چئیرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

جاسم محمد

محفلین
صاحب! اسی نظریۂ ضرورت کے تو ہم ڈسے ہوئے ہیں۔ جب بھی جمہوریت پنپنے لگتی ہے، کوئی قومی ضرورت آڑے آجاتی ہے۔
جمہوریت اور بدنیتی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ جب سپریم کورٹ نے ۲۰۱۷ میں نواز شریف کو نااہل کیا تو ن لیگیوں نے فوری طور پر اپنی پارلیمانی اکثریت کا سہارا لیتے ہوئے قانونی ترامیم کرکے نواز شریف کی پارٹی صدارت کو بحال کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس قانونی ترمیم کا نوٹس لیا اور اسے بدنیتی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا کہ ایک نااہل شخص پارٹی صدارت کا عہدہ کیسے رکھ سکتا ہے؟
اسی طرح جب نواز شریف کو ۱۹۹۷ میں دو تہائی اکثریت ملی تو انہوں نے فوری طور پر اس کا استحصال کرتے ہوئے تیرہویں اور چودھویں آئینی ترامیم پاس کرکے امیر المومنین بننے کی کوشش کی تھی۔ اگر ان کو فوج بزور بندوق نہ ہٹاتی تو قانونی طور پر ان کے ہٹائے جانے کے تمام راستے وہ خود ہی بند کر چکے تھے۔
پاکستانیوں کو سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت میں نیک نیتی شامل ہونا لازم و ملزوم ہے۔ صرف نمبر گیم کی بنیاد پر اپنے ذاتی مفادات میں جمہوری فیصلے کروانا جمہوریت نہیں بلکہ اسکی ضد ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
تو یہ طے پایا کہ اِس ملک کے مستقبل کا فیصلہ اب بھی صرف اور صرف فوج یا اس کے تراشیدہ نام نہاد سیاست دان کریں گے۔ کم از کم، عامۃ الناس کو یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔سیاست مہنگا کھیل ہے اور یہ عام آدمی کے بس کا روگ نہیں۔ اس لیے، پرانے چہروں اور ابن الوقت سیاست دان ہی ہمارے مقدر میں لکھ دیے گئے ہیں؛ اُن پر ہی تکیہ کرنا ہو گا اور ان میں سے بھی صرف وہ جو سلسلہء اسٹیبلشیہ سے بیعت یافتہ ہوں۔ یعنی، کوئی ورائٹی نہیں؛ کوئی نیا پن نہیں؛ وہی فوجی بوٹ، وہی خاکی سائے، وہی اسٹیبلشیائی چلن ہماری سیاست کو بے رنگ بنائے رکھیں گے۔ یہ ہے نیا پاکستان جس کا خواب جناح نے دیکھا تھا اور جس کے حصول کی خاطر لاکھوں افراد کا خُون بہا۔ کوئی متبادل تک نہیں؛ متبادل قیادت بھی ایسی ہے جس کے سر پر ہاتھ رکھا جائے تو وہ بھی عسکریوں کے گن گانے لگ جائے! اک حبس ہے اور عجب بے کیفی! کون سمجھے!
 

