مولانا فضل الرحمان کا 27 اکتوبر کو حکومت مخالف مارچ کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
مولانا اپنی ڈوبتی ہوئی سیاست بچانے کی کوشش میں ہیں، وزیراعظم
205938_865634_updates.jpg

فضل الرحمان مدارس اصلاحات پر پریشان ہیں، اصلاحات ہو گئیں تو مدارس کے طلباء کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکے گا، عمران خان— فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان مدارس اصلاحات پر پریشان ہیں، اصلاحات ہوگئیں تو مدارس کے طلبہ کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکے گا، مولانا اپنی ڈوبتی ہوئی سیاست بچانے کی کوشش میں ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں ملک کی معاشی و سیاسی صورتحال پر غور کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین، چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں پر پیشرفت پر بات چیت کی گئی۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں مولانا فضل الرحمان کی طرف سے آزادی مارچ کے اعلان پر بھی گفتگو ہوئی۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اپنی ڈوبتی سیاست بچا رہے ہیں، مولانا فضل الرحمان مدارس اصلاحات پر پریشان ہیں، اصلاحات ہو گئیں تو مدارس کے طلباء کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ احتساب کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، حکومت عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرے گی۔

اجلاس میں مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پراجلاس کو بریفنگ دی۔ شرکاء نے رائے دی کہ مولانا فضل الرحمان شوق سے اسلام آباد آئیں، امید ہے مولانا فضل الرحمان 27 اکتوبر کی تاریخ نہیں بدلیں گے۔

خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت 27 اکتوبر سے حکومت کیخلاف اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرے گی۔

پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے مشاورت کیلئے وقت مانگا تھا جبکہ آج چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی دھرنے کے علاوہ ہر سطح پر مولانا کے ساتھ ہو گی، مولانا کے مارچ کی حمایت کی نوعیت پر فیصلہ پارٹی کرے گی لیکن اگرشک ہوا کہ مولانا کسی قوت کے اشارے پر ہیں تو اپنی حمایت واپس لے لیں گے۔

فضل الرحمان حکومت کیخلاف کیوں دھرنا دینا چاہتے ہیں؟
25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان سمیت کئی بڑے ناموں کو شکست ہوئی جس کے فوراً بعد جے یو آئی ف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا۔

19 اگست 2019 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اسلام آباد میں ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کمر کے درد اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔

اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں ملک کو مختلف بحرانوں سے دوچار کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال انتہائی ابتر ہے، معاشی بدحالی سے روس ٹکرے ہوگیا اور ہمیں ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان ہے، ملک کا ہر طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کل تک ہم سوچ رہے تھے، سری نگر کیسے حاصل کرنا ہے؟ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کیسے بچانا ہے؟ عمران کہتا تھا مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا، موجودہ حکمران کشمیر فروش ہیں اور ان لوگوں نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے الزام عائد کیا کہ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران اس کا حصہ ہیں، جب تک میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا تو کشمیر کو کوئی نہیں بیچ سکا لیکن میرے جانے کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق کیا ہے کہ سب اکٹھے اسلام آباد آئیں گے اور رہبر کمیٹی ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ دے گی تاکہ جب اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہو۔

فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 26 اگست کو رہبر کمیٹی اور 29 اگست کو اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی کانفرنس ہوگی، اپوزیشن آج سے حکومت کے خلاف تحریک کی طرف بڑھ رہی ہے، ان حکمرانوں کو ہٹانے کیلئے قوم ہمارا ساتھ دے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے لاک ڈاؤن میں عوام آئیں گے، انہیں کوئی نہیں اٹھا سکتا، ہمارے لوگ عیاشی کیلئے نہیں آئیں گے اور ہر سختی برداشت کرلیں گے۔
 

فاخر

محفلین
یاد رکھیں! گزشتہ دنوں ’’یوتھیوں‘‘ کے اس عظیم الشان لیڈر کو بھی یہی سننا پڑتا تھا ، جب وہ حکومت کیخلاف طاہر القادری صاحب کے ساتھ پورے ملک میں احتجاج کررہے تھے۔ اقتدار میں جو ہوتا ہے وہ اسی زبان کا استعمال کرتا ہے۔ کل یہ زبان لیگ والے بولا کرتے تھے اب خان صاحب بول رہے ہیں ۔لیگیوں کا کیا انجام ہوا؟ دنیا دیکھ رہی ہے۔ کوئی ایک تقریر سے ’آنکھ کا تارا‘ نہیں بن سکتا ہے بھائی! انہیں مولانا صاحب سے ڈر ہے یا پھر عوام سے ؟
 

