جاسم محمد

محفلین
ویسے وزیراعظم تو اب بھی باجوے ہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
EHUypq-XYAEI-zo.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور بریگیڈئیر اعجاز شاہ کی چھانگا مانگا مہارت
20/10/2019 اعزاز سید

جنرل پرویزمشرف کے عروج کے دنوں کی بات ہے۔ جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد ، جمعیت العلمائے اسلام ف کے مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں متحدہ مجلس عمل یا ایم ایم اے نے اس وقت خیبرپختونخواہ میں حکومت بنارکھی تھی۔ ظاہر ہے یہ حکومت پرویزمشرف کی مرضی سے ہی بنی تھی۔ مگر پرویز مشرف اور ایم ایم اے میں نوک جھونک اور فرینڈلی فائرنگ بھی ہوتی رہتی تھی۔ مشرف روشن خیال اعتدال پسندی کے حامی تھے تو ایم ایم اے کے زعما اسلام کے داعی۔

سال 2005ء تک ایک وقت ایسا آیا کہ متحدہ مجلس عمل پرویز مشرف کے خلاف ایسے کھل کرمیدان میں آئی کہ فوجی ڈکٹیٹرخود تلملا اٹھا۔ اس وقت آئی بی کے سربراہ بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) اعجاز شاہ کو طلب کرکے ایم ایم اے کا “بندوبست” کرنے کا حکم دیا گیا۔ شاہ جی نے آئی بی کے صوبہ سرحد سے ہی تعلق رکھنے والے ایک افسر کی ڈیوٹی لگائی ، ہوم ورک کیا گیا اوراسی کی روشنی میں پارلیمینٹ لاجزمیں ایک خاص قسم کی ایمبولینس کھڑی کروائی گِئی۔

بظاہر ایمبولینس دکھنے والی اس گاڑی میں دراصل خفیہ فلمبندی کرنے کا خصوصی نظام موجود تھا۔ ایک آپریشن کے ذریعے ایم ایم اے کے ایک سرکردہ رکن پارلیمینٹ کی پارلیمینٹ لاجز میں موجود سرکاری رہائشگاہ میں پہلے ہی خفیہ کیمرے نصب کیے جاچکے تھے۔ جونہی ایم ایم اے کے مذکورہ رہنما و رکن پارلیمینٹ نے مبینہ طور پراپنے تنہائی کے لمحات کو رنگین بنایا تو ساری رنگینی خفیہ کیمروں کے زریعے ریکارڈ کرلی گئی۔

مذکورہ رہنما کو اس کے مبینہ رنگین لمحات کی ریکارڈنگ کے بارے میں ایسے آگاہ کیا گیا کہ اس نے ایم ایم اے سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ کرتے بھی کیوں ناں ؟ شاہ جی نے کام ہی ایسا کیا تھا کہ مذکورہ رہنما ان کی ہدایات پرعملدرآمد نہ کرتا تو اسکی فلم اسکے عوامی تاثر اورمستقبل دونوں کا تیا پانچا کرڈالتی۔ ان دنوں راج نیتی کے تمام بھگوان پرویزمشرف کو سلام کرتے تھے وقت بدلا توبھگوان بھی بدل گئے اور مشرف کو گھر جانا پڑا۔

جس طرح پاکستان دنیا بھرسے مختلف ہے بالکل اسی طرح یہاں راج نیتی اور اس کے اصول بھی دنیا بھر سے مختلف ہیں۔ دنیا میں اہم فیصلے مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ کے احاطوں میں ہوتے ، بنتے اور بگڑتے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج ایک جمہوری حق کے طورپرتسلیم ہوتا ہے مگر پاکستان میں ان سب سے اوپر راج نیتی کے کچھ بھگوان بھی ہیں جو پلک جھپکتے میں پورا منظر نامہ تبدیل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ کسی زمانے میں پرویز مشرف کے لیے ایم ایم اے کے غبارے سے ایک فلم کے زریعے ہوا نکالنے والے آئی بی کے سربراہ بریگیڈئیررئٹائرڈ اعجازشاہ آج موجودہ حکومت کے وزیرداخلہ ہیں اور خاموشی سے اپنے پرانے گر آزما رہے ہیں۔

