سیاسی منظر نامہ

کاش آج پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو عباس بھائی بتلاتے پی ٹی آئی جے ایک سے بڑھ ایک قابل بندہ ڈھونڈا اوراُسے عہدہ دیا جیسا کہ وزیر خزانہ۔ اور کیسے مہاتما خان کی حکومت نے ٹیکنو کریٹس کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیے ہیں ۔۔

پوری ن لیگ میں کوئی بھی ممبر اسمبلی یا سینیٹر اس قابل نہیں تھا کہ جس کو وزیر خزانہ بنایا جاتا ؟ ن لیگ نے ٹیکنو کریٹ نشستوں پر کون سے ماہر چُنے ہیں ؟
 

جاسم محمد

محفلین
کاش آج پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو عباس بھائی بتلاتے پی ٹی آئی جے ایک سے بڑھ ایک قابل بندہ ڈھونڈا اوراُسے عہدہ دیا جیسا کہ وزیر خزانہ۔ اور کیسے مہاتما خان کی حکومت نے ٹیکنو کریٹس کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیے ہیں ۔۔
ملک کی معیشت کو مشرف دور سے آئی ایم ایف کے پیراشوٹر ہی چلاتے آئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے اسحاق ڈار اور مفتاح اسمٰعیل جیسے سویلین تجربہ کاروں کے ہاتھوں ہوئی اقتصادی تباہی کے بعد اب واپس اسے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا نومبر میں سیاسی بھونچال آئے گا؟
21/09/2019 عمار مسعود

ملکی سیاست میں حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ مثبت رپورٹنگ کی قدغن ختم ہو گئی ہے۔ حکومت کی نااہلی پر وہ بھی زبان دراز ہو گئے ہیں، جو حکومت کے قیام کا باعث تھے۔ معیشت زبوں حالی کا نقشہ پیش کر رہی ہے اور اس میں بہتری کے کوئی امکان نظر نہیں آر ہے۔ اپوزیشن اب سیاسی انتقام برداشت کر کے تھک چکی ہے۔ اب روز بہ روز کی گرفتاریاں ان کو خوف زدہ نہیں کر رہیں۔ بلکہ گرفتار لیڈر ان گرفتاریوں کے تمغے اپنے سینے پر سجا رہے ہیں، خراج پا رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان اپنے دھرنے اور ملک گیر احتجاج پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کے رویے میں کوئی لچک نظر نہیں آ رہی۔ شاید اس سختی کی وجہ ان کی وہ تضحیک ہے، جو عمران خان نے کئی برس کی ہے۔ مولانا سیاست میں گفتگو کے قائل ہیں مگر جس طرح ان کی توہین کی گئی اور جس طرح ان کے خیال میں ایک منصوبے کے تحت ان کو اسمبلیوں سے دور رکھا گیا ہے، اس کے بدلے میں وہ اب آخری وار کرنے کو تیار ہیں۔ اب وہ واپسی کا رستہ کھلا نہیں رکھنا چاہتے اور سب کشتیاں جلا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

مسلم لیگ ن ابھی سوچ رہی ہے۔ ان کی سوچ کا محور نواز شریف کا بیانیہ ہے۔ جیل میں قید نواز شریف سے اب اہم ملاقاتوں کا سلسسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اب بیچ کی کوئی راہ نکالی جا رہی ہے۔ لیکن نواز شریف اب نہ تو ملک سے باہر جانے پر رضامند ہیں نہ کسی کو این آر او دینا چاہتے ہیں۔ ان کی سیاست میں اب ایک سال سے زیادہ جیل کاٹنے کے بعد بیچ کا کوئی رستہ نہیں رہا۔ وہ اب سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنا چاہتے ہیں۔ مریم نواز بھی تمام تر صعبوتوں کے باوجود اپنے باپ ک نقش قدم پر سختی سے جمی ہوئی ہیں۔ لیکن پارٹی سطح پر دھرنے کے معاملے پر کچھ ابہام پایا جاتا ہے۔ کچھ ایسے ہیں، جو آج ہی سڑکوں پر آنا چاہتے ہیں اور کچھ تیل اور اس کی دھار کچھ دیر اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ دو نقطہ نظر منظر عام پر ہیں اور ان کا یوں منظر عام پر ہونا بھی ایک سوچا سمجھا عمل ہو سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی اگرچہ دھرنے میں شریک ہونے سے معذرت کر چکی ہے لیکن یہ خورشید شاہ کی گرفتاری سے پہلے کی بات ہے۔ اب ان کو بھی اپنی پوزیشن دوبارہ دیکھنا ہو گی۔ الیکشن سے پہلے بلوچستان اسمبلی کو گرانا، چیئرمین سینٹ کا انتخاب اور اب دھرنے سے بائیکاٹ۔ ان چیزوں سے پیپلز پارٹی وقتی فوائد تو شاید حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہو مگر ایک ملک گیر پارٹی کے طور پر پیپلز پارٹی کی سپورٹ اس طرح کے فیصلوں سے کم ہو رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی کے فیصلے پارٹی کے”مستقبل‘‘ کو مدنطر رکھ کر کیے جاتے ہیں یا پارٹی کا ”حال‘‘ پیش نظر ہوتا ہے۔

وہ چھوٹی سیاسی جماعتیں، جن کا تعلق خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے ہے، وہ سب دلی طور پر اس متوقع دھرنے سے متفق ہیں۔ ان کے سپورٹرز اس احتجاج میں شریک ہونے کو تیار ہیں۔ لیکن ان کا متفقہ بیانیہ ابھی منظر عام پر آنا باقی ہے۔

جہاں تک عوام کی اکثریت کا تعلق ہے تو مہنگائی کا ناگ ان کو آئے روز ڈس رہا ہے۔ پچاس لاکھ نوکریاں دلانے کا وعدہ کرنے والے اب تک لاکھوں کا روزگار چھین چکے ہیں۔ ضرورت کی ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ تاریخی طور پر لوگ کبھی معیشت کی بدحالی کی وجہ سے کبھی سڑکوں پر نہیں آئے لیکن جب بہت سے معاملات اکھٹے ہو جائیں تو عوام کا عتاب کسی بھی شکل میں سامنے آ سکتا ہے۔

اکتوبر اور نومبر اس ملک کی تاریخ کے اہم مہینے ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان مہینوں میں شروع ہونے والا احتجاج کیا پیغام لاتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں اس سے پہلے کے لوگ بڑے پیمانے پر احتجاج کے لیے نکلیں، اس سے پہلے کہ معاملات سڑکوں کی سیاست تک آ جائیں، اس سے پہلے کہ بچے بچے کی زبان پر مانوس نعرے آ جائیں، اس سے پہلے کہ مزید ویڈیوز منظر عام پر آ جائیں۔ مقتدر حلقوں کی جانب سے اس احتجاج کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گے۔ چاہے اس کے لیے نواز شریف کو تمام عدالتوں سے باعزت بری کرنا پڑے، چاہے موجودہ حکومت کو دستبردار کرنا پڑے یا چاہے نئے الیکشن کروانے پڑیں۔

