضا۔ :)
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
عامر خاکوانی لکھتے ہیں:
یہ طالبان کی فتح ہے، ایک بڑی، واضح کامیابی۔ فتح مبین۔ امریکی انہیں توڑنے، جھکانے ،شکست دینے، ختم کرنے میں ناکام رہے۔ وہ لوگ جو سمجھتے تھے کہ طالبان ختم ہوگئے، وہ ماضی کا ایک باب بن گئے ہیں.... ہفتہ کی شام ان سب کو اپنے تجزیے غلط ہونے، اندازے الٹ جانے پر دل ہی دل میں سہی، شرمندگی تو محسوس ہوئی ہوگی۔
طالبان اپنی جگہ پرڈٹ کر کھڑے ہوئے اور بے شمار جانوں کی قربانی دینے کے باوجود کھڑے ہوئے۔ وقت نے ثابت کیا کہ تاریخ ہمیشہ جرات مندوں اور بلند حوصلہ لوگوں کا ساتھ دیتی ہے۔
اللہ تعالی پاکستانی طالبان کو بھی ایسی فتح نصیب فرمائے!

سب کہو آمین!
 

جاسم محمد

محفلین
امریکہ اور طالبان جیسے سخت ترین دشمنوں نے آپس میں طریقے سے بیٹھ کر بات چیت کر لی۔ آپ سب بھی کچھ سیکھ لیں اس مثال سے۔ :p
کاش اس امن معاہدہ سے بھارت و پاکستان بھی کوئی سبق سیکھ لیں۔ لیکن سیکھیں گے نہیں کیونکہ دونوں ممالک ایک جتنے ڈھیٹ ہیں۔
 

عثمان

محفلین
میرا خیال ہے کہ بجائے ایک بار پھر آپس میں سر پھوڑنے کا سلسلہ شروع کرنے کے، اس بات پر تھوڑی خوشی محسوس کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ افغانستان کے شہریوں کو ایک طویل جنگ کے بعد کچھ سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا۔ امید کرتا ہوں کہ وہاں اب دیرپا امن قائم ہو سکے۔
طالبان ریاست افغانستان، اس کے ریاستی اداروں، اس کی منتخب جمہوری حکومت، افواج افغانستان، اس کے قانون، قانون نافذ کرنے والے اداروں، اس کے نظام معشیت۔۔ کسی کو تسلیم نہیں کرتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
طالبان ریاست افغانستان، اس کے ریاستی اداروں، اس کی منتخب جمہوری حکومت، افواج افغانستان، اس کے قانون، قانون نافذ کرنے والے اداروں، اس کے نظام معشیت۔۔ کسی کو تسلیم نہیں کرتے۔
اب کر لیں گے۔ اس سلسلہ میں افغان حکومت سے مذاکرات 10 مارچ کو کال کئے گئے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس معاہدے کا بہت بڑا فائدہ امریکا کو ہو گا؛ ہزیمت اپنی جگہ! افغان قیادت تقریباََ ہمیشہ سے آپس میں سر پھٹول کرتی آئی ہے۔ اس بار وہ کیا مختلف کریں گے، یہ دیکھنا ہو گا۔
 

عدنان عمر

محفلین
جی آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاہدہ سے دونوں فریقین کو فیس سیونگ مل گئی۔

419_015249_reporter.JPG
سلیم صافی
افغانستان میں امن آرہا ہے؟
215320_4871096_updates.jpg

فوٹو: فائل

قطر کے دارالحکومت دوحا میں آج تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے، گزشتہ سال فروری میں شروع ہونیوالے امریکہ طالبان مذاکرات آج 29 فروری کو دونوں کی ڈیل پر منتج ہو رہے ہیں۔

19 سال کی خونریزی، تباہی، ہزاروں افغانوں کی قربانی، لاکھوں کے دربدر ہونے، ارب ہا ڈالروں کے خرچے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے لاکھوں بموں کے استعمال اور طالبان کی طرف سے سینکڑوں خودکش دھماکوں کے بعد آج امریکہ اور طالبان ڈیل پر متفق ہو رہے ہیں۔

ایک دوسرے کی رہائی کے بدلے میں طالبان اور افغان حکومت کی قید سے رہائی پانے والے آسٹریلیا کے پروفیسر ٹموٹی ویکس اور جلال الدین حقانی مرحوم کے صاحبزادے انس حقانی آج دوحا میں ہونیوالی اس تاریخی تقریب میں دوستوں کی حیثیت سے شرکت کر رہے ہیں۔