ایک زمانے میں عمران خان نوازشریف کو چھانگا مانگا کی سیاست پرطنزودشنام کرتے نہیں تھکتے تھے مگر حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ عمران خان کی حکومت میں مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے خلاف اسلام آباد کے چند مہنگے ہوٹلوں کو چھانگامانگا بنانا پڑ گیا ہے۔ ہوٹلوں میں ملک بھر کے کم و بیش پچیس ہزار مدارس کے نمائندے پانچ وفاق کے رہنماوں کو خصوصی دعوت دے کر بلایا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو رام کیا جائے اور اگر وہ رام نہ ہوں تو انہیں انہی کے مسلک کے رہنماوں کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ ان میں کچھ کراچی کے نامور عالم مفتی زرولی ایسے بھی ہیں جو سرکاری آلہ کاربننے کی بجائے اپنے ضمیرکا فیصلہ خود کرتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کے خلاف اسلام آباد میں بنائے جانے والے چھانگا مانگا میں سرکاری اشاروں پر ناچنے والے کچھ نام نہاد علما بڑی تعداد میں تشریف لارہے ہیں ان کی گراں ہوٹلوں میں خوب آوبھگت بھی کی جارہی ہے اور وزیراعظم سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کرائی جارہی ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ وزیرداخلہ نے خاموشی سے مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت العلمائے اسلام ف کی زیلی تنظیم انصار الاسلام جسے ڈنڈا بردار فورس کہا جارہا ہے پر بھی پابندی عائد کرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے اور چپکے سے ایک سمری وزارت قانون کے زریعے الیکشن کمشن آف پاکستان کو بھی بھیج دی گئی ہے۔

شاہ جی اندرخانے اپنا کام کر رہے ہیں کیونکہ وہ ایسے کاموں کے ماہر ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت کو مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ عوام کی اکثریت اس کے ساتھ ہے تو پھر اتنا خوف کیوں؟ اور اسلام آباد کو چھانگا مانگا بنانے کی کیا ضرورت ؟

سال 2014ء میں عمران خان اور طاہرالقادری کی طرف سے اس وقت کی نوازشریف حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا تو اسے ناکام بنانے میں اس وقت کے زیرک وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت آفتاب سلطان کی سربراہی میں آئی بی نے حکومت کو مطلح کیا تھا کہ دھرنے میں لاشیں گرا کراسکا الزام حکومت پردھرا جائے گا۔ اس کے جواب میں چوہدری نثارعلی خان نے فیصلہ کیا تھاکہ پولیس اسلحے کی بجائے صرف ڈنڈوں کے ہمراہ بلوئیوں کا مقابلہ کرئے گی۔ سچ یہ ہے کہ اس ایک فیصلے نے حکومت کی عزت بھی بچائی تھی اوردھرنا ناکام کرنے میں ایک کلیدی کرداربھی ادا کیا تھا۔

اس وقت کی نوازشریف حکومت کو راج نیتی کے بھگوانوں کی حمایت حاصل نہ تھی مگر اس سب کے باوجود اس وقت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی شاندار حکمت عملی اور آفتاب سلطان کی سربراہی میں آئی بی کی موثرکارکردگی نے دھرنا ناکام بنادیا تھا۔ آج دھرنا ناکام بنانے کی ذمہ داری حکومت اور وزیرداخلہ بریگیڈئیر اعجازشاہ کے زمے ہے جنہیں ہرطرح کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ غیر ذمہ داری یا غفلت کا مظاہرہ کرنے پر پیدا ہونے والے بحران میں بھگوان ناراض بھی ہو سکتے ہیں اور بھگوانوں کی ناراضگی راج نیتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسی نتیجے کا اب بھی توقع ہے۔۔۔ لیکن اخر کب تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
آپ حکومت کو گھر بھیج سکتے ہیں۔ فوج کو بیرکوں میں کیسے بھیجیں گے؟ 1958 سے اس کا کوئی قابل عمل حل کوئی سیاست دان سامنے نہیں لا سکا۔ آپ بھی کوشش کر لیں۔
 

آورکزئی

محفلین
آپ حکومت کو گھر بھیج سکتے ہیں۔ فوج کو بیرکوں میں کیسے بھیجیں گے؟ 1958 سے اس کا کوئی قابل عمل حل کوئی سیاست دان سامنے نہیں لا سکا۔ آپ بھی کوشش کر لیں۔