جاسم محمد

محفلین
تو یہ طے پایا کہ اِس ملک کے مستقبل کا فیصلہ اب بھی صرف اور صرف فوج یا اس کے تراشیدہ نام نہاد سیاست دان کریں گے۔ کم از کم، عامۃ الناس کو یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔سیاست مہنگا کھیل ہے اور یہ عام آدمی کے بس کا روگ نہیں۔ اس لیے، پرانے چہروں اور ابن الوقت سیاست دان ہی ہمارے مقدر میں لکھ دیے گئے ہیں؛ اُن پر ہی تکیہ کرنا ہو گا اور ان میں سے بھی صرف وہ جو سلسلہء اسٹیبلشیہ سے بیعت یافتہ ہوں۔ یعنی، کوئی ورائٹی نہیں؛ کوئی نیا پن نہیں؛ وہی فوجی بوٹ، وہی خاکی سائے، وہی اسٹیبلشیائی چلن ہماری سیاست کو بے رنگ بنائے رکھیں گے۔ یہ ہے نیا پاکستان جس کا خواب جناح نے دیکھا تھا اور جس کے حصول کی خاطر لاکھوں افراد کا خُون بہا۔ کوئی متبادل تک نہیں؛ متبادل قیادت بھی ایسی ہے جس کے سر پر ہاتھ رکھا جائے تو وہ بھی عسکریوں کے گن گانے لگ جائے! اک حبس ہے اور عجب بے کیفی! کون سمجھے!
عین متفق! میں عمران خان کا 2006 میں دیا گیا انٹرویو پیش کر چکا ہوں جس میں موصوف فرماتے ہیں کہ کس طرح 2002 انتخابات سے قبل آئی ایس آئی چیف ان سے ملے اور کہا کہ آپ ق لیگی اتحاد میں چلے جائیں یعنی مشرف کی حمایت کریں۔ عمران خان نے اتحاد پر استفسار کیا کہ اس میں تو وہی کرپٹ لوگ ہیں جس کے خلاف جہاد کا مشرف نے اعلان کیا تھا۔ اس پر آئی ایس آئی چیف نے جواب دیا کہ ہم کیا کریں لوگ چوروں کو ہی ووٹ دیتے ہیں :)
اس فرسودہ نظام سے متعلق حسن نثار نے ایک بار کیا خوب کہا تھا کہ اس ملک کا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں نہ سچی جمہوریت آسکی نہ صحیح آمریت۔ جو آمر آتا وہ الیکشن کروا کر اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کی کوشش کرتا۔ اور جو جمہوریا آتا وہ قانون سازی اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعہ آمر بننے کی کوشش کرتا۔
اس لئے اس چوں چوں کے مربہ نظام میں نہ پوری جمہوریت ہے نا آمریت۔ جسے آپ Managed Democracy بھی کہہ سکتے ہیں۔
Guided democracy - Wikipedia
 

جاسم محمد

محفلین
فوج کے خلاف بیان بازی پر حاصل بزنجو کو نوٹس
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1765102-hasilbazinjo-1564741364-755-640x480.jpg

قومی اداروں کے خلاف بیان بازی پر حاصل بزنجو کے خلاف عدالت میں پٹیشن دائر فوٹو:فائل

گوجرانوالہ کی سیشن عدالت نے پاک فوج کے خلاف بیان بازی پر حاصل بزنجو کو نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کرلیا۔

وکیل غلام قادربھنڈر نے قومی اداروں کے خلاف بیان بازی پر حاصل بزنجو کے خلاف عدالت میں پٹیشن دائر کردی جس میں سی پی او گوجرانوالہ اور ایس ایچ او سول کو بھی فریق بنایا گیا۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ حاصل بزنجو نے سینیٹ الیکشن ہارنے پر فوجی ادارے کے سربراہ کے خلاف الفاظ بولے، اس پر سی پی او گوجرانوالہ حاصل بزنجو کے خلاف مقدمہ درج کریں۔