اس تبدیلی کا طریقہ کار کیا ہوگا، اس پر کبھی پھر بات ہو گی۔ بس فی الوقت اتنا سمجھ لیں کہ ایسا بھی ہو تا ہے کہ جو گڑھا آپ نے دوسروں کے لیے کھودا ہوتا ہے ایک دن آپ خود اسی گڑھے میں غرقاب ہو جاتے ہیں۔ جو تیر آپ نے دشمن پر چلائے ہوتے ہیں، وہ خود اپنے سینے پر کھانے پڑتے ہیں۔ جو گالی مخالف کو دی ہوتی ہے، اس گالی کو خود ہی سہنا ہوتا ہے، جو الزام دوسروں کو دیا ہوتا ہے، خود اس الزام کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
۔ مقتدر حلقوں کی جانب سے اس احتجاج کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گے۔ چاہے اس کے لیے نواز شریف کو تمام عدالتوں سے باعزت بری کرنا پڑے، چاہے موجودہ حکومت کو دستبردار کرنا پڑے یا چاہے نئے الیکشن کروانے پڑیں۔
ابھی مقتدر حلقے اتنے کمزور نہیں ہوئے کہ اپنے خلاف احتجاج کے مقابلہ میں اپنا حمایتی کاؤنٹر احتجاج سڑکوں پر نہ لا سکیں۔
 

عباس اعوان

محفلین
کاش آج پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو عباس بھائی بتلاتے پی ٹی آئی جے ایک سے بڑھ ایک قابل بندہ ڈھونڈا اوراُسے عہدہ دیا جیسا کہ وزیر خزانہ۔ اور کیسے مہاتما خان کی حکومت نے ٹیکنو کریٹس کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیے ہیں ۔۔
ہمیں تسلیم ہے کہ کارِ حکومت کے لیے کچھ مقامات پر غلط انتخاب کیا گیا ہے۔ نیز منتخب شدہ اسد عمر سے وزارت واپس لینا غلط فیصلہ تھا۔
سینٹ میں فی الحال اپوزیشن کی اکثریت ہے۔ آئندہ سینٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کے مزید لوگ شامل ہوں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فوج کے حق میں بات کرو تو کٹھ پتلی وزیر اعظم۔ فوج کے خلاف بات کرو تو ملکی سالمیت داؤ پر لگا دی۔ جاہل پٹواری بیمار ذہنیت
 

جاسم محمد

محفلین
رؤف کلاسرا اور عامر متین جب تک ن لیگ اور پی پی پی کرپشن کے خلاف شو کرتے رہے ان کے شو چلتے رہے۔ جونہی تحریک انصاف حکومت کی کرپشن پر بات کرنا شروع کی تو ان کا شو بند کر دیا گیا ہے۔ یہ ہے تبدیلی۔
 

جاسم محمد

محفلین
جن وزراء کی کارکردگی ٹھیک نہیں انہیں تبدیل کررہا ہوں، وزیراعظم
شیئر ٹویٹ
ویب ڈیسک پير 30 ستمبر 2019
1825728-imrankhan-1569847694-399-640x480.jpg

ارکان کے تحفظات سننے کے لیے خود ملاقاتیں کروں گا، وزیراعظم، فوٹو: فائل


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جن وزراء کی کارکردگی ٹھیک نہیں انہیں تبدیل کررہا ہوں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں وزیراعظم نے دورہ امریکا پر پارلیمانی پارٹی کو اعتماد میں لیا، جب کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر پر حکومتی سفارتکاری پر بریفنگ دی۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت بدترین ظلم کررہا ہے اور ہم کشمیریوں کا مقدمہ ظلم کے خلاف جہاد سمجھ کر لڑ رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں تحریک انصاف ایم این اے ارباب عامر بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور انہوں نے وزیراعظم سے شکایت کی کہ وزرا ہمیں ملاقات کے لیے وقت بھی نہیں دیتے جب کہ حلقوں سے عوامی پریشر ہے لیکن کوئی کام ہو رہے نہ ہی بات سن رہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے وزرا کو اراکین کے شکوے دور کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ جن وزراء کی کارکردگی ٹھیک نہیں انہیں تبدیل کررہا ہوں، اور ارکان کے تحفظات سننے کے لیے خود ملاقاتیں کروں گا۔

اجلاس میں پی ٹی آئی کے نورعالم خان کی اسمبلی فلور پر حکومت پر تنقید کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گزشتہ ادوار میں جب لوٹ مار ہو رہی تھی نورعالم اس وقت کیوں نہیں بولے، گزشتہ دور کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہی ڈالر کا ریٹ اور مہنگائی بڑھی ۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم اور آرمی چیف سے افغان طالبان کی ملاقات
ویب ڈیسک جمعرات 3 اکتوبر 2019
1829318-taliban-1570097876-320-640x480.jpg

ملاقات میں افغان امن عمل کی بحالی سمیت دو طرفہ دلچسپی کے امور پر بات چیت فوٹو:فائل


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان سے افغان طالبان نے ملاقات کی جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی شرکت کی۔

وزیراعظم عمران خان سے اسلام آباد میں طالبان کے وفد نے ملاقات کی جس کے دوران افغان امن عمل کی بحالی سمیت دو طرفہ دلچسپی کے امور پر بات چیت کی گئی۔ اس ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی شرکت کی۔

اس سے قبل دفترخارجہ میں پاکستانی حکام اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ پاکستانی وفد کی نمائندگی وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کی جب کہ 12 رکنی طالبان وفد کی قیادت ملا عبدالغنی برادر نے کی۔ دفتر خارجہ میں یہ ملاقات ڈیڑھ گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی جس میں معطل افغان امن مذاکرات کی بحالی سمیت دیگر معاملات پربات چیت کی گئی۔

پاکستانی حکام اور طالبان نے افغان امن کی بحالی پر اتفاق کیا ہے جبکہ طالبان نے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن زلمے خلیل زاد سے پاکستان میں ملاقات پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک نامقبول قربانی
وزیر اعظم کہتے ہیں صبر کریں تبدیلی آہستہ آہستہ آئے گی لیکن لگتا ہے کہ صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا اور سپل ویز آہستہ آہستہ کھول دیے گئے ہیں۔
غریدہ فاروقی تجزیہ کار GFarooqi@
بدھ 9 اکتوبر 2019 6:15

