اسلامک یونیورسٹی میں طلبا تنظیموں میں تصادم، ایک طالب علم جاں بحق اور 9 زخمی

الف نظامی

لائبریرین
زبیر منصوری لکھتے ہیں:
یہ تصادم نہیں حملہ تھا
پلیز اسے نمایاں کیجئیے بیان کیجئیے لوگوں تک پہنچائیے۔۔۔
وہی دھیمے لب و لہجہ کا درد دل رکھنے والا انسان رابطوں کی مہم پر تھانہ جانےاپنی پریشانی اور تڑپ کو اور کس کس کے سینے میں اتار رہا ہو گا کہہ وہ سچ رہا تھا
وہ پھر بولا زبیر بھائی ضرورت اس بات کی ہے کہ
آج ہی اسلام آباد کے ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے کچھ سمجھدار لوگ رابطے کریں انہیں ساتھ لے کر یونی ورسٹی جائیں ساری جائے وقوعہ دکھائیں اور بتائیں کہ کس طرح بلا اشتعال حملہ کیا گیا کیسے اسلحہ ڈنڈے اور سرئیے استعمال ہوئے کس طرح سارے زخمی صرف جمعیت کے ہیں اس موقعہ پر سب کو بتایا جائے کہ کیا لڑنے کا یہ موقعہ ہوتا ہے کہ آپ کا شاندار ایونٹ ہو رہا ہو کامیاب پروگرام جاری ہو اور آپ کسی تانگہ پارٹی سے عین اپنے پروگرام کے عروج پر جھگڑا مول لے لیں؟ایسے موقعوں پر لوگ جھگڑوں سے بچتے ہیں یا لڑتے ہیں؟
وہ بولے چلے جا رہا تھا اور میں لاہور کے اس سرد موسم میں بھی اس کے جذبے کی گرمی کو محسوس کر رہا تھا
وہ فکر مند تھا
دکھی تھا پریشان تھا
مگر چاہتا تھا کسی طرح اس مسئلہ کو موقعہ بنا کر ان سب لوگوں کو بتایا جا سکے کہ جمعیت تو خود مظلوم ہے مار کھاتی ہے مگر سارا سال کروڑوں روپوں سے سینکڑوں فلاحی پروگرام چلاتی ہے لاکھوں طلبہ تو اس کے صرف ایکسپوز میں شریک ہوتے ہین ہزاروں درس قران کرتی ہے سینکڑوں طلبہ کو چپکے سے اسکالرشپس دیتی ہے کتابین جمع کرتی کتابیں پڑھواتی ہے تکریم استاد کے دن مناتی ہیں ہزاروں طلبہ کے تعلیمی مسائل حل کرواتی ہے اور نہ جانے کیا کیا کرتی ہے ایسے میں ہزاروں گرم جذبات والے نوجوانوں کی جمعیت کا کوئی فرد غلط بھی کر بیٹھتا ہے تو اسے ساری جمعیت کے کھاتے میں ڈال کر اس کے ہزاروں بھلے کاموں کو زیرو سے ضرب دے دینا بھلا کہاں کی صحافت کہاں کا انصاف کہاں کی حق گوئی ہے؟

میں سنتا رہا اور بس ایک جملہ کہا کہ خیر کی ساری قوتوں کا بڑا مسئلہ بس موثر کمیونیکیش کا نہ ہونا ہی توہے۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
شہد سید طفیل الرحمن ہاشمی کے والد صاحب کا بیان
آج بروز جمعرات بتاریخ 12 دسمبر 2019 کو لادینیت کے پرچارک طلبہ کے غنڈوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ،،کتاب میلہ ،،پروگرام کے اختتامی نشست کے موقعے پر اچانک مسلح حملہ کر کے میرے سب سے چھوٹے ،والدین اور بہن بھائیوں کے ،،دلارے ،،پیارے سید طفیل الرحمن ھاشمی کو ،،شھید ،،اور دوسرے متعدد طلبہ کو شدید زخمی کردیا ۔میں اسلام آباد سے دور ،،گلگت ،،میں اپنے پیارے کی شھادت کی خبر تقریباً ساڑھے نو بجے فیسبک میں دیکھ لیا اور اپنے اوسان پر مکمّل قابو رکھتے ہوئے انا للہ واناالیہ راجعون کہ کر گھر والوں کو یہ خبر جانکاہ سنائی ۔