سیشن جج گوجرانوالہ راؤ جبار نے افواج پاکستان کے خلاف مبینہ ہرزہ سرائی پر میر حاصل بزنجو کے نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
عوام سے اُٹھنے والی قیادت، چاہے جس قدر بھی کرپٹ اور ڈیش ڈیش کیوں نہ ہو، جب اُسے بزور جبر سیاسی منظرنامے سے باہر کیا جاتا ہے تو ایک خلا پیدا ہوتا ہے۔ الطاف حسین صاحب کو جب سیاسی منظرنامے سے باہر کیا گیا تو دیگر سیاسی جماعتیں خاموش رہیں۔ الطاف حسین صاحب کو اپنی غلطیوں کی سزا ملی؛ اس میں کوئی شک نہیں تاہم اُن کے سیاسی منظرنامے سے ہٹنے کے بعد کراچی میں سیاسی خلا پیدا ہوا جسے اب تک مکمل طور پر پُر کیا نہ جا سکا ہے۔ تحریک انصاف کے ممکنہ زوال کے بعد وہاں کیا ہو گا؛ کسی کو کچھ خبر نہیں۔ اس طرح ٹاپ لیڈرشپ کو مائنس کیے جانے کا سلسلہ جاری رہا اور بات نواز شریف اور اب زرداری صاحب تک جا پہنچی ہے۔ یہ معاملہ آگے بڑھے گا اور ایک وقت آئے گا جب عمران خان صاحب کو بھی سیاسی منظرنامے سے ہٹا دیا جائے گا۔ یوں، دوسرے تیسرے درجے کی لیڈرشپ سامنے لائی جائے گی جو سو فی صد عسکریوں کی مالا جپے گی۔ یوں راج کرے گی ملٹری جنتا اور عوام کو ان دوسرے تیسرے درجے کے نام نہاد سیاست دانوں کو ایک طویل عرصہ تک برداشت کرنا ہو گا۔ فی الوقت اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں کہ اس میں کس کا قصور ہے اور کس کا نہیں ہے! :) ظاہری بات ہے کہ اس میں سیاسی قیادتوں کی اپنی غلطیاں اور کرپشن بالخصوص، شامل ہے تاہم ان کو لانے والے بھی جرنیل ہی تھے!
 

جاسم محمد

محفلین
ایک وقت آئے گا جب عمران خان صاحب کو بھی سیاسی منظرنامے سے ہٹا دیا جائے گا۔
عمران خان کو منظر سے ہٹانا تو بہت ہی آسان ہے۔ ان کے خلاف کیلیفورنیا کی عدالت کا ایک فیصلہ آن ریکارڈ موجود ہے۔ 62،63 پر آرام سے فارغ ہو جائیں گے :)
 

