عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کردی

جاسم محمد

محفلین
عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کردی
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے

عالمی عدالت انصاف نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کی بریت اور بھارت کے حوالے کرنے سے متعلق بھارتی درخواست مسترد کردی۔

ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف کے صدر اور جج عبدالقوی احمد یوسف بھارتی اپیل پر فیصلہ پڑھ کر سنا رہے ہیں جب کہ اس کارروائی میں عالمی عدالت کا 15 رکنی فل بینچ بھی موجود ہے، بینچ میں پاکستان کا ایک ایڈ ہاک جج اور بھارت کا ایک مستقل جج بھی شامل ہے، اٹارنی جنرل انور منصور خان کی قیادت میں پاکستانی ٹیم فیصلہ سننے کے لیے دی ہیگ میں موجود ہے۔

جج عبدالقوی احمد یوسف نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت ویانا کنونشن کے رکن ہیں اور دونوں ممالک پورے کیس میں ایک بات پر متفق رہے کہ کلبھوشن بھارتی شہری ہے، بھارت نے ویانا کنونشن کے تحت کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی مانگی جب کہ پاکستان نے بھارتی مطالبے پر 3ا عتراضات پیش کیے پاکستان کا موقف تھا کہ جاسوسی اور دہشتگردی گردی کے مقدمے میں قونصلر رسائی نہیں دی جاتی اس لیے ویانا کنونشن کا اطلاق کلبھوشن کیس پر نہیں ہوتا۔

عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن یادیو کی بریت اور رہا کرکے بھارت کے حوالے کرنے سے متعلق بھارتی درخواست کو مسترد کردیا، کلبھوشن یادیو پاکستان کی تحویل میں ہی رہے گا۔

عالمی عدالت انصاف میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کی آخری سماعت 18 فروری سے 21 فروری تک جاری رہی تھی، بھارتی وفد کی سربراہی جوائنٹ سیکرٹری دیپک متل نے جب کہ پاکستانی وفد کی سربراہی اٹارنی جنرل انور منصورخان نے کی تھی۔ سماعت کے دوران بھارت کی طرف سے ہریش سالوے نے دلائل پیش کیے جبکہ پاکستان کی طرف سے خاور قریشی نے بھرپور کیس لڑا تھا۔ 18 فروری کو بھارت نے کلبھوشن کیس پر دلائل کا آغاز کیا اور 19 فروری کو پاکستان نے اپنے دلائل پیش کیے۔ 20 فروری کو بھارتی وکلا نے پاکستانی دلائل پر بحث کی اور 21 فروری کو پاکستانی وکلا نے بھارتی وکلا کے دلائل پر جواب دیئے جب کہ سماعت مکمل ہونے کے بعد عالمی عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اس سے قبل ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹرمحمد فیصل کی جانب سے کیس سے متعلق کہا گیا تھا کہ ہم نے تیاری اچھی کی اوراچھا کیس لڑا، ہمارا گمان اورکوشش اچھی ہے اور17 جولائی کو ہی اس کیس پر تبصرہ کریں گے۔

کیس کا پس منظر

بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے جاسوس کلبھوشن یادیوکومارچ 2016 میں بلوچستان سے گرفتارکیا گیا تھا۔ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر نے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کا اعتراف کیا تھا جس پرفوجی عدالت نے کلبھوشن کو سزائے موت سنائی تھی۔

10 مئی 2017 میں بھارت نے کلبھوشن یادیوکے حوالے سے عالمی عدالت سے رجوع کیا اورکلبھوشن کی پھانسی کی سزا پر عمدرآمد رکوانے کے لیے درخواست دائرکردی تھی۔ 15 مئی کو عالمی عدالت میں بھارتی درخواست کی سماعت ہوئی، دونوں ممالک کا موقف سننے کے بعد عدالت نے 18 مئی کو فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی کہ مقدمے کا حتمی فیصلہ آنے تک کلبھوشن یادیوکوپھانسی نہ دی جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آپ بھی ٹھیک کہتے ہیں، بات ان کی بھی غلط نہیں ہے:
عالمی عدالتِ انصاف
پاکستان نے کلبھوشن کو کونسلر تک رسائی دیے بغیر سزا سنا کر وینا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی کی تھی۔ اس لئے کلبھوشن کو یہ سزا نہیں دی جا سکتی جب تک کیس میں بھارتی وکلاء کو رسائی حاصل نہیں ہوتی۔
بھارت نے پاکستانی ریاستی اداروں پر سیاسی الزامات (نواز شریف کا ممبئی حملوں والا بیان) لگا کر کلبھوشن کی رہائی اور ملک واپسی مانگی تھی جو اسے نہیں ملی۔
یوں دونوں ممالک کی اخلاقی فتح ہوئی :)
 