اختتامی نشست کے موقعے پر اچانک مسلح حملہ کر کے میرے سب سے چھوٹے ،والدین اور بہن بھائیوں کے ،،دلارے ،،پیارے سید طفیل الرحمن ھاشمی کو ،،شھید ،،اور دوسرے متعدد طلبہ کو شدید زخمی کردیا ۔میں اسلام آباد سے دور ،،گلگت ،،میں اپنے پیارے کی شھادت کی خبر تقریباً ساڑھے نو بجے فیسبک میں دیکھ لیا اور اپنے اوسان پر مکمّل قابو رکھتے ہوئے انا للہ واناالیہ راجعون کہ کر گھر والوں کو یہ خبر جانکاہ سنائی ۔

میں اپنے لاڈلے بیٹے کی شھادت کا اپنے مرشد سید مودودی رح کے اتباع میں اللہ تعالی کے ھاں ایف ۔آئی آر درج کرتے ہوئے اللہ تعالی ھی کے حضور درج کر رھا ھوں ۔اللہ تعالی خود ان سفاک ،ظالم قاتلوں سے نمٹے ،،انما اشکو بثی وحزنی الی اللہ ۔۔

میں جماعت اور جمعیت کے دوستوں اور سر براھان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔جنھوں نے ٹیلیفونک رابطہ کرکے مجھے تسلیوں اور دعاؤں سے نوازا ۔ان میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے جماعتی اور جمعیتی اعلیٰ قیادتیں شامل ھیں ۔جزاھم اللہ خیرا
کل صبح ،دس بجے محترم سراج الحق صاحب کی امامت میں نماز جنازہ ادا ھونے کے بعد ،،شھید ،،کی جسدِ خاکی پہلے گلگت اور پھر میرے گاؤں پکورہ تحصیل اشکومن بھیجا جائے گا ۔ ۔اللہ تعالی ھم سب کو ،،صبر کی ،،تو فیق عطا فرمائے آمین (احباب تعزیت کیلئے میرے گلگت والے گھر آنے کی زحمت نہ کریں ۔کیوں کہ ھم لوگ صبح سات بجے گاؤں روانہ ھونگے ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
فیض اللہ خان لکھتے ہیں:
میں اچھے سے جانتا ہوں کہ جمعیت اسلامی یونیورسٹی میں قاتل تنظیم کا ناطقہ بند کرسکتی ہے انہیں اس سے زیادہ طاقت کیساتھ کچل کر باھر پھینک سکتی ہے ۔۔۔ بخوبی علم ہے کہ جمعیت والے اسوقت کس کرب سے گزر رہے ہیں ۔۔۔ معلوم ہے کہ جمعیت کے لئِے مخالفین کم ہی کلمہ خیر کہتے ہیں ۔۔ لیکن گزرے کئی برس سے جمعیت نے خود کو بہت تبدیل کیا ہے تشدد { جو کہ یکطرفہ کبھی نا تھا کراچی میں تو درجنوں لاشیں بھی جمعیت نے اٹھائیں } کی مخصوص ذھنیت سے باھر نکلی ہے اچھی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کوششوں میں ہے ، ایسے میں ان حالات میں صبر کو اپنی طاقت بنالیں ظالم کو کبھی کبھی بغیر مارے بھی رسوا کیا جاسکتا ہے شاید یہ وہی لمحہ ہے ۔۔۔ جمعیت اپنے پورے قد کیساتھ کھڑی ہے قاتل بونے ہیں جمعیت انکی سطح پہ ہر گز نہ اترے استقامت کیساتھ یہ معاملہ قانون کے حوالے کردے گوکہ پاکستانی نظام سے انصاف مانگنا خود کو ذلیل کرانے جیسا ہے لیکن کیا کریں کہ بسا اوقات نہ چاھتے ہوئے بھی کڑوی گولی نگلنا پڑتی ہے ۔۔۔۔
جمعیت کی دعوت انتقامی جذبے سے کروڑ درجے بڑھ کر ہے جیسا کہ سید قطب کو عدالت نے کہا کہ تم مصری صدر کو قتل کرنے کی سازش میں ملوث ہو شہید سید نے مسکرا کر کہا میرا نظریہ کتنا بلند ہے اور تم کیسا حقیر سا الزام لگاتے ہو ، یہ صدمات کہیں ہمارے جذبات کو دوسری طرف نہ لے جائیں ۔۔۔ سانحہ بہت تکلیف دہ ہے مگر کیا کیجئے کہ صبر کا معاملہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے ۔۔۔۔
اپنے غم کو ، اپنے غصے کو ، اپنے جذبے کو ، اپنے انتقام کو اپنی دعوت کی راہ میں لگادیں ۔۔۔۔۔۔
اس دعا کیساتھ کہ خدا سید طفیل کو جنتوں کا مکین بنائے ، اہل خانہ و دوستوں کو صبر جمیل دے
آمین ۔۔۔
 

