جاسم محمد

محفلین
تحریک انصاف کا اپوزیشن کے جواب میں ملک گیر جلسوں کا فیصلہ
احتشام بشیر 3 گھنٹے پہلے
1865763-pti-1572684386-794-640x480.jpg

جمہوری انداز میں اپوزیشن کا جواب دیں گے، شوکت یوسف زئی فوٹو: فائل


پشاور: پاکستان تحریک انصاف نے اپوزیشن جماعتوں کا جواب دینے کے لیے میدان میں آنے کا فیصلہ کرلیا اور اس سلسلے میں ملک بھر میں جلسوں کا انعقاد کیا جائے گا۔

جے یو آئی کے احتجاج کے بعد تحریک انصاف نے بھی ملک بھر میں جلسوں کے ذریعے جواب دینے کا فیصلہ کیا ہے، ان جلسوں سے وزیراعظم عمران خان خطاب کریں گے اور ملک بھر میں جلسوں کا انعقاد کیا جائے گا اور اسلام آباد میں ایک بار پھر پی ٹی آئی نے اپنے ورکرز کو اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا شوکت یوسف زئی نے رابطہ عوام مہم کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ہم جمہوری انداز میں اپوزیشن کا جواب دیں گے ہم بھی عوام کے پاس جارہے ہیں اور عوام کو بتائیں گے، اپوزیش جماعتیں اپنے بڑوں کی کرپشن چھپانے کے لیے مارچ کررہی ہے اگر اپوزیشن جمہوری انداز اپنانا چاہتی ہے تو پارلیمنٹ میں آئے اور عدم اعتماد پیش کرے، آج کے اجلاس میں جلسوں کے حوالے سے حکمت عملی اپنائی جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
مصالحت کا راستہ اختیار کریں
عبدالقادر حسن ہفتہ 2 نومبر 2019

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک ہڑتال پر چل رہا ہے ۔ہر طرف سے ہڑتال کی خبریں ہیں تاجر ہڑتال پر ہیں، ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں، آئل ٹینکر والے ملک میں تیل کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں اور سب سے بڑے ہڑتالی مولانا فضل الرحمن اسلام آباد پہنچ کر وفاقی دارالحکومت کو حکومت کے ہاتھوں بند کر کے ہڑتال کرا چکے ہیں۔

تادم تحریر مولانا فضل الرحمن کے دو اہم اتحادی بلاول بھٹو اور اسفندیار ولی اسلام آباد کے ادھورے جلسے سے تقریر کر کے اپنے اپنے حلقوں میں واپس جا چکے ہیں جب کہ نواز لیگ کے میاں شہباز شریف نے لاہور میں فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے خطاب کے بجائے اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کو ترجیح دی ہے ۔

جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تب تک مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کا نتیجہ سامنے آچکا ہو گا اس لیے اس پر فی الحال تبصرے کو موخر کرتے ہوئے ملک میں ہڑتالی تاجروں کا ذکر زیادہ اہم ہے جن کی وجہ سے ملک کی معیشت کا پہیہ گھومتا ہے ۔ تاجروں اور حکومت کے درمیان ایک معاہدے کے تحت حکومت کی جانب سے تاجروں پرلاگو کردہ کچھ شرائط ایک مخصوص وقت تک کے لیے موخر کر دی گئی ہیں یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ دونوں فریقین کی عزت بچ گئی ہے ۔

اگرچہ ہڑتال سے تاجروں اور حکومت دونوں کا نقصان ہوتا ہے لیکن عوام تاجروں اور حکومت دونوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں کیونکہ ہماری کاری گر بیوروکریسی نے حکومت کو جس بند گلی میں لاکر کھڑا کر دیا ہے اس سے نکلنے کا باعزت راستہ درکار ہے جو کہ وقتی طور پر باہمی مذاکرات سے نکال لیا گیا ہے لیکن حکومت کے سر پر کچھ وقت کے بعد دوبارہ تاجروں کی ہڑتال کا خدشہ ابھی منڈلا رہا ہے۔ ہڑتال کے مکمل خاتمے اورملک کی دگرگوں معیشت پر اس کے بھیانک اثرات کے ازالے کے لیے ہمیں مل جل کر بہت کچھ کرنا ہوگا۔ یہ ایک بہت مشکل کام ہے جو افہام و تفہیم سے سر انجام پا سکتا ہے احکامات سے نہیں ۔