آورکزئی

محفلین
ہاہاہا۔۔۔ چلیں دیکھتے ہیں۔۔۔ ویسے نیازی یوٹرن نہیں لے گا ۔۔۔ کنٹینرز بھی دے اور کھانے کا بندوبست بھی کرے گا۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مولویوں اور ملاؤں کی طرف سے کنٹینر مانگنے کا مطالبہ تاریخ میں پہلی بار سامنے آیا ہے، باقی کھانا مانگنا تو خیر۔۔۔۔۔۔۔۔! :)
 
یاد رکھیں! گزشتہ دنوں ’’یوتھیوں‘‘ کے اس عظیم الشان لیڈر کو بھی یہی سننا پڑتا تھا ، جب وہ حکومت کیخلاف طاہر القادری صاحب کے ساتھ پورے ملک میں احتجاج کررہے تھے۔ اقتدار میں جو ہوتا ہے وہ اسی زبان کا استعمال کرتا ہے۔ کل یہ زبان لیگ والے بولا کرتے تھے اب خان صاحب بول رہے ہیں ۔لیگیوں کا کیا انجام ہوا؟ دنیا دیکھ رہی ہے۔ کوئی ایک تقریر سے ’آنکھ کا تارا‘ نہیں بن سکتا ہے بھائی! انہیں مولانا صاحب سے ڈر ہے یا پھر عوام سے ؟
اور آپ کیا ہیں ؟ ہندوستانی، پاکستانی، یوتھیے، پٹواری، ساتھی، جیالے ؟؟؟؟؟؟ کسی چیز کی وضاحت تو کریں ۔:p
 

جاسم محمد

محفلین
اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام ادارے حکومت کی پشت پناہی بند کریں، مولانا فضل الرحمان
ویب ڈیسک ہفتہ 5 اکتوبر 2019
1831253-FazlurRehmanWeb-1570257268-455-640x480.jpg

ہماری جنگ حکومت کے خاتمے پر ہی ختم ہوگی جس کا میدان پورا ملک ہوگا، مولانا فضل الرحمان فوٹو:فائل


پشاور: جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام ادارے حکومت کی پشت پناہی بند کریں اور ہماری جنگ حکومت کے خاتمے پر ہی ختم ہوگی جس کا میدان پورا ملک ہوگا۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پشاورمیں پارٹی کے صوبائی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہماری جنگ حکومت کے خاتمے پر ہی ختم ہوگی اور پورا ملک جنگ کا میدان ہوگا، اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اداروں سے کہنا چاہتا ہوں ناجائز حکومت کی پشت پناہی کرنا بند کریں، ہم پالیسی بیان دے چکے ہیں اداروں سے ہمارا کوئی تصادم نہیں ہے، حکومت اقتدار چھوڑ دے اور فوری طور پر نئے انتخابات کرائے جائیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مدارس میں انعامات تقسیم کرکے عمران خان کو کوئی پذیرائی نہیں ملے گی،جن کے دھرنوں میں شیر خوار بچوں کو لایا گیا وہ مدارس کے بچوں کی بات کرتے ہیں، حکومت کا مدارس والا کارڈ فیل ہوچکا اور ہمارے مدارس حکومت کا اثر نہیں لے رہے، مدرسوں کا معاملہ اٹھا کر حکومت بین الاقوامی حمایت لینا چاہتی ہے، مدارس کےطلبہ میں انعامات تقسیم کرکےہمیں کاؤنٹرکرنےکی کوشش کی، احتجاج میں مدارس کے طلبہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت معاشی لحاظ سےڈوب رہاہے، روزگار کے مواقع ختم ہورہے ہیں، اس جعلی کشتی کے تباہ ہونے کاوقت آگیاہے، ہم 27 اکتوبر سے آزادی مارچ کاآغاز کریں گے جوجاری رہے گا، اسلام آباد پہلا پڑاؤ ہے جس کے بعدپلان بی اورسی بھی دینگے، اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہیں گے۔