فرقان احمد

محفلین
کلبھوشن کو صرف جاسوسی مقدمہ میں کونسلر تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ باقی کا سارا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہے۔
ایک نکتہ ابھی واضح نہیں ہے۔ کیا اب کلبھوشن کا مقدمہ پاکستان کی عام عدالت میں چلے گا، یا ملٹری کورٹ کی دی گئی سزا برقرار رہے گی؟
 

الف نظامی

لائبریرین
کلبھوشن 2004ءاور 2005ءمیں کراچی بھی آیا اور یہاں بھی اس نے اپنے رابطے استوار کئے‘ یہ ترقی کرتا کرتا پاکستان آپریشن کا سربراہ بن گیا‘ بھارت نے اسے چار سو ملین ڈالر (یہ رقم پاکستانی روپوں میں 41ارب روپے بنتی ہے) دیئے . کلبھوشن نے یہ رقم بلوچ علیحدگی پسندوں اور کراچی میں بدامنی پھیلانے والے گروپوں میں تقسیم کی،یہ حربیار مری، براہمداغ بگٹی اور عزیر بلوچ جیسے لوگوں سے بھی رابطے میں تھا اور یہ ایم کیو ایم (پرانی) کے لوگوں کو بھی فنڈز دیتا تھا

پاکستان کے خفیہ ادارے بلوچستان اور کراچی آپریشن کے دوران حسین مبارک پٹیل تک پہنچےاس سے پاکستان کو پتہ چلا کہ بلوچستان کے علیحدگی پسند ہوں، کراچی کے مافیاز ہوں یا پھر ملک میں خودکش حملہ آوروں کے ماسٹر مائینڈ ہوں یہ تمام لوگ آخر میں چاہ بہار سے آپریٹ ہوتے ہیں . کلبھوشن کی بھارتی لوکیشن بھی ہمارے اداروں کے نوٹس میں آتی رہی یوں یہ شخص آہستہ آہستہ پاکستانی ایجنسیوں کے سامنے کھلتا چلا گیا یہاں تک کہ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان نے اسے پکڑنے کا فیصلہ کر لیا . یہ ایک مشکل ٹاسک تھا، کلبھوشن عام جاسوس نہیں تھا، یہ پاکستان آپریشن کا سربراہ تھا، یہ ”فیلڈ آپریٹر“ تھا اور دنیا میں آج تک کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اتنے بڑے انٹیلی جنس آفیسر کو نہیں پکڑ سکا لیکن ہمارے اداروں نے یہ تاریخ بدل دی، آئی ایس آئی کے لوگوں کو کلبھوشن یادیو کو پاکستان لانے میں ڈیڑھ سال لگ گیا، ادارے نے اس عرصے میں بلوچ علیحدگی پسندوں میں اپنے لوگ ڈویلپ کئے، یہ لوگ آہستہ آہستہ حسین مبارک سے براہ راست رابطے میں آئے اور آخر میں ان لوگوں نے اسے پاکستان کی ایک انتہائی اہم شخصیت کے اغواءاور قتل کا ایک ”فول پروف“ منصوبہ پیش کر دیا، یہ منصوبہ اس قدر اعلیٰ تھا کہ حسین مبارک پٹیل پاکستان آنے پر مجبور ہو گیا، حالانکہ اس وقت اجیت دوول نے کلبھوشن کو پاکستان جانے سے روکا لیکن وہ نہ رک سکا اور تین مارچ 2016ءکو ایران سرحد کراس کر کے پاکستان آ گیا، یہ بلوچستان کے ضلع خاران کی تحصیل ماشکیل آیا اور گرفتار ہو گیا، کلبھوشن کے پاس گرفتاری کے بعد دو آپشن تھے، یہ حسین مبارک پٹیل کی شناخت پر ڈٹا رہتا، ٹارچر سہتا اور اس دوران دنیا سے گزر جاتا یا پھر یہ خود کو فوج کا حاضر سروس آفیسر ڈکلیئر کرتا اور قانون کے مطابق مراعات حاصل کرتا، کلبھوشن سمجھ دار تھا، اس نے دوسرا آپشن لے لیا، اس نے اپنی شناخت کھول دی یوں پاکستان اسے جنگی مجرم کا سٹیٹس دینے اور اسے حاضر سروس آفیسر کی تمام مراعات دینے پر مجبور ہوگیا، کلبھوشن یادیو نے اچھا بچہ بن کر اپنے سارے رابطے پاکستان کے حوالے کر دیئے، اس کی اطلاعات پر ملک کے مختلف حصوں سے چار سو لوگ گرفتار ہوئے، اسلحے کی بھاری کھیپ بھی برآمد ہوئی اور ایم کیو ایم اور پیپلز امن کمیٹی میں چھپے ملک دشمن عناصر بھی سامنے آ گئے،کلبھوشن را کے 13 اہم لوگوں سے بھی رابطے میں تھا، یہ ان سے براہ راست احکامات لیتا تھا، یہ لوگ بھی سامنے آ گئے، تفتیش کے دوران کلبھوشن سے ان لوگوں کو فون بھی کرائے گئے اور ان کی گفتگو بھی ریکارڈ کی گئی، پاکستانی مجرموں نے بھی کلبھوشن سے رابطوں، فنڈز، اسلحہ اور مختلف آپریشنز کا اعتراف کرلیا، پاک فوج نے آرمی ایکٹ 1923ءکے تحت کلبھوشن کا فیلڈجنرل کورٹ مارشل کیا اور اسے 10 اپریل کو سزائے موت سنا دی گئی . کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور سزائے موت کے بعد بھارت خوفناک مسائل میں الجھ گیا،

اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرار داد 1373 کے تحت کسی دوسرے ملک میں ریاستی دہشت گردی خوفناک جرم ہے، پاکستان کلبھوشن کے اعترافات اور ثبوت سیکورٹی کونسل میں لے جائے گا جس کے بعد بھارت کےلئے جواب دینا مشکل ہو جائے گا، کلبھوشن کی کارروائیوں کے دوران شہید ہونے والے پاکستانی شہریوں کے لواحقین بھی بھارت کے خلاف عالمی عدالت میں جا سکتے ہیں . . .
 

جاسم محمد

محفلین
اس حساب سے تو یہ فیصلہ پاکستان کے حق میں ہی معلوم ہوتا ہے۔
جمہوری انقلابی نواز شریف نے اس کیس میں بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن الحمدللّٰہ عالمی عدالت انصاف نے ان کے سیاسی بیانات پر کان نہیں دھرے
کلبھوشن کیس میں بھارت کی طرف سے بیان پیش کیے جانے کے بعد نوازشریف نئی مشکل میں پھنس گئے
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستانی صحافیوں کی ٹویٹس سے فیصلہ پاکستان کے حق میں اور انڈین صحافیوں کی ٹویٹس سے فیصلہ انڈیا کے حق میں لگتا ہے
مستند بھارتی میڈیا پاکستانی موقف کی تائید کر رہا ہے۔
758-BE4-C3-6566-4165-A63-F-492-A7-DC50846.jpg
 

فرقان احمد

محفلین
فیصلہ انڈیا کے حق میں تب ہوتا اگرعالمی عدالت انصاف کلبھوشن کو جاسوس قرار دینے سے انکار کر دیتی۔ قونصلر تک رسائی اور مقدمے پر پاکستان کی جانب سے ایک اور ریویو، محض رسمی کاروائیاں ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
الفاظ کا استعمال ملاحظہ فرمائیے؛ اس پر داد تو بنتی ہے۔یہاں تو زہر بھی چینی بنا کر فروخت کیا جا رہا ہے۔ اللہ ہی حافظ ہے۔
پاکستانی صحافی ایسے ہی تو نہیں بھوکے مر رہے :)
https://amp.dw.com/ur/پاکستانی-میڈیا-کا-بحران-صحافی-بھوکے-مر-رہے-ہیں/
پاکستان میں صحافت کی بجائے لفافت چلتی ہے :)
 
مستند بھارتی میڈیا پاکستانی موقف کی تائید کر رہا ہے۔
758-BE4-C3-6566-4165-A63-F-492-A7-DC50846.jpg
او بھائی مجھے اس عالمی تھیٹر سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے، جو بات ٹویٹر پر نظر آئی، کہہ دی۔ فیصلہ میں دونوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دونوں ممالک کی قوم کو ٹرک کی بتی دکھا دی گئی ہے۔ آپ جاری رکھیے۔
 
Top