45186-1813772474.jpg



سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو دسمبر 1971 میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے(اے ایف پی)

تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے۔ جس کسی نے بھی یہ تاریخی مقولہ ایجاد کیا ہو گا یقیناً پاکستان کے حالات کو مدِنظر رکھ کر ہی کیا ہو گا۔ ایک بار پھر تاریخ کا پہیہ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے سرک رہا ہے۔

سنہ ہے 1977 کا، وزیر اعظم ہیں پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو۔ مخالف ہے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی این اے۔ اتحاد میں شامل ہیں نو جماعتیں، نو ستارے، جن کی کوئی کل بھی آپس میں نہیں ملتی۔ عوامی زبان میں بھان متی کا کنبہ ہے یا چوں چوں کا مربہ۔ مختلف انواع کی جماعتیں ہیں جن کے خیالات ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں نہ روایات۔ کوئی سیکولر ہے، تو سوشلسٹ، کوئی کمیونسٹ ہے، کوئی کنزرویٹو اور کوئی رجعت پسند سخت گیر اسلامی۔

ایک طرف میاں لطیف محمود کی سربراہی میں جماعت اسلامی ہے تو مولانا مفتی محمود کی جمیعت علما اسلام۔ مولانا شاہ احمد نورانی کی جے یو پی بھی یہاں ہے تو اصغر خان کی تحریک استقلال بھی۔ پی ایم ایل، این ڈی پی (موجودہ اے این پی) اور خاکسار تحریک بھی اسی بندھن میں بندھے ہیں۔

آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس بھی اتحاد میں شامل ہے اور نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی بھی اپنی بہار دکھا رہی ہے۔ الغرض کوئی ایک شے بھی روایتی طور پر مشترک نہ تھی سوائے ایک قدر کے: اینٹی بھٹو۔ ہر حال میں ذوالفقار بھٹو سے چھٹکارا پانا ہے۔ وزیر اعظم بھٹو کے خلاف اپوزیشن کی موٹی موٹی چارج شیٹ بھی دیکھئے ۔۔۔۔۔ معاشی بدحالی، ٹیکس کا بدترین نظام، صحت اور تعلیم کی دگرگوں صورت حال، اشیائے ضروریہ کی آسمان کو چھوتی قیمتیں، مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے جانا، شخصی آزادیوں پر قدغن، وزیر اعظم کی پارٹی پر کرپشن کا الزام، سقوط ڈھاکہ کا موردِ الزام، بھارت کے ساتھ کمپرومائز، کشمیر کا سودا اور تو اور سب سے بڑھ کر اسلام اور اسلامی قوانین کا تحفظ و نفاذ! کیا کہتے ہیں؟؟؟ سب کچھ سنا سنا سا اور جانا پہنچانا سا معلوم نہیں ہوتا۔۔۔؟

لیکن ابھی یہیں نہیں رکیئے۔ مزید آگے بھی سنئیے۔ تاریخ میں مزید پیچھے بھی دیکھیے۔ وزیر اعظم پر معاشی بدحالی کی چارج شیٹ لگاتے اپوزیشن نے اپنا بھی آٹھ نکاتی فارمولا یا پالیسی عوام کے سامنے رکھ دی۔ روزمرہ کی استعمال کی اشیاء کی قیمتیں پرانے نرخوں پر بحال کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا۔ معیشت کی بحالی اور ٹیکسوں کے بہتر نظام کے لیے ’چینی ماڈل‘ پیش کر دیا۔ سقوط ڈھاکہ اور کشمیر پر سودے کا براہ راست الزام وزیر اعظم کے سر ڈال دیا۔ تحریک میں آہستہ آہستہ شدت آتی گئی۔ وزیر اعظم نے پہلے بزورِ قوت تحریک کو دبانے کی کوشش کی لیکن ایک طرف جہاں گرفتاریوں نے پی این اے تحریک میں مزید جان ڈالی وہیں فوج کی طرف سے مظاہرین پر سختی کرنے کے احکامات کو تسلیم نہ کیے جانے نے بھی وزیر اعظم کی پوزیشن کو کمزور کیا۔ مذہب کے نام پر اور معیشت کے استحکام کی خاطر نکالی گئی تحریک نے ملک بھر کی مساجد کو اپنا گڑھ بنا لیا۔ مساجد میں عوامی احتجاج ہونے لگے۔ خطیب وزیر اعظم کے خلاف جذباتی جوشیلی تقاریر کے ذریعے عوام کے مذہبی جذبات ابھارنے لگے۔ حکمران جماعت نے مذہب کارڈ کے استعمال کی مخالفت کی تو اپوزیشن نے سڑکوں پر پوسٹرز اور اخبارات میں اشتہارات چھپوانے شروع کر دیے کہ اسلام کے تحفظ کی پہلی جاء ہی مسجد ہے اور کہ پیغمبر اسلام کے دور میں بھی کیسے مساجد مذہب اور سیاست کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ اتحاد العلما پاکستان نے تو علامہ اقبال کے شعر پر مبنی مہم و اشتہارات کا آغاز کر دیا کہ ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ ۔۔۔۔ مذہبی کارڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے کئی مذہبی اقدامات کرنے کی کوشش بھی کی۔ ملکی اور غیر ملکی بیانات میں اسلام کا نیا بیانیہ دینے کی کوشش بھی کی۔ خود کو معتدل اسلام کا سفیر بنا کر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ بات لیکن بن نہ سکی۔

وزیر اعظم کی حکمران جماعت نے پی این اے تحریک کو ناکام بنانے اور اس سے جان چھڑانے کے کئی حربے استعمال کئے، کئی پینترے بدلے۔ یہاں تک کہا گیا کہ ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے لیے غیر ملکی آقاؤں کے اشارے اور فنڈنگ پر یہ حکومت گراؤ تحریک چلائی جا رہی ہے۔ ایک موقع پر اس تحریک سے جان چھڑانے کی خاطر مذاکرات میں سعودی عرب کے کردار کو بھی زیرِ استعمال لایا گیا۔

پاکستان میں تعینات سعودی سفیر کا مذاکرات میں کردار تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن وزیر اعظم کے تحریک کے ساتھ مذاکرات، باوجود اس کے کہ وہ حتمی نتیجے پر پہنچنے والے تھے، ناکام ہو گئے۔ طاقت کے ناکام استعمال اور مذاکرات کی ناکامی کا بھی نتیجہ یہ نکلا کہ خلا پاتے ہی فوج نے براہِ راست اقتدار سبنھال لیا۔ حالانکہ اس بحرانی دور میں بھی عمومی تاثر یہ تھا کہ سول حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں اور کچھ ہی عرصہ پہلے وزیر اعظم بھٹو نے بلوچستان میں ملڑی آپریشن شروع کیا تھا۔ لیکن جنگ، محبت اور سیاست میں کہتے ہیں کہ سب جائز ہے، سب کچھ ’فیئر پلے‘ ہے۔