جے یو آئی کے سربراہ نے مزید کہا کہ یہ ناجائز اورنااہل حکومت ہے جسے اب جانا ہوگا، ہم اپوزیشن پارٹیوں کو اس جنگ میں شامل دیکھناچاہتے ہیں، جب میدان میں اتریں گے توگرفتاریوں کی پرواہ نہیں ہوگی، لیکن گرفتاریوں سے مزید اشتعال پیداہوگا، کیونکہ قیادت جیل میں ہوگی تو کارکن کو کون کنٹرول کریگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکمرانوں کو مزید وقت دیا تو وہ ملک کو تباہی کی طرف دھکیل دیں گے، مولانا فضل الرحمان
ویب ڈیسک 28 منٹ پہلے
1833364-sehrasajanaykamoqa-1570441746-695-640x480.jpg

تمام طبقات موجودہ حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرچکے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن


پشاور:

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ تمام طبقات موجودہ حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرچکے اور ہماری جنگ ملک دشمن پالیسی سازوں سے ہے۔

جے یو آئی (ف) کی صوبائی مجلس شوریٰ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم آئین اور قانون کے دائرے میں پرامن احتجاج کررہے ہیں، آئین کی اسلامی شقوں کا تحفظ، دوبارہ انتخابات، اور وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا مشترکہ بیانیہ ہے جس پر سب نے اتفاق کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ حکومت نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا، تمام طبقات حکومت کی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، حکمرانوں کو مزید وقت دیا گیا تو وہ ملک کو تباہی کی طرف دھکیل دیں گے، دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے جاری ہیں، وہ آزاد مارچ میں شریک ہوں گی۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ اور حکومت کشمیر پر اپنا مقدمہ پیش کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، کشمیر پر خفیہ سودے بازی سے ہمیں قریبی دوست ممالک کے ووٹ بھی نہ ملے۔
 

جاسم محمد

محفلین
رہبر کمیٹی میں شامل اپوزیشن جماعتوں کا مولانا کے آزادی مارچ میں شرکت کا فیصلہ
206176_1216153_updates.jpg

رہبر کمیٹی نے حکومت سے فوری طور پر مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا— فوٹو:فائل

آزادی مارچ کیلئے اپوزیشن کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں حکومت سے فوری طور پر مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا گیا۔

علاوہ ازیں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی زیر صدارت پیپلزپارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس بدھ کو کراچی میں ہوگا جس میں آزادی مارچ سمیت دیگر اہم امور پر لائحہ عمل مرتب کیا جائےگا۔

اپوزیشن کی 9 سیاسی جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے اہم فیصلے کرلیے جبکہ چار نکات پر بھی اتفاق ہو گیا۔

پہلا نکتہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں، دوسرا نکتہ حکومت گھر جائے، تیسرا نکتہ نئے انتخابات کرائے جائیں جس میں فوج کا عمل دخل نہ ہو اور چوتھا نکتہ آئین میں موجود اسلامی شقوں کا مکمل دفاع کیا جائے گا۔

رہبر کمیٹی میں شامل تمام اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کے 27 اکتوبر کے آزادی مارچ میں بھی بھر پور شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی آزادی مارچ میں شرکت کی تصدیق کی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری کا کہنا تھا سب کی تیاریاں بھی ہو چکیں، مگر اس وقت حکمت عملی کے تحت ساری باتیں نہیں بتائی جاسکتیں۔

ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے یہ بھی طے کر لیا ہے کہ کس جماعت کا کون سا مرکزی لیڈر آزادی مارچ میں کس مقام سے شریک ہوگا اور کہاں کہاں سے قافلے شامل ہوں گے۔

مطالبات کے اعلان کا اختیار مولانا فضل الرحمان کو دیا گیا ہے۔

رہبر کمیٹی
اپوزیشن کی رہبر کمیٹی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دو، دو جب کہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کا ایک ایک نمائندہ شامل ہے۔

رہبر کمیٹی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے یوسف رضاء گیلانی، نیئر بخاری ممبر تھے تاہم یوسف رضا گیلانی کی جگہ فرحت اللہ بابر نے اجلاس میں شرکت کی۔

