عمران خان آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے

جاسم محمد

محفلین
عمران خان آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1821884-imrankhanunogeneralassembly-1569533515-859-640x480.jpg

اپنے خطاب میں وزیر اعظم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کریں گے (فوٹو: فائل)

نیویارک: وزیر اعظم آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے جس میں وہ مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ پیش کریں گے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے جس میں وہ مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے دنیا کے سامنے بھارتی حکومت کے مظالم کو اجاگر کریں گے۔

قبل ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا تھا کہ عمران خان جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کا مقدمہ انتہائی موثر طریقے سے پیش کریں گے وہ یہاں صرف کشمیر کے مسئلے اور بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہی آئے ہیں۔

عمران خان کے خطاب کی مناسبت سے ملک بھر میں تحریک انصاف کی جانب سے جگہ جگہ اسکرینیں نصب کی گئی ہیں جب کہ عالمی میڈیا نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی کوششوں کی تعریف کی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران حکومت کا ایک سال: پاکستان عالمی طاقت کے روپ میں ابھر رہا ہے
عالمی سٹیج پر خان کا سٹائل اپنے پیش رو سے بالکل مختلف ہے۔ پلوامہ جیسے واقعات، پھر کشمیر جیسے بحران عمران خان کے سفارتی تجربے کا امتحان تھے جہاں انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی۔
صبا کریم، فرخ کریم خان دی انڈپینڈنٹ
جمعرات 26 ستمبر 2019
42751-490510640.jpg

خان کے نئے پاکستان کا خواب شاید ابھی اس حیران کن ملک سے کافی دور ہے۔ ابھی تک تو ایسا ہی ہے۔ لیکن ایک ہی رات میں حالات کے مکمل بدل جانے کی امید رکھنے سے ہم بہترین کو اچھے کا دشمن بنا رہے۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں گذشتہ سال کے انتخابات میں عمران خان کی فتح کو کافی مثبت اور مضحکہ خیزی کے ملے جلے انداز میں لیا گیا۔ جس دن وہ فتح یاب ہوئے، وہ ٹی وی پر نمودار ہوئے اور ایک جشن مناتے پاکستان سے خطاب کیا۔

گو کہ انہوں نے اپنی الیکشن مہم کے وعدوں کو دہرایا لیکن وہ کافی مختلف محسوس ہو رہے تھے۔ انہوں نے اپنے عوام کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ گھبرانے کا وقت نہیں ہے۔

انہوں نے ایک نئے پاکستان کا وعدہ کرتے ہوئے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا۔ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ وہ ایک سیاستدان سے ایک رہنما میں تبدیل ہو چکے تھے۔ جو ایمان دار، مصالحت پسند انسان ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں امیدیں پہلے ہی دم توڑ چکی تھی ان کے الفاظ نے لوگوں کو زندگی کے بارے میں نئی امید دی۔ تب سے ہی ان کا یہ روپ ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ انہوں نے پسے ہوئے پاکستانیوں میں حب الوطنی کا دبا ہوا جذبہ جگا دیا۔

خان کی نئے پاکستان کی باتوں نے امیدوں کو بہت بڑھا دیا۔ ان کی پُرجوش حمایت اور مکمل مخالفت کے دوران زیادہ تر لوگ بھول چکے تھے کہ پاکستان کس حد تک مسائل کا شکار اور بکھرا ہوا ملک ہے۔

بلاشبہ گذشہ پانچ دہائیوں سے پاکستان غلط سمت کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ایسا سیاسی نظام جو مسلسل وصولی کرنے پر قائم تھا، جو ملک کی سیاسی اور معاشی اشرافیہ کو عوام کی قیمت پر فائدہ دے رہا تھا۔ درمیان میں کچھ ایسا وقت بھی گزرا جب حالات کچھ بہتر ہوئے لیکن یہ تبدیلی مسلسل نہیں تھی۔ اتنی بری حکومت کے بعد خان کے بطور متبادل سامنے آنے کے بعد غیر حقیقی توقعات بہت بڑھ گئیں۔

آج یہ انکار کرنا بہت مشکل ہے کہ چیزیں ویسی نہیں ہو رہیں، جیسی ہونی چاہییں تھیں۔ پاکستان کے معاشی چیلنجز پیش بینی کی تمام صورتوں سے سنگین نظر آرہے ہیں جبکہ کشمیر میں ایک الگ ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جیو پالیٹکس کھل کر سامنے آچکی ہے۔ معاشی چیلنجز اور ایک سال کی تکلیف دہ پالیسیوں کی وجہ سے زیادہ تر لوگ مثبت سوچ کو مکمل طور پر چھوڑ رہے ہیں۔

عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ صبح سے پہلے تاریکی بہت گھنی ہوتی ہے۔ خان کی حکومت کو بہت ہی مشکل توقعات کا سامنا ہے اور سیاسی اور معاشی میدان میں کہیں کہیں بہتری دیکھی جا سکتی ہے۔ خان جو کرنے کی جستجو کر رہے ہیں وہ اس ملک کو ایک متنوع سیاسی اور معاشی نظام دینے کی کوشش ہے۔ ایسا کرنے سے وہ ملکی سیاست کو نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں اور سابقہ حکومتوں کے دھوکے پر مبنی کھیلوں کو دفن کر رہے ہیں۔ اگرچہ اصلاحات کی رفتار کم اور یہ مشکلات کا شکار ہے اور ان کے فوائد بھی فوری طور پر محسوس نہیں کیے جا سکیں گے۔ لیکن اہم بات ہے کہ سمت درست دکھائی دے رہی ہے۔

پاکستان کی معیشت کے لیے خسارے اور قرضے کی وراثت پاکستانی معیارات کے حساب سے بھی بہت زیادہ ہے جس نے معاشی نمو کا بحران پیدا کر دیا ہے۔ لیکن غور سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ کل کی سیاست کے ’عارضی فوائد کلچر‘ سے جان چھڑائی جا رہی ہے۔ غیر پیداواری اور درآمدی اشیا میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی جبکہ برآمدات اور درآمدات میں توازن پیدا کرنا ایک طویل المدتی عمل ہے، خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں پیداواری صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہو۔ سالوں سے نظر انداز کرنے کے باعث برآمدات میں، سرمایہ کاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور نئے کاروبار شروع کیے جا رہے ہیں جو برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کو بڑھا رہے ہیں۔

پاکستان میں ٹیکنالوجی کا ایکو سسٹم تاخیر کا شکار ہے لیکن یہ اپنے قدم جما رہا ہے۔ ایک پرعزم اقدام ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنا ہے جو کہ نتائج دینا شروع کر رہا ہے اور گذشتہ سال ٹیکس جمع کروانے والوں کی تعداد میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ فوائد اور خدمات کے ڈھانچوں میں تبدیلی کے طویل المدتی مقاصد کا اشارہ ہے۔ اب جب ہم کاروبار کے پرانے اصول بھلا رہے ہیں تو ایسا انقلاب یقینی طور پر ارتعاش پیدا کرے گا۔

ik2.JPG

(اے ایف پی)

آگے نظر آنے والا رستہ طویل اور پیچیدہ ہے لیکن خان کی سوچ نے پاکستان کو دہائیوں سے تباہی کے راستے سے واپسی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ کاروباری طبقے کا ان ابتدائی اصلاحات کو ناقابل واپسی کہنا ایک کامیابی سے کم نہیں۔

عالمی سٹیج پر خان کا سٹائل اپنے پیش رو سے بالکل مختلف ہے۔ سیاست میں آنے سے پہلے ’بدعنوان نہ ہونے کی صلاحیت‘ ہی ان کے سفارتی مقام کو ظاہر کرتی ہے۔ پلوامہ جیسے واقعات، پھر کشمیر جیسے بحران خان کے سفارتی تجربے کا امتحان تھے جہاں انہوں نے اچھی کارکردگی دکھائی۔ ان سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ امریکہ اور افغان طالبان اور امریکہ اور ایران کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں۔

پاکستان ایک ذمہ دار عالمی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ جو بغیر کسی لگی لپٹی کے امن کی بات کرتا ہے۔ دنیا کے رہنماؤں کے لیے یہ پیغام بہت واضح ہے۔ پاکستان اب مزید کسی کا پیادہ، لطیفہ یا تماشائی نہیں ہے۔ یہ ایک متحرک، ذمہ دار اور اہم ملک ہے۔ یہ ماضی کے مقابلے میں ایک ڈرامائی تبدیلی ہے۔ جو شاید ماضی کے کسی زمانے کی جھلک ہے۔