زیک

مسافر
معاملہ سے مکمل آگہی رکھتے ہوئے انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک یکطرفہ کاروائی کو تصادم کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے۔
اور جس مثبت سرگرمی پر حملہ ہوا اس کا ذکر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
تین دن کا ایکسپو جمعیت ہر سال کرواتی ہے۔ جس میں ٹیلنٹ ایوارڈ، مختلف مقابلہ جات، مشاعرہ، مباحث جس میں مخالف نظریات کو بھی بھرپور نمائندگی دی گئی، کتاب میلہ اور مختلف موضوعات پر سیمینار ہوتے ہیں۔ اور یہ پروگرام 30 سے زائد شہروں اور جامعات میں ہر سال ہوتے ہیں۔ کل اسلامی یونیورسٹی میں اس کا آخری پروگرام چل رہا تھا جس میں یونیورسٹی جمعیت سے وابستہ سابقہ افراد کے لیے عشائیہ تھا۔ جس کے دوران یہ حملہ کیا گیا اور ایک طالب علم ہلاک، جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔
اس میں تصادم کہاں ہے؟

یہ کیسا تصادم ہے کہ جس میں ایک طرف کے لوگ ہی زخمی اور ہلاک ہوں، اور پکڑے جانے والے تمام ملزمان مخالف گروہ سے ہوں؟

بہرحال بلاتحقیق تبصرے کرنا بہت آسان، خاص طور پر منفی تنقید کرنا سب سے آسان۔
ممکن ہے یہ درست ہو لیکن جمیعت کے دہائیوں پر محیط یونیورسٹیوں میں تشدد پسندانہ رویوں کی وجہ سے دل نہیں مانتا
 