فرقان احمد

محفلین
یہ جو زبان بندی ہے اس کے پیچھے وردی ہے :p
ہم کسی قدر کُھل کر ضرور کچھ کہنا چاہیں گے۔ دراصل، لیڈرشپ بُری بھی کیوں نہ ہو، کرپٹ ترین بھی کیوں نہ ہو، تاہم، اس کے ساتھ موجود محبت دِل سے نہیں جاتی ہے کہ یہ رشتے ایک پَل میں بنتے ہیں اور نہ ایک پَل میں ختم ہوتے ہیں۔ یہ لیڈرشپ اپنے چاہنے والوں کے دل کی آواز بن جاتی ہے اور ان کے وجود کا ایک حصہ! الطاف حسین صاحب ہوں، نواز شریف صاحب ہو یا حتیٰ کہ بلاول بھٹو یا عمران خان صاحب، انہیں حراست میں بھی لے لیا جائے، جلا وطن کر دیا جائے، ان پر جھوٹے سچے مقدمات بھی بنا دیے جائیں، تب بھی انہیں ان کے چاہنے والوں کے دل سے نہیں نکالا جا سکتا۔ یہ وہ سچ ہے جس پر ہزار پردے ڈال دیے گئے ہیں۔ کراچی کے باسیوں کی اکثریت کو آج بھی کھل کر بولنے دیا جائے تو وہ جیے الطاف کا نعرہ لگا دیں گے۔ نواز شریف صاحب آج بھی لاہور میں منظر عام پر آجائیں تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اکھٹا ہو جائے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ اُن سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں؛ ہمیں خبر ہے کہ وہ دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں تاہم حقیقتِ حال یہی ہے۔ اسی طرح پنجاب کے بڑے شہروں میں نواز شریف صاحب کو جیل میں رکھنے پر شدید تناؤ پایا جاتا ہے مگر مصلحت اور نظام کو چلتے رہنے دینے کی خاطر عوام خاموش ہیں۔ شاید وہ یہ خواب دیکھتے ہیں کہ عدالتیں ان کو بری کر دیں گی؛ ان پر قائم مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں؛ شاید ایسا نہیں ہے مگر وہ اس آس پر وقت گزاری کر رہے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جو بیان کرنے مشکل ہیں۔ یہاں سچ بولنا اور سہنا مشکل ہے۔ تاہم، جو کچھ چل رہا ہے، وہ بیان کرتے رہنا بھی لازم ہے تاکہ تاریخ لکھنے والے کو کوئی سرا تو مل سکے کہ یہاں آخر چل کیا رہا ہے۔ :)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اسی طرح پنجاب کے بڑے شہروں میں نواز شریف صاحب کو جیل میں رکھنے پر شدید تناؤ پایا جاتا ہے مگر مصلحت اور نظام کو چلتے رہنے دینے کی خاطر عوام خاموش ہیں۔
تو عدالت سے ثابت شدہ مجرم کو کیا فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھیں؟
ایک طرف عوام کو ریاست مدینہ جیسی قانون کی حکمرانی چاہئے۔ لیکن جب کسی طاقتور شخص کو قانون کے نیچے لایا جاتا ہے تو وہی عوام شدید تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔
میرے خیال میں عوام ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہے کہ اسے کیسا پاکستان چاہئے۔
میں جانتا ہوں کہ آپ مفاہمت کے حامی ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ اسی سے جمہوری تسلسل آگے بڑھتا ہے۔ البتہ جس قسم کی عوام دشمن مفاہمت قوم نے پچھلے دس سالوں میں دیکھی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ آج یہ اسی مصلحت اور مفاہمت کی سیاست کا نتیجہ ہے جویہ دونوں بڑے سیاسی خاندان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
تو عدالت سے ثابت شدہ مجرم کو کیا فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھیں؟
ایک طرف عوام کو ریاست مدینہ جیسی قانون کی حکمرانی چاہئے۔ لیکن جب کسی طاقتور شخص کو قانون کے نیچے لایا جاتا ہے تو وہی عوام شدید تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔
میرے خیال میں عوام ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہے کہ اسے کیسا پاکستان چاہئے۔
میں جانتا ہوں کہ آپ مفاہمت کے حامی ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ اسی سے جمہوری تسلسل آگے بڑھتا ہے۔ البتہ جس قسم کی عوام دشمن مفاہمت قوم نے پچھلے دس سالوں میں دیکھی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ آج یہ اسی مصلحت اور مفاہمت کی سیاست کا نتیجہ ہے جویہ دونوں بڑے سیاسی خاندان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
آپ اُن کو سلاخوں کے پیچھے رکھیں اور جلا وطن رہنے دیں۔ شاید وہ اپنا بویا ہوا کاٹ رہے ہوں گے مگر اس سے ان کی سیاسی قامت میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ ہم وہ لکھ رہے ہیں، جو حقیقتِ حال ہے جس سے گھبرانے کی شاید کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
گھبرانے کی شاید کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔
گھبرانے کی ضرورت تو ہے۔ کیونکہ ن لیگ اصل میں نواز شریف ہے جبکہ پیپلز پارٹی زرداری۔ ان دونوں کو جیل بھیج کر ملک کی آدھی سیاسی قوت تتر بتر ہو گئی ہے۔ اس خلا کی وجہ سے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے۔ کچھ لوگ اسے فسطائیت کہہ رہے ہیں۔ دیگر اسے خاموش مارشل لا سمجھ رہے ہیں۔
سچ پوچھیں تو میری دلی خواہش ہے کہ نواز شریف اور زرداری رہا ہو کر واپس آئیں اور ملک کی سیاست میں اپنی 40 سالہ تجربہ کاری دکھائیں۔ لیکن ہم ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں جب وہ خود ہی رہا ہونا نہیں چاہتے؟ یہ جن کرپشن کیسز کی وجہ سے اندر ہیں وہ ان دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے تھے۔ رہائی کیلئے عدالت منی ٹریل، گواہان، کوئی ثبوت مانگتی ہے جو یہ سیاسی جادوگر دینے سے مسلسل انکاری ہیں۔
اب قانون یہ کہتا ہے جو اپنے پر لگے الزامات کو ثبوتوں کے ساتھ دھو نہ سکے وہ مجرم ہے۔ ایسے میں یہ دونوں بڑی جماعتیں اپنی قبر خود ہی کھودیں جارہی ہیں۔ تحریک انصاف کو ملک آگے لیجانے کیلئے اس اپوزیشن کی ضرورت ہے جو جیل میں رہنے کو ترجیح دے رہی ہے :)
 