یہ ڈیل تاریخی رہے گی کیونکہ اس کے نتیجے میں امریکہ اور طالبان کی براہِ راست جنگ ختم ہو جائے گی اور صرف افغانستان نہیں بلکہ افغانستان سے جڑے بہت سے ممالک پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

میں اسے ڈیل کا نام اس لئے بھی دے رہا ہوں کہ اس کے ذریعے دونوں فریق ماضی کے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے، امریکی ماضی میں افغانستان سے نکلنے کو تیار نہیں تھے اور اس ڈیل کے نتیجے میں بتدریج ان کی افواج نکلیں گی جبکہ طالبان القاعدہ جیسی تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلق کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے اور اپنی سرزمین کو کسی بیرونی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کی گارنٹی دینے پر تیار ہوگئے جس کیلئے وہ ماضی میں تیار نہ تھے۔

اسی طرح نائن الیون کے بعد امریکی طالبان کو مکمل ختم کرنے کے متمنی تھے اور ان کو کسی بھی شکل میں سیاسی نظام کا حصہ بنانے پر آمادہ نہ تھے، اب وہ طالبان کے وجود کو تسلیم کرکے انہیں افغانستان کے سیاسی نظام کا حصہ بنانے پر آمادہ ہوگئے۔


اسی طرح طالبان ماضی میں احمد شاہ مسعود، گلبدین حکمت یار، حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی جیسے دیگر افغانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تھے لیکن اب ان کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ نظام بنانے پر تیار ہو گئے جس کا اظہار طالبان کے نائب امیر سراج الدین حقانی نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں کیا۔

اسی طرح ماضی میں طالبان اپنی امارت اسلامی کی بحالی پر اصرار کرتے تھے اور افغان آئین کے مطابق کسی سیاسی نظام کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں تھے، وہ اسلامی نظام پر بدستور اصرار کر رہے ہیں لیکن اب وہ دیگر افغان دھڑوں کے ساتھ نئے سیاسی نظام کی تشکیل کیلئے مذاکرات پر تیار ہو گئے۔

یوں تبدیلی دونوں طرف آئی ہے اور اس تبدیلی تک پہنچنے کے لئے جن لوگوں نے بنیادی کردار ادا کیا ان میں امریکہ کی طرف سے زلمے خلیل زاد، پاکستان کی طرف سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، طالبان کی طرف سے ملا عبدالغنی برادر، ملا امیر خان متقی اور انس حقانی جیسے لوگوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔

اسی طرح پس پردہ طالبان کے نائب امیر اور جلال الدین حقانی کے صاحبزادے سراج الدین حقانی اور سابق افغان صدر حامد کرزئی اور ان کے دست راست عمر زاخیلوال کا کردار بھی بنیادی اہمیت کا حامل رہا۔

طالبان پر اثر و رسوخ رکھنے والی بعض پاکستانی دینی شخصیات نے بھی اہم کردار ادا کیا اور ان سب کی کوششوں کے ثمر کے طور پر آج قطر میں تاریخی ڈیل ہونے جا رہی ہے لیکن مکرر عرض ہے کہ یہ ڈیل افغانستان میں امن کی ضمانت نہیں۔

ایسا نہیں ہوگا کہ یکدم افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج نکل جائیں گی بلکہ ان کا انخلا مرحلہ وار اور انٹرا افغان یا بین الافغان مذاکرات کی کامیابی سے مشروط ہوگا، اسی طرح طالبان بھی کل سے سیاسی نظام کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ بین الافغان مذاکرات کے دوران وہ اپنی امارت اسلامی کی بحالی یا پھر کم از کم اپنی ترجیحات کے مطابق سیاسی نظام کی تشکیل پر اصرار کریں گے۔

اسی طرح قطر ڈیل تک پہنچنے کے عمل میں پاکستان نے تو ڈٹ کر تعاون کیا لیکن افغانستان کے دیگر پڑوسی یا پھر چین، ایران، بھارت یا روس جیسی طاقتیں بھی اس پراسیس کو سبوتاژ نہیں کر رہی تھیں۔

بھارت امریکہ کے ڈر سے ایسا نہیں کر سکتا تھا جبکہ ایران، چین اور روس بھی افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا چاہتے تھے، اس لئے وہ بھی سہولت کار رہے، یہی وجہ ہے کہ قطر ڈیل پر دستخطوں کے دوران ان سب ممالک کے نمائندے شریک ہوں گے لیکن اب بین الافغان مفاہمت کے سلسلے میں علاقائی طاقتیں اپنی اپنی پراکسیز کو نئے نظام میں سمونے اور اپنی اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کریں گی۔

