ہماری مغرب سے دشمنی آخر ہے کیا؟

جاسم محمد

محفلین
ہماری مغرب سے دشمنی آخر ہے کیا؟
12/02/2020 نبیلہ فیروز

میرے پچھلے کالم میں جس ٹیلی ویژن شو کا ذکر کیا گیا اس میں خلیل الرحمن قمر صاحب نے گلہ کیا کہ میں اتنا نوازا ہوا شخص ہوں، پھر بھی محترمہ طاہرہ عبداللہ اور جناب اویس توحید نے مجھے نہ پڑھا، نہ دیکھا ہوگا۔ انھوں نے طعنہ دیا کہ یہ مغرب کے لکھاریوں کو پڑھتے ہیں۔ یہ مغرب کا ادب پڑھتے ہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اس میں طعنہ دینے والی کیا بات ہے؟ اگر کوئی شخص مغرب کے لکھاریوں کو پڑھتا ہے تو کیا اس کے علم میں کمی واقعی ہوتی ہے؟ کچھ لوگ مغرب کے بارے میں بات کرتے ہوئے اتنے غصے میں کیوں آ جاتے ہیں؟ مغرب سے نفرت کیسی؟

مغرب تو زمین کا ایک خطہ ہے۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جو دنیا کے مغربی حصے میں واقع ہیں اور زیادہ تر ترقی یافتہ ہیں۔ وہاں انسان بستے ہیں جو کئی طرح کی ایجادات اور تخلیقات کرتے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ویلج ہے اور اس کے کسی بھی کونے میں ہونے والی ایجادات اور تخلیقات سے پوری دنیا کے انسان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 1878 میں بلب ایجاد کرنے والا تھامس ایڈیسن مغرب سے تھا جبکہ اب بلب سے ساری دنیا روشن ہے۔ 1928 میں مغربی باشندے الگزینڈر فلیمنگ نے پنسلین دریافت کر کے طِب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا جس سے تمام ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جس طرح مادی ایجادات سے دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے اسی طرح ذہنی تخلیقات اور فنونِ لطیفہ بھی انسانی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ یہ ایجادات اور تخلیقات مشرق میں ہوں یا مغرب میں، انھیں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔

ہم جس طرح مغرب کی مادی ایجادات سے دور نہیں رہ سکتے، اِسی طرح ذہنی تخلیقات سے بھی دور نہیں رہ سکتے۔ اگر صرف زبان کو ہی لیجیے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مادری زبان میں انسان کی سکھلائی جتنی زیادہ اور تیز ہوتی ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں۔ انسان اپنی زبان میں ترقی اور شعور کی منزلیں جِس تیزی سے طے کرتا ہے وہ نئی زبان میں مشکل ہے۔ لیکن کیا آج کے دور میں ہم دوسری زبانوں سے دور رہ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ترقی یافتہ قوموں کی زبانوں سے۔ پنجاب کے کسی دورافتادہ گاﺅں میں بھی چلے جائیں جہاں کی زیادہ تر آبادی ان پڑھ ہو گی تو پانی پیتے ہوئے آپ جگ اور گلاس جیسے انگریزی زبان کے الفاظ سنیں گے جو کہ مغرب کی زبان ہے۔

خلیل الرحمن قمر صاحب کی مغرب سے نفرت سمجھ سے بالا ہے۔ ان کی تمام شناختوں میں سے نمایاں شہرت انہیں ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ملی۔ ڈرامہ فنونِ لطیفہ کی وہ صنف ہے جس کی تاریخ جاننے سے انہیں گہری دلچسپی ہونی چاہیے۔ ریکارڈ شدہ تاریخ میں پانچویں صدی قبل ازمسیح میں کلاسیکی یونانی ڈرامہ ایک منظم شکل اختیار کر چکا تھا۔ تیسری صدی قبل ازمسیح میں یورپ میں کلاسیکی رومن ڈرامے میں جو تنوع، نفاست اور وسعت دیکھنے کو ملی، وہ پہلے کسی بھی ثقافت میں نہیں تھی۔ قرونِ وسطیٰ میں لگ بھگ دسویں صدی بائبل کے واقعات پرمبنی ڈرامے بننے شروع ہوئے۔ سولہویں اور سترھویں صدی میں شیکسپئر اور دیگر تخلیق کاروں نے ڈرامے کو ایک نئی جہت دی۔

