اُردو کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے تیز ترین ٹائپنگ

محترم ٹائپنگ ماسٹر(شاید ان کا اصل نام ٹیپو علی ہے، جیسا کہ کی بورڈ لے آؤٹ کے نام کے مطابق) صاحب نے جو لڑی شروع کی ہے اس میں استعمال ہونے والے حروف کا حجم کیریکٹر کاؤنٹ ٹول کے ذریعہ معلوم کرنے سے یہ نتیجہ حاصل ہوا۔ نیچے عکس دیکھیں

اگر ہم اسی طرح کی مضامین اس ٹول میں بھیج کر جانچ کریں کے اکثر استعمال ہونے والے کیریکٹر کون کون سے ہیں اور اسی کے مطابق ترتیب دی جائے تو ٹائپنگ کے کام میں آسانی ہو سکتی ہے۔

ایک رائے، ماہرین مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ ان کی بھی رائے اس بارے میں چاہوں گا۔
image.png
 
اس کام کے لیےآج میں ساری رات جاگا رہا، ۵ ، ۶ طویل مضامین تقریبا ایک لاکھ سے دو لاکھ کیریکٹر کے Character Count Tool میں بھیجنے کے بعد اس نتیجہ میں پہنچا کہ ہماری تحریروں میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے حروف ---- ا، ی، ک، ر، و، ہ، ے، ن، م، ت ---- بالترتیب (تھوڑے سے فرق کے ساتھ) ہیں۔
اگر ان حروف کو گھریلو صف Home Row میں شامل کیا جائے تو اس طرح ہمیں ٹائپ کرنے میں زیادہ آسانی ہو گی۔ اس کوآسانی سے یاد رکھنے کے لیے میں نے اسے (کرو تم یہ نیا) الفاظ سے سجا دیا ہے تاکہ ان الفاظ کے ذریعہ ہم بآسانی کیبورڈ کی ترتیب کو سمجھ سکیں۔

اس کے بعد میں نے زیادہ استعمال ہونےوالے دس حروف بالترتیب کم و بیش فرق کے ساتھ ( س، ب، ل، ں، د، ش، ھ، ع، ج، گ) کو پایا۔ ان حروف کو میں نے گھریلو صف کے اوپری لائن میں اس طرح ترتیب دیا کہ وہ (گل بس عش جھدں) کے طور پر پڑھی جائے۔ یہ تمام کثیر المستعمل کلید کو اس ترتیب سے سجانے کا یہ فائدہ ہو گا کہ ہمیں Shift Button کا استعمال بہت ہی کم کرنا پڑے گا۔

یہ تو میں نے اپنے طور پر ایک کوشش کی ہے میری یہ ترتیب کہاں تک درست ہے یہ ہمارے ماہرین ہی بتائیں گے۔ کام بس اتنا ہی کر پایا تھا کہ نیند اور تھکاوٹ سے بوجھل جسم نہ کہا کہ اب بس کرو میرا بھی تو حق ہے وہ مجھے دو۔ اور بس میں بستر استراحت میں کمبل تان کر سو گیا۔

میری یہ خواہش ہے کہ ماہرین اس تعلق سے ضرور رہنمائی فرمائیں۔ اگر اس کام کی ضرورت ہے تو یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے اور اگر اس کی ضرورت نہیں تو اس کام کو یہیں تمام کرتے ہیں۔
 

دوست

محفلین
مقتدرہ کی بورڈ اور آفتاب کی بورڈ لے آؤٹ (ان پیج سے) بارے سنا ہے وہ ایسی ہی ترتیب پر مشتمل ہیں۔
 
اس کام کے لیےآج میں ساری رات جاگا رہا، ۵ ، ۶ طویل مضامین تقریبا ایک لاکھ سے دو لاکھ کیریکٹر کے Character Count Tool میں بھیجنے کے بعد اس نتیجہ میں پہنچا کہ ہماری تحریروں میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے حروف ---- ا، ی، ک، ر، و، ہ، ے، ن، م، ت ---- بالترتیب (تھوڑے سے فرق کے ساتھ) ہیں۔
اگر ان حروف کو گھریلو صف Home Row میں شامل کیا جائے تو اس طرح ہمیں ٹائپ کرنے میں زیادہ آسانی ہو گی۔ اس کوآسانی سے یاد رکھنے کے لیے میں نے اسے (کرو تم یہ نیا) الفاظ سے سجا دیا ہے تاکہ ان الفاظ کے ذریعہ ہم بآسانی کیبورڈ کی ترتیب کو سمجھ سکیں۔

