تاجروں اور ایف بی آر کی عارضی جنگ بندی

جاسم محمد

محفلین
تاجروں اور ایف بی آر کی عارضی جنگ بندی
خلیل احمد نینی تا ل والا

پی ٹی آئی حکومت کے پہلے وزیر خزانہ اسد عمر کے جاتے ہی وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف سے قرضے کی بات چیت شروع کی اور پھر آئی ایم ایف نے اپنی کڑی شرائط پر قسطوں میں قرضے دینے کی ہامی بھری جو ماضی سے زیادہ سخت تھیں۔

مثلاً اس میں پی ٹی آئی حکومت کو صنعتکاروں، تاجروں اور ہر طبقے کے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانا بجلی، گیس، پیٹرول، ڈیزل اور تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کرنا شامل تھا۔ باوجود دنیا بھر میں پیٹرول کی قیمتیں عالمی سطح پر گر رہی تھیں۔ پھر راتوں رات بغیر وزیراعظم کی اجازت کے نئے مشیروں نے روپے کی قدر اتنی گرا دی کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں۔

اس مہنگائی کے بعد ایف بی آر کے نئے چیئرمین شبر زیدی نے بھی تاجروں، صنعتکاروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی نئی حکمت عملی ترتیب دی، 6ماہ میں تاجروں اور صنعتکاروں نے مل کر ایف بی آر سے میٹنگیں کیں مگر معاملات بگڑتے گئے۔ ایک نئی شق شناختی کارڈ 50ہزار کی خریداری پر لازمی قرار دیا گیا تاکہ جو ادارے ابھی تک ٹیکس نہیں دیتے، اُن کی نشاندہی ہو سکے۔ اس طرح فکس ٹیکس لگانے کی بھی کوشش کی گئی مگر معاملات بگڑتے بگڑتے ہڑتال کی نوبت آگئی۔

پورا ملک تاجروں، دکانداروں کی ہڑتال کی زد میں آگیا تو دہرا نقصان ہوا۔ بقول تاجروں کی ایسوسی ایشن 60،70ارب 2دن کی ہڑتال کی نذر ہو گئے۔ اسی طرح حکومت کے بھی کچھ ہاتھ نہیں آیا تو پھر ایف بی آر اور تاجروں کے درمیان فیصلے ہوئے اور معاملہ پھر 3ماہ کے لئے ٹل گیا اور جنوری تک شناختی کارڈ کی شرط موخر کر دی گئی۔ یہ ایسی شق ہے جس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

یہاں میں پڑوسی ملک بھارت کی حالیہ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ بھارت کی 126کروڑ کی آبادی میں 37ملین یعنی 3کروڑ 70لاکھ ٹیکس افراد رجسٹرڈ ہیں یعنی صرف 3فیصد افراد ٹیکس نیٹ میں آتے ہیں جو بہت تشویش کی بات ہے۔ جبکہ 82کروڑ افراد رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد ہے جس میں 75فیصد افراد یعنی 61کروڑ افراد کا تعلق زمیندار طبقے سے ہے جن پر کوئی ٹیکس ہی نہیں لا گو ہوتا۔ وہ سب ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔

بجٹ تقریر میں انہوں نے مشورہ دیا کہ یہ زمیندار اب پکے مکانوں کے مالک بن چکے ہیں۔ ان کے پاس قیمتی گاڑیاں اور دیگر آسائشیں بھی ہیں، ان کو سرکار مفت بجلی بھی دیتی ہے، ان کے بیجوں پر بھی سبسڈی ہے لہٰذا اب سرکار کو چاہئے کہ ان پر بھی تھوڑا بہت ٹیکس لگایا جائے۔ اس پر کسانوں اور زمینداروں نے بہت شور شرابہ کرکے ٹیکس رکوا دیا۔ انہوں نے بھی ہڑتال اور مظاہروں کی دھمکیاں دیں۔ وہاں کے پڑھے لکھے افراد کی سوسائٹیوں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ عوام کو دھمکا کر ٹیکس وصول کرنے کے بجائے جو افراد ٹیکس دے رہے ہیں انہیں خصوصی مراعات دیں۔