اپ نہیں ۔۔۔ ہم سب ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اپنے ہی حدود میں ہوتے اگر لیاقت علی خاں کو شہید نہیں کیا ہوتا۔۔۔ کاش وہ انتخابات کا اعلان کرچکا ہوتا۔۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
اپ نہیں ۔۔۔ ہم سب ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اپنے ہی حدود میں ہوتے اگر لیاقت علی خاں کو شہید نہیں کیا ہوتا۔۔۔ کاش وہ انتخابات کا اعلان کرچکا ہوتا۔۔۔۔۔۔
مذاکرات میں ناکامی پر حکومت کا فضل الرحمان کو نظربند کرنیکا فیصلہ
206898_5066370_updates.jpg

جے یو آئی ف کے کم و بیش 8 اعلیٰ رہنماؤں کو 16 ایم پی او کے تحت 30 تا 90 روز کیلئے نظربند کیا جاسکتا ہے: ذرائع_ فائل فوٹو

اسلام آباد:حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں مولانا فضل الرحمان کو نظر بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اعلیٰ سطح اجلاس میں حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کا دھرنا روکنے کا فیصلہ کیا ہے اگرچہ انہیں جے یو آئی ف کی اعلیٰ قیادت بشمول اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو نظر بند ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

وزارت داخلہ میں موجود اعلیٰ ذرائع نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کو 31 اکتوبر کے منصوبہ بند دھرنے سے قبل نظربند کیا جاسکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق فضل الرحمان کو اکتوبر کے آخری 4 روز ترجیحاً 26 اکتوبر کو گرفتار کیا جاسکتا ہے کیونکہ 25 اکتوبر کو جمعہ ہوگا اور حکومت جمعتہ المبارک سے قبل مولانا کو گرفتار کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی کیونکہ اگر انہیں جمعہ سے پہلے نظربند کیا گیا تو جے یو آئی ف مساجد کی طاقت استعمال کرسکتی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی ف کے کم و بیش 8 اعلیٰ رہنماؤں کو 16 ایم پی او کے تحت 30 تا 90 روز کیلئے نظربند کیا جاسکتا ہے جبکہ جماعت کے سرگرم کارکنوں کو وزارت داخلہ کی ہدایت پر صوبائی اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تیار کی گئی فہرستوں کے مطابق گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ انصار الاسلام پر پابندی کی سمری حتمی منظوری کیلئے وزیر اعظم کو بھجوا دی گئی ہےاور ممکنہ طور پر 26 اکتوبر کو انصار الاسلام پر پابندی لگادی جائے گی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایک ایسے وقت میں یہ کریک ڈاؤن جے یو آئی ف کے خلاف کثیر جہتی ہوگا جب جے یو آئی ف کی اعلیٰ قیادت نے اپنے منصوبہ بند مارچ اور دھرنا پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے، حکومت کے پاس امن برقرار رکھنے کیلئے سوائے تمام وسائل، اختیارات اور آپشنز استعمال کرنے کے کوئی اور آپشن نہیں رہ جاتا۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ جے یو آئی ف کی قیادت اور سرگرم کارکنوں کے حراستی کریک ڈاؤن کے دوران حکمت عملی کے تحت مخصوص علاقوں خصوصاً خیبر پختوانخوا اور جزوی طور پنجاب میں موبائل فون سروس معطل کردی جائے گی جبکہ وفاقی دارالحکومت میں فون سروس 30 اکتوبر کی نصف شب کے بعد معطل کی جائے گی جو 31 اکتوبر کو رات گئے بحال کی جائے گی۔ تاہم انتظامیہ صورتحال کے مطابق اس کا فیصلہ کرے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب حکومت خود حالات خراب کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپوزیشن کے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجویز زیر غور ہے، فضل الرحمٰن
جاوید حسیناپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2019

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ان کے حکومت مخالف 'آزادی مارچ' کہ تحت متعدد آپشنز زیر غور ہیں جن میں اپوزیشن کے قانون سازوں کی جانب سے اسمبلیوں سے استعفیٰ دیا جانا بھی شامل ہے۔