اب آئیے آج کے نئے پاکستان کی طرف۔ وہی وزیر اعظم ہے، وہی مختلف النوع اپوزیشن کا اجتماع ہے، وہی چارج شیٹ ہے، وہی الزامات ہیں، وہی کہانی ہے، وہی دھاندلی کا شور و غوغا ہے جو 1977 میں تھا۔

اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت میں وہی کردار آپ کو نظر آئیں گے جو 1977 میں تھے، وہی کردار یا ان کے جانشین یا ان کی باقیات کسی نہ کسی صورت میں۔ کل تک اس تحریک کی قیادت مولانا مفتی محمود صاحب کر رہے تھے، آج ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان وزیر اعظم کے مذہبی جواز، دگرگوں معاشی صورت حال اور کشمیر کا سودا جیسے الزامات کی بنا پر استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ 42 سال پہلے انہی الزامات کی بنا پر اپنی حکومت، اپنا وزیر اعظم، اپنا قائد کھونے والی پیپلز پارٹی اپنا وزن مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے کے پلڑے میں ڈالے ہوئے ہے۔ کہاں کی سیاست کہاں کے اصول ۔۔۔۔۔ سچ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں نہ تو دل ہوتا ہے اور نہ ہی سیاست میں کوئی ہمیشہ کا دوست دشمن ۔۔۔۔۔ کل اینٹی بھٹو جذبات تھے، آج کا ون پوائنٹ ایجنڈا اینٹی خان ہے۔ ہر صورت عمران خان کو حکومت سے نکالنا ہے چاہے اس کی قیمت کچھ ہی کیوں نہ ہو؟ بار بار مائنس ون پر اصرار ہے۔ لیکن کیا یہ مائنس ون صرف عمران خان تک ہی محدود ہے۔ کیا قربانی صرف عمران خان کی مطلوب ہے؟

مائنس ون کے فارمولے پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے دہائیوں تک استعمال کئے ہیں اور ان کا شکار بھی ہوئے ہیں۔ مائنس ون فارمولے کا چشمہ کہاں سے پھوٹتا ہے اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بڑے بھولے ہیں وہ لوگ جو سمجھتے ہیں، کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ مولانا از خود نوٹس پر آزادی تحریک چلانے نکلے ہیں۔ نون لیگ نومبر کا اختتام اور پیپلز پارٹی دسمبر تک جب اصرار کرتی ہے تو کون کون سے اسرار ہیں جو آشکار نہیں ہو جاتے۔ بظاہر اس وقت سب کچھ نارمل اور ایک پیج پر نظر آ رہا ہے لیکن حالات ایسے ہی نارمل تھے اور وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو بھی اس قدر ہی پر اعتماد تھے کہ سمجھ نہ آئی تھی تحریک اچانک کہاں سے چلی اور حالات نے خونیں موڑ کہاں سے لیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے وزیر داخلہ بریگیڈیر اعجاز شاہ بار بار تڑیاں لگاتے ہیں کہ عوام شرپسندوں کی کال پر کان نہ دھریں، چھترول ہو گی، کوئی مائی کا لعل حکومت نہیں گرا سکتا ۔۔۔۔۔ بہتر ہے کہ وزیر اعظم اپنے وزراء کو ایسی بیان بازی سے محفوظ رکھیں تاآنکہ وہ نادان دوست ثابت نہ ہوں۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو بھی طاقت کے استعمال سے مظاہرین کو روکنے کے بیانات جاری کرتے وقت پاکستان کی تاریخ کو سامنے رکھنا چاہیئے۔

وزیر اعظم کہتے ہیں صبر کریں تبدیلی آہستہ آہستہ آئے گی لیکن لگتا ہے کہ صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو چکا اور سپل ویز آہستہ آہستہ کھول دیے گئے ہیں۔ ڈر ہے کہ کہیں حکومت کی حد سے زیادہ خود اعتمادی ہی نہ لے ڈوبے لیکن اپوزیشن جماعتوں کو بھی سوچنا چاہیئے کہ عمران خان سے ان کے گلے شکوے، ناراضگی، نفرت ایک طرف لیکن پھر اکتوبر ہو نومبر ہو یا دسمبر کیا وہ ماضی کے ذوالفقار بھٹو کی طرح عمران خان کو بھی سیاسی شہید تو نہیں بنانے جا رہے ۔۔۔۔۔

آخر میں عبدالحمید عدم کے کچھ اشعار موجودہ حالات کی ذومعنویت پر۔۔۔۔۔

ایک نامقبول قربانی ہوں میں
سرپھری الفت میں لاثانی ہوں میں

کان دھرتے ہی نہیں وہ بات پر
کب سے مصروفِ ثناخوانی ہوں میں

مجھ کو پچھتانا نہیں آتا عدم
ایک دولت مند نادانی ہوں میں
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کا بت ٹوٹ چکا، بت تراشنے والوں کا احتساب باقی ہے
10/10/2019 خورشید ندیم

صف بچھ گئی اور ماتم کا آغاز ہو چکا۔

کسی کو صدمہ ہے کہ بیس سال کی محنت رائیگاں گئی۔ کسی کو اپنے فنِ بت گری پر شک ہونے لگا ہے کہ جو خد و خال اس نے تراشے تھے، وہ کسی ابنِ مریم کے نہیں تھے۔ پتھر کے اندر سے بھی ایک پتھر ہی نکلا۔ نقوش دل کش مگر بے جان۔ بے مغز تجزیوں اور بے سرے خطبات کا ایک ڈھیر سامنے پڑا ہے۔ جن میں عزتِ نفس کی کوئی رمق باقی ہے، وہ پہلے خود کو کوستے ہیں، دوسروں کی عقل کا ماتم بعد میں کرتے ہیں۔ اکثر کو یہ توفیق بھی نہیں۔ اس پر اصرار بھی ہے کہ وہ بدستور قوم کی راہنمائی فرماتے رہیں گے‘ الا یہ کہ عالم کا پروردگار اس کے برخلاف کوئی فیصلہ سنا دے۔

بت سازی کا یہ کاروبار نیا نہیں۔ کیا یہاں الطاف حسین کا بت نہیں تراشا گیا؟ ان گناہ گار آنکھوں نے ڈیڑھ دو سال پہلے ہی ایک قومی اخبار میں ایک کالم پڑھا کہ قوم نجات چاہتی ہے تو الطاف حسین کا عَلم تھام لے۔ حیرت میں ڈوب گیا کہ الطاف حسین صاحب کا اندر باہر، آشکار ہو چکا۔ یہ کیسی دانش اور دانائی ہے جو قوم کو ان کی طرف رجوع کی دعوت دے رہی ہے؟ مصطفیٰ کمال کا بت تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے تراشا گیا۔

