جدید مسلم ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ

جاسم محمد

محفلین
جدید مسلم ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ
09/07/2019 عاصم بخشی


’مذہب پسند‘ کی اصطلاح کوا ن سب طبقات تک محدود کرتے ہوئے جو اس قضیے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی خدوخال مرتب کرنے میں تن تنہا مذہب ہی ایک واحد بامعنی قدر ہے، اگر ان تمام طبقات کا ایک عمومی سا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں فلسفہ و سائنس کو لے کر دو قسم کے فکری دھارے دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان مذہب پسندوں میں سے ایک تو وہ ہیں جو اپنے علمی منہج کو غزالی سے منسوب کر کے ’تہافت الفلاسفہ‘ میں مشغول ہیں اور ’جدید مغربی تہذیب‘ نامی کسی ایک ٹھوس اکائی کو نظریاتی طور پراپنے مقابل فرض کر کے اس کے خلاف جہاد کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

روایتی جہاد و قتال کے لئے چونکہ ہتھیار مغربی تہذیب سے لینا واضح شرعی عذر کے کارن مباح ہے لہٰذا اس تنقیدی معرکے میں بھی ہتھیار وں کی سپلائی کا کام مغرب کے ان مارکسسٹ اور پوسٹ مارکسسٹ نقادوں سے لیا جاتا ہے جن کی ’سرمایہ دارانہ لبرل ہیومنزم‘ پر ہونے والی پچھلی نصف صدی کی تنقیدوں کو ان کے خاص سماجی وسیاسی تناظر سے نکال کر کسی حد تک کامیابی سے ایک چوں چوں کا مربہ تیار کیا جاتا ہے جو ہمارے ہاں کے لبرل طبقات(جن میں سے کچھ اپنے ردعمل پر مبنی استدلال میں ان مذہب پسندوں جتنے ہی علمی متشدد ہو چکے ہیں ) کے سامنے کھڑے ایک سادہ لوح ’مذہب پسند‘ کو تقریباًٍ اسی طرح استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے جس طرح مناظراتی تربیت کے کورسوں میں طالبعلموں کو ’مخالف کو زیر کرنے کے دس اہم ترین ہتھکنڈے‘ سکھلائے جاتے ہیں۔

اس طبقے سے اختلاف کے ساتھ بہرحال ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ طبقہ کچھ مخصوص نفسیاتی مجبوریوں اور عارضہ نرگسیت کے باعث تہذیبی مباحث کا تجزیہ کسی عالمگیر انسانی تناظر میں کرنے کی قوت ہی نہیں رکھتا لہٰذا مجبورِ محض ہوتے ہوئے حلق کے ایک حصے سے تو ’سرمایہ دارانہ تہذیب‘ کی مئے فرنگ کا درد تہ جام تک اپنے اندر انڈیلتا رہتا ہے اور اسی حلق کے دوسرے حصے سے تیزی سے تنقیدیں باہر اگلنے کا کام جاری رکھے ہے۔ سچ پوچھئیے تو ہمیں ان سے اس کے علاوہ کوئی شکایت نہیں کہ وہ ہم جیسے کیوں نہیں، یعنی مان کیوں نہیں لیتے کہ جدید دور میں تہذیبی سرحدیں تیزی سے انہدام پذیر ہیں اور کم از کم اتنی دھندلا چکی ہیں کہ مشرق و مغرب کی تہذیبی دوئی ایک ایسا قصہ پارینہ ہے جو بس تاریخِ فکر کی کتابوں میں ہی ڈھونڈنے سے ملتا ہے۔

