ہم کو حالات کی دلدل سے نکلنا ہو گا---برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
---------
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
----------
ہم کو دنیا کے تقاضوں کو سمجھنا ہو گا
پھر محبّت سے زمانے کو بدلنا ہو گا
---------------
دل محبّت سے بدلتے ہیں ہمیشہ لوگو
ہم کو نفرت کے خیالوں کو کچلنا ہو گا
---------------
ہم جو حالات کی دلدل سے نکلنا چاہیں
اپنے جینے کے طریقوں کو بدلنا ہو گا
-------------
خود کو بدلیں گے تو حالات تبھی بدلیں گے
سب کو چادر کے مطابق ہی سمٹنا ہو گا
------------
آج ممکن ہی نہیں دنیا میں تنہا رہنا
دل میں نفرت کو محبّت سے بدلنا ہو گا
------------
بیج نفرت کا جو بوئے ہےہمارا دشمن
اُس کی حرکت کا جو مقصد ہے ،سمجھنا ہو گا
-------------
ہم جلائیں گے محبّت کے چراغوں کو اب
روشنی بن کے زمانے میں چمکنا ہو گا
--------------
وہ ہی دشمن ہے لڑا کر جو تماشہ دیکھے
اس کی سوچوں کو دماغوں سے جھٹکنا ہو گا
--------------
کیوں ترے دل پہ اداسی سی ہے چھائی ارشد
تجھ کو بد ذوق خیالوں سے نکلنا ہو گا
----------------
 
آخری تدوین:
ہم کو حالات کی دلدل سے نکلنا ہو گا

بہت خوبصورت!

لیکن خیال رہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی مطلع استعمال کرنے پر آپ پر قوافی" لنا" کی پابندی عاید ہوگی اور آپ سمجھنا، جھٹکنا، سمٹنا وغیرہ استعمال نہیں کرپائیں گے۔ بہتر ہوگا کہ مطلع کے دوسرے مصرع میں آخر الذکر میں سے کوئی قافیہ لے آئیں۔
 

الف عین

لائبریرین
قوافی درست نہیں، ان کے بارے میں پہلے بھی کسی غزل پر بات ہو چکی ہے۔مشترک حروف 'نا'، جو ردیف میں شامل ہے،
کے پہلے آخری حرف ساکن اور یکساں ہونا ضروری ہے
چمکنا، سسکنا، جھلکنا.. درست قوافی 'نا سے پہلے چمک، سسک جھلک بھی قوافی ہیں
مچلنا، نکلنا، بدلنا... یہ بھی درست ہیں اگر یہی قوافی ساری غزل میں ہوں
لیکن دونوں گروپا کے قوافی کو ایک ساتھ غزل میں نہیں لایا جا سکتا
 
Top