اگر اپنے خطے کی بات کی جائے تو پہلا ڈرامہ سنسکرت زبان میں تحریر کیا گیا۔ پہلی سے دسویں صدی کے درمیان ہزاروں ڈرامے لکھے اور پیش کئے گئے۔ ہند میں اسلامی فتوحات کے دور میں دسویں، گیارہویں صدی میں ڈرامے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ بعد ازاں پندرھویں سے انیسویں صدی برِصغیر میں مقامی اقدار کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف علاقائی زبانوں میں تھیٹر دوبارہ شروع کیا گیا۔ ہندوستانی ڈرامہ کی موجودہ شکل انیسویں اور بیسویں صدی میں سامنے آئی۔ جدید ڈرامہ نگاری کے حوالے سے رابندرناتھ ٹیگور کا پورے برِصغیر میں بہت نام ہے۔

المختصر، ڈرامہ یونانی اور پھر لاطینی زبان کا لفظ ہے اور اس صنف کے ارتقاء میں بنیادی حصہ مغرب کا ہے۔ فنونِ لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والا پاکستانی اگر کلاسیکی یونانی یا رومن ڈرامے پڑھتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟ اگر کوئی ادب سے دلچسپی رکھنے والا انسان مغرب میں تخلیق کردہ ادب سے فیض یاب ہونا چاہتا ہے تو اس میں طعنہ کیسا؟

ہماری مغرب سے دشمنی آخر ہے کیا؟ اور کیا یہ حقیقی ہے؟ مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر ایک پاکستانی کے پاس برطانیہ یا چین میں رہائش رکھنے کا اختیار ہو تو اس کی ترجیح برطانیہ ہوتی ہے۔ اگر ایک پاکستانی کے پاس روزگار کے سلسلے میں بحرین یا کینیڈا جانے کا موقع ہو تو وہ کینیڈا کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر صرف ویزہ لگوانے کا ہی موقع مل جائے تو اپنے پاسپورٹ پر ملائشیا یا امریکہ میں سے امریکہ کی مہر ثبت کروائی جاتی ہے۔ اگر پاکستانی اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے باہر بھیجنا چاہتے ہیں تو مغربی ممالک کا انتخاب ہوتا ہے تو پھر مغربی لکھاریوں کو پڑھنا غلط کیسا؟ پھر جھگڑا کیا؟ پھر طعنہ کیسا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب کا مشرقی ممالک پر سیاسی غلبہ (نو آبادیاتی حکمرانی) اور پھر اقتصادی غلبہ، یہ دونوں غلط ہیں۔ اس سے مشرقی ممالک کا استحصال ہوتا ہے۔ کیا اس کا حل خواہ مخواہ کی جعلی مغرب دشمنی ہے؟ مغرب کی ترقی، ان کے علم وفن سے مستفید ہو کر اپنے مسائل کا تنقیدی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ مغرب کی عقل ودانش اچھی باتوں اور اچھی چیزوں سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کسی سوچ، خیال یا نظریے کو فرد کی علاقائی شناخت سے الگ رکھ کر اس پر مکالمہ کیا جانا چاہیے۔ یہ اہم نہیں ہے کہ یہ مغرب کے باسی کی طرف سے آیا ہے یا مشرق کے۔ مغرب کا ادب پڑھنے میں کوئی برائی نہیں۔ مشرقی اور مغربی، قومی اور بین الاقوامی لکھاریوں کی تحریریں پڑھنے سے انسان کا ذہن جلا پاتا ہے۔ اسے دنیا میں موجود مختلف نکتہ ہائے نظر کا پتہ چلتا ہے اور اپنے معروضی حالات کو تنقیدی طور پر دیکھنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ خود احتسابی کے ساتھ خود اصلاحی کا فن آتا ہے جو انسان کے آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
ہماری آندھی مغرب دشمنی کی مثال اس نالائق طالب علم کی سی ہے جو اپنی ساری توانائی لائق طالب علموں پر بہتان تراشی میں صرف کر دے۔
 
آخری تدوین:

یاقوت

محفلین
ہماری آندھی مغرب دشمنی کی مثال اس نالائق طالب علم کی سی ہے جو اپنی ساری توانائی لائق طالب علموں پر بہتان تراشی میں صرف کر دے۔
بجا فرمایا میرے تنے پر کلہاڑا مغرب کا ہی چلا ہمیشہ لیکن!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!! یہ بھی ایک مکروہ حقیقت ہے کہ دستے کا کردار میری شاخوں نے ہی انجام دیا۔۔۔۔۔۔۔
معقول اشتراک کا میں مخالف نہیں لیکن اندھی تقلید کہاں کی عقلمندی ہے۔؟؟؟؟؟ اس سب کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا آپ کو بھی علم ہوگا کہ مشرق میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ جو زندگی کے ہر معاملے کو صرف مغرب کی عینک سے ہی دیکھتا ہے حتی کہ دین حق کو بھی کیا یہ راستی ہے؟؟؟؟؟ مذکورہ ردعمل بس اسی بے بصر "فالونگ" کا نتیجہ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے تو یہ کالم سمجھ ہی نہیں آیا، محترمہ موصوفہ نے نہ جانے کس پس منظر میں یہ کالم لکھ مارا اور خلیل الرحمٰن قمر نہ جانے کہاں سے گھس گئے کالم میں، حالانکہ کالم کا عنوان تو تو ایک علمی تحقیق کا تقاضا کرتا ہے۔

خیر، مغرب کے علم و فضل سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے۔ مغرب کی سائنس و ٹیکنالوجی سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے۔ مغرب کی زبان اور تہذیب اور تمدن سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے۔

بلکہ ان شعبہ جات میں آج کل ہم مشرقیوں کی گردن مغرب کے زیرِ بارِ احسان ہے، بالکل اسی طرح جیسے معلوم تاریخ میں کم از کم دو بار مغربیوں کی گردن مشرقیوں کے زیرِ بارِ احسان رہی ہے، پہلی بار قبلِ مسیح میں جب میسوپوٹیمیا اور قدیم مصر کی تہذیب اور علم یونان کے راستے مغرب میں پہنچا اور دوسری بار ڈارک ایجز کے گھپ اندھیروں میں مسلم اسپین یعنی ہسپانیہ کے راستے علم کی روشنی مغرب تک پہنچی۔

دشمنی نہیں بلکہ ایک طرح کی نفرت اور تاسف ہے مغربی استعماریت سے۔ یہ افسانہ نہیں بلکہ کولمبیا یونیوسٹی میں ہونے والی تازہ ترین ریسرچ کے مطابق حقیقت ہے کہ برطانوی صرف انڈیا سے پونے دو سو سال کے عرصے میں 45 ٹریلین ڈالر (45 ہزار ارب ڈالر) نکال کر لے گئے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگال میں 1943ٰء کا قحط آسمانی آفت نہیں تھا بلکہ چرچل اور اس کے انڈیا پر مسلط ہرکاروں کی پالیسیوں کی وجہ سے تھا جس میں تین ملین (تیس لاکھ) لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ یہ صرف دو بھیانک مثالیں ہیں اس خطے سے جہاں کا میں باسی ہوں۔

پھر ان مغربی استعماریوں نے افریقہ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ وہاں سے کتنی دولت نکال کر لے گئے، اس کا حساب شاید ہی کوئی لگا سکے۔ وہاں سے کتنے لاکھ لوگوں کو غلام بنا کر لے گئے، اس کا حساب شاید ہی ہو سکے۔

پھر ان مغربی استعماریوں نے قدیم اور مقامی امریکی تہذیبوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ وہاں سے کتنی دولت نکال کر لے گئے، اس کا حساب کون کرے گا۔ وہاں کتنے لوگوں کو بھون کر رکھ دیا اس کا حساب کون کرے گا۔

یہ قریبی تاریخ کی وہ مصدقہ باتیں ہیں جس کو وہ خود بھی مانتے ہیں۔ موجودہ دور میں استعماریت کس رنگ کے گُل کھِلا رہی ہے اس کو بھی آہستہ آہستہ مان جائیں گے (جیسے ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن والے جھوٹ کو مان گئے ہیں)۔
 
آخری تدوین:

یاقوت

محفلین
مجھے تو یہ کالم سمجھ ہی نہیں آیا، محترمہ موصوفہ نے نہ جانے کس پس منظر میں یہ کالم لکھ مارا اور خلیل الرحمٰن قمر نہ جانے کہاں سے گھس گئے کالم میں، حالانکہ کالم کا عنوان تو تو ایک علمی تحقیق کا تقاضا کرتا ہے۔

خیر، مغرب کے علم و فضل سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے۔ مغرب کی سائنس و ٹیکنالوجی سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے۔ مغرب کی زبان اور تہذیب اور تمدن سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے۔