دوسرا طبقہ پہلے طبقے کی نسبت کہیں زیادہ دلچسپ اور تخریبِ ذہن و فکر کی ہلاکت خیزیوں میں اس سے کہیں آگے ہے۔ اس کی وجہ اس کی تجاہل عارفانہ میں ڈوبی وہ رجعت پسندی ہے جو فلسفے کو تفکر، تجسس، جستجو، تحقیق، خرد افروزی، ندرتِ فکر وغیرہ جیسے انسانی خواص سے علیحدہ کر کے اس کو مذہب کا روایتی حریف گردانتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس طبقے کے نزدیک سوال کا ذہن میں پیدا ہونا تفلسف کی علت نہیں بلکہ فلسفیانہ ذہن کی تربیت ’بے جا‘ سوال اٹھانے کے مرض کی علت ہے۔



ہماری رائے میں علتوں کا یہ الٹ پھیر اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اس طبقے کے نزدیک فلسفہ چونکہ سوال اٹھانے اور عمومی طور پر اٹل سمجھے جانے والے مفروضوں پر تشکیک و تحقیق کی دعوت ہے، لہٰذا وہ ایک ایسے ذہن کو تیار کرتا ہے جو اپنے طرف پھینکی جانے والی اٹل مذہبی اور صرف مذہب کی بنیاد پر سماجی تعبیرات کو فکر پر حاکم ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔

انگریزی محاورے کی رو سے اگر ہمیں ایک لحظہ کے لئے شیطان کی وکالت کرنی ہو تواس مخصوص مذہبی تناظر میں جدید (سیکولر)تعلیم و تربیت کا سارا ڈھانچہ ہی از سر نو ترتیب کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ہماری رائے میں نہ صرف روایتی مسلم ذہن کو ’تشکیل نو‘ ، ’تجدد پسندی‘ ، ’روشن خیالی‘ وغیرہ جیسی تراکیب کو ایک مخصوص شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ ذہن میں موجود نظریہ علم کے خدوخال کو دو مختلف خانوں میں تقسیم کرتا بھی نظر آتا ہے۔

قرونِ وسطی کے مذہبی متون کا ایک سرسری سا جائزہ بھی ا س مخصوص مسلم ذہنیت کے تخمِ اول کی نشاندہی کے لئے کافی ہے جب ہمیں ابن رشد فکرِ غزالی کے خلاف فلاسفہ کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ گوراقم کی رائے میں جدید مسلم ذہن کے لئے اوراقِ تاریخ میں دبی ان بحثوں سے چند مبہم اشاروں سے زیادہ کچھ خاص استفادے کی امید نہیں لیکن یہ مبہم سے اشارے بھی پچھلے دو سو سال کے روایتی مسلم ذہن کی کسی بھی قسم کی خردافروزی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی کیفیت سمجھنے کے لئے بہت کافی ہیں۔

یہ ایک ایسا مسلم ذہن ہے جو ایک طرف تواپنی تمام تر پسماندگیوں کا الزام مغرب بالخصوص مغربی استعماریت پر دھرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا اور دوسری طرف اپنے نظریہ علم میں ایک وحشت ناک قسم کی دوئی میں بٹا ہے۔ وحشت کے اس احساس کا تجرباتی جائزہ لینا ہو تو مذہبی کتابوں کے کسی بھی اسٹال سے ’حصول علم کے فضائل‘ یا ’علم کی برکتیں‘ نامی کوئی بھی رسالہ اٹھا کر تلاش کیجئے کہ ایک اوسط مسلم ذہن علم کا کیا تصور قائم کیے بیٹھا ہے۔

مثالیں ان گنت ہو سکتی ہیں لیکن اگر سند ہی کی تلاش ہے تو ابن رجب حنبلی کے رسالے ”ورثہ الانبیا“ کو دیکھ لیجیے جس کا انگریزی ترجمہ The Heirs of the Prophets کے نام سے مغرب کے اعلی تعلیم یافتہ مذہبی عالم زید شاکر کے ہاتھوں ہوا ہے اور ہمارے ہاں پیٹروڈالرز سے چلنے والے مشہور سعودی کتب خانے ’مکتبہ دارالسلام‘ میں موجود ہے۔

