نیب نے مریم نواز کو گرفتار کرلیا

جاسم محمد

محفلین
مریم نواز 21 اگست تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1772985-maryamnawaz-1565329438-475-640x480.jpg

مریم نواز چوہدری شوگر ملز میں حصہ دار ہیں جس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، نیب فوٹو:فائل

لاہور: احتساب عدالت نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو چوہدری شوگر ملز کیس میں 21 اگست تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) نے مریم نواز اور نواز شریف کے بھتیجے یوسف عباس کو احتساب عدالت لاہور میں پیش کردیا۔

نیب نے عدالت سے دونوں افراد کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی۔ عدالت نے دونوں افراد کا 12 دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے 21 اگست کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔

نیب پراسکیوٹر نے بتایا کہ شریف خاندان نے اپنی چوہدری شوگر ملز کے ذریعے منی لانڈرنگ کی، مریم نواز چوہدری شوگر ملز کی شیئر ہولڈر ہیں اور یوسف عباس کا اکاؤنٹ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوا۔

مریم نواز کی پیشی کے موقع پر عدالت میں بڑی تعداد میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنان موجود تھے جنہیں منتشر کے لیے پولیس نے تشدد بھی کیا۔

نیب نے مریم نواز اور یوسف عباس کو چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتار کیا ہے۔ نیب کے مطابق چوہدری شوگر ملز سمیت شریف خاندان کی تمام کمپنیاں منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوئیں۔

مریم کے نام پر 11 ہزار شیئرز منتقل کیے گئے اور ان کے ساتھ ساتھ یوسف عباس کے نام پر بھی لاکھوں ڈالر منتقل ہوئے جس کی تفصیلات بتانے میں یہ دونوں ناکام رہے۔
 

آورکزئی

محفلین
لگتا ہے اگلی حکومت میں پنکی پیرنی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوگا۔۔۔۔ جو کچھ حکومت کررہی ہے۔۔ مجھے تو مستقبل برا تابناک نظر آرہا ہے۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
لگتا ہے اگلی حکومت میں پنکی پیرنی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوگا۔۔۔۔ جو کچھ حکومت کررہی ہے۔۔ مجھے تو مستقبل برا تابناک نظر آرہا ہے۔۔۔
یہ منی لانڈرنگ، کرپشن کیسز 2010 اور 2015 سے چل رہے ہیں۔ دونوں سیاسی خاندانوں نے ایک دوسرے کے خلاف کیسز خود بنائے ہیں۔ 90 کی دہائی میں بھی یہ دونوں سیاسی خاندان یہی کچھ ہی کرتے تھے۔ لیکن اس وقت جج، جرنیل ، بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل کر کے ان کیسز میں این آر او مل جایا کرتا تھا۔ اب چونکہ عمران خان /قمر جاوید باجوہ زیر اقتدار ہیں تو کوئی ڈھیل یا ڈیل نہیں مل رہی۔ اسی لئے یہ سب قومی چور اپنے کرتوتوں پر رورہے ہیں۔ اور رونا بھی چاہئے۔ اپنی شامت اعمال ہے۔ اب بھگتیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
اس اصول کے تحت تو 40 سال بعد ہونا چاہئے۔ :)
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے ان فوجی جرنیلوں اور ججوں کا احتساب ہو جو ان کرپٹ سیاست دانوں کو اگا کر اقتدار میں لائے ہیں۔ ایسا تب ہی ممکن ہوگا جب ملک کسی بڑے جمہوری انقلاب کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل تیار کر رہا ہو۔
یہاں تو یہ حال ہے کہ جمہوری انقلاب لانے کا دعویٰ کرنے والے بھی وہی عسکری پلانٹڈ سیاست دان ہیں۔ جو ماضی میں ججوں کی ملی بھگت سے مختلف کرپشن کیسز میں کلین چٹ حاصل کرتے آئے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا چند سطروں میں پاکستانی سیاست کی بہتری کا کوئی حل تجویز کیا جا سکتا ہے؟
ملک میں مستقل مارشل لا لگا دیں یا مکمل جمہوری انقلاب لے آئیں۔ تیسری کوئی صورت نہیں۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا نظام ڈلیور نہیں کر سکتا۔
 