تاجروں کی ہڑتال حکومت کی اپوزیشن کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہے اپوزیشن عوام کو یہ باور کرا رہی ہے کہ حکومت عوام کے مسائل میں کمی کے بجائے ان کو بڑھا رہی ہے ۔ تاجر حکومت چپقلش سے ملک کی معیشت کو جو نقصان ہورہا ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو اس صورت حال سے خوش ہو سکتے ہیں۔

جہاں تک ٹیکس دینے کا سوال ہے تو پوری قوم اس پر متفق ہے کہ تاجروں کو ٹیکس دینا چاہیے ۔ دنیا میں ہمیشہ سب سے زیادہ ٹیکس تاجر اور صنعتکار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے لیکن یہاں پاکستان میں معاملہ الٹ ہے تنخواہ دار ملازم ٹیکس زیادہ اداکرتے ہیں اور تاجر ان سے بہت کم۔ میں جو اپنے ملازمانہ حصے کا پورا ٹیکس ادا کرتا ہوں بلکہ زرعی آمدنی پر مجھ سے میرے حصے سے زیادہ ٹیکس اینٹھ لیا جاتا ہے یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ میرے ساتھ یہ زیادتی کیوں کی جاتی ہے اور ایک تاجر اور صنعتکار سے خصوصی رعایت کیوں برتی جاتی ہے۔

میں اپنی مثال کے ساتھ ان لاکھوں کاشتکاروں کی نمایندگی کر رہا ہوں جو میری طرح بہت زیادہ ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں ۔ مجھے ٹیکس وصول کرنے والوں کے ساتھ مک مکا کا موقع نہیں ملتا کیونکہ مجھ جیسے حقیر آمدنی والے آدمی سے انھیں کیا مل سکتا ہے وہ تو ان لوگوں کے ساتھ مک مکا کرتے ہیں جن سے وہ لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں۔

حکومت نے بالکل درست طور پرسرمایہ داروں سے ٹیکس کا مطالبہ کیا ہے لیکن یہ سب کام اس قدر ناسمجھی اور عجلت میں کیا گیا ہے کہ تاجروں نے ٹیکس کی رقم صارفین پر منتقل کر دی جس سے یکایک مہنگائی کا طوفان آگیا ہے اور عام آدمی اس سے براہ راست متاثر ہوا ہے۔ ٹیکسوںکی وجہ سے ملک کی معاشی زندگی میں بھونچال آیا ہوا ہے اور وہ معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی جس میں سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے ہیں۔ قومی زندگی کی اس بحرانی کیفیت پر ہر محب وطن پریشان ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک کے مختلف طبقات آئے دن کی ہڑتالوں کی وجہ سے پریشان ہیں وہاں حکومت شاید ان سے زیادہ پریشان ہے ۔

فریقین اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں ۔ ہڑتالی کاروباری زندگی کو رواں دواں رکھنا چاہتے ہیں حکومت بھی یہی چاہتی ہے مگر دونوں کے درمیان اعتماد کی خلیج پیدا ہو گئی ہے جو دن بدن وسیع ہوتی جارہی ہے ۔ فریقین اس خلیج کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن دونوں کی ضد اس کے آڑے آرہی ہے ۔ پاکستان کی معیشت کی بقاء کے اس مشکل وقت میں ہمیں اپنے اندر اتفاق و اتحاد پیدا کرنا پڑے گا کوئی باہر سے آکر ہمارے مسائل حل نہیں کرے گا بلکہ اگر کوئی باہر سے آیا بھی تو ہمارے مسائل میں مزید اضافہ ہی کرے گا۔ ہمیں خود ہی اس معاشی بحران سے نکلنے کی کوئی موثر تدبیر کرنا ہو گی ۔

ملک میں ہڑتالی کلچر کوئی معمولی بات نہیں دراصل ہماری حکومتوں نے اپنے عوام کی بات نہ سننے کی جو روایت ڈالی ہے اس روایت کے بعد ملک کے پسے ہوئے طبقات کے پاس ہڑتال کے سوا کوئی حل نہیں رہا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہڑتال ہی ان کے مسائل کا حل ہے ۔ ہڑتالوں کی وجہ سے پاکستان کا ہر شہری متاثر ہوتا ہے ۔ ایسے ملک میں جہاں پہلے ہی روزگار کی انتہائی قلت ہے ان ہڑتالوں کی وجہ سے روزگار بند ہو جاتاہے اور ہزارہا لوگوں کی توجان پر بن آتی ہے وہ روزگار کی بندش کے باعث فاقوں پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ علاوہ ازیں ان ہڑتالوں سے جو ملک کا نقصان ہوتا ہے اس کو پورا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔

حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ تاجروں پر ایسے ٹیکسوں کا نفاذ کریں جس سے عوام کم سے کم متاثر ہوں اور تاجروں کو بھی اپنی بے تحاشہ آمدن میں سے کچھ حصہ حکومتی خزانے میں جمع کرانے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا تا کہ اس نڈھال ملک میں زندگی کا پہیہ چلتا رہے ورنہ پورا ملک ایک نڈھال اور خستہ حال قوم کا ملک بن جائے گا ۔ بیرونی خطرات تو بڑی بات ہے اندرونی خطرات کے مقابلے کا متحمل بھی نہ ہو سکے گا ۔ اپنوں سے کیا ضد مصالحت کا راستہ اختیار کریں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ لیں مل گیا استعفیٰ۔۔۔


نہ تو وزیراعظم مستعفی ہوں گے اور نہ ہی نئے انتخابات ہوں گے، حکومت
ویب ڈیسک ہفتہ 2 نومبر 2019
1865426-pticorecommitteemeeting-1572669923-856-640x480.jpg

آزادی مارچ شرکاء جب تک چاہیں بیٹھیں، لیکن معاہدے کی خلاف ورزی کی تو قانون حرکت میں آئے گا، حکومت فوٹوفائل

بنی گالہ: وفاقی حکومت نے جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے مطالبات مسترد کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ نہ تو وزیراعظم مستعفی ہوں گے اور نہ ہی نئے انتخابات ہوں گے۔

بنی گالا میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں آزادی مارچ سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل طے کیا گیا۔

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے وزیراعظم کو اپوزیشن سے رابطوں پر بریفنگ دی اور آزادی مارچ سے نمٹنے کی تجاویز بھی پیش کیں۔ اجلاس کے دوران اہم فیصلے کیے گئے۔

کور کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ نہ تو وزیراعظم عمران خان مستعفی ہوں گے اور نہ ہی ملک میں نئے انتخابات ہوں گے، جبکہ امن و امان کی صورتحال خراب کرنے والے شرپسندوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

کور کمیٹی نے کہا کہ آزادی مارچ کے شرکاء جب تک چاہیں بیٹھے رہیں، لیکن اگر انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو قانون حرکت میں آئے گا۔ کور کمیٹی نے افواج پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کے اداروں کی تضحیک کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، سیاسی اور جمہوری جماعتیں آئین سے بغاوت کرتی ہیں اور نہ ہی اس کا درس دیتی ہیں، وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا بیان شرمناک اور قابل مذمت ہے۔

علاوہ ازیں بنی گالہ رہائش گاہ کے باہر سیکورٹی سخت کرتے ہوئے ایف سی جوان تعینات کردیے گئے اور داخلی و خارجی راستوں پر کنٹینر لگا دیے گئے جبکہ بکتر بند گاڑی بھی پہنچا دی گئی ہے۔

فردوس عاشق اعوان نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اراکین آج شام پارلیمنٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کریں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے، وزیراعظم کی وزارت داخلہ کو تیار رہنے کی ہدایت
اپوزیشن کے ساتھ حکومت نے معاہدہ کر کے انہیں جمہوری حق دیا لیکن اگر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا: وزیراعظم عمران خان
ایاز اکبر یوسف زئی ویب ڈیسک

وزیراعظم عمران خان نے آزادی مارچ کے دوران کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں وزارت داخلہ کو تیار رہنے کی ہدایت کر دی۔

گزشتہ روز آزادی مارچ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا تھا۔

اپوزیشن کی جانب سے بیانات سامنے آنے کے بعد اسلام آباد میں کئی مقامات پر سڑکوں کو کنٹینر لگا کر جزوی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ فیض آباد پر مری روڈ کی چار میں سے صرف ایک لائن ٹریفک کے لیے کھلی رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے وہاں ٹریفک کا شدید دباؤ ہے۔

آج حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی رہائش گاہ پر ہوا جس میں آزادی مارچ سے متعلق مذاکرات کی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی۔

اجلاس کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے بنی گالا میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کر کے اپوزیشن کے مطالبات کے حوالے سے بریفنگ دی۔

حکومت کا مولانا کے بیان کیخلاف عدالت جانے کا اعلان
207586_5100490_updates.jpg

جیو نیوز اسکرین گریب
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ و وزیردفاع پرویز خٹک کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وزیراعظم کے استعفیٰ پر کوئی بات نہیں ہوگی جب کہ حکومت مولانا فضل الرحمان کے بیان کے خلاف عدالت جائے گی۔