اور تو اور یہاں لوگوں نے وزارتِ صحت پنجاب کو بھی مسیحا بنا کر پیش کیا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب راولپنڈی کے اخبارات میں کم از کم دو افراد کے مرنے کی خبر شائع نہ ہوتی ہو۔ یہ وہ بد نصیب ہیں جو ڈینگی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ میں خبر پڑھتا ہوں تو یہ سب قصیدے اور منقبت میرے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ اب تو لوگ مایوسی میں آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے ہیں کہ موسم بدلے، سردی آئے اور خدائی بندوبست ہی اس عذاب سے نجات دلائے۔

انسان بتوں سے امیدیں باندھ لیتا ہے۔ غلطی اس کی سرشت میں ہے۔ شرک کی ایک طویل تاریخ ہے جو کبھی ‘ابوالحکم‘ کے گھر سے ہو کر گزرتی ہے۔ حیرت اس پر نہیں، پریشانی اس کی ہے کہ جب سراجِ منیر سامنے ہو، اور اس کی روشنی سے زندگی جگمگا اٹھے، کوئی اس کے بعد بھی شرک پر اصرار کرے۔ ایسے ‘ابوالحکم‘ کو اگر ‘ابو جہل‘ نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ ان کی اصلاح کا، کیا کوئی امکان ہے کہ جو اس کے بعد بھی، فیض کے لیے بتوں ہی سے امیدیں باندھیں اور بت تراشی کو شعار کریں؟

2014ء میں عمران خان کی شخصیت اپنی اصل صورت میں ہمارے سامنے تھی، جب انہوں نے اپنی زندگی کی آخری اننگز، امپائر کی مدد سے کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ اگر ان کے بارے میں کوئی ابہام باقی تھا تو اس کے بعد ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ اب وہ عام سیاست دانوں کی صف میں آ کھڑے ہوئے تھے۔ رومان کا طلسم کدہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے گرا دیا جو ان کے گرد محنت شاقہ سے تعمیر کیا گیا تھا۔ انہوں نے زبانِ حال سے بتا دیا کہ یہ سب نظر بندی تھی۔ جادوگر بدیس جا بسے اور کسی ہسپتال میں ملازم ہو گئے۔ روشنی پھیل چکی تھی مگر کچھ لوگ اصرار کرتے رہے کہ اندھیرے کو روشنی مان لیا جائے۔ اسے آج کے دور میں ‘پوسٹ ٹروتھ‘ کہا جاتا ہے۔

دانش کا باب تو، میرا احساس ہے کہ اس کے بعد بند ہو گیا۔ اندھیرے کے سوداگروں کو معلوم ہو جانا چاہیے تھا کہ روشنی پھیل چکی ہے۔ وہ کیسی دانش ہے جو پیش پا افتادہ چیزوں کو بھی نہ دیکھ سکے۔ اس کے باوجود بت کو مزید تراشنے کی کوشش جاری رہی، حتیٰ کہ اس کے خد و خال بدلنے لگے۔ ‘مزید نقش نگاری‘ کے بعد ایک ایسی صورت سامنے تھی کہ خود بت تراشوں نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ اب وہ کہنے لگے ہیں کہ یہ تو وہ بت نہیں، جو ہم نے تراشا تھا۔

عمران خان صاحب کا مقابلہ بتوں سے نہیں تھا۔ ان کے سامنے جیتے جاگتے انسان تھے۔ ان کی خوبیاں آشکار تھیں اور خامیاں بھی۔ نواز شریف اور آصف زرداری کو لوگ ہر طرح سے دیکھ چکے تھے۔ چند احمق تو ہر جگہ ہوتے ہیں‘ ورنہ جو ان کو عمران خان پر ترجیح دیتے ہیں، وہ انہیں انسان ہی مانتے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے پاکستان کے لیے کیا کیا، اچھا کیا یا برا، اس کے شواہد موجود ہیں۔ قیاس آرائی اور الزام تراشی کو نکال دیجیے تو بہت کچھ دیکھا جا سکتا ہے اور سنا بھی جا سکتا ہے۔ عدالتی فیصلے ہمارے سامنے ہیں اور ارشد ملک صاحب بھی۔ ان کے بارے میں ایک عقلی مقدمہ قائم کرنا آسان ہے۔

عمران خان صاحب سر تا پا رومان تھے۔ رومان ہمیشہ غیر حقیقی توقعات اور خواہشات سے مملو ہوتا ہے۔ ٹارزن سے سپر مین تک، انسان چاہتے ہیں کہ خیالی شخصیات اور تصورات کو اپنے ارد گرد چلتا پھرتا دیکھیں۔ انسانوں کی اس خواہش کو لوگ کاروبار بنا لیتے ہیں۔ ٹارزن اور جل پری کی فلم دیکھنے کے لیے لوگوں کی قطار بندھ جاتی ہے۔ رومان جس دن عقل کی بھٹی سے گزرتا ہے، اس کا ملمع اتر جاتا ہے۔ لوگ دیکھ لیتے ہیں کہ پیتل پر سونے کا پانی چڑھا دیا گیا تھا۔ کچھ اس کے بعد بھی مان کر نہیں دیتے۔ ایسے استثنا کی بات چھوڑیے، اب کم و بیش سب مان گئے ہیں کہ ایک سراب تھا، وہ جسے دریا سمجھ بیٹھے تھے۔

عمران خان صاحب کیوں ناکام ہوئے؟ جو لوگ شاعری سے نثر، یعنی رومان سے حقیقت کی طرف آئے ہیں، انہوں نے اس سوال کا عقلی جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔ وہ اب ایک دو تین کر کے، اس ناکامی کے اسباب گنوا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو اسباب بتائے جا رہے ہیں، وہ کبھی پردہ اخفا میں نہیں تھے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ان کے ادراک کے لیے شاعری نہیں، نثر کی زمین پر قدم رکھنا پڑتا ہے۔

یہ عمران خان ہوں یا کوئی اور خان، انسان کا اصل مسئلہ نرگسیت ہے۔ وہ جب اپنی ذات کے حصار میں قید ہو جاتا ہے تو خود کو مافوق الفطرت سمجھنے لگتا ہے۔ جیسے وہ فی الواقعہ ٹارزن ہے۔ وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کی سوچ کبھی غلط ہو سکتی ہے اور نہ انتخاب۔ اس کی زندگی ایسے واقعات سے بھرپور ہوتی ہے‘ جو بتاتے ہیں کہ اس کا انتخاب بارہا غلط ثابت ہو چکا۔ اس کے باوجود وہ مان کر نہیں دیتا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ عمران خان کے اکثر بت تراش بھی ان کے ‘ہم عارضہ‘ ہیں۔