ملک میں مستقل مارشل لا لگا دیں یا مکمل جمہوری انقلاب لے آئیں۔ تیسری کوئی صورت نہیں۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا نظام ڈلیور نہیں کر سکتا۔
جمہوری انقلاب اور اس کے طریقۂ کار کی مختصر وضاحت بھی سامنے آجائے تو مفید ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے مریم نواز کو گرفتار کیا گیا، شہبازشریف
ویب ڈیسک جمعہ۔ء 9 اگست 2019
1773058-shahbaz-1565332642-739-640x480.jpg

اللہ تعالی کے فضل سے فتح مظلوم کشمیریوں کی ہوگی، شہباز شریف فوٹو: فائل

اسلام آباد: صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے مریم نواز کو گرفتار کیا گیا جب کہ مریم نواز کی گرفتاری کشمیر میں ناکام حکومتی پالیسی سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے مریم نواز کی پیشی کے موقع پر کارکنوں پر پولیس تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فسطائی حکومت ملک میں ’وَن پارٹی رول‘ قائم کرنا چاہتی ہے، نئے پاکستان کے معماروں نے اپنے فسطائی اقدامات سے پرانے پاکستان کو بھی شرما دیا ہے، نااہل حکمرانوں کی تحریک انتقام چلانے والوں کو ماضی کی طرح ایک بار پھر مایوسی اور شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔

شہباز شریف نے کہا کہ نالائق حکومت خود کو عوام کی عدالت سے بچانے کے لئے اپوزیشن پر جھوٹے مقدمات بنارہی ہے، جمہوریت، قانون اور آزاد میڈیا کی مالا جپنے والوں نے بغل میں چھری رکھی ہوئی ہے تاہم کوئی ریاستی جبر کارکنوں کو اپنی قیادت اور رہنماؤں سے یک جہتی سے نہیں روک سکتا، عمران نیازی نازی سوچ اور فسطائی اقدامات کی علامت بن چکے ہیں۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ظلم برداشت کر لیں گے لیکن عمران خان کے آگے سر نہیں جھکائیں گے، کل نیب مریم نواز اور یوسف کو گرفتار کرنے کوٹ لکھپت جیل گئی، کیا نیب رائیونڈ میں گرفتار نہیں کرسکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے مریم نواز کو گرفتار کیا گیا، مریم نواز کی گرفتاری کشمیر میں ناکام حکومتی پالیسی سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، کشمیر کے مستقبل کا سودا کیا گیا جب کہ معیشت کی خراب صورتحال اور مہنگائی سے توجہ ہٹانے کےلیے حکومت یہ اقدامات کررہی ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ 13 جولائی 2018 کو ایک باپ کے سامنے بیٹی اور بیٹی کے سامنے باپ گرفتار ہوئے جب کہ کل اس کی بدتر تاریخ دوبارہ دوہرائی گئی تاہم قوم جانتی ہے کہ نوازشریف اورمریم نواز پہلی دفعہ گرفتار نہیں ہوئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مریم نواز صفدر لیڈر بن سکتی ہیں۔۔۔
09/08/2019 شاہد کاظمی

پاکستان کا ایک المیہ رہاہے اور آج بھی ہے کہ اس دھرتی پہ، ملک سے اہم شخصیات رہی ہیں۔ اور شخصیات پہ حرف آیا نہیں اور ملک کے رہنے یا نہ رہنے کے نعرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ جناب آپ کے اجداد نے اگر ملک کے لیے جہدو جہد کی تھی تو اس لیے نہیں کی تھی کہ آپ اس ملک کے مختار کل بن جائیں کہ جو چاہیں آپ فیصلہ کریں وہی قانون بن جائے۔ اس ملک کی بنیادوں میں تو ایسے گمنام شہیدوں کا لہو بھی شامل ہے کہ جن کے لاشے بھی شاید مٹی میں ایسے دب گئے کہ زمین بھی ہموار ہو گئی اور اس زمین پہ آج کوئی اکڑ کے اس ملک کے خلاف بات کرتے ہوئے جب چلتا ہے تو شاید اسی زمین کے نیچے وہ لاشہ تڑپ جاتا ہو گا۔