وزیردفاع کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے ایک معاہدہ کیا ہے اور آگے بڑھیں گے تو اپنے ہی کیے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کریں گے، ہم نے معاہدہ کیا، اس پر کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گراؤنڈ کا انتخاب اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے خود کیا تھا، ہم نے ان سے کہا تھا کہ گراؤنڈ سے متعلق فیصلہ انتظامیہ کرے گی، ہمارے رہبر کمیٹی سے اب بھی رابطے ہیں لیکن گزشتہ روز جلسے میں جو تقریریں کی گئیں، اس پر ہمیں افسوس ہوا ہے۔

معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا: وزیراعظم
مذاکراتی ٹیم سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے ساتھ حکومت نے معاہدہ کر کے انہیں جمہوری حق دیا لیکن اگر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم کا کہنا تھا کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتے، اور اپوزیشن کے غیر جمہوری اور غیر آئینی مطالبات تسلیم نہیں کر سکتے۔

ذرائع کا کہنا ہے عمران خان نے حکومتی کمیٹی کو رہبر کمیٹی سے بات چیت جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کے بعد آگاہ کیا جائےکہ اپوزیشن کون سا جمہوری حق مانگ رہی ہے۔

وزیراعظم نے اپوزیشن کی طرف سے استعفے کے مطالبے کو حماقت قرار دیتے ہوئے حکومتی کمیٹی کو ہدایت کی کہ اپوزیشن نے بلیک میل کرنے کی کوشش کی تو مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔

وزارت داخلہ کو تیار رہنے کی ہدایت
وزیراعظم عمران خان نے وزارت داخلہ کو تیاری مکمل رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے پرفوری کارروائی کی جائے۔

وزیراعظم کی رہائش گاہ پر سیکیورٹی بڑھا دی گئی
ذرائع کا بتانا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے گھر بنی گالہ کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

وزیراعظم کے بنی گالہ کے گھر کے راستے میں مزید کنٹینرز پہنچا دیئے گئے ہیں اور ایف سی کی اضافی نفری بھی بنی گالہ میں تعینات کر دی گئی ہے۔

چیئرمین سینیٹ کا نیئر حسین بخاری سے رابطہ
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے رہنما پیپلز پارٹی اور رہبر کمیٹی کے رکن نیئر حسین بخاری سے ربطہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق صادق سنجرانی نے رہبر کمیٹی سے مذاکرات کے لیے وقت مانگا جس پر نیئر حسین بخاری نے کہا کہ مذاکرات کرنے سے متعلق دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد آپ کو جواب دوں گا۔

اسپیکر قومی اسمبلی کا شہباز شریف اور میاں افتخار سے رابطہ
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو ٹیلی فون کر کے آزادی مارچ کے معاملات پر مذاکرات کے لیے بات چیت کی۔

ذرائع کا بتانا ہے اسد قیصر کا کہنا تھا معاملات مذاکرات کے ذریعے افہام و تفہیم سے حل کیے جائیں جس پر شہباز شریف نے کہا کہ اپوزیشن نے مذاکرات کا راستہ بند نہیں کیا۔ دونوں رہنماؤں نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اقدامات پر اتفاق کیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے رہنما عوامی نیشنل پارٹی میاں افتخار کو بھی ٹیلیفون کر کے آزادی مارچ پر بات چیت کی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز بھی مولانا فضل الرحمان کی طرف سےحکومت کے مستعفیٰ ہونے کے حوالے سے دو روز کی مہلت کے بارے میں اعلیٰ سطح پر غور کیا گیا اور ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اہم فیصلے کئے گئے۔

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس حکام نے بھی مارچ کے اگلے مرحلے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی طے کی۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت اس بات کا انتظار کرے گی کہ دو دن بعد مولانا فضل الرحمان کس لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہیں، اس کی روشنی میں حکومت اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے تمام سیکیورٹی اداروں پولیس، رینجرز اور ایف سی کو الرٹ کر دیا ہے جب کہ انتہائی اشد ضرورت میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے فوج کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت کی اعلیٰ شخصیات نے وزیر اعظم عمران خان کے استعفے پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور سیاسی طور پر بھر پور مقابلہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
 