الف نظامی

لائبریرین
ممکن ہے یہ درست ہو لیکن جمیعت کے دہائیوں پر محیط یونیورسٹیوں میں تشدد پسندانہ رویوں کی وجہ سے دل نہیں مانتا
جمعیت کے رویے میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے اور اس وقت ، جو لوگ ماضی میں جمعیت کے مخالف تھے وہ بھی جمعیت کی تعریف کرتے ہیں۔ حال ہی میں انتہائی سیکولر لوگوں نے بھی جمعیت کے پلیٹ فارم سے گفتگو کی ہے جس سےظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان مثبت مکالمے پر یقین رکھتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سید معظم معین لکھتے ہیں:
جمعیت اسلامی یونیورسٹی کا ایجوکیشن ایکسپو جاری تھا جس کی جھلکیاں اور تفصیلات فیس بک پیج پر دیکھیں ، کیا کمال پروگرام ڈیزائن کیا گیا تھا۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں نکلیں کرنے والوں کے لیے۔ کتنے بڑے دل کا مظاہرہ کیا جب اپنے شدید مخالفین کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ مدعو کر کے اپنا اسٹیج پیش کیا، مکالمہ کیا، بات سنی ، اور وہ چیز جس کی شدید کمی معاشرے میں ہے دلائل سے گفتگو کا کلچر پروان چڑھایا۔ مفتی عدنان کاکاخیل کا لیکچر اسلام کا تصور حیا کے موضوع پر رکھا گیا تھا جو واقعتا وقت کی ضرورت ہے اور مفتی صاحب نے بھی اس کو خوب سراہا۔ جدید اور نئے زمانے کی مناسبت سے صحتمندانہ مقابلے کی فضا بنانے کے لیے vlog کمپیٹیشن بہت اچھا آئیڈیا تھا۔ طلبہ کو نوکری کی خاطر لکیر کا فقیر بننے سے بچانے کے لیے انٹر پرینیورشپ پر ورکشاپ بھی کیا کمال پروگرام تھا۔نشید نائٹ، کیرئیر پلاننگ، ٹیلنٹ ایوارڈ کون کون سا پہلو تھا جس پر کام نہ کیا گیا ہو۔ یہ کام ہیں طلبہ یونین کے کرنے والے۔ بین الاقوامی سیشن بھی رکھا گیا تھا جس میں مختلف اسلامی ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے ماہرین کو مدعو کر کے گفتگو کی دعوت دی گئی تھی۔ صحافیوں، سیاسی شخصیات، سول آفیسر ، پارلیمنٹیرین، علما، ادیبوں اور شاعروں کو مدعو کیا گیا اور نہایت خوبصورت محافل سجائیں۔ طلبا کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی ملازمین کے لیے بھی اس پروگرام میں تحائف رکھے گئے تھے ۔ اور یہ سب کتنے پروفیشنل اور منظم انداز میں کیا گیا، یہ جمعیت کا ہی کارنامہ ہے کہ طلبہ یونین نہ ہونے کے باوجود خود وسائل بھی جمع کرتے ہیں پلاننگ بھی کرتے ہیں اور اس پر عمل بھی کر گزرتے ہیں۔ نجانے ناقدین کو یہ صحتمند اور مثبت سرگرمیاں کیوں نظر نہیں آتیں اور میڈیا کی توجہ بھی مار دھاڑ ، نعرہ بازی اور جلاؤ گھیراو جیسے افعال ہی حاصل کر پاتے ہیں۔
شاید بد نظروں کو یہ کارنامہ ایک آنکھ نہ بھایا اور اس صحتمندانہ پروگرام کے دوران جمعرات کی شام حملہ کر کے ایک معصوم نوجوان کی جان لے لی۔ مفتی عدنان کاکاخیل نے اپنی گفتگو میں کہا تھا کہ قوم پرست گروہ اپنے مفادات کے لئے تعلیمی اداروں میں ایسی کاروائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں ، ان کا کہا سچ ثابت ہوا۔ وہ نوجوان جو اپنے ذاتی اوقات میں سے وقت صرف کر کے طلبہ کے لئے مثبت سرگرمیوں کا انعقاد کیا کرتے تھے انہیں خون میں نہلا دیاگیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ میڈیا اس حملے کے طلبہ تنظیموں کا تصادم بنا کر پیش کرتا رہا۔ یہ کیسا تصادم تھا جس میں ایک فریق کو خراش تک نہ آئی اور دوسرے فریق کے لوگ زخمی بھی ہوئے اور ہلاک بھی۔ جب تک یونیورسٹی میں صحتمندانہ سرگرمی چل رہی تھی ، مکالمہ ہو رہا تھا، ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی تب تک میڈیا منہ موڑے ہوئے تھا اور جب ہنگامہ آرائی ہوئی، خون بہا تو میڈیا بھی پہنچ گیا۔ نجانے ہمارے میڈیا کو بس بہتا خون ، چلتی گولیاں اور گالیاں ہی کیوں متوجہ کرتی ہیں اور معاشرے میں ویلیو ایڈ کرتے نوجوان کیوں اس کی طرف سے حوصلہ افزائی سے محروم رہتے ہیں۔ کیا یوں ہم ایک صحتمند معاشرے کی تصویر پیش کرتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جمعیت کو اس شہید کے خون کا حق ادا کرنا ہے تو ایک منصوبہ پیش خدمت ہے گر قبول افتد زہے عز و شرف
قوم پرستوں کے بچوں پر کام کیجیے اور ان کو اسلام پسند بنا کر دم لیجیے۔
منصوبہ سازی کے لیے زبیر منصوری سے راہنمائی حاصل کریں۔
 