اور اس ملک کی آبیاری ان ماؤں، بہنوں نے اپنی عزتیں لٹا کر کی ہے جن کے ناموں سے بھی آج کی نسل واقف نہ ہو گی۔ اور ان میں سے کتنی ہی ایسی تھیں جو ایسے گمنام کنوؤں میں کود گئیں کہ جن کے میٹھے پانی آج کی نسل پیتے ہوئے اس ملک کی عزت و تکریم پہ ہرزہ سرائی کرتی ہے۔ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر ہوتا تو یقینی طور پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا کہ یہ تو فلاں کے باپ دادا کی جاگیر ہے جو چاہیں کہیں اس کو۔ لیکن اگر اس پاکستان کے معمار ہی وہ ہیں جنہوں نے ایسے، اس ملک کے لیے قربانیاں دیں کہ انہیں یہ بھی گوارا نہیں تھا کہ ان کا نام بھی باقی رہے کہ کوئی ان کے نام کو بنیاد بنا کر اس ملک سے کچھ مانگتنا پھرے تو ہم اور آپ کس باغ کی مولی ہیں جو اس دھڑلے سے وطن عزیز کے خلاف بولیں۔

مریم نواز صفدر گرفتار ہو چکی ہیں۔ اور ان کے پارٹی کارکنان جو ایوان کا حصہ ہیں، انہوں نے طوفان بدتمیزی برپا کر ڈالا کہ اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر لیا۔ یاد رکھیے کسی بھی ملک میں ہزاروں سیاستدان ہوتے ہیں لیکن ان میں سے معدودے چند ایسے افراد جو انگلیوں پہ گنے جا سکتے ہیں، وہ راہنما بن پاتے ہیں۔ ان گنتی کے چند افراد کو سیاست کے گرو لیڈر مانتے ہیں۔ اوراس لمحے مریم بی بی کے پاس بھی ایک سیاستدان سے لیڈر بننے کا سنہری موقع ہے۔ اب یہ ان پہ ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں یا اس موقع کو گنواتی ہیں۔

اگر مریم بی بی اس لمحے اپنی ذات کا سوچتی ہیں، صرف ایک سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے خود کو منسلک سمجھ کے سوچتی ہیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس وقت پاکستان میں موجود ہزاروں سیاستدانوں کی طرح ہی تاریخ کا کوئی گمنام گوشہ پائیں گی۔ لیکن اس وقت اگر وہ خود کو تمام سیاسی وابستگی سے ایک لمحے کے لیے ہٹ کہ خود کو صرف پاکستانی سمجھتی ہیں تو دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ وہ تاریخ میں اپنا مقام ایک راہنما کے طور پہ پا لیں گی۔ لیکن اس حوالے سے فیصلہ مریم نواز صفدر کو کرنا ہے کہ وہ اس لمحے کیا چاہتی ہیں۔

اگر صرف سیاستدان ہی بننا ہے تو اپنی گرفتاری کو کیش کروائیے۔ ایوان میں ہنگامہ کروائیے۔ اور پارٹی کارکنان کو احکامات دیجیے کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ متنازعہ بیانات کی بھرمار کر دیجیے۔ دوسرے سیاستدانوں کے خلاف اخلاقی معیار سے کئی درجے نیچے گفتگو کیجیے۔ آپ کو کوئی نہیں روکے گا، اور آپ کا درجہ پاکستان کی تاریخ میں بھی ایک عام سیاستدان سے بڑھ کے نہیں ہو گا۔