اس کے بعد میں نے زیادہ استعمال ہونےوالے دس حروف بالترتیب کم و بیش فرق کے ساتھ ( س، ب، ل، ں، د، ش، ھ، ع، ج، گ) کو پایا۔ ان حروف کو میں نے گھریلو صف کے اوپری لائن میں اس طرح ترتیب دیا کہ وہ (گل بس عش جھدں) کے طور پر پڑھی جائے۔ یہ تمام کثیر المستعمل کلید کو اس ترتیب سے سجانے کا یہ فائدہ ہو گا کہ ہمیں Shift Button کا استعمال بہت ہی کم کرنا پڑے گا۔

یہ تو میں نے اپنے طور پر ایک کوشش کی ہے میری یہ ترتیب کہاں تک درست ہے یہ ہمارے ماہرین ہی بتائیں گے۔ کام بس اتنا ہی کر پایا تھا کہ نیند اور تھکاوٹ سے بوجھل جسم نہ کہا کہ اب بس کرو میرا بھی تو حق ہے وہ مجھے دو۔ اور بس میں بستر استراحت میں کمبل تان کر سو گیا۔

میری یہ خواہش ہے کہ ماہرین اس تعلق سے ضرور رہنمائی فرمائیں۔ اگر اس کام کی ضرورت ہے تو یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے اور اگر اس کی ضرورت نہیں تو اس کام کو یہیں تمام کرتے ہیں۔