جان

محفلین
تابش بھائی کو اتنا عرصہ یہاں رہ کر منفی پراپیگنڈہ کرنے والوں کی ذہنیت پر افسوس نہیں کرنا چاہیے۔۔۔
یہ لوگ حق کا جواب دے نہیں پاتے، باطل پراپیگنڈہ جتنا مرضی کروالو!!!
برا مت منائیے گا، 'حق' تو محسوس پڑتا ہے کہ کسی شخصیت اور شدت پسند کے گھر کی لونڈی ہے کہ جب چاہا، جو چاہا پیش کر دیا اور وہ 'حق' ہو گیا۔ ایسے 'حق' کا جواب دینے کا قطعی مسئلہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ جواب دینے کے بعد انہی شخصیت اور شدت پسندوں کے سامنے اپنے ایمان کی وضاحت پیش کرنا ہے۔ بولنے کو تو معاشرہ پکا پڑا ہے اور اکثریت ایسے 'حق' پہ سوال دل میں لیے پھررہی ہے، زباں پہ اس لیے نہیں لا پا رہی کہ شخصیت پرستوں اور شدت پرستوں نے معاشرے کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ادھر آپ نے بات کی نہیں، ادھر ایمان پہ سوال اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہی شدت پسند آزاد خیالات رکھنے والوں میں بھی ہیں جن کا 'حق' بھی اپنا ہے اور 'آزاد اور روشن خیالی' کی تعریف بھی اپنی! میری ذاتی رائے میں 'شخصیت پرستی' اور 'شدت پسندی' معاشرے کی سب سے بڑی بیماری ہے اور بہترین راستہ 'خدا پرستی' اور 'اعتدال' کا ہے!
 

محمد سعد

محفلین
اب تک جو معلومات اکٹھی کر پایا ہوں، جمعیت اور دوسرے گروپ کے لڑکوں کے بیچ ایک چھوٹی لڑائی ہوئی، جس میں جمعیت والوں نے ان کے ایک دو افراد کو کُوٹ دیا۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ لڑائی کسی معمول کی تلخ کلامی سے ہی شروع ہوئی ہو گی۔ جواب میں وہ پورا جتھا لے کر آ گئے جس نے جمعیت کے لڑکوں پر حملہ کر دیا اور فائرنگ بھی کی۔ وہاں سے پھر حالات خراب ہوئے۔
یہی سمجھ آتی ہے کہ ہر سٹیج پر لڑکوں کے ابلتے خون اور سخت بدلہ لینے کی خواہش نے حالات کو مزید خرابی کی طرف دھکیلا۔ اب جمعیت ہی اس بات کو سمجھتے ہوئے اس فیڈبیک لوپ کو بریک لگائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں ورنہ چھوٹی لڑائی میں پستولیں لے کر آ جانے والے مائنڈ سیٹ سے تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح وہ لوگ جن کی معلومات کا ذریعہ صرف انٹرنیٹ ہے، اگر جذبات گرماتی تحاریر سے گریز کریں تو ان کا ہم پر احسان ہو گا۔
 