لیکن اگر مریم صاحبہ اس وقت وسعت قلبی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی ذات کو، اپنے خاندان کو، ملک کے لیے سمجھتے ہوئے، اس لمحے پاکستان کو سب سے پہلے سمجھتی ہیں تو وہ صرف ایک بیان دے سکتی ہیں۔ وہ صرف اپنے قابل بھروسا ساتھی کی مدد سے میڈیا میں ایک پریس ریلیز جاری کروا سکتی ہیں جس میں صرف مختصر سی تحریر ہو کہ ”میری گرفتاری اس وقت اہم نہیں اور میں مقدمات کا سامنا کروں گی۔ میری اپنے کارکنان سے اپیل ہے کہ وہ میری گرفتاری پہ احتجاج و ہنگامے کے بجائے کشمیر کے مسئلے کو ترجیح بنا لیں۔“

حکومت سے اختلافات ہم رکھتے ہیں اور رکھیں گے لیکن اس وقت ہماری ترجیح کشمیر ہونی چاہیے۔ ہمیں کشمیر میں جاری ظلم و ستم پوری دنیا کو دکھانا ہے۔ اور پاکستان کے خلاف کسی قدم پہ ہم حکومت اور اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ بس اتنی سی بات۔ اور آپ یقین کیجیے مریم نواز جیل میں قید میں رہتی ہیں تو بھی اس ملک کی ایک بڑی راہنما بن کے ابھریں گی۔ اور پاکستانی سیاست میں ان کے نام کا ڈنکا بجے گا۔ لوگ انہیں ان کے نام سے پہچانیں گے۔ وہ یہ بھول جائیں گے کہ مریم بی بی نواز شریف کی بیٹی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے فیصلے کا اختیار صرف اور صرف مریم بی بی کے پاس ہے۔

کردار پہ بحث نہیں، ذات کے بخیے ادھیڑنا مقصور نہیں، صرف ایک لمحہ سوچیے آج مخالفین بھی بھٹو کا نام لیتے ہوئے اپنا لہجہ احترام کے دائرے میں کیوں لے آتے ہیں؟ کیا کبھی سوچا کہ اس کے ذاتی کردار کے بجائے اس کا نام ایک علامت بن کے کیسے ابھرا؟ بھٹو نے پاکستانی سیاست کی سختیاں برداشت کیں۔ اس نے اپنے باپ دادا کے نام کو کیش کروانے کی بجائے ایسے فیصلے کیے کہ بھٹو سیاسی کارکنوں کے دل میں اتر گیا۔

فوری اور بروقت فیصلہ آپ کا نام تاریخ میں امر کر دیتا ہے اور اگر آپ فیصلے میں تھوڑی سی بھی تاخیر کر دیں تو آپ بھی تاریخ میں ایسے گمنام رہتے ہیں جیسے کھربوں لوگ رہتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے ان فوجی جرنیلوں اور ججوں کا احتساب ہو جو ان کرپٹ سیاست دانوں کو اگا کر اقتدار میں لائے ہیں۔ ایسا تب ہی ممکن ہوگا جب ملک کسی بڑے جمہوری انقلاب کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل تیار کر رہا ہو۔
یہاں تو یہ حال ہے کہ جمہوری انقلاب لانے کا دعویٰ کرنے والے بھی وہی عسکری پلانٹڈ سیاست دان ہیں۔ جو ماضی میں ججوں کی ملی بھگت سے مختلف کرپشن کیسز میں کلین چٹ حاصل کرتے آئے ہیں۔

ملک میں مستقل مارشل لا لگا دیں یا مکمل جمہوری انقلاب لے آئیں۔ تیسری کوئی صورت نہیں۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا نظام ڈلیور نہیں کر سکتا۔

آج تو زبردست کی درجہ بندی مل گئی آپ کو!
 