میرے عزیز بھائی سرفراز احمد ! مجھے ازحد افسوس ہے کہ آپ کو ساری رات جاگنا پڑا۔ دراصل آپ میری پوسٹ کو کچھ مزید آگے لے کر چلے گئے جہاں تک اِسے لے جانا مجھے مقصود نہ تھا۔ کیونکہ اگر ان خطوط پر سوچ کر ’’کرو تم بس نیا‘‘ کو اپنانے کی کوشش کی جائے تو ہم ’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘ والا کام کر بیٹھیں گے۔
اس کی مثال میں اس طرح پیش کروں گا کہ بچپن سے آج تک ہم ایک کے لیے 1 استعمال کرتے چلے آئے ہیں‘ اسی طرح سات کی تعداد کو ہم 7 سے ظاہر کرتے چلے آئے ہیں‘ بالکل اُسی طرح کمپیوٹر سے واقفیت پیدا ہونے کے دِن سے ہم QWERTY کی بورڈ استعمال کرتے آئے ہیں‘ اب چونکہ ہمارا واسطہ روزِ اول سے ہی اس انگریزی کی بورڈ سے پڑا ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ انگریزی کے حرف تہجی 26 کے مقابلے میں اُردو کے حروف تہجی 40 کے لگ بھگ ہیں جبکہ قرآنی اعراب ملا کر ان کی تعداد 50 کے لگ بھگ پہنچ جاتی ہے جو کہ نسبتاً انگریزی حروف کا دوگنا ہے۔ چنانچہ ہم اگر آپ کے فارمولے ’’کرو تم بس نیا‘‘ کو انگریزی کے کی بورڈ کی پہلی لائن یعنی Base Line پر یعنی asdfghjkl پر رکھ دیا جائے تو آپ کو یا کسی بھی استعمال کنندہ کو یاد کرنے میں سال دو سال لگ جائیں گے‘ جس کے بعد استعمال بھی اتنا ہی مشکل ہوگا۔ ہمارا مدعا فقط یہ ہے کہ اُردو کے انگریزی سے ملتے جلتے حروف کو اُنہی پر رکھتے ہوئے اضافی حروف کو ایڈجسٹ کیا جائے جو کہ اس کی بورڈ میں کر دیا گیا ہے۔ مثلاً فونیٹک کی بورڈ کے میں بہت سارے حروف غیر ضروری جگہوں پر لگائے گئے ہیں بالکل اُسی طرح جیسے چھوٹے علاقوں کی مویشی منڈیوں میں تمام جانور گڈمڈ کھڑے کر دیئے جاتے ہیں مطلب بے ترتیبی سے۔ مثال کے طور پر ُ پیش کے لیے ٓ مد کے لیے اور ّ شد کے لیے الگ الگ جگہیں الگ الگ کیز مختص کی گئی ہیں۔ جنہیں ہم نے آرگنائز کر دیا ہے۔
میرے محترم بھائی ! میرے کہنے کا مدعا یہ ہرگز نہیں تھا کہ ہم اُردو کی بورڈ پر یہ نئے حروف ایڈجسٹ کریں جو کہ بالکل نئے ہوں۔ کیونکہ تقریباً جب سے ہمارا کمپیوٹر سے واسطہ پڑا انگریزی کی بورڈ جو کہ ’’qwerty‘‘ کی بورڈ کہلایا جاتا ہے‘ اسی سے واسطہ پڑا ہے۔ اور اسی کی مناسبت سے چونکہ انگریزی کے 26 حروف ہمیں بخوبی ازبر ہیں جب کہ ہم مزید بڑے 26 حروف شفٹ کی کے ذریعے آسانی سے استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ بات غور طلب ہے کہ انگریزی کے 26 حروف کے مقابلے میں اُردو کے 37 حروف ہیں جبکہ آ ، ھ ، ة وغیرہ اور عربی اعراب، قرآنی رموز اوقاف اور مختلف کثیر الاستعمال ترسیموں مثلاً ﷺ، ؐ ، ؓ ، ؒ ، ؔ ، ٭ ، أ ، إ ، َ ، ِ ، ُ ، ٌ ، ٗ ، ٰ ، ٖ ، ٓ ، ً ‘ ٍ ‘ ۭ ، ۢ ، ۨ ، ۩ ، ٕ ، ٔ ، ؏ ، ؃ ، ؀ ، ۝ ، ۞ ، ﴾ ، ﴿ ، ٝ ، ْ ، ۗ ، ۖ ، ؛ ، : ، ۣ ، ۜ ، ﷽ ، ؞ ، ۚ ، ﷻ وغیرہ کو ملا کر ان کی تعداد تقریباً انگریزی کے 26 حروف کے مقابلے میں 7 گنا یعنی 180 کے قریب بنتی ہے۔ آپ کے ’’کرو تم یہ نیا‘‘ کے شوق میں سارا معاملہ ہی تلپٹ ہو جائے گا کیونکہ استعمال کنندہ جو کہ انگریزی کی بورڈ کا عادی ہے اُسی کی بورڈ کے حروف کی مناسبت سے لگ بھگ اُردو کے حروف رکھے گئے ہیں جو کہ آسانی سے یاد رکھے جا سکتے ہیں مثلاً انگریزی حرف Q کے لیے ق اور K کے لیے ک رکھا گیا ہے۔ جبکہ ان کی جگہ نئے حروف رکھ کر ایک نیا کٹا کھولنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے کیونکہ اُردو تقریباً گزشتہ 20 یا 25 سال سے کمپیوٹر کے عام استعمال کنندہ کے استعمال میں آئی جو کہ qwerty کی بورڈ پر ان ہی کیز پر ق و ع ر ت کے حروف سے تو آشنائی رکھتے ہیں مگر نئے حروف ان qwerty کیز پر رکھنے سے سب کے دماغ گھوم جائیں گے۔ مثلاً آپ کو بچپن سے بتایا گیا کہ سات کی تعداد کے لیے 7 استعمال کیا کریں یا 2 کا مطلب دو چیزیں ہیں جبکہ اگر آج میں کہوں کہ 7 کی جگہ ۷ کی بجائے ₰ اور 8 کی جگہ ۸ کی بجائے Ω رکھ دیا جائے تو ہمارا ذہن اس بات کو قطعاً قبول نہیں کرے گا چنانچہ ہمارے بنائے گئے کی بورڈ میں زیادہ تر صرف اُردو کے اضافی حروف کو ہی چھیڑا گیا ہے جو کہ فونیٹک کی بورڈ میں غلط جگہوں پر رکھ دیئے گئے تھے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
میرے محترم بھائی ! میرے کہنے کا مدعا یہ ہرگز نہیں تھا کہ ہم اُردو کی بورڈ پر یہ نئے حروف ایڈجسٹ کریں جو کہ بالکل نئے ہوں۔ کیونکہ تقریباً جب سے ہمارا کمپیوٹر سے واسطہ پڑا انگریزی کی بورڈ جو کہ ’’qwerty‘‘ کی بورڈ کہلایا جاتا ہے‘ اسی سے واسطہ پڑا ہے۔ اور اسی کی مناسبت سے چونکہ انگریزی کے 26 حروف ہمیں بخوبی ازبر ہیں جب کہ ہم مزید بڑے 26 حروف شفٹ کی کے ذریعے آسانی سے استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ بات غور طلب ہے کہ انگریزی کے 26 حروف کے مقابلے میں اُردو کے 37 حروف ہیں جبکہ آ ، ھ ، ة وغیرہ اور عربی اعراب، قرآنی رموز اوقاف اور مختلف کثیر الاستعمال ترسیموں مثلاً ﷺ، ؐ ، ؓ ، ؒ ، ؔ ، ٭ ، أ ، إ ، َ ، ِ ، ُ ، ٌ ، ٗ ، ٰ ، ٖ ، ٓ ، ً ‘ ٍ ‘ ۭ ، ۢ ، ۨ ، ۩ ، ٕ ، ٔ ، ؏ ، ؃ ، ؀ ، ۝ ، ۞ ، ﴾ ، ﴿ ، ٝ ، ْ ، ۗ ، ۖ ، ؛ ، : ، ۣ ، ۜ ، ﷽ ، ؞ ، ۚ ، ﷻ وغیرہ کو ملا کر ان کی تعداد تقریباً انگریزی کے 26 حروف کے مقابلے میں 7 گنا یعنی 180 کے قریب بنتی ہے۔ آپ کے ’’کرو تم یہ نیا‘‘ کے شوق میں سارا معاملہ ہی تلپٹ ہو جائے گا کیونکہ استعمال کنندہ جو کہ انگریزی کی بورڈ کا عادی ہے اُسی کی بورڈ کے حروف کی مناسبت سے لگ بھگ اُردو کے حروف رکھے گئے ہیں جو کہ آسانی سے یاد رکھے جا سکتے ہیں مثلاً انگریزی حرف Q کے لیے ق اور K کے لیے ک رکھا گیا ہے۔ جبکہ ان کی جگہ نئے حروف رکھ کر ایک نیا کٹا کھولنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے کیونکہ اُردو تقریباً گزشتہ 20 یا 25 سال سے کمپیوٹر کے عام استعمال کنندہ کے استعمال میں آئی جو کہ qwerty کی بورڈ پر ان ہی کیز پر ق و ع ر ت کے حروف سے تو آشنائی رکھتے ہیں مگر نئے حروف ان qwerty پر رکھنے سے سب کے دماغ گھوم جائیں گے۔ مثلاً آپ کو بچپن سے بتایا گیا کہ سات کی تعداد کے لیے 7 استعمال کیا کریں یا 2 کا مطلب دو چیزیں ہیں جبکہ اگر آج میں کہوں کہ 7 کی جگہ ۷ کی بجائے ₰ اور 8 کی جگہ ۸ کی بجائے Ω رکھ دیا جائے تو ہمارا ذہن اس بات کو قطعاً قبول نہیں کرے گا۔ (مزید تفصیل بھی ارسال کر رہا ہوں)
آپ کی دلیل میں کافی وزن ہے۔ ماضی میں ہم حروف تہجی کے اسٹیکر منگوا کر کیبورڈ پر چسپاں کر دیا کرتے تھے۔ لیکن اس کا نقصان پھر یہ ہوتا تھا کہ انگریزی میں ٹائپ کرتے وقت دشواری ہوتی تھی۔ اس لئے میرے خیال میں بہتر حل یہی ہے کہ انگریزی کیبورڈ کو ہی تختہ مشق بنایاجائے۔ بالکل نئے سرے سے پہیہ ایجاد کر کے ٹائپنگ سپیڈ مزید سست روی کا شکار ہو جائے گی۔
 