اب تک جو معلومات اکٹھی کر پایا ہوں، جمعیت اور دوسرے گروپ کے لڑکوں کے بیچ ایک چھوٹی لڑائی ہوئی، جس میں جمعیت والوں نے ان کے ایک دو افراد کو کُوٹ دیا۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ لڑائی کسی معمول کی تلخ کلامی سے ہی شروع ہوئی ہو گی۔ جواب میں وہ پورا جتھا لے کر آ گئے جس نے جمعیت کے لڑکوں پر حملہ کر دیا اور فائرنگ بھی کی۔ وہاں سے پھر حالات خراب ہوئے۔
یہی سمجھ آتی ہے کہ ہر سٹیج پر لڑکوں کے ابلتے خون اور سخت بدلہ لینے کی خواہش نے حالات کو مزید خرابی کی طرف دھکیلا۔ اب جمعیت ہی اس بات کو سمجھتے ہوئے اس فیڈبیک لوپ کو بریک لگائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں ورنہ چھوٹی لڑائی میں پستولیں لے کر آ جانے والے مائنڈ سیٹ سے تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح وہ لوگ جن کی معلومات کا ذریعہ صرف انٹرنیٹ ہے، اگر جذبات گرماتی تحاریر سے گریز کریں تو ان کا ہم پر احسان ہو گا۔
جمعیت کا تین دن سے پروگرام چل رہا تھا۔ اور جس وقت حملہ کیا گیا اس وقت بھی تقریب چل رہی تھی۔ حملہ کرنے والے جو لڑکے جمعیت والوں نے پکڑے۔ انھیں بھی بغیر کچھ کہے، پولیس کے حوالے کیا۔ ایف آئی آر بھی ہو چکی ہے۔ قانونی راستہ اختیار کیا ہے۔
میری بات کو بہرحال جانبداری سمجھا جا سکتا ہے۔ اور شاید اس معاملے میں معتبر نہ سمجھا جائے۔ اس لیے ڈی سی اسلام آباد کی ٹویٹ یہاں پیش کر دیتا ہوں، پہلے انھوں نے بھی کلیش کہا، پھر تصدیق کی۔

جبران ناصر بھی جمعیت مخالف نظریات رکھتا ہے۔
 
ایف آئی آر
IMG-20191214-WA0002.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
آصف محمود لکھتے ہیں:

رات مری میں برف اترتی رہی ، صبح سفیدی اوڑھے وادی کے سحر میں کھویا تھا کہ خبر ملی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایک طالب علم کا قتل ہو گیا ہے۔برفزار کا رنگ گویا سرخ ہو گیا اور دل لہو سے بھر گیا۔سید طفیل الرحمن ہاشمی ، کیا خوبصورت نوجوان تھا۔ میں زندگی سے بھر پور اس جوان رعنا کی ہنستی مسکراتی تصویر کو دیکھتا ہی رہ گیا ۔ دور کہیں برفزاروں میں اس کی ماں کی آنکھوں میں کتنے ہی سپنے ہوں گے اور باپ کے کتنے ہی ارمان ہوں گے جو اس خوبصورت وجود کے ساتھ دفن ہو جائیں گے۔برف اب رک چکی تھی ، گاہے ہوا چلتی اور درختوں سے لپٹے گالے اڑ نے لگتے۔ برف زاروں سے پرانا تعلق ہے لیکن برفزاروں میں ایسی اداسی کبھی نہ تھی۔خالد احمد یاد آ گئے:

کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے
اسی لیے تو و ہ بچوں کو مائیں دیتا ہے