آج عمران خان کے بارے میں بحث دوسرے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ ان کے حامی تجزیہ نگاروں میں اتفاق ہو چکا کہ وہ ناکام ہو گئے ہیں۔ اب اسباب کا کھوج لگایا جا رہا ہے۔ اس تحقیق اور دانش کا نتیجہ کچھ بھی ہو، اب دیکھنا یہ ہے کہ تیسرے مرحلے کا آغاز کب ہوتا ہے؟ کیا مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں ہوگا؟ اس سوال کے جواب کے لیے شاید بہت انتظار نہ کرنا پڑے۔

کیا یہ محض عمران خان صاحب کی ناکامی ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہ اس دانش کی ناکامی بھی ہے جس نے بت تراشی کو شعار کیا۔ انسانوں میں دیوتا تلاش کیے۔ لوگوں کو نثر سے نکال کر شاعری پہ لگا دیا۔ اس بات کو فراموش کیا کہ خواب شاعری کی زبان میں لکھے جاتے ہیں اور تعبیر نثر میں۔ عمرانیات و سیاسیات کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا جو بتاتے ہیں کہ انسانی معاشرے کیسے تبدیل ہوتے ہیں۔ لوگوں کو عقل و شعور کا راستہ دکھانے کے بجائے انہیں ہیجان میں مبتلا کیا گیا۔

تیسرے مرحلے میں اہم سوال ایک ہی ہوگا: ہم نے ماضی کے تجربات سے سیکھنا ہے یا ابھی مزید تجربات کرنے ہیں؟ عوام کے پاس جانا ہے یا خواص کے پاس؟ عوام کی اجتماعی بصیرت پر اعتماد کر نا ہے یاکسی ادارے کی انفرادی بصیرت پر؟ سیاسی نظام اگر مضبوط اساسات پر کھڑا ہو تو ٹرمپ جیسا آدمی بھی چل جاتا ہے۔ جو ملک تجربہ گاہ بنا دیے جاتے ہیں، وہاں صرف خلفشارجنم لے سکتا ہے۔ ہر سال نیا تجربہ، نیا خلفشار۔

صفِ دوستاں، صفِ ماتم میں بدل چکی۔ آج افراتفری کا راج ہے۔ صرف ایک شاخِ امید ہری ہے: ‘خود تو دیانت دار ہے‘۔ میرا احساس ہے کہ خزاں نے اس طرف کا رخ کر لیا ہے۔ جیسے جیسے پارٹی فنڈز کا مقدمہ آگے بڑھے گا، پت جھڑ میں اضافہ ہوگا۔ ‘احتساب سرِعام‘ کا نعرہ بلند کرنے والی جماعت ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور الیکشن کمیشن میں درخواست پر درخواست دی جا رہی ہے کہ مقدمے کی تفصیلات کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھا جائے۔ شخصی دیانت کے بھرم میں الیکشن کمیشن کاصرف ایک فیصلہ حائل ہے۔ دیکھیے، یہ بھرم مزیدکتنے دن قائم رہتا ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کی جگہ کسی اور کو وزیراعظم بنانے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے: ہارون رشید
09/10/2019 نیوز ڈیسک

سینئیر صحافی ہارون رشید کا کہنا ہے کہ جہاں تک مولانا پہنچ چکے ہیں ان کے پاس احتجاج کرنے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ لیکن حکومت کے پاس بڑی طاقت ہوتی ہے وہ ان کو اسلام آباد نہ آنے دیں۔ سپیشل برانچ والے پھر رہے ہوں گے، پولیس والے کچھ گرفتاریاں کر لیں۔ کچھ لوگ اس سے دلبرداشتہ ہو جائیں گے اور شرکاء کی تعداد بھی کم ہو جائے گی۔ تاہم ایسا ممکن نہیں کہ وہ احتجاج نہ کریں۔ ان سے بات چیت کا وقت بھی گزر گیا ہے۔ اگر پہلے بات چیت کی جاتی تو ممکن ہو سکتا تھا کہ مولانا دھرنا نہ دیتے۔

ادھرحکومت کا یہ کہنا کہ یہ سب مودی کے کہنے پر ہو رہا ہے یہ بھی غلط ہے۔ ہارون رشید نے کہا کہ اپوزیشن کے تین اہداف ہیں ایک یہ کہ عمران خان کو عہدے سے ہٹایا جائے، ایک یہ کہ نئے الیکشن کروائے جائیں اور ایک یہ انہی کی پارٹی میں سے کسی اور کو وزیراعظم بنایا جائے، اس حوالے سے سنجیدگی سے بحث بھی ہوئی اور شاہ محمود قریشی کا نام سامنے آیا۔

میں نے وزیراعظم کے لیے شاہ محمود قریشی کا نام سوچ سمجھ کر لیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ شاہ محمود قریشی کو وزیراعظم بنا دیا جائے اور اگر ایسا ہو جائے تو میں اسی دن ٹیلی ویژن چھوڑ دوں گا کیونکہ مصنوعی گفتگو زیادہ دیر نہیں سنی جا سکتی۔ ہارون رشید نے مزید کہا کہ اپوزیشن کی کوشش ہے کہ اتنا دباؤ ڈالا جائے کہ پارلیمانی کمیٹی بن جائے اور اس کے بعد الیکشن ہوں۔

خیال رہے اس سے قبل بھی سینئیر تجزیہ کار ہارون رشید نے حکومتی صفوں میں بغاوت کا عندیہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی وزیراعظم بننے کے لیے اندرون و بیرون ملک لابنگ کر رہے ہیں۔ اور بیرون ملک لابنگ کا جن کو پتہ چل سکتا تھا اُنہیں اِس کا پتہ چل گیا ہے جس کے بعد اب شاہ محمود قریشی کا وزیراعظم بننا تو بہت مشکل ہے لیکن اِس سے صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

جب کہ دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے دھرنے میں شرکت کی یقین دہانی نہ کروائے جانے کے باوجود بھی سولو فلائٹ لی اور 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کر دیا، ان کے اس قدر پُر اعتماد انداز کے پیچھے ضرور کوئی نی کوئی بات ہے جو فی الوقت راز ہے لیکن ممکنہ طور پر وقت آنے پر اس راز سے پردہ اُٹھ جائے گا۔
بشکریہ اردو پوائنٹ۔
 

جاسم محمد

محفلین
نوازشریف نے410 ملین روپے کی منی لانڈرنگ کی، نیب
طالب فریدی جمع۔ء 11 اکتوبر 2019
1838628-nab-1570813712-121-640x480.jpg