دوست

محفلین
یہ مشق کی بات ہے، نئے کی بورڈ پر بھی ہاتھ سیدھا ہو سکتا ہے، کئی مہینے کی محنت سے۔
اور یہ غلط فہمی ہے کہ لوگ صرف فونیٹک کی بورڈ برتتے ہیں۔ مقتدرہ اور آفتاب لے آؤٹ استعمال کرنے والوں کی خاصی تعداد بھی موجود ہے، اور اکثر کمپوزر وغیرہ ہیں۔ عام اردو صارفین اب اس کے عادی ہو گئے ہیں اور انہیں اتنا ٹائپ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ نیز سوئفٹ کِی وغیرہ بھی یہی ترتیب بیچتے ہیں تو بس پھر یہی چلن ہو گیا ہے۔
 

ابو ہاشم

محفلین
۵ ، ۶ طویل مضامین تقریبا ایک لاکھ سے دو لاکھ کیریکٹر کے Character Count Tool میں بھیجنے کے بعد اس نتیجہ میں پہنچا کہ ہماری تحریروں میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے حروف ---- ا، ی، ک، ر، و، ہ، ے، ن، م، ت ---- بالترتیب (تھوڑے سے فرق کے ساتھ) ہیں۔
ان تمام حروف کا تعدد یہاں شریک کر دیا جائے تو ٹائپنگ ماسٹر صاحب کے کی بورڈ کی افادیت معلوم ہو سکتی ہے۔ انھوں نے shift+J پر چ رکھا ہے جہاں ان پیج فونیٹک کی بورڈ پر ض تھا۔ خیال ہے کہ چ سیدھا C دبانے سے زیادہ آسانی سے ٹائپ ہو سکتا ہے بجائے شفٹ جے کے۔ اور ض کا تعدد کم ہو گا تو وہ شفٹ جے پر ہی صحیح رہے گا۔ بہرحال سرفراز احمد صاحب کے کام سے ایسی باتیں تو طے ہو سکتی ہیں
 