ہمارے ہاں ایک طرف ٹیکس امپورٹ کی سطح پر وصول کیا جاتا ہے پھر تمام صنعتی پیداوار پر بھی 17فیصد سیلز ٹیکس ہے جو پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے حتیٰ کہ امریکہ اور کینیڈا جو اس ٹیکس کے موجد ہیں، بالترتیب 7فیصد اور 9فیصد ٹیکس خریدار سے وصول کرتے ہیں، مگر ہمارے ملک میں فروخت سے پہلے ہی صنعتکاروں سے فیکٹری سے مال نکالنے پر وصول کر لیا جاتا ہے اور اسی طرح ہر ہر مقام پر مختلف ناموں سے اور کہیں سرچارج کی آڑ میں ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بنیادی ضرورتیں تعلیم، اسپتال کی سہولتیں بھی ناپید ہیں۔ کوئی بیروزگاری الائونس بھی نہیں دیا جاتا اور پھر بھی عوام خاموشی سے زندگی گزار رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت جس نے 17سال وعدوں کی بھرمار کر کے الیکشن جیتا تھا، سے امید تھی کہ وہ اپنے وعدے پورے کر کے عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع دے گی مگر سوا سال گزر چکا ہے ساری امیدوں پر اُوس پڑ چکی ہے۔ صرف سیاست سیاست کا کھیل جاری ہے۔ روز پکڑ دھکڑ سیاستدانوں کی تو ہو چکی مگر ان سے کیا نکلا؟ آئی ایم ایف کی چکی میں کب تک اور کہاں تک عوام کو پیسا جائے گا۔ 3ما ہ بعد پھر ایف بی آر کا پنڈورا بکس کھلے گا، تاجر اور صنعتکار پھر سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور پھر یہی شناختی کارڈ کا رونا رویا جائے گا۔

جہاں تک تاجروں کی جانب سے ٹیکس دینے کا معاملہ ہے تو حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 40لاکھ تاجروں میں سے صرف 4لاکھ افراد ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہیں۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے حکومت کو بہت سے اقدامات کرنا پڑیں گے مگر یہ عمل صرف اتفاق رائے سے ہونا چاہئے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تاجر، صنعتکار اور حکومت میں ہمیشہ رابطہ کا فقدان رہا ہے۔

ایسا نظام شروع کیا جائے جو رابطہ کاری کا کام بہتر طور پر انجام دینے میں مدد کرے، نیز تاجروں کو بھی اپنے معاملات پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہمارے ہاں ایک طرف ٹیکس امپورٹ کی سطح پر وصول کیا جاتا ہے پھر تمام صنعتی پیداوار پر بھی 17فیصد سیلز ٹیکس ہے جو پوری دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے حتیٰ کہ امریکہ اور کینیڈا جو اس ٹیکس کے موجد ہیں، بالترتیب 7فیصد اور 9فیصد ٹیکس خریدار سے وصول کرتے ہیں، مگر ہمارے ملک میں فروخت سے پہلے ہی صنعتکاروں سے فیکٹری سے مال نکالنے پر وصول کر لیا جاتا ہے
کیا یہ سچ ہے؟ جو چیز ابھی بکی نہیں اس پر "سیلز" ٹیکس کیسے وصول کیا جا سکتا ہے؟ o_O
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
کیا یہ سچ ہے؟ جو چیز ابھی بکی نہیں اس پر "سیلز" ٹیکس کیسے وصول کیا جا سکتا ہے؟ o_O
سچ ہے۔ اور یہ ٹیکس چونکہ صارف نے دینا ہوتا ہے اور حکومتیں صارفین سے ایک ایک کر کے یہ ٹیکس وصول نہیں کر سکتیں سو جس وقت چیز مارکیٹ میں جا رہی ہوتی ہے حکومت اسی وقت یہ ٹیکس لے لیتی ہے۔