آورکزئی

محفلین
بالکل۔ تحریک انصاف دھرنے کے وقت فوج ن لیگ حکومت کے پیچھے کھڑی تھی۔ کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا کہ ترجمان فوج نے اس وقت ایسا بیان کیوں دیا۔ آج جب فوج تحریک انصاف حکومت کے پیچھے کھڑی ہے تو سب کی چیخیں نکل رہی ہیں۔

افسوس کے علاوہ میں کچھ نہیں کرسکتا اپکے علم پہ
 

جاسم محمد

محفلین
کرسی ہے جنازہ تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اترو نیازی اور بھاگو
22 سال بعد کرسی ملی ہے۔ ایک سال بعد چھوڑ دیں؟ آپ کے مولانا 90 کی دہائی سے تمام حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ انہوں نے آج تک استعفیٰ دیا؟ دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت۔
 

فرقان احمد

محفلین
آزادی مارچ میں کی جانے والی اکثر تقریریں میڈیا پر نشر کیے جانے کے قابل نہیں ہیں۔ خان صاحب کو شاید چکھنے کے لیے ان کی میڈیسن دی جا رہی ہے۔ اُن کی بھی کیا عزت بچ رہی! افسوس، صد افسوس!
 

جاسم محمد

محفلین
آزادی مارچ میں کی جانے والی اکثر تقریریں میڈیا پر نشر کیے جانے کے قابل نہیں ہیں۔
اور پھر لنڈے کے لبرل ہی اعتراض کرتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا پر پابندیاں کیوں لگائی گئی ہیں۔ اب خود اعتراف کر رہے ہیں کہ تقریریں میڈیا پر نشر کرنے کے بھی قابل نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
اور پھر لنڈے کے لبرل ہی اعتراض کرتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا پر پابندیاں کیوں لگائی گئی ہیں۔ اب خود اعتراف کر رہے ہیں کہ تقریریں میڈیا پر نشر کرنے کے بھی قابل نہیں۔
جب ایسی تقریریں کرنے والا وزیراعظم بن سکتا ہے تو پھر جواز تو اُن کے پاس بھی ہے، لایعنی ہی سہی! ویسے کہیں خان صاحب کو یہ تقریریں سنوائی تو نہیں جاتی ہیں۔ وہ کچھ زیادہ ہی غصے میں معلوم ہوتے ہیں ان دنوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
خان صاحب کو شاید چکھنے کے لیے ان کی میڈیسن دی جا رہی ہے۔ اُن کی بھی کیا عزت بچ رہی!
عزت ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں مولانا کا خاص شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ ان کے توسط سے 70 سالوں کا سیاسی اور صحافتی کچرا ایک جگہ جمع ہو گیا ہے۔ اس سے قوم کو اپنے اچھے برے کی تمیز بھی صاف نظر آ گئی ہوگی۔
EIXe-L4l-Wk-AAIjs.jpg

EIUB0l-EXYAAG2id.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
جب ایسی تقریریں کرنے والا وزیراعظم بن سکتا ہے تو پھر جواز تو اُن کے پاس بھی ہے
عمران خان تو 1996 سے ایک جیسی تقریر ہی کر رہے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ قوم ، اسٹیبلشمنٹ اب کہیں جا کر ان کی طرف متوجہ ہوئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
گویا بد زبانی شرطِ اول ٹھہری صاحبانِ زرہ بکتر کو متوجہ کرنے کے لیے!
2013 الیکشن سے قبل عمران خان نے فوج اور ایجنسیوں کے خلاف کھلے عام بیانات دئے تھے۔ اس وقت عوام میں سیاسی لہر بھی تحریک انصاف کی چل رہی تھی۔ البتہ جو الیکشن نتائج سامنے آئے اس کے بعد ان کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ پاکستان جیسے ملک میں اقتدار خالی عوام کے کندھوں پر چڑھ کر نہیں ملتا۔ یوں 2014 دھرنے سے بوٹ پالش کرنے شروع کئے ۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
اسے ملک کی جمہوریت کی بدقسمتی و ناکامی ہی کہا جا سکتا ہے کہ 2013 میں سیاسی لہر تحریک انصاف کی تھی اور ن لیگ جیت گئی۔ اسی طرح 2018 میں سیاسی لہر ن لیگ کے ساتھ تھی اور پی ٹی آئی جیت گئی :)
 

الف نظامی

لائبریرین
مولانا کی ایک بات تو ماننے والی ہے کہ سب لبرل جماعتوں کو ساتھ ملا کر خود اپوزیشن لیڈر بن گئے۔
کون کہتا ہے مولوی کو سیاست نہیں آتی:)
 
Top