انگریزی qwerty کی بورڈ کی تمام کیز پر ہمارے ہاں ایڈجسٹ کیے گئے اُردو کے ہر حرف کی توجیہ یا لاجک (فی الحال بیس لائن کی توجیہات ملاحظہ فرمائیں)
کلر کوڈ (اس پوسٹ میں)
(1) ا نارمل پنچنگ
(2) آ شفٹ کیس
(3) إ آلٹ جی آر کیس
(قرآنی رموز اور دیگر ترسیمے آلٹ جی آر پر رکھے گئے ہیں)

(4) أ آلٹ جی آر + شفٹ کیس
(عموماً ہائی پوزیشن پر استعمال ہونے والے ترسیمے آلٹ جی آر کے ساتھ شفٹ پر رکھے گئے ہیں)

aA سے ا آ إ أ فونیٹک کی بورڈ میں تمام حروف الگ الگ جگہوں پر تھے ہم نے الف کی تمام اشکال کو ایک جگہ جمع کیا۔
sS سے س ش ۣ ۜ فونیٹک کی بورڈ میں س کے ساتھ ص تھا‘ ہم نے س ش کو ساتھ رکھ کر قرآنی رموز میں س کی تمام اشکال کو ایک جگہ جمع کیا۔ کیونکہ س اور ش ہم نے ساتھ ہی پڑھا۔
dD سے د ڈ فونیٹ ک کی بورڈ میں بھی یہی ترتیب ہے
fF سے ف ٰ (کھڑا زبر) ٯ تمام حروف کو فونیٹک کی بورڈ میں گڈمڈ بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا گیا ہے ہم نے ف جسے عربی میں ’فا‘ کہا جاتا ہے جس کی آواز کا آخری حصہ کھڑا زبر کی آواز سے ملتا جلتا ہے اسی مناسبت سے کھڑا زبر رکھا جبکہ آلٹ جی آر شفٹ میں ف کی خالی شکل بغیر نقطے کے رکھ دی۔
gG سے گ : ؛ فونیٹک میں گ کے ساتھ غ رکھا گیا‘ جبکہ ہم نے ع اور غ کی جوڑی ساتھ پڑھی تو ساتھ رکھی۔ جبکہ ; : کی پر ص اور ض کو رکھنے کی وجہ سے ؛ اور : یہاں لے آئے۔
hH سے ہ ح ۟ (چھوٹا ہ ہائی) فونیٹک کی بورڈ میں ھ اور ح کو ساتھ رکھا گیا‘ ہم نے اُردو کی ہ کو بیس لائن پر رکھا اور ح کو شفٹ کیس میں رکھا‘ کیونکہ ’ہ‘ کا استعمال ’ح‘ سے زیادہ ہے جبکہ ’ھ‘ صرف چند مخصوص الفاظ مثلاً گھ گھوڑا‘ پھ پھول‘ بھ بھول یا ڈھول وغیرہ میں بہت کم استعمال ہوتی ہے‘ جبکہ آلٹ جی آر کے ساتھ چھوٹی ہ ہائی کو رکھ دیا گیا۔
jJ سے ج چ ۚ فونیٹک میں ج اور چ الگ الگ ہیں۔ ج اور چ کی جوڑی ہمیں ساتھ پڑھائی گئی‘ اس کے ساتھ ساتھ ترسیمہ جل جلالہٗ اور قرآنی رموز اوقاف کا ’چھوٹا ج ہائی‘ کو آلٹ جی آر + شفٹ پر رکھ دیا گیا۔
kK سے ک خ ڪ ك فونیٹک میں ک کے ساتھ خ رکھا گیا ہے ہم نے ک کی تمام ممکنہ مستعمل اشکال کو ایک جگہ جمع کیا۔
lL سے ل أ ٴ ۙ ل دیگر کی بورڈز میں بھی اسی جگہ ہے‘ مگر ہم نے کم استعمال ہونے والے أ کو ل پر رکھنے اور إ کو ب پر رکھا گیا‘ اس کے علاوہ قرآنی رموز میں ترسیمے (چھوٹا لا ہائی) کو آلٹ جی آر + شفٹ پر جبکہ ہمزہ ہائی کو بھی رکھ دیا کیونکہ y پر پہلے ہی ( ئ ء ٕ ٔ ) پہلے سے موجود تھے۔