بلکہ ان شعبہ جات میں آج کل ہم مشرقیوں کی گردن مغرب کے زیرِ بارِ احسان ہے، بالکل اسی طرح جیسے معلوم تاریخ میں کم از کم دو بار مغربیوں کی گردن مشرقیوں کے زیرِ بارِ احسان رہی ہے، پہلی بار قبلِ مسیح میں جب میسوپوٹیمیا اور قدیم مصر کی تہذیب اور علم و فضل یونان کی راستے مغرب میں پہنچا اور دوسری بار ڈارک ایجز کے گھپ اندھیروں میں مسلم اسپین یعنی ہسپانیہ کے راستے علم کی روشنی مغرب تک پہنچی۔

دشمنی نہیں بلکہ ایک طرح کی نفرت اور تاسف ہے مغربی استعماریت سے۔ یہ افسانہ نہیں بلکہ کولمبیا یونیوسٹی میں ہونے والی تازہ ترین ریسرچ کے مطابق حقیقت ہے کہ برطانوی صرف انڈیا سے پونے دو سو سال کے عرصے میں 45 ٹریلین ڈالر (45 ہزار ارب ڈالر) نکال کر لے گئے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگال میں 1943ٰء کا قحط آسمانی آفت نہیں تھا بلکہ چرچل اور اس کے انڈیا پر مسلط ہرکاروں کی پالیسیوں کی وجہ سے تھا جس میں تین ملین (تیس لاکھ) لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ یہ صرف دو بھیانک مثالیں ہیں اس خطے سے جہاں کا میں باسی ہوں۔

پھر ان مغربی استعماریوں نے افریقہ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ وہاں سے کتنی دولت نکال کر لے گئے، اس کا حساب شاید ہی کوئی لگا سکے۔ وہاں سے کتنے لاکھ لوگوں کو غلام بنا کر لے گئے، اس کا حساب شاید ہی ہو سکے۔

پھر ان مغربی استعماریوں نے قدیم اور مقامی امریکی تہذیبوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ وہاں سے کتنی دولت نکال کر لے گئے، اس کا حساب کون کرے گا۔ وہاں کتنے لوگوں کو بھون کر رکھ دیا اس کا حساب کون کرے گا۔

یہ قریبی تاریخ کی وہ مصدقہ باتیں ہیں جس کو وہ خود بھی مانتے ہیں۔ موجودہ دور میں استعماریت کس رنگ کے گُل کھِلا رہی ہے اس کو بھی آہستہ آہستہ مان جائیں گے (جیسے ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن والے جھوٹ کو مان گئے ہیں)۔

جی بجا فرمایا آپ نے یہ انسانی حقوق کی دہائیاں دینے والے خود سب سے بڑے مجرم ہیں انسانی حقوق کے لیکن بکاؤ قلم انکی جیبوں میں ہیں تو جیسے چاہیں ویسے صفحات غلیظ کرواتے ہیں۔
ریڈانڈینز،افریقی،ہندوستانی،اور اللہ جانے اور کتنے بے گناہ لوگوں کے قتل عام کا سہرا ہے ان تہذیب جدید کے بانیوں کے سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہر کسی کو تاریخ کا انتقام یاد دلانے والے خود کیوں نہیں سوچتے کہ جب وقت کروٹ بدلے تو کیا حال بنے گا انکا اور ان کورذوق لوگوں گا جنہوں نے انکی ہاں میں ہاں ملا کر باالواسطہ انسانی قتل عام میں دل کھول کر حصہ لیا۔۔۔ کولمبس کی ہمراہ امریکی سرزمینوں پر پہنچنے والے درفتنے ہی آج کے جدید امریکہ اور مغرب کے تہذیبی مکھوٹے کے اجداد ہیں جنہوں نے نئے شہر نہیں ظلم کی نئی بستیاں بسائیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
دشمنی نہیں بلکہ ایک طرح کی نفرت اور تاسف ہے مغربی استعماریت سے۔ یہ افسانہ نہیں بلکہ کولمبیا یونیوسٹی میں ہونے والی تازہ ترین ریسرچ کے مطابق حقیقت ہے کہ برطانوی صرف انڈیا سے پونے دو سو سال کے عرصے میں 45 ٹریلین ڈالر (45 ہزار ارب ڈالر) نکال کر لے گئے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگال میں 1943ٰء کا قحط آسمانی آفت نہیں تھا بلکہ چرچل اور اس کے انڈیا پر مسلط ہرکاروں کی پالیسیوں کی وجہ سے تھا جس میں تین ملین (تیس لاکھ) لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ یہ صرف دو بھیانک مثالیں ہیں اس خطے سے جہاں کا میں باسی ہوں۔
بجا فرمایا۔ اس موضوع پر ٹوئیٹر کے اس دھاگے میں مختصر لیکن اہم معلومات موجود ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
دشمنی نہیں بلکہ ایک طرح کی نفرت اور تاسف ہے مغربی استعماریت سے۔ یہ افسانہ نہیں بلکہ کولمبیا یونیوسٹی میں ہونے والی تازہ ترین ریسرچ کے مطابق حقیقت ہے کہ برطانوی صرف انڈیا سے پونے دو سو سال کے عرصے میں 45 ٹریلین ڈالر (45 ہزار ارب ڈالر) نکال کر لے گئے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگال میں 1943ٰء کا قحط آسمانی آفت نہیں تھا بلکہ چرچل اور اس کے انڈیا پر مسلط ہرکاروں کی پالیسیوں کی وجہ سے تھا جس میں تین ملین (تیس لاکھ) لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ یہ صرف دو بھیانک مثالیں ہیں اس خطے سے جہاں کا میں باسی ہوں۔