خان کے نئے پاکستان کا خواب شاید ابھی اس حیران کن ملک سے کافی دور ہے۔ ابھی تک تو ایسا ہی ہے۔ لیکن ایک ہی رات میں حالات کے مکمل بدل جانے کی امید رکھنے سے ہم بہترین کو اچھے کا دشمن بنا رہے۔ جبکہ ملک میں جاری تمام تر بےہنگم سیاسی طوفان کے باجود ہم اس کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھ رہے ہیں۔ گو کہ اس کے امکان اور رفتار نے کئی لوگوں کو مایوسی کا شکار کر دیا ہے۔

چاہے ہم خان کی تعریف کریں یا ان پر تنقید کریں بطور پاکستانی ہمیں اپنی گفتگو کو حقیقت پسندانہ بنانا ہوگا۔ ایک معاشی طور پر مستحکم پاکستان کے لیے اپنے مقاصد کی سمت درست کرنی ہوگی تاکہ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک اہم اور ذمہ دار ملک بنایا جا سکے۔ اگر ہم ایسا کر سکے تو نئے پاکستان کا خواب حقیقت بن جائے گا۔ اگر اس سے کچھ کم بھی ہو، جو 20 کروڑ افراد کو کھائی سے نکال سکے تو وہ بھی ہرکولین اصلاحات کہلائیں گی۔ کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑی جو اب سیاست دان ہیں، مذمت سے زیادہ تالیوں کے مستحق ہیں۔

(فرخ کریم خان پاکستان کی کیپٹل مارکیٹ میں پورٹ فولیو مینیجر جبکہ صبا کریم خان ابوظہبی میں نیویارک یونیوسٹی کے گلوبل کیمپس میں ملازمت کرتی ہیں۔)

© The Independent
 

سین خے

محفلین
امید کی جا رہی ہے کہ یہ ایک تاریخی خطاب ہوگا۔ بھارتی میڈیا نے پہلے ہی مقابلے کی فضا قائم کر دی ہے۔ خان صاحب کا خطاب نریندر مودی کے بعد ہے۔ دیکھتے ہیں خان صاحب کیسے کم بیک کریں گے۔
 
خان صاحب کے دورۂ امریکہ کے دوران فی البدیہہ تقاریر اور پریس کانفرنس میں بیان کردہ احمقانہ باتوں کے پیشِ نظر شدید دلی خواہش ہے کہ اے کاش وہ محکمۂ خارجہ کی تیار کردہ لکھی ہوئی تقریر پڑھیں، ذوالفقار علی بھٹو یا بے نطیر بھٹو بننے کی کوشش نہ کریں۔

پہلے فرمایا کہ آئی ایس آئی کو اسامہ بن لادن کی جائے پناہ کا علم تھا اور انہوں نے امریکہ کو مطلع کردیا تھا ۔ انگلی نشست میں یو ٹرن لیا کہ فوج کی ٹاپ لیڈرشپ کو علم نہیں تھا لوئر لیول پر کہیں امریکنوں سے رابطے تھے۔

مزید پھلجھڑی یہ چھوڑی کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی نے بدنامِ زمانہ القاعدہ کو ٹرین کیا۔

آج اللہ خیر کرے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
خان صاحب کے دورۂ امریکہ کے دوران فی البدیہہ تقاریر اور پریس کانفرنس میں بیان کردہ احمقانہ باتوں کے پیشِ نظر شدید دلی خواہش ہے کہ اے کاش وہ محکمۂ خارجہ کی تیار کردہ لکھی ہوئی تقریر پڑھیں، ذوالفقار علی بھٹو یا بے نطیر بھٹو بننے کی کوشش نہ کریں۔
شیرررررر!
web-whatsapp-com-f40225e2-7fb8-4377-b4de-3c772ccba7aa.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری نے مداخلت نہ کی تو دو ایٹمی ممالک آمنے سامنے ہوں گے، وزیراعظم
ویب ڈیسک جمعہ۔ء 27 ستمبر 2019
1821884-pmimrankhanspeech-1569600484-239-640x480.jpg

یہ وقت اقوام متحدہ کی آزمائش کا ہے کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلائے، وزیراعظم ۔ فوٹو : ٹویٹر

نیویارک: وزیراعظم عمران خان نے اقوام عالم پر واضح کیا ہے کہ اگر عالمی برادری نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کچھ نہ کیا تو دو ایٹمی ممالک آمنے سامنے ہوں گے یہ وقت اقوام متحدہ کی آزمائش کا ہے کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلائے۔

مسئلہ کشمیر:

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میرا چوتھا ایشو کشمیر ہے جس کے لیے خصوصی طور پر آیا ہوں، نریندر مودی کی جارحیت کی وجہ سے کشمیر میں تاحال کرفیو نے لوگوں کو محصور کررکھا ہے اور وہ لوگ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں ہیں گزشتہ 30 سال میں ایک لاکھ کشمیریوں کو مار دیا گیا جب کہ دس ہزار خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی 11 قرار دادوں کے باوجود بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت ختم کی اور کرفیو نافذ کردیا، مزید ہزاروں فوجی بھیجے اب تک وہاں کرفیو نافذ ہے، بھارت کی حکومت آر ایس ایس کے نظریے پر چل رہی ہے اور مودی اس کے نمائندے ہیں یہ نظریہ مسلمانوں اور عیسائیوں سے نفرت انگیز برتاؤ کرتا ہے، مودی کی الیکشن مہم میں کہا گیا کہ یہ تو محض ٹریلر ہے پوری فلم ابھی باقی ہے مودی آر ایس ایس کے رکن ہیں جو کہ ہٹلر اور مسولینی کے نظریے پر چلتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ دنیا سوچے کہ کشمیر میں خونریزی کا کشمیری باشندوں پر کیا اثر ہوگا؟ یہ سوچا کہ جب وہاں سے کرفیو ختم ہوگا تو وہاں کیا صورتحال ہوگی؟ کیا بھارت میں موجود کروڑوں مسلمان کیا یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہے؟ کشمیر سے کرفیو کیوں نہیں اٹھایا جارہا؟ ایسا کیا ہے جو وہاں فوجیں بڑھائی جارہی ہیں؟ نظر آنے والوں پر پیلیٹ گن سے فائرنگ کی جارہی ہے، 80 لاکھ مسلمان 5 اگست سے اب تک وہاں کیسے جی رہے ہیں؟ دنیا اس معاملے پر کیوں خاموش ہے؟ اگر 80 لاکھ یہودی اس طرح اتنے دنوں سے محصور ہوتے تو کیا ہوگا؟ بھارتی فوجی گھروں میں گھس کر خواتین کو زیادتیوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا یہ انتہائی نازک وقت چل رہا ہے کہ جب دو ایٹمی قوتیں آمنے سامنے ہیں ہم جنگ کے حامی نہیں لیکن جنگ چھڑی تو ہم لاالہ الا اللہ پر یقین رکھتے ہیں کہ آخری وقت تک لڑیں گے، جنگ ہوئی تو ہمارے پاس لڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا جس کا اثر پوری دنیا پر پڑےگا، اگر خونریزی ہوئی تو اسلام پسندی کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ انصاف نہ ملنے کی وجہ سے ہوگی۔

عمران خان نے اقوام عالمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت عملی اقدم اٹھانے اور اقوام متحدہ کی آزمائش کا وقت ہے سب سے پہلے بھارت فوری طور پر کشمیر میں گزشتہ 55 روز سے نافذ کرفیو ختم کرے، 13 ہزار کشمیریوں کو رہا کرے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلائے۔

منی لانڈرنگ کا سدباب:

وزیراعظم نے منی لانڈرنگ کے سدباب پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امیر افراد اربوں ڈالر غیر قانونی طریقے سے یورپ کے بینکوں میں منتقل کردیتے ہیں اس کے نتیجے میں ٹیکس کی آدھی رقم قرضوں کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے اسی وجہ سے ہمارے ملک کا قرضہ 10برسوں میں چار گنا بڑھ گیا، ہم نےمغربی دارالحکومتوں میں کرپشن سے لی گئی جائیدادوں کا پتا چلایا لیکن ہمیں مغربی ملکوں میں بھیجی گئی رقم واپس لینے میں مشکلات کاسامنا رہا،امیر ممالک کو چاہیےکہ وہ غیر قانونی ذرائع سےآنیوالی رقم کے ذرائع روکیں کیونکہ غریب ملکوں سے لوٹی گئی رقم غریبوں کی زندگیاں بدلنے پر خرچ ہوسکتی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیاں:

وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کو کلائمٹ چینج کا سامنا ہے متعدد رہنماؤں نے اس بارے میں بات چیت کی مگر دنیا کے لیڈرز اس ہنگامی صورتحال کا ادراک نہیں کررہے، پاکستان ان 10 ممالک میں شامل ہے جسے کلائمنٹ چینج سے سب سے زیادہ نقصان کا سامنا ہے، 80 فیصد پانی گلیشئر پگھلنے سے آتا ہے جو کہ ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم میں واقع ہے، کلائمنٹ چینج سے نمنٹے کے لیے لیے پاکستان دس ارب درخت لگارہا ہے، وہ ممالک جو گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کاسبب بن رہے ہیں وہ کلائمٹ چینج کے ذمہ دار ہیں۔وزیراعظم عمران خان نےکہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر عالمی رہنما سنجیدہ نہیں، ایک ملک ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے سے اکیلا نہیں نمٹ سکتا۔

اسلامو فوبیا:

وزیراعظم نے کہا کہ میرا تیسرا ایشو اسلام فوبیا سے متعلق ہے، 1.3 ارب مسلمان اس دنیا میں رہتے ہیں جو کہ یورپ اور امریکا میں اقلیت ہیں، نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا پھیلا، بعض ممالک میں مسلمان خواتین کا حجاب پہننا معیوب ہوگیا یہ سب کیا ہے؟ یہ سب اسلامو فوبیا ہے، اسلام صرف ایک ہی ہے جو کہ حضرت محمدﷺنے دیا، کچھ مغربی لیڈروں نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ دیا جس کی وجہ سے اسلامو فوبیا پھیلا اور اس میں اضافہ مسلمانوں کے لیے خطرناک ہے، افسوس کی بات ہے کہ بعض مغربی ممالک کے سربراہان اسلام پرستی اور بنیاد پرستی کے الفاظ استعمال کررہے ہیں حالاں کہ دہشت گردی کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

گستاخانہ مواد:

وزیر اعظم نے کہا کہ نائن الیون سے قبل تامل ٹائیگرز خودکش حملے کرتے تھے یہ تامل ٹائیگرز ہندو تھے لیکن کسی نے انہیں دہشت گردی سے نہیں جوڑا جب کہ نائن الیون کے حملوں کو اسلام سے جوڑ دیا گیا، نبی کریمﷺ نے ریاست مدینہ قائم کی جس میں اقلیتوں اور خواتین کو حقوق دیے گئے یہ پہلی فلاحی ریاست تھی جس میں غلامی کا خاتمہ ہوا اور سب لوگوں کو ان کے حقوق دیے گئے، ریاست مدینہ میں حاصل شدہ ٹیکس کی رقم غریبوں پر خرچ کی جاتی تھی، جب اسلام کی توہین پر مسلمانوں کا ردعمل سامنے آتا ہے تو انہیں انتہا پسند کہہ دیا جاتا ہے، مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ نبی کریم ﷺکی توہین کی کوشش مسلمانوں کے لیے بہت بڑا معاملہ ہے جس طرح ہولوکاسٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے تو یہودیوں کو برا لگتا ہے یہ آزادی اظہار رائے نہیں دل آزاری ہے۔

پاک بھارت تعلقات:

وزیراعظم نے کہا کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے سفارتی و تجارتی سطح پر اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن بھارت بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث نکلا ہے ہم نے بلوچستان میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پکڑا، میں نے مودی سے کہا ہمیں بھارت کی دہشت گردی کا سامنا ہے، پاکستان نے تمام دہشت گردی کے گروپس ختم کردیے ہیں اقوام متحدہ سے درخواست ہے کہ اپنا مشن بھیج کر چیک کرالیں، اقتدار میں آنے کے بعد بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی لیکن بھارت نے ٹھکرادی، ہمیں پتا چلا کہ بھارت پاکستان کوایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کرنیکی سازش کررہا ہے۔

دہشتگردی کیخلاف جنگ:

پاکستان نے 1989ء میں سویت وار اور نائن الیون کے بعد امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی حالانکہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا، ہمارے 70 ہزار فوجی اور شہری اس جنگ میں شہید ہوئے، میں نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
خان کی تقریر سننے کے دوران یقیناً یہ خاتون یہی سوچ رہی ہوگی کہ کاش، انڈیا کا وزیراعظم بھی کوئی چج کا بندہ ہوتا۔۔۔ چول نہ ہوتا۔
انڈین وفد کی شکلیں اس وقت دیکھنے والی ہوتی تھیں جب وہ نوازشریف کی تقریریں سن کر اس بونگے پر ہنسا کرتے تھے۔ عمران خان نے تو ان کی مسکرانے والی رگ ہی پھاڑ دی!!! بقلم خود باباکوڈا
70968266_2538108779590395_2648575867516616704_n.jpg
 
Top