چوہدری شوگر ملز کے آغاز کے لئے شریف فیملی نے اپنی ہی 9 کمپنیوں سے 20 کروڑ 95 لاکھ قرض لیا، نیب فوٹو:فائل


لاہور: نیب نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے یوسف عباس اور مریم نواز کی شراکت داری سے 410 ملین روپے کی منی لانڈرنگ کی۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق چوہدری شوگرمل کیس کے حوالے سے نیب کی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے۔ نیب نے انکشاف کیا کہ نوازشریف نے بھتیجے یوسف عباس اور صاحبزادی مریم نواز کی شراکت داری سے 410 ملین روپے کی منی لانڈرنگ کی۔ ملزمان نے جعلی 11 ملین کے شیئرز غیر ملکی شخص نصیر عبداللہ کو منتقل کرنے کا دعویٰ کیا، جب کہ ٹرانسفر کئے جانے والے شیئرز نوازشریف کو 2014 میں واپس کر دئیے گئے تھے۔

نیب رپورٹ میں بتایا گیا کہ چوہدری شوگرملز اور شمیم شوگرملز میں 1992 سے لے کر 2016 تک 2 ہزار ملین کی انوسٹمنٹ کی گئی۔ نواز شریف نے 1992 میں شوگر ملز کے لئے ایک آف شور کمپنی سے 1 کروڑ 55 لاکھ 20 ہزار ڈالر کا قرض ظاہر کیا، لیکن جس کمپنی سے قرض لیا گیا اس کے اصل مالک کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق چوہدری شوگر مل کے آغاز کے لئے شریف فیملی نے اپنی ہی 9 کمپنیوں سے 20 کروڑ 95 لاکھ قرض لیا، مل کے قیام کے لئے ایک کروڑ 53 لاکھ ڈالرکا قرض دیگر ذرائع سے بھی حاصل کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف 1992 میں 43 ملین شیئر کے مالک تھے، ان کے پاس 1992 میں اتنے شیئر کہاں سے آئے یہ نہیں بتایا گیا، جب کہ ان کے اثاثے بڑھے، اس وقت نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ اور وزیر خزانہ بھی رہے، نوازشریف نے نیب کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے کسی سوالات کے جوابات ہی نہ دئیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نیا سیاسی پیر
حامد میر

کیا کوئی وزیراعظم صرف ایک سال میں اپنے ملک کی تباہ حال معیشت کو سنبھال کر ترقی کے راستے پر ڈال سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں نہیں ہے۔ کیا چار جماعتوں کی مخلوط حکومت کا وزیراعظم کوئی ایسا بڑا فیصلہ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہمسایہ ملک کے ساتھ کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی دشمنی اچانک دوستی میں بدل جائے؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی وزیراعظم تبدیلی کا وعدہ کرکے آئے اور صرف ایک سال میں یہ تبدیلی صرف اس کے اپنے لوگوں کو نہیں بلکہ بیرونی دنیا کو بھی نظر آنے لگے اور چین سے لے کر برطانیہ تک سب اُسے داد دینے لگیں اور یونیسکو جیسا عالمی ادارہ اُسے امن انعام سے نواز دے؟ ان سب سوالات کا جواب ہاں میں ہے لیکن ایسا باصلاحیت وزیراعظم آپ کو پاکستان میں نہیں بلکہ ایتھوپیا میں ملے گا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اپریل کے آخری ہفتے میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے اجلاس کے دوران سائڈ لائنز پر ایتھوپیا کے وزیراعظم ڈاکٹر ابی احمد کے ساتھ ملاقات کی تو پاکستان میں عمران خان کے کچھ ناقدین نے اُن کا بڑا مذاق اُڑایا اور بڑے زہریلے انداز میں طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وزیراعظم کی اوقات یہ رہ گئی ہے کہ اُسے ایتھوپیا کے وزیراعظم کیساتھ ملنا پڑتا ہے کیونکہ باقی سربراہانِ مملکت نے اُن کو ملاقات کا وقت نہیں دیا۔ صاحبانِ طنز شاید نہیں جانتے تھے کہ ایتھوپیا کے وزیراعظم ڈاکٹر ابی احمد نے صرف ایک سال میں ایتھوپیا جیسے غریب اور جنگ زدہ ملک کو صرف افریقہ میں نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی ’’اُمید کی علامت‘‘ بنا دیا ہے اور اگر عمران خان اُنہیں اپنا ’’سیاسی پیر‘‘ بنا لیں تو ہو سکتا ہے اہلِ پاکستان کی مایوسیاں بھی کچھ کم ہو جائیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس خاکسار کو بھی چند ہفتے پہلے تک ڈاکٹر ابی احمد کے بارے میں کچھ زیادہ پتا نہیں تھا۔ پچھلے ماہ مجھے یونیسکو کی طرف سے ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں ورلڈ پریس فریڈم ڈے کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی تو بڑی حیرانی ہوئی کہ یہ کانفرنس ایتھوپیا میں کیوں ہو رہی ہے؟ اس سال یونیسکو کے گویلر موکانو پریس فریڈم ایوارڈ کے جیوری ممبر کی حیثیت سے ہمارے سامنے ایتھوپیا کے کسی گرفتار صحافی کی نامزدگی بھی سامنے نہیں آئی تھی۔ یونیسکو کے حکامِ بالا سے پوچھا کہ آپ ہمیں ایتھوپیا کیوں بلا رہے ہیں؟ ہمیں کہا گیا کہ 2019ء کا ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس دیکھ لیں، سب سمجھ آ جائے گی۔