پھر ان مغربی استعماریوں نے افریقہ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ وہاں سے کتنی دولت نکال کر لے گئے، اس کا حساب شاید ہی کوئی لگا سکے۔ وہاں سے کتنے لاکھ لوگوں کو غلام بنا کر لے گئے، اس کا حساب شاید ہی ہو سکے۔

پھر ان مغربی استعماریوں نے قدیم اور مقامی امریکی تہذیبوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ وہاں سے کتنی دولت نکال کر لے گئے، اس کا حساب کون کرے گا۔ وہاں کتنے لوگوں کو بھون کر رکھ دیا اس کا حساب کون کرے گا۔

یہ قریبی تاریخ کی وہ مصدقہ باتیں ہیں جس کو وہ خود بھی مانتے ہیں۔ موجودہ دور میں استعماریت کس رنگ کے گُل کھِلا رہی ہے اس کو بھی آہستہ آہستہ مان جائیں گے (جیسے ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن والے جھوٹ کو مان گئے ہیں)۔
کسی نہ کسی شکل میں مغربی استعماریت آج بھی قائم و دائم ہے۔ وینزوالا، ایران اور دیگر ممالک جب مغرب کو آنکھیں دکھاتے ہیں تو امریکہ بہادر اور اس کے اتحادی ان ممالک کے خلاف معاشی پابندیاں لگا دیتے ہیں۔ جس سے وہاں قائم حکومتوں کو تو خاص فرق نہیں پڑتا، ہاں عوام کی اکثریت کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ دور جدید کی یہ استعماری شکل ماضی سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہاں استعماری قوتوں کو اپنے مخالف ممالک کو تباہ کرنے کیلئے خود وہاں جانا نہیں پڑتا۔ بلکہ اپنے اہداف محض معاشی پابندیوں سے ہی حاصل کر لئے جاتے ہیں۔
 

بافقیہ

محفلین
ہماری مغرب سے دشمنی آخر ہے کیا؟
12/02/2020 نبیلہ فیروز

میرے پچھلے کالم میں جس ٹیلی ویژن شو کا ذکر کیا گیا اس میں خلیل الرحمن قمر صاحب نے گلہ کیا کہ میں اتنا نوازا ہوا شخص ہوں، پھر بھی محترمہ طاہرہ عبداللہ اور جناب اویس توحید نے مجھے نہ پڑھا، نہ دیکھا ہوگا۔ انھوں نے طعنہ دیا کہ یہ مغرب کے لکھاریوں کو پڑھتے ہیں۔ یہ مغرب کا ادب پڑھتے ہیں۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اس میں طعنہ دینے والی کیا بات ہے؟ اگر کوئی شخص مغرب کے لکھاریوں کو پڑھتا ہے تو کیا اس کے علم میں کمی واقعی ہوتی ہے؟ کچھ لوگ مغرب کے بارے میں بات کرتے ہوئے اتنے غصے میں کیوں آ جاتے ہیں؟ مغرب سے نفرت کیسی؟