فرقان احمد

محفلین
گھبرانے کی ضرورت تو ہے۔ کیونکہ ن لیگ اصل میں نواز شریف ہے جبکہ پیپلز پارٹی زرداری۔ ان دونوں کو جیل بھیج کر ملک کی آدھی سیاسی قوت تتر بتر ہو گئی ہے۔ اس خلا کی وجہ سے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے۔ کچھ لوگ اسے فسطائیت کہہ رہے ہیں۔ دیگر اسے خاموش مارشل لا سمجھ رہے ہیں۔
سچ پوچھیں تو میری دلی خواہش ہے کہ نواز شریف اور زرداری رہا ہو کر واپس آئیں اور ملک کی سیاست میں اپنی 40 سالہ تجربہ کاری دکھائیں۔ لیکن ہم ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں جب وہ خود ہی رہا ہونا نہیں چاہتے؟ یہ جن کرپشن کیسز کی وجہ سے اندر ہیں وہ ان دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے تھے۔ رہائی کیلئے عدالت منی ٹریل، گواہان، کوئی ثبوت مانگتی ہے جو یہ سیاسی جادوگر دینے سے مسلسل انکاری ہے۔ اب قانون یہ کہتا ہے جو اپنے پر لگے الزامات کو ثبوتوں کے ساتھ دھو نہ سکے وہ مجرم ہے۔ ایسے میں یہ دونوں بڑی جماعتیں اپنی قبر خود ہی کھودیں جارہی ہیں۔ تحریک انصاف کو ملک آگے لیجانے کیلئے اس اپوزیشن کی ضرورت ہے جو جیل میں رہنے کو ترجیح دے رہی ہے :)
آپ انہیں جیل میں ہی رکھیے اور ایک بار پھر عرض ہے کہ مت گھبرائیے! :) ہمارا تجزیہ معروضی نوعیت کا ہے۔ اسے دل پر نہ لیجیے۔ :) اپوزیشن کی قیادت آپ کے لیے کسی خطرے کا باعث نہ ہے۔ آپ کو اُڑان بھرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے جب تک کہ آپ عسکری ایندھن سے لیس ہیں۔ :) فقط یہ گزارش ہے کہ زرداری صاحب کو مقبول سیاسی لیڈرشپ میں شمار نہ کیا جائے۔ پیپلز پارٹی بھٹو اور بے نظیر کا ہی نام ہے اور کسی قدر بلاول بھٹو! زرداری صاحب تو پیپلز پارٹی کے اندر بھی مقبول نہیں ہیں۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کو اُڑان بھرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے جب تک کہ آپ عسکری ایندھن سے لیس ہیں۔
عسکری ایندھن سے لیس ایک زبردست اڑان ق لیگ اور ایم کیو ایم نے بھی بھری تھی۔ آج وہ جماعتیں کدھر کھڑی ہیں؟ :)
اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ دیگر سیاسی قوتوں کو آن بورڈ لئے بغیر تحریک انصاف کا چورن زیادہ دیر تک عوام میں بکے گا۔ یہ شاید 5 سال تو جیسے تیسے نکال لیں۔ لیکن اس کے بعد پھر وہی دو پارٹی سسٹم واپس آجائے گا۔ جس کے خلاف عمران خان نے 22 سال جدوجہد کی تھی۔
 
Top