اس موقع پر صحافی نے فرحت اللہ بابر سے سوال کیا کہ آپ تو ممبر نہیں ہیں جس پر ان کا بتانا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کی جگہ انہیں کمیٹی کا ممبر بنایا گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی جانب سے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال رہبر کمیٹی کے ممبر ہیں جب کہ جعمیت علماء اسلام (ف) سے اکرم خان درانی اور نیشنل پارٹی سے میر حاصل بزنجو کمیٹی میں شامل ہیں۔

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سے عثمان کاکڑ، قومی وطن پارٹی سے ہاشم بابر، اے این پی سے میاں افتخار، مرکزی جمعیت اہلحدیث سے شفیق پسروری اور جمعیت علماء پاکستان سے اویس نورانی رہبر کمیٹی کے ممبر ہیں۔

فضل الرحمان حکومت کیخلاف کیوں دھرنا دینا چاہتے ہیں؟
25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان سمیت کئی بڑے ناموں کو شکست ہوئی جس کے فوراً بعد جے یو آئی ف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا۔

19 اگست 2019 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اسلام آباد میں ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کمر کے درد اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔

اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں ملک کو مختلف بحرانوں سے دوچار کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال انتہائی ابتر ہے، معاشی بدحالی سے روس ٹکرے ہوگیا اور ہمیں ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان ہے، ملک کا ہر طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کل تک ہم سوچ رہے تھے، سری نگر کیسے حاصل کرنا ہے؟ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کیسے بچانا ہے؟ عمران کہتا تھا مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا، موجودہ حکمران کشمیر فروش ہیں اور ان لوگوں نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے الزام عائد کیا کہ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران اس کا حصہ ہیں، جب تک میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا تو کشمیر کو کوئی نہیں بیچ سکا لیکن میرے جانے کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق کیا ہے کہ سب اکٹھے اسلام آباد آئیں گے اور رہبر کمیٹی ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ دے گی تاکہ جب اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہو۔

فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 26 اگست کو رہبر کمیٹی اور 29 اگست کو اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی کانفرنس ہوگی، اپوزیشن آج سے حکومت کے خلاف تحریک کی طرف بڑھ رہی ہے، ان حکمرانوں کو ہٹانے کیلئے قوم ہمارا ساتھ دے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے لاک ڈاؤن میں عوام آئیں گے، انہیں کوئی نہیں اٹھا سکتا، ہمارے لوگ عیاشی کیلئے نہیں آئیں گے اور ہر سختی برداشت کرلیں گے۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کھل کر مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا تاہم دونوں جماعتیں مولانا کی اخلاقی حمایت کررہی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت دھرنے کی سیاست اور اسلام کے نام پر سیاست کرنے کے خلاف ہیں تاہم اگر کچھ تحفظات دور ہوجائیں تو ان کی پارٹی مولانا کے دھرنے میں شامل ہوسکتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلا نکتہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دیں، دوسرا نکتہ حکومت گھر جائے، تیسرا نکتہ نئے انتخابات کرائے جائیں جس میں فوج کا عمل دخل نہ ہو اور چوتھا نکتہ آئین میں موجود اسلامی شقوں کا مکمل دفاع کیا جائے گا۔
چوتھے نکتے پر کچھ حاصل ہو سکتا ہے۔ پہلے تین نکات میں سوائے بند گلی کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
 

فرقان احمد

محفلین
دراصل یہ احتجاج فوج پر دباؤ بڑھانے کی ایک تدبیر معلوم ہوتا ہے۔ جنرل باجوہ کے خلاف بھی کچھ نہ کچھ کھچڑی اندر کھاتے پک رہی ہو گی۔ اسلام آباد ایک ہفتے کے لیے بند ہوا تو کچھ نہ کچھ دباؤ تو متعلقہ اداروں پر پڑے گا اور خان صاحب کی من موجیوں اور بڑبولیوں کو بھی کچھ لگام پڑے گی۔ دھرنا سیاست کو ختم ہو جانا چاہیے اس لیے اس احتجاج کی حمایت کرنا اصولی طور پر غلط ہے۔ ہاں مگر ، اس کا کیا علاج کہ خان صاحب کی حالت یہ ہے کہ آ بیل مجھے مار۔ اگر وہ احتسابی اداروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے دیتے اور مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے سے دانستہ طور پر گریز کرتے اور ان کے نام لے کر انہیں جیل میں ڈالنے کے اعلانات نہ کرتے پھرتے تو مناسب رہتا۔
 
Top