مغرب تو زمین کا ایک خطہ ہے۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جو دنیا کے مغربی حصے میں واقع ہیں اور زیادہ تر ترقی یافتہ ہیں۔ وہاں انسان بستے ہیں جو کئی طرح کی ایجادات اور تخلیقات کرتے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ویلج ہے اور اس کے کسی بھی کونے میں ہونے والی ایجادات اور تخلیقات سے پوری دنیا کے انسان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 1878 میں بلب ایجاد کرنے والا تھامس ایڈیسن مغرب سے تھا جبکہ اب بلب سے ساری دنیا روشن ہے۔ 1928 میں مغربی باشندے الگزینڈر فلیمنگ نے پنسلین دریافت کر کے طِب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا جس سے تمام ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جس طرح مادی ایجادات سے دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے اسی طرح ذہنی تخلیقات اور فنونِ لطیفہ بھی انسانی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ یہ ایجادات اور تخلیقات مشرق میں ہوں یا مغرب میں، انھیں انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔

ہم جس طرح مغرب کی مادی ایجادات سے دور نہیں رہ سکتے، اِسی طرح ذہنی تخلیقات سے بھی دور نہیں رہ سکتے۔ اگر صرف زبان کو ہی لیجیے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مادری زبان میں انسان کی سکھلائی جتنی زیادہ اور تیز ہوتی ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں۔ انسان اپنی زبان میں ترقی اور شعور کی منزلیں جِس تیزی سے طے کرتا ہے وہ نئی زبان میں مشکل ہے۔ لیکن کیا آج کے دور میں ہم دوسری زبانوں سے دور رہ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ترقی یافتہ قوموں کی زبانوں سے۔ پنجاب کے کسی دورافتادہ گاﺅں میں بھی چلے جائیں جہاں کی زیادہ تر آبادی ان پڑھ ہو گی تو پانی پیتے ہوئے آپ جگ اور گلاس جیسے انگریزی زبان کے الفاظ سنیں گے جو کہ مغرب کی زبان ہے۔

خلیل الرحمن قمر صاحب کی مغرب سے نفرت سمجھ سے بالا ہے۔ ان کی تمام شناختوں میں سے نمایاں شہرت انہیں ڈرامہ نگار کی حیثیت سے ملی۔ ڈرامہ فنونِ لطیفہ کی وہ صنف ہے جس کی تاریخ جاننے سے انہیں گہری دلچسپی ہونی چاہیے۔ ریکارڈ شدہ تاریخ میں پانچویں صدی قبل ازمسیح میں کلاسیکی یونانی ڈرامہ ایک منظم شکل اختیار کر چکا تھا۔ تیسری صدی قبل ازمسیح میں یورپ میں کلاسیکی رومن ڈرامے میں جو تنوع، نفاست اور وسعت دیکھنے کو ملی، وہ پہلے کسی بھی ثقافت میں نہیں تھی۔ قرونِ وسطیٰ میں لگ بھگ دسویں صدی بائبل کے واقعات پرمبنی ڈرامے بننے شروع ہوئے۔ سولہویں اور سترھویں صدی میں شیکسپئر اور دیگر تخلیق کاروں نے ڈرامے کو ایک نئی جہت دی۔

اگر اپنے خطے کی بات کی جائے تو پہلا ڈرامہ سنسکرت زبان میں تحریر کیا گیا۔ پہلی سے دسویں صدی کے درمیان ہزاروں ڈرامے لکھے اور پیش کئے گئے۔ ہند میں اسلامی فتوحات کے دور میں دسویں، گیارہویں صدی میں ڈرامے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ بعد ازاں پندرھویں سے انیسویں صدی برِصغیر میں مقامی اقدار کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف علاقائی زبانوں میں تھیٹر دوبارہ شروع کیا گیا۔ ہندوستانی ڈرامہ کی موجودہ شکل انیسویں اور بیسویں صدی میں سامنے آئی۔ جدید ڈرامہ نگاری کے حوالے سے رابندرناتھ ٹیگور کا پورے برِصغیر میں بہت نام ہے۔

المختصر، ڈرامہ یونانی اور پھر لاطینی زبان کا لفظ ہے اور اس صنف کے ارتقاء میں بنیادی حصہ مغرب کا ہے۔ فنونِ لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والا پاکستانی اگر کلاسیکی یونانی یا رومن ڈرامے پڑھتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟ اگر کوئی ادب سے دلچسپی رکھنے والا انسان مغرب میں تخلیق کردہ ادب سے فیض یاب ہونا چاہتا ہے تو اس میں طعنہ کیسا؟