یہ لاشہ اسلامی یونیورسٹی سے اٹھا تھا۔اس جامعہ کے درودیوار سے وہی محبت ہے جو کسی کو اپنے گھر سے ہوتی ہے۔آج بھی کبھی کبھی بلاوجہ کویت ہاسٹل کشمیری ہٹ پر چلا جاتاہوں، چائے پیتا ہوں اور وہاں بکھری اپنی یادوں کو سمیٹتا رہتا ہوں۔ ان درو دیوار سے برسوں کی وابستگی کا ادنی سا تقا ضا تھا کہ اب اس گھر سے اٹھائے لاشے کو کندھا دیا جائے اور جنازے میں شریک ہو کر اللہ کے حضور دست دعا دراز کیا جائے۔ برادرم سیف اللہ گوندل کا فون آیا اور انہوں نے بتایا کہ جنازہ تو پڑھایا جا چکا۔ماں نے نازوں سے پال کر ایک زندہ وجود تعلیم حاصل کرنے اتنا دور بھیجا تھا ، طلباء سیاست کے خون آشام درندے نے اسے تابوت میں ڈال کر ماں کو بھیج دیا۔

یہ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان کا لاشہ نہیں، یہ ا س سماج کا لاشہ ہے، یہ ہمارا ااور آپ کا لاشہ ہے۔ کتنا خوبصورت نوجوان تھا اور کس بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ نوجوان پاکستان Pakistan کا مستقبل تھا۔ سوال اب بڑا سادہ سا ہے : کیا ہم یہ عہد کر سکتے ہیں کہ آئندہ کسی ماں کو اس کا بیٹا تابوت میں ڈال کر نہیں بھیجا جائے گا؟ ہم کب تک اپنے تعلیمی اداروں کو اکھاڑہ بنائے رکھیں گے؟ اہل سیاست کی ہوس کب تک طلباء کے مستقبل سے اور ان کے ماں باپ کے ارمانوں سے کھیلتی رہے گی؟

اسلامی جمعیت طلبہ کے بہت سے لوگوں سے میرا محبت کا تعلق ہے۔ میں سوچتا ہوں اٹھتی جوانیوں میں ان جیسا کوئی ہو سکتا ہے؟ یہ عمر کے اس حصے میں درس قرآن Quran کی مبارک محفلیں سجاتے ہیں جب دوسرے صرف قہقہے لگانے کو ہی مقصد حیات سمجھتے ہیں۔یہ تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اور مقصدیت سے بھی دور نہیں ہوتے ، یہ رمضان میں اپنے اہتمام میں قوس قزح جیسے رنگ بھر دیتے ہیں ، یہ نمازیں قائم کرتے اور ان کی تلقین کرتے ہیں،یہی لسانیت اور قومیت کے تعصبات سے بلند ہیں ، خوش گفتار اور با کردار ہیں۔ یہ واحد طلباء تنظیم ہے جس کے شہیدوں کا لہو پاکستان Pakistan کے لیے بہا اور اتنا بہا کہ آج بھی ،مشرقی پاکستان Pakistan سے اس کی مہک آتی ہے ایسی شاندار روایات اور ایسے نجیب نوجوان۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ کیمپس کی سیاست کی نذر ہو گئے۔

آپ ان کا صبر دیکھیے ، ایک جوان رعنا کا لاشہ اٹھا کر بھی انہوں نے توڑ پھوڑ نہیں کی۔ نہ مادر علمی میں نہ ہسپتال میں۔ قاتلوں میں سے ، شنید ہے ، کچھ پکڑے گئے لیکن انہیں پولیس کے حوالے کیا گیا۔ اب وہ قانون سے انصاف کے طالب ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔ضبط کا یہ مظاہرہ کیا کوئی معمولی مظاہرہ ہے ، ہر گز نہیں۔یہ خیر کی ایک معمولی قوت کا اظہار ہے لیکن افسوس خیر کی اتنی غیر معمولی قوت طلباء سیاست میں گروہ بندی کے آزار کا شکار ہو جاتی ہے۔