2019ء کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ 2018ء کے پہلے کچھ ماہ تک ایتھوپیا دنیا کے اُن ممالک میں شامل تھا جن کو صحافیوں کیلئے جہنم کہا جاتا تھا۔ اپریل 2018ء میں ڈاکٹر ابی احمد ایک چار جماعتی مخلوط حکومت کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ ہزاروں سیاسی قیدیوں کے ساتھ وہ لوگ بھی رہا کر دیئے جو گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل تھے۔ بہت سے صحافی غداری کے الزام میں مقدمات بھگت رہے تھے، انہیں بھی رہا کر دیا گیا۔ کچھ اخبارات پر پابندی تھی، یہ پابندی ختم کر دی گئی۔ دو سو سے زیادہ ویب سائٹس بند تھیں، اُنہیں بھی کھول دیا گیا۔ ڈاکٹر ابی احمد نے بہت تیزی کے ساتھ سیاسی و اقتصادی اصلاحات کا آغاز کیا۔ پرانے سسٹم سے وابستہ کچھ طاقتور ریاستی اداروں نے اُنہیں روکنے کی کوشش کی لیکن ڈاکٹر ابی احمد کی اصلاحات کو اتنی زیادہ عوامی تائید ملی کہ پرانا سسٹم بھی خاموش ہوگیا۔ 2018ء میں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ایتھوپیا 150ویں نمبر پر تھا صرف ایک سال کے بعد 2019ء میں ایتھوپیا 110ویں نمبر پر آ گیا۔ ایک سال میں ایتھوپیا نے اپنی پوزیشن کو 40درجے بہتر بنایا۔ یہ ناقابلِ یقین تھا لیکن ہمیں یقین تو کرنا پڑا۔ سمجھ آ گئی کہ عمران خان نے بیجنگ میں ڈاکٹر ابی احمد کے ساتھ ملاقات کیوں کی؟ ہمیں بھی ایتھوپیا کے اس باصلاحیت لیڈر سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا اور ہم ایتھوپیا پہنچ گئے، جو پرانے زمانے میں حبشہ کہلاتا تھا۔ حبشہ کا ایک بادشاہ تھا جس کا نام نجاشی تھا۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کے دور میں کچھ صحابہ کرامؓ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے۔ کفارِ مکہ نے نجاشی کو تحفے تحائف دے کر ان صحابہ کرامؓ کو اپنی حراست میں لینے کی کوشش کی لیکن مسیحی بادشاہ نے مسلمانوں کو کفار کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نجاشی کے دیس میں آج ڈاکٹر ابی احمد کی حکومت ہے، جن کے والد مسلمان اور والدہ مسیحی ہیں۔ وہ 2010ء میں پہلی دفعہ پارلیمنٹ کے رکن بنے۔ 2015ء میں دوبارہ الیکشن جیت کر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بنائے گئے۔ اس دوران ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔ بحران سے نکالنے کیلئے ایک چار جماعتی مخلوط حکومت نے ڈاکٹر ابی احمد کو وزیراعظم بنا دیا کیونکہ وہ مسیحیوں اور مسلمانوں کے علاوہ تمام اہم لسانی و نسلی گروہوں کیلئے قابلِ قبول تھے۔ اُنہوں نے ایک طرف ملک میں انسانی حقوق بحال کئے، دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ مل کر ارٹیریا کے ساتھ سرحدی تنازعات طے کئے اور پرانی دشمنی کو دوستی میں بدل دیا۔ ایتھوپیا کی حکومت نے ماضی میں چین سے بڑے بڑے قرضے لئے تھے۔ ڈاکٹر ابی احمد نے ان قرضوں پر نظر ثانی کرائی۔ دوسری طرف ان کی اقتصادی اصلاحات کو آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے بھی حمایت مل گئی۔ آزادیٔ صحافت اور انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہونے پر یورپی سرمایہ کاروں نے بھی ایتھوپیا کا رُخ کر لیا اور اب ایک سال کے اندر عدیس ابابا میں جگہ جگہ بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ لگتا ہے اگلے کچھ سالوں میں عدیس ابابا افریقہ کا دبئی بن جائے گا۔ عدیس ابابا میں ورلڈ پریس فریڈم ڈے کی کانفرنس میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے مغربی سرمایہ کاروں کی ایتھوپیا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی اصل وجہ بیان کر دی۔ اُنہوں نے کہا کہ کرپشن جمہوریت کی بہت بڑی دشمن ہے۔ صاف ستھری جمہوریت کیلئے آزادیٔ صحافت بہت ضروری ہے۔ اُنہوں نے کہا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کا تقابلی جائزہ لیں۔ اُن ممالک میں سب سے کم کرپشن ہے جہاں سب سے زیادہ آزادیٔ صحافت ہے۔ جو ریاست آزادیٔ صحافت کو تحفظ دیتی ہے وہ خود بخود کاروباری حضرات اور عالمی مالیاتی اداروں کیلئے باعثِ کشش بن جاتی ہے۔ یہاں یونیسکو کی طرف سے ڈاکٹر ابی احمد کو امن انعام اور برما کے دو بہادر صحافیوں کو گویلر موکانو ایوارڈ دیا گیا۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے ڈاکٹر ابی احمد کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے عمران خان سے ملاقات کی، آپ اُنہیں بار بار ملیں اور بتائیں کہ پاکستان میں کرپشن ختم کرنا ہے تو میڈیا کو زیادہ سے زیادہ آزادی دینا ہو گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاک فوج ملک کا وزیراعظم تبدیل کر سکتی ہے
پاک فوج معیشت کے معاملے پر عمران خان سے ناخوش ہے۔ غیر ملکی جریدے کی رپورٹ

1530271235_admin.png._1
سمیرا فقیرحسین ہفتہ 12 اکتوبر 2019 16:58

pic_fbf64_1531051324.jpg._3


بیجنگ (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 12 اکتوبر 2019ء) : غیر ملکی جریدے کی رپورٹ میں پیشن گوئی کی گئی کہ پاک فوج موجودہ وزیراعظم کو تبدیل کر سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاک فوج معیشت کے معاملے پر موجودہ وزیراعظم عمران خان سے ناخوش ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ وزیراعظم کو تبدیل کر دیں۔رپورٹ میں ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملک کی کاروباری شخصیات کی ملاقات کوئی بڑا سرپرائز نہیں تھی البتہ یہ اس بات کی جانب اشارہ ضرور تھا کہ موجودہ حکومت نے معیشت کو جس طرح سنبھالنے کی کوشش کی ہے پاک فوج اس سے ناخوش ہے۔ رپورٹس کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کاروباری شخصیات سے خفیہ ملاقاتیں بھی کی ہیں ۔

ماہرین کے مطابق پاک فوج اس وقت ملک بھر میں تیل ، چینی ، سیمنٹ اور ایوی ایشن سمیت دیگر شعبوں میں کاروبار کو فروغ دینے کی خواہشمند ہے۔ خیال رہے کہ اس سے قبل بھارتی میڈیا نے بھی پاکستان کے حوالے سے اس قسم کی خبر نشر کی تھی جس کے بعد بھارتی میڈیا کی رپورٹ کو پاکستان کے خلاف ایک اور پراپیگنڈہ قرار دے کر اسے مسترد کر دیا گیا تھا۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں عمران خان کی حکومت اب ختم ہونے والی ہے۔ آزادی مارچ حکومت کا اعلان ایک اپوزیشن پارٹی کی جانب سے کیا گیا تھا جس میں اب دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ بھارتی ٹی وی چینل کی رپورٹ میں عمران خان کو کٹھ پُتلی وزیراعظم بھی کہا گیا۔ اور بتایا گیا کہ حال ہی میں پاکستان کے آرمی چیف نے تین مختلف جگہوں پر پاکستان کی کاروباری شخصیات سے ملاقات کی جس میں کاروباری شخصیات نے پاکستان کی معیشت پر اپنے بڑھتے ہوئے تحفظات سے متعلق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو آگاہ کیا۔
 
Top