مقصد یقیناً ابن رجب یا مخصوص سلفی فکر پر تنقید نہیں بلکہ صرف اتنا واضح کرنا ہے کہ روایتی مسلم فکر، چاہے اس کا تعلق کسی بھی تعبیراتی دھارے سے ہو، علم کو حقیقی اور اضافی کے درجہ اولی اور درجہ ثانیہ میں بانٹتی نظر آتی ہے۔ چونکہ اول الذکر کا تعلق خالص مذہبی متون یعنی قرآن و حدیث اور فقہ وغیرہ سے ہے، لہٰذا طبقہ علما کی تعبیرات میں ایک ایسے خدا اور رسول کا تصور ابھرتا نظر آتا ہے جو ایک فقیہ اور ماہرِ طبیعات میں ان کی علمی ترجیحات کی بنیاد پر لازماً فرق کرتا نظر آتا ہے۔



آپ کسی بھی روایتی مذہبی گھاٹ کا پانی پی کر دیکھ لیجیے، اس مخصوص طبقاتی بھاشا میں خدا اور اس کے نبی کا ’مطلوب انسان‘ کبھی ریاضی دان یا کیمیا دان وغیرہ نہیں ہو گا۔ لہٰذا یہ ہرگز حیران کن نہیں کہ ہم قرونِ وسطٰی کی مسلم معاشرت میں کبھی الخوارزمی یا ابن الہیثم وغیرہ کے ناموں کے ساتھ ’امام‘ کا سابقہ نہ لگا سکے اور یہ بھی خارج از امکان ہے کہ مستقبل بعید کے مسلم معاشروں میں کسی چوٹی کے سائنسدان یا فلسفی کو کسی دینی مبلغ یا فقیہ جتنی پذیرائی میسر آ سکے۔ صاحبو، ہود بھائی اور تقی عثمانی کا کیا مقابلہ۔ بھلا دنیا اور آخرت بھی کبھی ایک جتنے اہم ہوئے ہیں؟

اگر بات یہیں تک رہتی تو کچھ ایسی وحشت کی بات نہ تھی۔ ہم اپنی جدو جہد اسی سست رفتاری سے جاری رکھتے اور اپنے مذہب پسند دوستوں کوریت میں ’مسلم نشاة ثانیہ‘ کے خیالی محل تعمیر کرتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے منہ دوسری طرف کر لیتے۔ لیکن مسئلہ اب صرف اپنے مخصوص آدرشوں کے لئے جدوجہد کرنے کا نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے۔ وحشت ناک امر یہ ہے کہ انسانی ترقی کے ایک مخصوص جدید تصور سے ظاہری طور پر اختلاف کرتے ہمارے یہ مذہب پسند نقادتعبیر پر اپنا اجارہ قائم رکھنے کی خواہش میں ایک طرف تو آزادانہ سوچنے، سمجھنے اور سوال اٹھانے کے بنیادی حق پر اخلاقی استعمار کے ذریعے قدغن لگاتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف سائنسی مادیت و افادیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہو کر سر ے سے سائنس کی مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ بنیادوں کا انکار کر دیتے ہیں۔

کسی بھی درجے کی پاکستانی جامعہ کے فزکس، ریاضی یا انجینئرنگ کی جماعت میں طالبعلموں سے یہ سوال پوچھ کر دیکھئے کہ ریاضی کی کتاب پوری دل جمعی سے پڑھنے سے خدا کے خوش ہونے کی کوئی امید ہے تو آ پ کو معلوم ہو جائے کہ مرض کی جڑیں کتنی پختہ ہیں۔ اس استدلال کے لئے بہت زیادہ لفاظی کی ضرورت نہیں کہ اس مخصوص مذہبی نفسیات میں کم و بیش تیرہ صدیوں سے گندھے انسان کی جینیاتی ماہیت کبھی اسے اس مرحلے کو اتنی خوش اسلوبی سے طے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی کہ خدا اور وصال ِ صنم ایک ساتھ ہی مل جائے۔