لیکن تاجروں کا اس پر شور مچانا لایعنی ہے، شور صارف کو مچانا چاہیئے۔ حکومت نے فیکٹری سے ٹیکس لیا تو انہوں نے یہ ٹیکس قیمت میں ڈال کر ڈیلر کو چیز دے دی یعنی جو ٹیکس حکومت کو دیا تھا وہ قیمت میں ڈل گیا اور چیز بنانے والے کو اس کے پیسے واپس مل گئے۔ ڈیلر نے دکاندار کو اور دکاندار نے صارف کو چیز سیلز ٹیکس سمیت بیچی یعنی لامحالہ یہ ٹیکس صارف نے دیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
سچ ہے۔ اور یہ ٹیکس چونکہ صارف نے دینا ہوتا ہے اور حکومتیں صارفین سے ایک ایک کر کے یہ ٹیکس وصول نہیں کر سکتیں سو جس وقت چیز مارکیٹ میں جا رہی ہوتی ہے حکومت اسی وقت یہ ٹیکس لے لیتی ہے۔
شکریہ۔ اب سمجھ آئی یہ انڈر انوائسنگ، 50 ہزار سے زائدسودوں پہ شناختی کارڈ کی شرط وغیرہ تاجران اور حکومت کے مابین شدید بحران کیوں بنا ہوا ہے۔ جب سیلز ٹیکس بالآخر صارف نے ہی دینا ہے تو تاجر اپنی معیشت ڈاکومنٹ کرنے سے راہ فرار کیوں چاہیں گے؟
اصل وجہ وہی ہے کہ یہ سیلز ٹیکس مصنوعات مارکیٹ میں آنے سے قبل تاجران کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ اس معاملہ میں جتنی تجارت حکومت سے چھپائیں گے ان کو بعد میں صارف کو لوٹ کر اتنا ہی منافع حاصل ہوگا۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
ٹیکس کا نظام اتنی آسانی سے رائج ہونے والا نہیں وقت تو لگے گا۔اور ظاہر چیخیں بھی نکلیں گی ۔
عمران خان کو اس وقت ٹیکس کلیکشن کے حوالہ سے دو دھاری تلوار کا سامنا ہے۔ ایک طرف وہ چور کرپٹ تاجرہے جو اپنی اصل معیشت ظاہر نہ کر کے سب کو چونا لگا رہا ہے۔ دوسری طرف وہ چور کرپٹ ٹیکس کولیکٹرز ہیں جو ایف بی آر میں کسی بھی قسم کے ریفارم کے خلاف ہیں۔
PM Imran's revenue authority plan faces resistance | The Express Tribune

یعنی ایک طرف چور کرپٹ قوم ہے جو ٹیکس دینا نہیں چاہتی، دوسری طرف چور کرپٹ ٹیکس افسران ہیں جو ٹیکس لے کر بھی قومی خزانہ میں سارے کا سارا جمع کروانا نہیں چاہتے :)
لیکن پھر بھی اعتراض عمران خان پر ہوگا کہ وہ تبدیلی نہ لا سکا۔ خود کو بدلتے نہیں، کوئی بدلنے کی کوشش کرے تو شدید مزاحمت دکھاتے ہیں۔ اور جب ایسے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو سارا الزام حکومت پر دھر کر اگلے مسیحا کی تلاش شروع کر دیتے ہیں :)
 

فرقان احمد

محفلین
عمران خان کو اس وقت ٹیکس کلیکشن کے حوالہ سے دو دھاری تلوار کا سامنا ہے۔ ایک طرف وہ چور کرپٹ تاجرہے جو اپنی اصل معیشت ظاہر نہ کر کے سب کو چونا لگا رہا ہے۔ دوسری طرف وہ چور کرپٹ ٹیکس کولیکٹرز ہیں جو ایف بی آر میں کسی بھی قسم کے ریفارم کے خلاف ہیں۔
PM Imran's revenue authority plan faces resistance | The Express Tribune

یعنی ایک طرف چور کرپٹ قوم ہے جو ٹیکس دینا نہیں چاہتی، دوسری طرف چور کرپٹ ٹیکس افسران ہیں جو ٹیکس لے کر بھی قومی خزانہ میں سارے کا سارا جمع کروانا نہیں چاہتے :)
لیکن پھر بھی اعتراض عمران خان پر ہوگا کہ وہ تبدیلی نہ لا سکا۔ خود کو بدلتے نہیں، کوئی بدلنے کی کوشش کرے تو شدید مزاحمت دکھاتے ہیں۔ اور جب ایسے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو سارا الزام حکومت پر دھر کر اگلے مسیحا کی تلاش شروع کر دیتے ہیں :)
ٹیکس کولیکشن کے حوالے سے کم از کم خان صاحب کی سمت درست ہے تاہم اب وہ کچھ کمپرومائزز پر مجبور ہو گئے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔
 
Top