جاسم محمد

محفلین
جو بات بے نظیر نہیں سمجھ پائیں وہ عمران خان کیسے سمجھیں گے؟
08/08/2019 ظفر ملک

یہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت تھی، 1988 کے عام انتخابات کے بعد آئی جے آئی کے مقابلے میں انہوں نے بمشکل ہی کامیابی حاصل کی تھی، جنرل حمید گل کا تشکیل کردہ اسلامی جمہوری اتحاد وفاق میں تو بے نظیر بھٹو کی حکومت کے قیام کے راستے میں بند نہ باندھ سکا لیکن پنجاب میں میاں نواز شریف بطور وزیر اعلیٰ خم ٹھونک کر آ گئے۔ سینئر اور جہاندیدہ ملک معراج خالد کو بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی کا سپیکر بنا دیا۔ سرد و گرم چشیدہ ملک معراج خالد نہایت ہی دانش مندی سے ایوان کو کسی بڑی محاذ آرائی کے بغیر لے کر آگے بڑھ رہے تھے۔ ملک معراج خالد ذوالفقار علی بھٹو کے دیرینہ رفیق تھے، لاہور کے سرحدی علاقے سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاست دان نے اوائل عمری میں خود ریڑھے پر ڈبے رکھ کر دودھ بیچا۔ اور ساتھ تعلیم کا حصول جاری رکھا۔ انہیں ہمیشہ اپنے ماضی پر فخر رہا

1988 کے ان دنوں میں نوائے وقت راولپنڈی میں جونیئر رپورٹر تھا۔ کچھ سینئرز کی وساطت سے ملک صاحب تک رسائی ہو گئی اور مجھے ان کے ساتھ کئی نشستیں کرنے کا موقع مل گیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف میں محاذ آرائی زوروں پر تھی ”، وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور کے دورے پر جانے والی وزیر اعظم کا استقبال کرنے نہ آتے اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو انہیں اہم اجلاسوں میں طلب نہ کرتیں جہاں وزیر اعلیٰ کی موجودگی اصولی طور پر ضروری تھی۔

بے نظیر بھٹو ان دنوں ایسے مشیروں میں گھری تھیں جو انہیں بتاتے تھے کہ میاں نواز شریف سے محاذ آرائی میں ہی ان کے اقتدار کا استحکام ہے اور ان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے اتار پھینکنے کے درپے ہیں۔ یہ پیپلز پارٹی کی وہ قیادت تھی جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دوسرے یا تیسرے درجے یا پھر ابھی کالج یونیورسٹی میں پی ایس ایف کی سیاست کر رہی تھی، یہ تمام لوگ اقتدار اور ان کے استحکام کی نزاکتوں اور باریکیوں سے ناواقف تھے اور یہی جانتے تھے کہ بی بی کی خوشامد اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ سے ہی ان کا سیاسی مستقبل وابستہ ہے۔

انہی دنوں ملک معراج خالد کے گھر جانے کا اتفاق ہوا جہاں سپیکر کی سرکاری رہائش گاہ کے ڈرائنگ میں رکھی پلاسٹک چیئرز پر بیٹھ کر گپ شپ بڑی دیر تک چلتی رہی۔ چین سموکر ملک معراج خالد سگریٹ کی راکھ ایش ٹرے میں جھاڑتے ہوئے ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کر رہے تھے۔ ان کی آواز حسب معمول دھیمی اور چہرے پر گہری سوچ تھی۔ اسی دوران وہ اٹھ کر اندر گئے اور ٹرے میں چائے کے کپ لائے کہ یہی ان کا انداز تھا۔ چائے پیتے ہوئے موضوع پنجاب اور وفاق کے درمیان کشیدگی اور وزیر اعظم کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب کی محاذ آرائی کی جانب مڑ گیا۔

ملک معراج خالد کے چہرے پر میں نے پریشانی کے آثار دیکھے۔ کہنے لگے دیکھو میں نے بہت کوشش کی ہے کہ بی بی اس بات کو سمجھ سکیں کہ نواز شریف سے محاذ آرائی قطعی ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس کا سارا فائدہ صرف اور صرف نواز شریف کو ہے کیونکہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے محاذ آرائی سے وزیر اعلیٰ نواز شریف کا سیاسی قد بڑھ رہا ہے جبکہ بے نظیر بھٹو کا سیاسی نقصان ہے کہ وہ بطور وزیر اعظم ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ سے پنجہ آزمائی میں مصروف ہیں۔

