آرمی چیف مدت ملازمت، حکومت کا قانون سازی سے فرار نوشتۂ دیوار بڑا واضح ہے

زیرک

محفلین
آرمی چیف مدت ملازمت، حکومت کا قانون سازی سے فرار نوشتۂ دیوار بڑا واضح ہے
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے قانون سازی کے معاملے پر پی پی پی پی، ن لیگ اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی سخت شرائط اور مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر حکومت نے سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن دائر کر دی ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے فیصلہ پر عدالت نے چھ ماہ میں قانون سازی کرنے کی مہلت دے رکھی ہے۔ حکمران پی ٹی آئی کے پرویز خٹک سمیت چند دیگر افراد نے اپوزیشن کے چند سرکردہ لیڈروں کے ساتھ رابطہ کیا تھا تاکہ قانون سازی پر ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ پی پی پی پی نے اس معاملے میں حکومت کو سپورٹ کرنے کے لیے چند شرائط سامنے رکھی تھیں، ان میں نیب کے اختیارات میں کمی، اعلی عدلیہ میں ججز کا تقرر اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری وغیرہ کے طریقۂ کار میں تبدیلی ہے (ان میں سے نیب والی بات ماننے کا عندیہ دیا گیا تھا)۔ ن لیگ نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی اضافی مدت ملازمت میں توسیع کو سپورٹ کرنے اور اسے قانونی درجہ دینے سے انکار کیا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے پارٹی بیانئے کی نفی ہوتی ہے، البتہ پارٹی نے مستقبل کے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے لیے قانون سازی کی حمایت کی ہے۔ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن تو بہت پہلے یہ بات کہہ چکے ہیں کہ آرمى چیف کى مدت ملازمت کى توسیع کی قانون سازى نئى پارلیمان کےذریعے ہونى چاہیئے کیونکہ وہ موجودہ پارلیمان کو جائز ہی نہیں سمجھتے۔ کچھ پارٹیوں کا مؤقف بڑا واضح ہے کہ "انڈیا کی آدھی سے زیادہ فوج مقبوضہ کشمیر میں تعینات ہے اور وہاں ملک کے طول و عرض میں داخلی حالات دن بدن بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں، ایسے میں جبکہ موجودہ بھارتی آرمی چیف جن کی مدت ملازمت پوری ہو چکی ہے لیکن وہاں کسی پارٹی نے بھی موجودہ بھارتی آرمی چیف بپن راوت کی ایکسٹنشن کے معاملے پر کوئی بات تک کرنا گوارا نہیں کیا بلکہ شنید ہے کہ وہاں نیا آرمی چیف تعینات کیا جائے گا، ایسا ہمارے ملک میں ہی کیوں ہے؟ کیا جرنل قمر جاوید باجوہ کے بعد میں آنے والے جنرل نااہل ہیں؟ دوسری طرف حکومتی وزراء کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت کسی طور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے قانون سازی نہیں کرنا چاہتی،اسی لیے حکومت نے سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن دائر کر دی ہے اور سارا بار عدالت کے کندھوں پر ڈال کر بری الذمہ ہو گئی ہے۔قارئین آپ کو یاد ہو گا کہ موجودہ فیصلہ آنے سے پہلے سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو assuranceدلوائی تھی کہ حکومت چھ مہینے میں آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق قانون سازی کر لے گی جس کی بنا پر مشروط توسیع دی گئی تھی۔ ھکومتی ترجیحات کا یہ حال ہے کہ نیب کے شکنجے میں اپنی گردن پھنستے دیکھ کر نیب قوانین میں تبدیلی کر لی گئی لیکن، آرمی چیف توسیع کے معاملے پر ذلیل ہوتا رہے انہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اب جو صورتِ حال پیدا ہوئی ہے اسے دیکھ کر مجھے تو نوشتۂ دیوار بڑا واضح لگتاہے اس میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں کیونکہ عدالت پہلے ہی مشروط توسیع دے چکی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ اب حکومت کی جانب سے قانون سازی سے فرار پر پہلے سے دیئے گئے مشروط توسیع کے حکم کو کالعدم قرار دے کر عدالت وزیراعظم کو نئے آرمی چیف کی تقرری کا کہہ سکتی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top