; : سے ص ض دیگر کی بورڈز میں ص اور ض کو الگ الگ بکھیر کر رکھا گیا تھا ہم نے ص اور ض کو ایک جگہ جمع کیا جبکہ واوین کو بھی رکھ دیا۔
' " سے َ (زبر) ً (دو زبر) زبر اور دو زبر دیگر کی بورڈز میں الگ الگ جگہوں پر ہیں جنہیں الگ الگ جگہ پر یاد رکھنا ٹائپسٹ کی ذہنی پراسیسنگ کی رفتار کو سست کرتا ہے‘ ہم نے زبر اور دو زبر کو ایک جگہ جمع کیا جبکہ واوین کو بھی رکھ دیا۔
 
م
ان تمام حروف کا تعدد یہاں شریک کر دیا جائے تو ٹائپنگ ماسٹر صاحب کے کی بورڈ کی افادیت معلوم ہو سکتی ہے۔ انھوں نے shift+J پر چ رکھا ہے جہاں ان پیج فونیٹک کی بورڈ پر ض تھا۔ خیال ہے کہ چ سیدھا C دبانے سے زیادہ آسانی سے ٹائپ ہو سکتا ہے بجائے شفٹ جے کے۔ اور ض کا تعدد کم ہو گا تو وہ شفٹ جے پر ہی صحیح رہے گا۔ بہرحال سرفراز احمد صاحب کے کام سے ایسی باتیں تو طے ہو سکتی ہیں
میرے معزز بھائی ! آپ ’چ‘ کا استعمال چیک کرلیں‘ کم ہی ہوگا‘ دوسرا ج کے ساتھ چ کی جوڑی اسی لیے رکھی گئی کہ ہم نے حروف کے جوڑے بنائے۔ اُردو ٹائپنگ میں زیادہ مسئلہ انگریزی حرف Z سے ملتی جلتی آوازوں والے حروف کی وجہ سے پیدا ہوا مثلاً ض‘ ظ‘ ز‘ ذ وغیرہ جبکہ کی صرف ایک یعنی Z مہیا تھی۔ اسی طرح فونیٹک کی بورڈ میں ج اور ض کو ساتھ اسی لیے رکھا گیا کیونکہ ہندی بولنے والے افراد ضمیر حسین کو جمیر حسین بولتے ہیں۔ ضرورت کو جرورت بولتے ہیں۔ جبکہ جاوید کو ضاوید بول دیتے ہیں۔ تو فونیٹک میں اسی وجہ سے ج اور ض کو ساتھ رکھا گیا‘ واضح رہے کہ اِن پیج پر اولین کام اور آج تک کا زیادہ تر کام ہندوستانیوں نے ہی کیا تھا۔ میرا مقصد کسی کی تضحیک کرنا نہیں بلکہ آپ کو وہ عوامل بتانے ہیں جن کی وجہ سے ج اور ض کو ایک ساتھ رکھا گیا۔ جبکہ پاکستانی اُردو بولنے والے ہر لفظ کو الگ الگ مخصوص مخارج سے ادا کر سکتے ہیں (عمومی طور پر)
 

دوست

محفلین
لو جی ونڈوز 10 کا ڈیفالٹ اردو کی بورڈ (مقتدرہ) کی سکرین شاٹ یہاں لگا دی ہے۔ میرا خیال ہے اتنا ہی بہت ہے۔ آپ احباب بصد شوق پہیہ دوبارہ ایجاد کریں۔
اور جاتے جاتے ایک تکنیکی ٹوٹکا یہ کہ براہِ کرم ٹیکسٹ آرکائیو کا سائز کم از کم چند لاکھ الفاظ ہو، تاکہ حروف کی حقیقی فریکوئنسی کا پتہ چل سکے۔ اور پھر کی بورڈ لے آؤٹ ڈیزائن کریں۔
Muqtadra%20Urdu%20Keyboard%20Layout.png
 