کہنے لگے کہ میری یہ بات بی بی کی سمجھ میں نہیں آ رہی اور مجھے فکر ہے کہ آنے والے دنوں میں نواز شریف بی بی کے مقابلے پر کھڑا ہو جائے گا اور اس کی ذمہ داری خود بی بی پر اور ان کے مشیروں پر ہو گی۔ کچھ ہی عرصے کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے آئین کی آرٹیکل 58 ( 2 ) بی کا بے رحمانہ استعمال کیا اور بی بی کے حکومت کرپشن کے الزامات پر ایوان اقتدار سے نکال باہر کی گئی۔ ملک معراج خالد کے اندیشے درست ثابت ہوئے اور ان انتخابات کے نتیجے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف وزرات عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے۔

اور پھر اقتدار کی میوزیکل چیئر انہی دونوں کے درمیان کئی سال تک گھومتی رہی۔ آج ایک بار پھر کچھ ایسا ہی منظر ہے۔ 22 سال تک سیاسی جدوجہد کے بعد ایوان اقتدار میں پہنچنے والے وزیر اعظم عمران خان کو نوجوان ن لیگ کی مریم نواز کے چیلنج کا سامنا ہے۔ مشیروں کے کہنے پر مریم نواز کی میڈیا کوریج پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ لیکن عوام ہیں کہ مریم کے جلسوں اور ریلیوں میں امڈے چلے آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا جو پہلے عمران خان کا ہتھیار تھا اب وہی ہتھیار مریم نواز کے ہاتھ میں ہے۔ دریا کے آگے بند باندھنے سے پانی کا دباؤ کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھ جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان مریم نواز کو اپنے مقابلے پر لانے کے لیے خود موقع اور گنجائش فراہم کر رہے ہیں لیکن جو بات بے نظیر بھٹو کو سمجھ میں نہیں آئی تھی اور عمران احمد نیازی کی سمجھ میں کیسے آئے گی؟
 

فرقان احمد

محفلین
دانا کہتے ہیں خود تجربات کی بجائے دوسروں سے عبرت حاصل کرو۔سچ لکھنے پر "وہ" آپ کو اٹھا کر لے گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ مجھے بھی لے جائیں۔ اس مکالمہ کو یہیں ختم کر دیتے ہیں :)
ایسا کچھ نہیں ہوا تھا تاہم آپ کو ہم یقین نہ دلا سکیں گے۔ :) اس لیے، یہ ڈراما دیکھیے اور لطف اٹھائیے! معانی بھی خود ہی اخذ کر لیجیے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
ایسا کچھ نہیں ہوا تھا تاہم آپ کو ہم یقین نہ دلا سکیں گے۔
کہاں چھپتے پھر رہے ہیں؟ آپ کو یہاں سے بھاگنے نہیں دیا جائے گا :)
نہیں بھیا! ہمارا ان سے تو کوئی تعلق نہیں مگر ہم بھی چھپے رستم ہیں۔ مشرف دور میں ہمارے کالم کہیں نہ کہیں چھپتے تھے، آہ وہ بھی کیا دن تھے ۔۔۔! خیر، اب ہم خلائی مخلوق سے چھپتے پھرتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بوجوہ خوب اچھی طرح سے توبہ کروائی گئی تھی۔ :) اور اب، رسی جل گئی مگر بل نہ گیا والا معاملہ ہے ۔۔۔! :)
 

جاسم محمد

محفلین
لگتا ہے اگلی حکومت میں پنکی پیرنی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوگا۔۔۔۔ جو کچھ حکومت کررہی ہے۔۔ مجھے تو مستقبل برا تابناک نظر آرہا ہے۔۔۔
اپوزیشن گرفتاریوں سے پہلے: عمران خان سلیکٹڈ وزیر اعظم ہے، اس کے پاس کوئی اختیار نہیں
اپوزیشن گرفتاریوں کے بعد: یہ سب کچھ عمران خان کا کیا دھرا ہے، اپنے مستقبل سے ڈرو عمران
 
Top