ہم نے بحیثیت استاد اپنی کلاس میں ایک سے زیادہ بار دیکھا کہ وضع قطع سے مذہبی معلوم ہونے والے طالبعلم نے بہت اعتماد سے اپنا مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے ایک پیچیدہ اور نہایت دلچسپ ریاضیاتی بحث کے دوران ہمیں بیچ میں ٹوک کر اذان سننے کی ترغیب دی۔ یقین جانئے ہمیں اس روک ٹوک سے کوئی شکایت نہیں کیوں کہ ہماری نگاہ میں مسئلہ خالصتاً مذہبی نہیں بلکہ دوئی میں پھنسی مذہبی نفسیات کی ترجیحات کا ہے جس کی مذہبی اور غیر مذہبی دونوں جہتیں سراسر افادیت پرستی کے فلسفے پر قائم ہیں جو خود تردیدی کے مجسم پیکروں پر مشتمل نسلوں کی مسلسل ترسیل جاری رکھے ہیں۔ یہ تیسری دنیا کی پسماندہ مذہبی معاشرت کا ایک ایسا جدید انسان ہے جو اپنی قدیم فطرت میں موجود عقلی و جبلی وحدت اس طرح بانٹ چکا ہے کہ اب اس وحدت کو محض ایک خوبصورت آدرش مان کر اس کی طرف قدم اٹھانے کی فکری قوت بھی نہیں رکھتا۔



ان حالات میں فلسفے کے کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں، قرونِ وسطیٰ کے محبوب مناظرانہ متون سے ’تہافت الفلاسفہ‘ کشید کر کے پوری دیانت داری سے ایک ایسی نادیدہ بیماری کی دوا بنانے میں مصروف ہیں جو زمانہ جدید میں اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ جب تشخیص ہی درست نہ ہو تو دوا اکسیر نہیں بلکہ زہر کا کام کرتی ہے۔ ہمارے ہاں مختلف سائنسی علوم کے طلبا کچھ اس سطحی طرز سے حصول علم کی منزلیں طے کرتے ہیں کہ دیکارت، اقلیدس، فیثا غورث، کیپلر اور نیوٹن وغیرہ کے فکری منہج کا سایہ بھی اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے۔

نتیجتاً پیچیدہ مسائل کے خدوخال مرتب کرنے کی تکنیکی اہلیت تو دور کی بات وہ اس نفسیاتی تجربے سے ہی بہت فاصلے پر رہتے ہیں ہیں جو انہیں نفس علم کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ¿ میں جوڑ دے۔ اس پر فلسفیانہ مباحث سے کامل لا تعلقی اور سائنس کی مابعد الطبیعاتی بنیادوں سے کامل ناواقفیت انہیں یہ باور کراتی ہے کہ سائنس، مذہب اور فلسفے کو کسی ایسی کلی وحدت میں نہیں باندھا جا سکتا جس میں ان تینوں چشموں سے ایک ساتھ فیض یاب ہوتا انسان اپنے وجدان اور عقل کو ایک ایسے لطیف اور ماورائے سخن بندھن میں پرو سکے جس میں اس کی پوری ذات ایک کامل تسکین کے تجربے کے قابل ہو۔

ظاہر ہے کہ عوامی سطح پر فلسفے اور سائنس کے کسی ایسے عام فہم تدریسی بیانیے کی روایت نہ ہونا، جو سائنس کے نفس علم میں فلسفے سے مستعار لئے گئے مابعدالطبیعاتی اور نیم مابعد الطبیعاتی مفروضوں کی موجودگی کو اجاگر کرے، مذہب پسندوں کے اس خاص طبقے کی وحشت ناک تنقیدوں کو کسی کم از کم درجے میں بھی معقولیت نہ بخشنے کی اولین علت ہے۔ ہماری رائے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے آپ کو ہماری رائے سے متفق پانے والے سائنس کے اساتذہ اور شوقین والدین فلسفے کے بنیادی مباحث سے واقفیت پیدا کریں اور اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر سائنس کی تدریس میں ان طبیعاتی و مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ مباحث پر گفتگو کا آغاز کیا جائے جو سولہویں صدی سے سائنسی استدلال کی بنیادوں میں موجود ہیں۔