تاکہ حروف کی حقیقی فریکوئنسی کا پتہ چل سکے

فریکوئنسی معلوم کرنے کا کوئی آف لائن آلہ ؟
آن لائن کرنے سے یہ مسئلہ ہو رہا ہے کہ طویل مضمون بھیجنے سے براؤزر ’’نوٹ ریسپونڈنگ‘‘ کرتا ہے، اور بہت انتظار کرنا پڑتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انگریزی qwerty کی بورڈ کی تمام کیز پر ہمارے ہاں ایڈجسٹ کیے گئے اُردو کے ہر حرف کی توجیہ یا لاجک (فی الحال بیس لائن کی توجیہات ملاحظہ فرمائیں)
کلر کوڈ (اس پوسٹ میں)
(1) ا نارمل پنچنگ
(2) آ شفٹ کیس
(3) إ آلٹ جی آر کیس
(قرآنی رموز اور دیگر ترسیمے آلٹ جی آر پر رکھے گئے ہیں)

(4) أ آلٹ جی آر + شفٹ کیس
(عموماً ہائی پوزیشن پر استعمال ہونے والے ترسیمے آلٹ جی آر کے ساتھ شفٹ پر رکھے گئے ہیں)

aA سے ا آ إ أ فونیٹک کی بورڈ میں تمام حروف الگ الگ جگہوں پر تھے ہم نے الف کی تمام اشکال کو ایک جگہ جمع کیا۔
sS سے س ش ۣ ۜ فونیٹک کی بورڈ میں س کے ساتھ ص تھا‘ ہم نے س ش کو ساتھ رکھ کر قرآنی رموز میں س کی تمام اشکال کو ایک جگہ جمع کیا۔ کیونکہ س اور ش ہم نے ساتھ ہی پڑھا۔
dD سے د ڈ فونیٹ ک کی بورڈ میں بھی یہی ترتیب ہے
fF سے ف ٰ (کھڑا زبر) ٯ تمام حروف کو فونیٹک کی بورڈ میں گڈمڈ بھیڑ بکریوں کی طرح رکھا گیا ہے ہم نے ف جسے عربی میں ’فا‘ کہا جاتا ہے جس کی آواز کا آخری حصہ کھڑا زبر کی آواز سے ملتا جلتا ہے اسی مناسبت سے کھڑا زبر رکھا جبکہ آلٹ جی آر شفٹ میں ف کی خالی شکل بغیر نقطے کے رکھ دی۔
gG سے گ : ؛ فونیٹک میں گ کے ساتھ غ رکھا گیا‘ جبکہ ہم نے ع اور غ کی جوڑی ساتھ پڑھی تو ساتھ رکھی۔ جبکہ ; : کی پر ص اور ض کو رکھنے کی وجہ سے ؛ اور : یہاں لے آئے۔
hH سے ہ ح ۟ (چھوٹا ہ ہائی) فونیٹک کی بورڈ میں ھ اور ح کو ساتھ رکھا گیا‘ ہم نے اُردو کی ہ کو بیس لائن پر رکھا اور ح کو شفٹ کیس میں رکھا‘ کیونکہ ’ہ‘ کا استعمال ’ح‘ سے زیادہ ہے جبکہ ’ھ‘ صرف چند مخصوص الفاظ مثلاً گھ گھوڑا‘ پھ پھول‘ بھ بھول یا ڈھول وغیرہ میں بہت کم استعمال ہوتی ہے‘ جبکہ آلٹ جی آر کے ساتھ چھوٹی ہ ہائی کو رکھ دیا گیا۔
jJ سے ج چ ۚ فونیٹک میں ج اور چ الگ الگ ہیں۔ ج اور چ کی جوڑی ہمیں ساتھ پڑھائی گئی‘ اس کے ساتھ ساتھ ترسیمہ جل جلالہٗ اور قرآنی رموز اوقاف کا ’چھوٹا ج ہائی‘ کو آلٹ جی آر + شفٹ پر رکھ دیا گیا۔
kK سے ک خ ڪ ك فونیٹک میں ک کے ساتھ خ رکھا گیا ہے ہم نے ک کی تمام ممکنہ مستعمل اشکال کو ایک جگہ جمع کیا۔
lL سے ل أ ٴ ۙ ل دیگر کی بورڈز میں بھی اسی جگہ ہے‘ مگر ہم نے کم استعمال ہونے والے أ کو ل پر رکھنے اور إ کو ب پر رکھا گیا‘ اس کے علاوہ قرآنی رموز میں ترسیمے (چھوٹا لا ہائی) کو آلٹ جی آر + شفٹ پر جبکہ ہمزہ ہائی کو بھی رکھ دیا کیونکہ y پر پہلے ہی ( ئ ء ٕ ٔ ) پہلے سے موجود تھے۔