یوں امریکہ اور طالبان کی ڈیل کا مرحلہ جتنا آسان تھا، بین الافغان مفاہمت کا عمل اتنا مشکل ہوگا، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں بنیادی طور پر دو فریق یعنی امریکہ اور طالبان تھے اور دونوں کے اہداف اور خدشات بھی واضح تھے لیکن پھر بھی کسی نتیجے تک پہنچنے میں ایک سال کا وقت لگا جبکہ بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں دو نہیں کئی فریق ہونگے۔

مذاکرات صرف افغان حکومت سے نہیں بلکہ اس میں حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، رشید دوستم، گلبدین حکمت یار، استاد محقق، افغان سول سوسائٹی اور خواتین کے نمائندے بھی ہوں گے، اب حامد کرزئی جیسے لوگ اگر طالبان کے معاملے میں مفاہمانہ رویہ رکھتے ہیں تو امراللہ صالح جیسے لوگ انتہائی سخت موقف رکھتے ہیں۔

بین الافغان مذاکرات کے سلسلے میں تمام طالبان کو بھی ایک صفحے پر لانا ہوگا اور دوسری طرف کابل میں بیٹھی ہوئی سیاسی قوتوں کو پہلے آپس میں طالبان سے متعلق ایک صفحے پر لانا ہوگا اور پھر دونوں کے درمیان مشترکہ بنیادوں پر نظام تشکیل دینا ہوگا لیکن قریب کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ افغانوں نے ایک بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ کسی بات پر متفق نہیں ہوں گے۔

امن کی اصل کنجی بین الافغان مفاہمت ہے نہ کہ امریکہ طالبان ڈیل، اگر اسّی کی دہائی میں خلق اور پرچم کے رہنماؤں کے برہان الدین ربانی اور حکمت یار جیسے قائدین کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوتے تو سوویت یونین کو مداخلت کا موقع نہ ملتا۔

پھر اگر مجاہدین آپس میں نہ لڑتے تو طالبان کا ظہور نہیں ہو سکتا تھا، پھر اگر طالبان اور مجاہدین کے بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوتے اور ان کے درمیان جنگیں نہ ہوتیں تو امریکہ اور نیٹو کو مداخلت کا موقع نہ ملتا۔

اسی طرح اگر اب بین الافغان مذاکرات کامیاب ہوئے اور افغان غیروں کے معاملے میں جو لچک دکھاتے ہیں، وہ انہوں نے ایک دوسرے کیلئے دکھا دی تو افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے لیکن اگر بین الافغان مفاہمت کا عمل کامیاب نہ ہوا تو نہ صرف بیرونی مداخلتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا بلکہ خاکم بدہن خانہ جنگی کی صورت میں ایسی تباہی آسکتی ہے کہ ہم ماضی کی تباہیوں کو بھول جائیں۔

اس لئے اب کابل میں بیٹھے ہوئی افغان قیادت اور طالبان کو ایک دوسرے کیلئے اس سے زیادہ لچک دکھانا ہوگی جو انہوں نے امریکہ اور دیگر بیرونی طاقتوں کیلئے دکھائی اور پاکستانی قیادت کو بین الافغان مذاکرات کی کامیابی کیلئے اس سے بھی زیادہ محنت کرنا ہوگی جو اس نے امریکہ اور طالبان کی ڈیل کے سلسلے میں کی ہے۔


عدنان عمر
چونکہ بین الافغانی مذاکرات ابھی ہونا باقی ہیں، اس لیے اس کالم کے مندرجات پر تبصرہ کرنے یا اس حوالے سے قیاس آرائی کرنے سے بہتر ہے کہ ان مذاکرات کے آغاز اور ان کے نتائج کا انتظار کر لیا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چونکہ بین الافغانی مذاکرات ابھی ہونا باقی ہیں، اس لیے اس کالم کے مندرجات پر تبصرہ کرنے یا اس حوالے سے قیاس آرائی کرنے سے بہتر ہے کہ ان مذاکرات کے آغاز اور ان کے نتائج کا انتظار کر لیا جائے۔
ویسے امریکہ اور پاکستان دونوں نے طالبان کو ڈنڈا دیا ہوا ہے کہ اگر اس امن معاہدے سے پھرنے کی کوشش بھی کی تو امریکہ واپس آجائے گا۔
 
Top