کون جانے کب خدا کو ہمارے حال پر رحم آ جائے اور نیوٹن، گیلیلیو، ڈارون اور دیکارت وغیرہ کو تو خیر دور کی بات ہے، ہماری تہذیب میں کم ازکم ابن رشد، ابن طفیل، الخوارزمی، ابن الہیثم اور ابن باجہ ہی کو وہی پذیرائی مل جائے جو اس وقت غزالی، ابو حنیفہ اور بخاری و مسلم وغیرہ کو ملتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جو ایک نوجوان مسلم ذہن کو سطحی ٹیکنالوجی کی بھیڑچال اور محض ایک افادیت پسند سائنسی تعلیم کے فنی شوق سے اوپر اٹھ کر ندرتِ فکر، تحقیق و جستجو اور ایجاد علم کی طرف راغب کر سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مسلم ذہن کا مسئلہ۔ عاصم بخشی صاحب کی تائید میں چند گزارشات‬
11/07/2019 اختر علی سید



عاصم بخشی صاحب کی تحریر کچھ مدت کے بعد نظر نواز ہوئی۔ انہوں نے مسلم ذہن کے ایک پیچیدہ مسئلہ کو دوبارہ اٹھایا ہے۔ جب کوئی مسئلہ کم از کم تین صدیوں پرانا ہو جائے تو اس کو دائمی کہنا شاید غلط نہ ہو۔ اس پیچیدہ اور دائمی مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہوئے بخشی صاحب نے مسلمانوں کے تصور علم کی وضاحت کی ہے۔ انہوں نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ علم سے مسلمانوں کی مراد علم دین ہے۔ اور عالم سے مراد مفتی تقی عثمانی، مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد، اور جاوید غامدی صاحب جیسے ذعما ہیں نہ کہ پرویز ہودبھائی، ڈاکٹر اختر احسن، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اور ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگ۔

بخشی صاحب نے بجا طور پر دو طبقات کی نشاندہی فرمائی ہے۔ ایک وہ جو جدید و قدیم علوم کے حامل افراد پر مشتمل ہے۔ یہ طبقہ ایک سطح پر مغرب سے آنے والے علوم کو رد کرنے پر اپنی قوتیں صرف کرتا ہے۔ جبکہ ان کی تنقید دوسری طرف مغربی علم ہی کے منہاج پر استوار ہوتی ہے۔ اور تیسری طرف اس طبقہ کو اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوپاتا کہ وہ امتیاز من و تو جس پر یہ خود کو مامور من اللہ نگران سمجھے بیٹھے تھے وہ امتیاز وقت کا پانی کب کا بہا کر لے جا چکا۔ ذرا اس طبقے کی ذہنی پراگندگی اور کنفیوژن کو نوٹ کیجیئے۔ ہم واپس اس طبقے کی جانب لوٹ کر آتے ہیں۔

دوسرا طبقہ جس کی جانب بخشی صاحب نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے ہمارے روزمرہ کے مشاہدہ کا حصہ ہے۔ اس طبقے کے نزدیک سوال اٹھانا فکر کرنا اور سوالوں کے جواب ڈھونڈنا ایک کار ممنوعہ ہے۔ ہر چیز اس طبقے کے نزدیک طے شدہ ہے، متعین ہے، صرف جواب جو پہلے سے موجود ہیں ان کو ڈھونڈنا ہے۔ یہ جواب صاحبان علم کے سینوں میں ہیں یا ان کی تحریر کردہ کتابوں میں۔ ہم ایسے عامیوں کو صرف ان کے دروازے پر دستک دینا، جواب لینا اور اس پر من و عن عمل کرنا ہے۔

