مہنگائی کا طوفانِ ہوشربا اور حکومتی کج فہمی!

جاسم محمد

محفلین
مہنگائی کا طوفانِ ہوشربا اور حکومتی کج فہمی!
حنا پرویزبٹ
10 نومبر ، 2019

سیاسی کھینچا تانیوں میں مصروف وزراہر روز دور کی کوڑی لانے کی تگ و دو میں ہیں اور حسبِ عادت بلا سوچے سمجھے مولانا کے آزادی مارچ کو فسادی مارچ ٹھہرا رہے ہیں۔ پشاور موڑ پر ملکی تاریخ کے سب سے بڑے دھرنے کو چند ہزار افراد کا مجمع قرار دینے والے اب بھی احمقوں کی جنت میں مقید ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو کہیں گےمن و عن وہی بیانیہ عوام میں مقبول ہوگا۔ ایک طرف حکومتی بنچوں کی جانب سے دھرنے کے شرکاء کی تعلیمی اور سماجی حیثیت پر تبرے پھینکے جا رہے ہیں تو دوسری جانب شرکاء اپنی مصروفیت اور دھرنے کی جگہ کے انتظام کو احسن طریقے سے سنبھالنے، فارغ وقت کو مثبت طریقے سے گزار کر اپنا سافٹ امیج پیش کر رہے ہیں۔ جوں جوں دھرنا طویل ہوگا، حکومتی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ مولانا فضل الرحمٰن کا موجودہ مارچ اور اس سے قبل ہونے والے مارچ دراصل وزیراعظم عمران خان کی اس کج فہمی کا ردعمل ہیں جس کا بیج انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں بویا تھا۔ انہیں آج تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ وزیراعظم کے عہدے سے کس قسم کے آدابِ حکمرانی منسلک ہیں اور بطور سربراہ اُن پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ آج ملک کا ہر ذی شعور شہری اس امر سے نہ صرف آگاہ ہو چکا ہے بلکہ عوام کی اکثریت اس بات کو جان اور مان چکی ہے کہ سابقہ انتخاب مبینہ طور پر چرایا گیا تھا جس کا دفاع نہ کوئی کر سکتا ہے اور نہ ہی حکومتی وزراء سے کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کی ذاتی حرکیات نے موجودہ سیاسی انتشار میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ انصافی سوشل میڈیا نے آزادی مارچ کی تعداد اور مولانا کی تحقیر کیلئے ان کے نام اور شکل کو بگاڑنے کیلئے کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مخصوص شرکائے آزادی مارچ کی ہمراہی میں اسلام آباد کی طرف رواں تھے۔ لاہور ایک اسٹاپ اوور تھا جہاں پر خطاب اور دیگران کی موجودگی پہلے سے طے تھی تاہم حکومت نے اس کی تعداد پر وہ ناچ گانا کیا کہ مولانا کا مارچ ناکام ہو گیا ہے، کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ کے مصداق ہر رکن انصافی نے دل کھول کر اس کو ہدفِ تنقید بنایا اور ہرزہ سرائی کی لیکن جیسے ہی شرکائے آزادی مارچ وفاقی دارالحکومت کی حدود میں پہنچے حکومتی سٹی گم ہو گئ۔قبل ازیں میڈیا پر لامحدود کنٹرول کا خواب پورا کرنے کے لیے عجب ڈھنگ کا حکم نامہ جاری کیا گیا جس پر میڈیا کی جانب سے ٹھوس اور سنجیدہ ردعمل آنے کے بعد وزیراعظم ہائوس سمیت سبھی کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔ حکومت کی جانب سے کم عقلی کا ایک اور شاخسانہ میڈیا کورٹس کی تشکیل کا اعلان تھا، اس پر بھی میڈیا ہائوسز کے مضبوط مؤقف نے حکومت کو چاروں شانے چت کر دیا۔ اس محاذ پر حکومتی پسپائی پہلے ہی نوشتہ دیوار تھی لیکن اس کے نام نہاد زیرک اذہان کیونکر اسے پڑھ پاتے کہ نااہل حکومت کو کج فہمی کے نئے ریکارڈ جو قائم کرنا تھے۔


موجودہ آزادی مارچ کی بنیاد بننے والے ملین مارچوں میں مولانا کی کوریج پر غیرعلانیہ پابندی اب کی بار میڈیا میں خوب زیر بحث آئی یہاں تک کہ وزیراعظم سمیت کلیدی زعما کو علی الاعلان کہنا پڑا کہ ہم نے دھرنے کی لائیو کوریج پر کوئی پابندی نہیں لگائی لہٰذا دو چینلوں نے دھرنے کو لائیو دکھانے کی ہمت کی اور پھر آہستہ آہستہ دوسرے بھی ان کے ساتھ ہو لئے۔ انجام چاہے کچھ بھی ہو، آزادی مارچ اور دھرنے کامیابی کی سند پا چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن سیاست کے انڈر ٹیکر بن چکے ہیں جو نئی سیاسی بساط پر نئی حیثیت کے مطابق اپنی شرائط منوایا کریں گے۔ دھرنا کلچر کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی نیک فال نہیں؛ تاہم سوال یہ ہے کہ کس نے یہ روایت کس کے کہنے پر اور کیوں ڈالی؟ آج دھرنے کی سب سے زیادہ مخالفت کرنے والوں کو یاد نہیں کہ انہوں نے اپنے دھرنے سے پہلے کیا کیا سنہری بیانات داغے تھے؟ نوکریوں، گھروں، کاروبار کے سنہری خواب دکھانوں والوں نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ خدا کی پناہ! انصافی حکومت دروغ گوئی اور قرضے لینے کے ایسے ریکارڈ قائم کر رہی ہے کہ جسے توڑنے کی کوئی ہمت نہیں کر سکے گا۔ ڈاکٹروں سے لیکر تاجروں تک ہر کوئی اس ہٹ دھرم ٹولے سے خائف ہو چکا ہے جو ہر روز کوئی نیا کٹا کھول دیتا ہے۔ پی ٹی آئی کا پختونخوا میں ساتواں سال جبکہ وفاق میں دوسرا سال شروع ہو چکا ہے لیکن اس نے ایک بھی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا۔ ایک سال میں کئی دہائیوں سے زیادہ بھاری بھرکم ریکارڈ قرضے لینے کے باوجود بجلی، گیس، پانی اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا گیا ہے کہ عوام کی سانس کی ڈوری ٹوٹنے کی حد تک جا پہنچی ہے اور تو اور ادرک جیسی معمولی چیز کو پانچ سو روپے کلو تک پہنچا دیا گیا ہے۔ سبزیاں بھی عوام کی دسترس سے دور ہو گئی ہیں، پتا نہیں نام نہاد وسیم اکرم پلس کب خوابِ خرگوش سے جاگیں گے؟
 

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی آئی کا پختونخوا میں ساتواں سال جبکہ وفاق میں دوسرا سال شروع ہو چکا ہے لیکن اس نے ایک بھی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا۔
آپ کی ن لیگ قومی خزانہ بھرا ہوا چھوڑ کر جاتی تو دھڑا دھڑ ترقیاتی منصوبے لگاتے۔ سارا ملک لوٹ کھسوٹ کر بیرون ملک لے گئے۔ اور لعن طعن موجودہ حکومت پر کرتے ہیں۔
 
Top