ہماری مغرب سے دشمنی آخر ہے کیا؟ اور کیا یہ حقیقی ہے؟ مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر ایک پاکستانی کے پاس برطانیہ یا چین میں رہائش رکھنے کا اختیار ہو تو اس کی ترجیح برطانیہ ہوتی ہے۔ اگر ایک پاکستانی کے پاس روزگار کے سلسلے میں بحرین یا کینیڈا جانے کا موقع ہو تو وہ کینیڈا کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر صرف ویزہ لگوانے کا ہی موقع مل جائے تو اپنے پاسپورٹ پر ملائشیا یا امریکہ میں سے امریکہ کی مہر ثبت کروائی جاتی ہے۔ اگر پاکستانی اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے باہر بھیجنا چاہتے ہیں تو مغربی ممالک کا انتخاب ہوتا ہے تو پھر مغربی لکھاریوں کو پڑھنا غلط کیسا؟ پھر جھگڑا کیا؟ پھر طعنہ کیسا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب کا مشرقی ممالک پر سیاسی غلبہ (نو آبادیاتی حکمرانی) اور پھر اقتصادی غلبہ، یہ دونوں غلط ہیں۔ اس سے مشرقی ممالک کا استحصال ہوتا ہے۔ کیا اس کا حل خواہ مخواہ کی جعلی مغرب دشمنی ہے؟ مغرب کی ترقی، ان کے علم وفن سے مستفید ہو کر اپنے مسائل کا تنقیدی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ مغرب کی عقل ودانش اچھی باتوں اور اچھی چیزوں سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کسی سوچ، خیال یا نظریے کو فرد کی علاقائی شناخت سے الگ رکھ کر اس پر مکالمہ کیا جانا چاہیے۔ یہ اہم نہیں ہے کہ یہ مغرب کے باسی کی طرف سے آیا ہے یا مشرق کے۔ مغرب کا ادب پڑھنے میں کوئی برائی نہیں۔ مشرقی اور مغربی، قومی اور بین الاقوامی لکھاریوں کی تحریریں پڑھنے سے انسان کا ذہن جلا پاتا ہے۔ اسے دنیا میں موجود مختلف نکتہ ہائے نظر کا پتہ چلتا ہے اور اپنے معروضی حالات کو تنقیدی طور پر دیکھنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ خود احتسابی کے ساتھ خود اصلاحی کا فن آتا ہے جو انسان کے آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے۔
مضمون کیا ہے؟ فقط جھوٹ کا پلندہ۔
جنابہ ;) کہہ رہی ہیں کہ تھیٹر فلاں فلاں قبل مسیح سے ہے وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ ہے کہ کیا صرف تھیٹر نشان ترقی ہے۔ ترقی کا سنگ میل تو تعلیم طئے کرتی ہے۔
ڈارک ایجس تو چھوڑئیے جناب! قرون وسطی کی حالت یورپ کی اتنی بدترین رہ چکی ہے کہ لکھنے والے نے تعجب سے لکھا ہے کہ شہر بھر چھاننے سے ایک ڈاکٹر نہیں نکلتا تھا۔خانہ جنگیاں تو عام تھیں ہی۔ معاشی اعتبار سے مفلوج الحال اور تعلیمی اعتبار سے بھی انتہائی پسماندہ۔ خود مغربی مصنفین نے اس پر دسیوں کتابیں لکھی ہیں۔

اور جہاں تک دشمنی کا تعلق ہے وہ سائنس، ٹیکنالوجی اور نئی مصنوعات سے نہیں بلکہ اس مغربی فکر سے ہے جسے پھیلاکر مشرق کو تباہ کیا جارہا ہے۔ اگر مغربیت اور اسلامیت میں بحث کی جائے تو سینکڑوں باتیں نکلیں گی۔ لیکن اگر خالص مشرقیت اور مغربیت کی بحث بھی کی جائے تو دسیوں ضرور نکلیں گی۔ اسی لئے بہت سے مفکرین سرے سے مشرقیت اور مغربیت کے قائل ہی نہیں ۔ بلکہ اس کشمکش کو اسلامیت اور مغربیت کا نام دیتے ہیں۔
 
Top