کیا ہم اب بھی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ طلباء سیاست نے ہمیں کیا دیا؟ ہم کتنے لاشے اٹھائیں گے؟ ہم کب تک اپنے تعلیمی اداروں کو میدان جنگ بنائے رکھیں گے؟ ابھی کل ہی خواجہ سعد رفیق نے طلباء سیاست پر اپنا درد دل قوم کے سامنے رکھا اور کہا کہ اگر کیمپس میں یونین کلچر لانا ہے تو آئیے تمام سیاسی جماعتیں مل کر حلف دیں کہ ہم طلباء سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے اور وہاں اپنے اپنے جتھے منظم نہیں کریں گے۔کیا کوئی جماعت ہے جو یہ حلف نامہ دے سکے؟ جنہیں مفت کے رضاکار مل رہے ہوں وہ ایسا حلف نامہ کیوں دیں گے؟اب تو تحریک انصاف کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ اپنا طلباء ونگ قائم کرنے کے کیا فوائد ہو سکتے ہیں چنانچہ اب ایک عدد انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی میدان عمل میں ہے۔

اسلامی یونیورسٹی میں یہ حادثہ کیسے ہوا؟ اس پر اہم ذمہ داران سے بات ہوئی ہے۔تصادم کے ماحول میں کوئی سچ نہیں سننا چاہتا لیکن سچ تو سچ ہوتا ہے۔بس اتنا جان لیجیے کہ حادثہ اچانک نہیں ہوتا ۔ بہت کچھ سلگ رہا ہوتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے وہ آتش فشاں بن جاتا ہے۔

اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود جمعیت نے یہ ذمہ داری اپنے سر لی ہوئی ہے کہ اسے کیمپس کو صراط مستقیم پر رکھنا ہے۔اس کوشش میں کبھی پلڑا بھاری ہو جاتا ہے اور کبھی جواب میں کوئی جتھہ منظم ہو کر یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہمارا کلچرل شو نہیں ہو سکتا تو تمہارا پروگرام کیسے ہو سکتا ہے۔اس میں قاتل اور مقتول اور ظالم اور مظلوم کی صرف ترتیب بدلتی ہے۔کھیل سب ہی کھیلتے ہیں۔

انتظامیہ کے نصف درجن سے زیادہ اہم افراد سے بات ہوئی اور میرے لیے یہ باعث حیرت ہے کہ سب نے ریکٹر جناب معصوم یاسین زئی پر انگلی اٹھائی کہ انہوں نے میرٹ کو پامال کرتے ہوئے یہاں کچھ لوگوں کو داخلے دلوائے۔ گویا انتظامیہ نے ایک منصوبے کے تحت یونیورسٹی کو اکھاڑہ بنایا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ شعبہ قانون میں ایک پورا سمسٹر ایسے طلباء کے لیے شروع کرایا گیا جو میرٹ پر پورا نہیں اترتے تھے۔ معلوم نہیں اس الزام میں کتنی صداقت ہے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کو اس نکتے کی وضات ضرور کرنی چاہیے ۔ یہ بات اگر سچ ہے تو یہ مجرمانہ غفلت ہی نہیں یہ جرم بھی ہے۔

ہمیں بطور قوم سوچنا ہے کہ ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو اکھاڑہ بنانا ہے یا علم و تحقیق کا مرکز۔ اگر ہم نے انہیں علم و تحقیق کے مراکز میں بدلنا ہے تو یہاں کسی طلباء تنظیم کی کوئی ضرورت ہے نہ کسی یونین کی۔ہمیں تعلیمی اداروں میں کسی سبز انقلاب کی ضرورت ہے نہ کسی لال انقلاب کی اور نہ ہی کسی لسانی تعصب کی آلودگی کی۔طلباء سیاست طلباء کی ضرورت نہیں ہے ، یہ ہمارے سیاست دانوں کی واردات ہے جو صرف ان اداروں میں کی جاتی ہے جہاں غریب اور متوسط طبقے کے بچے پڑھتے ہیں۔ جنہیں مائیں زیور بیچ کر تعلیم کے لیے بھیجتی ہیں اور عین جوانی میں انہیں تابوت میں ڈال کر ماوں کو بھیج دیا جاتا ہے۔
 

آورکزئی

محفلین
Top