غیر ملکی میڈیا اداروں کو بریفنگ دیتے ہوئے فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'جمعیت علمائے اسلام (ف) موجودہ حکومتی جماعت کے 126 دن دھرنے کی پیروی نہیں کرے گی اور نہ ہی ایک میدان میں کارکنوں کو تھکائیں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ہم اسلام آباد پہنچتے ہیں تو حکمت عملی اور ہوگی اور اگر روکا جاتا ہے تو حکمت عملی اور ہوگی، یہاں تک کہ جیل بھرو تحریک کی جانب جایا جائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ان کی جماعت کسی ریاستی ادارے سے تصادم نہیں کرے گی تاہم نظریاتی اور کردار کی بنیاد پر آئین میں دی گئی حد کے تحت محاذ آرائی کریں گے'۔

سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ 'ملکی اداروں کو غیر جانبدار رہنا چاہیے اور کسی ریاستی ادارے کو نامزد حکومت کی پشت پر نہیں آنا چاہیے'۔


انہوں نے کہا کہ 'ہم اداروں سے جنگ کرنا نہیں چاہتے، اسی لیے کہہ رہے ہیں کہ ادارے اس تاثر کو زائل کریں کہ حکومت کو ان کی پشت پناہی حاصل ہے اور ان سے جو غلطی ہوئی ہے اس کی تلافی کریں'۔


مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 'حکومت ہر سطح پر ناکام ہوچکی ہے اور نئے شفاف انتخابات کے ذریعے ملک کو جمہوری ڈگر پر ڈالنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے'۔

ان کے بقول نئی منتخب حکومت کو نہ صرف عوام کا اعتماد حاصل ہوگا بلکہ عالمی دنیا بھی اسے احترام کی نگاہ سے دیکھے گی اور ملک کو مستقبل میں کامیابی کی طرف لے جایا جاسکے گا۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف مہم کے سلسلے میں 27 اکتوبر کو دارالحکومت اسلام آباد کی جانب مارچ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ 'آزادی مارچ نہ دھرنا ہے نہ لاک ڈاؤں بلکہ یہ تحریک ہے جو کہ موجودہ حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گی۔'

واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) سمیت زیادہ تر اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن کے 31 اکتوبر کو حکومت کے خلاف مارچ میں ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔

اپوزیشن نے اس سے قبل حکومت سے مذاکرات کرنے کو مسترد کرتے ہوئے ایک ہی مطالبہ کیا کہ مذاکرات اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک وزیر اعظم مستعفی نہ ہوجائیں۔

بعد ازاں اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد اعلان کیا گیا کہ حکومت نے اگر پرامن مارچ کی اجازت دی تو مذاکرات پر غور کیا جاسکتا ہے۔

آج اسلام آباد میں مقامی رہنماؤں کی آل پارٹیز کانفرنس میں واضح کیا گیا کہ 27 اکتوبر کو کوئی دھرنا نہیں ہوگا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا عبدالمجید ہزاروی کا کہنا تھا کہ 'ملک کے دیگر حصوں کی طرح 27 اکتوبر کو یوم یکجہتی کشمیر اور یوم سیاہ منایا جائے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں نیشنل پریس کلب کے باہر ایک بڑا مظاہرہ کریں گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر یہ بتا دیا کہ مولانا سے کون رابطے میں ہے اور کیا باتیں ہوئیں تو شیخ رشید کو نیند نہیں آئے گی: حامد میر
22/10/2019 نیوز ڈیسک

معروف صحافی حامد میر نے جعمیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بتا دیا کہ مولانا صاحب سے کس کس نے رابطے کئے اور کیا کیا باتیں ہوئیں تو شیخ رشید صاحب کو رات کو نیند نہیں آئے گی۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ شیخ رشید کو بتانا چاہئیے کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مذاکرات کون کر رہا ہے اور ان کے ساتھ رابطے میں کون ہیں؟

حامد میر کی اسی بات پر کرنل (ر) وسیم نےٹویٹ کیا کہ حامد میر صاحب کی اطلاعات یقیناً ہم سے زیادہ ہیں، کچھ باتیں تو ہمیں بھی پتہ ہیں اور ان میں موسٹ کنفرم یہ کہ مولانا سے کہا گیا ہے کہ یکم نومبر تک اسلام آباد تشریف نہ لائیں، یکم نومبر تک استعفیٰ آ جائے گا، اگر نہ آیا تو بے شک 2 نومبر کو مارچ لے کر آ جائیں، تمام ادارے غیر جانبدار رہیں گے۔

خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمن نے 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جس کی بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب حکومت خود حالات خراب کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپوزیشن کے مطالبے پر استعفیٰ نہیں دوں گا، وزیراعظم عمران خان
ویب ڈیسک ایک گھنٹہ پہلے
1853286-imrankhaninterviewcnnsaidtrumpnotbelivewar-1571837747-366-640x480.jpg

ایسالگتاہے مولانافضل الرحمان کے پیچھے بیرونی قوتیں ہیں، وزیراعظم ۔ فوٹو: فائل


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ اپوزیشن کے مطالبے پر میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے سینر اینکرز نے ملاقات کی، ملاقات کے موقع پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے مولانا فضل الرحمان کے پیچھے بیرونی قوتیں ہیں، ان کا چارٹر آف ڈیمانڈ واضح نہیں پھر بھی ہم آزادی مارچ کی اجازت دیں گے، لیکن میں واضح الفاظ میں کہتا ہوں کہ اپوزیشن کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دوں گا۔

پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے دھرنے میں فرق

اپوزیشن کے دھرنے کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے دھرنے اور مولانا فضل الرحمان کے مارچ میں بڑا فرق ہے، ہم نے تمام آپشن استعمال کرنے کے بعد سٹرکوں کارخ کیا ، مولانا نے سٹرکوں پر آنے سے پہلے کون سافورم استعمال کیا؟ مولانا کے مارچ کی وجہ سے توجہ کشمیر سے ہٹ رہی ہے، سوچنا چاہئے اس میں کس کا فائدہ ہے، ابھی مذاکرات کررہے ہیں باقی آپشن بعد میں دیکھیں گے۔

’اپوزیشن کا ایک ہی مسئلہ‘

وزیر اعظم کا ایک سوال پر کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آرہا کہ اپوزیشن چاہتی کیاہے، ان کا ایک ہی مسئلہ ہے، اور وہ این آر او ہے، گرفتار رہنماؤں کو آج باہر جانے کی اجازت دوں تو زندگی اور حکومت آسان ہو جائے گی۔

’آرمی چیف کو کہا ہے فوج کو تیار رکھیں‘

وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت پلوامہ جیسا ایک اور ڈرامہ رچاسکتا ہے، اس حوالے سے آرمی چیف کو کہا ہے کہ فوج کو مکمل طور پر تیار رکھیں، بھارت نے کوئی بھی جارحیت کی تو بھرپور جواب دیں گے۔

’مسئلہ کشمیر‘

مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر دنیا کی طرف سے تاریخی ردعمل آرہاہے، بھارت اب کشمیر میں بری طرح پھنس چکاہے، شروع میں ہمیں کشمیر کے معاملے پر عالمی سپورٹ نہیں ملی لیکن آج کشمیر کامسئلہ انٹرنیشلائز ہوچکاہے، یہ معاملہ مغربی میڈیا میں آنے کے بعد زیادہ نمایاں ہوا، ہم کشمیر کے حوالے سے میڈیا سنٹر بنارہے ہیں۔

نوازشریف کی بیماری

نوازشریف کی طبیعت کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شہبازشریف کہتے ہیں نوازشریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار عمران خان ہوں گے، نوازشریف کی صحت کا معاملہ میرے ہاتھ میں نہیں اور نہ ہی میں کوئی عدالت یا ڈاکٹر ہوں، نوازشریف کے بیرون ملک علاج کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، اور اگر مریم نواز نے ملاقات کرنی ہے تو وہ فیصلہ بھی عدالت کرے گی، میں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو ہدایت کردی ہے کہ نوازشریف کو بہترین سہولیات فراہم کریں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نیازی ایک ایسا لیڈر ہے جو بات وہ کرتا نہیں وہ کام کرتا ہے۔۔۔
اور جو کام کرتا نہیں وہ کہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
آرمی چیف سے فضل الرحمٰن کی ملاقات کا انکشاف
692810_8047917_10_akhbar.jpg


اسلام آباد (صالح ظافر) جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی اور آزادی مارچ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ اس بات کا انکشاف بدھ کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اینکر کی جانب سے کیا گیا۔