; : سے ص ض دیگر کی بورڈز میں ص اور ض کو الگ الگ بکھیر کر رکھا گیا تھا ہم نے ص اور ض کو ایک جگہ جمع کیا جبکہ واوین کو بھی رکھ دیا۔
' " سے َ (زبر) ً (دو زبر) زبر اور دو زبر دیگر کی بورڈز میں الگ الگ جگہوں پر ہیں جنہیں الگ الگ جگہ پر یاد رکھنا ٹائپسٹ کی ذہنی پراسیسنگ کی رفتار کو سست کرتا ہے‘ ہم نے زبر اور دو زبر کو ایک جگہ جمع کیا جبکہ واوین کو بھی رکھ دیا۔
Screenshot-2020-01-10-Phonetic-Keyboard-Layout-Phonetic-Keyboa.png
 

ابو ہاشم

محفلین
پہیہ دوبارہ ایجاد نہ کیا گیا ہوتا تو آج بھی لکڑی کے پہیے ہی چل رہے ہوتے۔ ابھی اسی دور کی بات لیں تو ٹیوب والے ٹائروں کی جگہ بےٹیوب ٹائر نہ آئے ہوتے۔

مقصد فونیٹک کی بورڈ کا از سرِ نو جائزہ لینا ہے۔
اس کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ مبتدی کو زیادہ کوشش کیے بغیر اردو ٹائپ کرنا آ جائے۔ اور دوسرا یہ کہ فونیٹک کی بورڈ ہی استعمال کرتے ہوئے تیر ٹائپنگ ہو سکے۔
ٹائپنگ ماسٹر صاحب نے ہندی کے انداز میں ج کے ساتھ ض، ک کے ساتھ خ، اور گ کے ساتھ غ کی جگہ اردو کے انداز یعنی ج کے ساتھ چ وغیرہ کی طرف توجہ دلائی۔ اس کے ساتھ سرفراز احمد صاحب داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے خالی واہ وا کے بجائے اس مسئلے کو تکنیکی انداز سے پکڑا اور اردو تحریروں میں حروف کے تعدد کو معلوم کرنے کی ٹھانی۔
ان کے ابتدائی نتیجے
۵ ، ۶ طویل مضامین تقریبا ایک لاکھ سے دو لاکھ کیریکٹر کے Character Count Tool میں بھیجنے کے بعد اس نتیجہ میں پہنچا کہ ہماری تحریروں میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے حروف ---- ا، ی، ک، ر، و، ہ، ے، ن، م، ت ---- بالترتیب (تھوڑے سے فرق کے ساتھ) ہیں۔
اس کے بعد میں نے زیادہ استعمال ہونےوالے دس حروف بالترتیب کم و بیش فرق کے ساتھ ( س، ب، ل، ں، د، ش، ھ، ع، ج، گ) کو پایا۔
کے مطابق h کی کلید کا حقدار ہ بنتا ہے فونیٹک کی بورڈ پر۔ شفٹ h پر ح ہی ٹھیک لگتا ہے جبکہ ھ کے لیے کوئی اور جگہ تلاش کرنی ہو گی۔ بہر حال یہ ابتدائی نتیجہ ہی ہے دوست کے مشورے کے مطابق کافی بڑے ذخیرے سے حروف کا تعدد معلوم کرنے کے بعد ہی حتمی فیصلہ ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سرفراز صاحب کے ان ابتدائی نتائج کی روشنی میں تو آفتاب اور مقتدرہ والے کی بورڈ بھی مشکوک ٹھہرتے ہیں کہ ان کی home row بھی پہلے دس زیادہ ترین تعدد والے حروف سے بہت مختلف ہے۔

سرفراز احمد صاحب سے گذارش ہے کہ اپنے نتائج کو ذرا زیادہ باریکی سے دیکھیں کیونکہ ان میں ہ کا تعدد لگتا ہے کہ دو بار آ رہا ہے اسی طرح مد کا بھی آ رہا ہے اس کو آ کے ساتھ شمار کریں اور ا میں سے اس کی تعداد کو منہا کردیں کیونکہ لگتا یہی ہے کہ آ کو الف جمع مد لکھا گیا ہو گا۔ابھی غور کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ کی لگائی ہوئی دوسری تصویر میں آ نظر نہیں آ رہا! ژ بھی نظر نہیں آ رہا۔ پہلی تصویر تو اب نظر نہیں آ رہی ۔

میری یہ خواہش ہے کہ ماہرین اس تعلق سے ضرور رہنمائی فرمائیں۔ اگر اس کام کی ضرورت ہے تو یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے اور اگر اس کی ضرورت نہیں تو اس کام کو یہیں تمام کرتے ہیں۔
اس کام کو کر گزریں اس سے کافی فائدہ ہونے کی امید ہے
 
Top