مذکورہ اینکر اُن صحافیوں میں شامل تھے جنہوں نے دیگر صحافیوں کے ہمراہ وزیراعظم سے ملاقات کی تھی۔ مذکورہ اینکر کے مطابق، مولانا فضل الرحمٰن اور آرمی چیف کی ملاقات چند روز قبل ہوئی تھی جب انہوں نے آزادی مارچ کا اعلان کیا تھا۔ پروگرام کے شریک میزبان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف نے مولانا کو یقین دہانی کرائی کہ وہ جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم وہی کر رہے ہیں جو آئین ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو آرمی چیف نے یاد دہانی کرائی کہ وہ ایک ذمہ دار سیاسی رہنما ہیں اور انہیں خطے کی صورتحال کا اندازہ ہونا چاہئے کہ یہ کتنی پریشان کن ہے۔

کشمیر کے حالات کی وجہ سے بارڈر پر صورتحال کشیدہ ہے۔ آرمی چیف نے ایران سعودی عرب تعلقات کا بھی حوالہ دیا اور مولانا سے کہا کہ یہ دھرنے کیلئے درست وقت نہیں کیونکہ ملکی معیشت کو دن رات محنت سے درست سمت کی طرف لیجایا گیا ہے۔ پروگرام کے شریک میزبان کے مطابق، آرمی چیف نے واضح کیا کہ وہ اس وقت کسی بھی طرح کے عدم استحکام کی اجازت نہیں دیں گے۔ آرمی چیف نے مائنس عمران کے امکانات کو بھی مسترد کر دیا کیونکہ وہی آئینی وزیراعظم ہیں۔

انہوں نے مولانا کو بتایا کہ آپ اور نہ ہی میں انہیں مائنس کر سکتے ہیں۔ شریک میزبان کے مطابق، آرمی چیف نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر مولانا نے احتجاج پر اصرار کیا تو کچھ اور لوگ مائنس ہو سکتے ہیں۔

استحکام کیلئے اگر جانی نقصان ہوا اور آئین اس کی اجازت بھی دیتا ہے تو ایسے کسی بھی اقدام سے نہیں ہچکچائیں گے۔آرمی چیف کے ساتھ اس ملاقات کے حوالے سے موقف معلوم کرنے کیلئے مولانا دستیاب نہیں تھے۔

پروگرام کے شریک میزبان نے مزید دعویٰ کیا کہ مولانا نے ایک روز قبل مارچ کیلئے آشیرباد کے حصول کیلئےکسی شخص کو فون کال کی تھی اور ساتھ ہی یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ دھرنا نہیں دیں گے اور کوئی عوامی اجتماع نہیں ہوگا، لیکن انہیں صرف مارچ کیلئے اجازت دی جائے۔ شریک میزبان کا کہنا تھا کہ مولانا کو ایسا کرنے سے سختی سے منع کر دیا گیا۔

شریک میزبان نے اس شخص کا نام نہیں بتایا جسے مولانا نے فون کال کی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مولانا کے حوصلے پست ہو رہے ہیں کیونکہ حکومت نے گزشتہ چار سے پانچ روز کے دوران اپنے آپشنز دانشمندی سے استعمال کیے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف اور بلاول کی فضل الرحمان کو آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کی یقین دہانی
207098_2434995_updates.jpg

فضل الرحمان نے نواز شریف اور بلاول سے ٹیلی فونک رابطہ کیا، چیئرمین پیپلز پارٹی کے پوچھنے پر مشورہ دیا کہ وہ سکھر سے آزادی مارچ میں شرکت کریں، اعلامیہ جے یو آئی— فوٹو۔ فائل

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ۔ ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کی یقین دہانی کرادی۔

جے یو آئی ف کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سے علیحدہ علیحدہ ٹیلی فونک رابطہ کیا۔

اعلامیے کے مطابق نواز شریف سے ٹیلی فونک گفتگو میں مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف کی خیریت دریافت کی اور ان کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کی۔


اعلامیہ جے یو آئی کے مطابق نواز شریف نے آزادی مارچ میں کارکنان کی بھرپور شرکت کا اعادہ کیا، شدید خرابی صحت کے باوجود مارچ کی بھر پور حمایت پر مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف سے اظہار تشکر بھی کیا۔

جے یو آئی کے مطابق نواز شریف سے مولانا فضل الرحمان کا رابطہ شہباز شریف کی وساطت سے ہوا۔

مولانا میں کہاں سے آزادی مارچ میں شرکت کروں؟ بلاول کا استفسار
207098_6431204_updates.jpg

بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی آزادی مارچ سے پہلے ملاقات کا بھی امکان ہے— فوٹو: فائل

علاوہ ازیں مولانا فضل الرحمان نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور آزادی مارچ پر تبادلہ خیال کیا۔

اعلامیے کے مطابق بلاول بھٹوزرداری نے مولانافضل الرحمان کو آزادی مارچ میں شرکت کی یقین دہانی کرائی۔


جے یو آئی کے اعلامیے کے مطابق بلاول نے مولانا سے سوال کیا کہ ’میں آزادی مارچ میں کہاں سے شرکت کروں؟‘۔

اس پر مولانا فضل الرحمان نے بلاول کو مشورہ دیا کہ وہ سکھر سے آزادی مارچ میں شرکت کریں۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی آزادی مارچ سے پہلے ملاقات کا بھی امکان ہے۔


بلاول نے مولانا سے کہا ہے کہ وہ کل یا پرسوں لاڑکانہ آرہے ہیں اور وہیں ان سے ملاقات کریں گے۔

یاد رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 27 اکتوبر سے حکومت کیخلاف آزادی مارچ کا اعلان کررکھا ہے جو 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا۔

اس مارچ کی جماعت اسلامی کے علاوہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے حمایت کی ہے جبکہ آزادی مارچ کے اعلان کے بعد سے ہی ملک میں سیاسی گرما گرمی میں اضافہ ہوگیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جے یو آئی کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کو کالعدم قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری
207102_7619390_updates.jpg

وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو بھی انصار الاسلام کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے ،فوٹو:ٹوئٹر

وفاقی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کو کالعدم قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق نجی ملیشیا کا قیام آئین کے آرٹیکل 256 کی خلاف ورزی ہے،جے یو آئی ف کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام قانون کی خلاف ورزی کا سبب بن سکتی ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو بھی انصار الاسلام کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔


واضح رہے کہ تین روز قبل وفاقی کابینہ نے جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی منظوری دی تھی۔

قبل ازیں وزارت داخلہ کی جانب سے انصار الاسلام کو کالعدم قرار دینے کیلئے وزارت قانون اور الیکشن کمیشن کو بھیجی گئی سمری میں کہا گیا تھا کہ جے یو آئی (ف) کی ذیلی تنظیم لٹھ بردار ہے اور قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، قانون میں کسی قسم کی مسلح ملیشیا کی اجازت نہیں۔

خیال رہے کہ چند روز قبل جے یو آئی (ف) کے باوَردی محافظ دستے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان محافظ دستے سے سلامی لے رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت نے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جے یو آئی ف کے محافظ دستے کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کیا تھا۔

یاد رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کررکھا ہے جس کی جماعت اسلامی کے علاوہ تمام اپوزیشن کی جماعتوں نے حمایت کی ہے جبکہ آزادی مارچ کے اعلان کے بعد سے ہی ملک میں سیاسی گرما گرمی میں اضافہ ہوگیا ہے۔

دوسری جانب وفاقی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (جی یو آئی-ف) کو آزادی مارچ کی مشروط اجازت دے دی ہے لیکن انتظامیہ اور پولیس کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ جاری ہیں۔


اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے ڈی چوک پر کنٹینر لگا کر راستے بند کردیے ہیں جبکہ 400 سے زائد کنٹینرز سڑکوں پر موجود ہیں جنہیں مارچ کے راستوں پر لگایا جائے گا۔

آزاد کشمیر، خیبرپختونخوا اور پنجاب سے اضافی پولیس نفری بھی اسلام آباد طلب کرلی گئی ہے جبکہ راولپنڈی پولیس نے 3 ہزار اضافی اہلکار طلب کرلیے ہیں۔
 
خیال رہے کہ چند روز قبل جے یو آئی (ف) کے باوَردی محافظ دستے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمان محافظ دستے سے سلامی لے رہے ہیں۔
فضل ڈیزل خود کو سپہ سالار تو نہیں سمجھ بیٹھا۔۔
میں بھی اسے سلامی دے سکتا ہوں پر انگلیاں کھول کر۔۔۔;)
 
Top