بخشی صاحب نے اس دوسرے طبقے کو ”تخریب ذہن اور فکر کی ہلاکت خیزیوں“ میں پہلے طبقے سے کہیں زیادہ خطرناک ٹھہرایا ہے۔
یہاں یہ طالب علم بخشی صاحب سے اختلاف کی جسارت کرتا ہے۔

مسلمان ذہن میں علم کی تعریف کے حوالے سے جس مسئلے کی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے یہ مسئلہ اس طالب علم کے نزدیک مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ کی علامت ہے۔ مسلمان ذہن کا اصل مسئلہ پیش قدمی (پراگریس) کے اسلوب سے متعلق ہے۔

مذہبی ذہن آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ اس نے آگے کیسے جانا ہے۔ یہ سوال مذہبی ذہن پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے کہ مستقبل کی جانب اس کا یہ سفر کیسے طے ہو گا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ان مذہبی اذہان کے لیے نسبتاً آسان ہے کہ جن کے نزدیک مذہب ان سے اپنے اجتماعی نفاذ کا مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ مذہب کو اجتماع یا معاشرے کی بجائے فرد کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ سوال ان مذہبی اذہان کے لئے بہت گھمبیر صورت اختیار کر لیتا ہے جن کے لیے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح بھی فرد کی ذمہ داری ٹھہرتی ہے۔ مذہب کے اجتماعی اطلاق کے قائل تین طبقات کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

ایک وہ طبقہ جو مستقبل کی صورت گری ماضی کے مزارات کے نقشے ذہن میں رکھ کر کرنا چاہتا ہے۔ یہ طبقہ آگے جانا چاہتا ہے۔ جدید علوم سیکھنا چاہتا ہے۔ اور سیکھتا ہے۔ کمپیوٹر پڑھتا ہے، اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جدید فلسفہ پڑھتا ہے۔ اس پر نقد کرتا ہے۔ اس طبقے کے افراد تسلیم کرتے ہیں کہ جدید فلسفیانہ نظریات کی تشکیل تو درکنار مسلم ذہن تو ان کی تفہیم کے لائق بھی نہیں ہے۔ مانتے ہیں کہ فکر جدید نے قدیم فکر ہی نہیں بلکہ اس کے اسلوب ومنہاج تک کو تبدیل کر دیا ہے۔

مگر اپنے لیکچر کا اختتام مسلم ذہن کو اس فکر جدید سے بچنے اور بچانے کی دعا پر کرتے ہیں۔ ایسے کردار آپ کو تعلیمی اداروں کے شعبہ فلسفہ، میڈیکل کالجز بزنس سٹڈیز، بینکنگ، انجینئرنگ کے شعبوں اور صحافت میں بکثرت اور بآسانی مل جائیں گے۔ ان کے خیال میں آگے کا سفر ماضی کی مکمل رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ہے نہ صرف یہ بلکہ ماضی سے روگردانی نے ہی ہمارے مستقبل کی راہوں کھوٹا کیا ہے۔ اس طالب علم کی رائے میں یہ طبقہ آگے تو جانا چاہتا ہے مگر ماضی کے تمام لوازمات کے ساتھ یعنی بیک وقت آگے اور پیچھے کا سفر ایک ساتھ۔

دوسرا طبقہ اس ضمن میں ان لوگوں کا ہے جو میلاد کی محفل سجاتے ہیں، محرم کی عزاداری کرتے ہیں، نعتیں، قوالیاں، منقبتیں، مرثیے اور نوحے سنتے ہیں۔ محافل و مجالس اور دروس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرنا اپنے لیے باعث نجات سمجھتے ہیں۔ ان رسومات میں آنے والی تبدیلیوں کو بسروچشم قبول کرتے ہیں۔ نعت خوانی نے مظفر وارثی مرحوم سے لے کر جنید جمشید تک کا سفر طے کیا۔ نعت خوان سونے میں تلے۔ نوحہ خانی پیشہ بن گئی۔

شب بیداریاں لاکھوں میں طے ہونے لگیں یعنی یہ رسومات ایک صنعت بن گئیں جن سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کا روزگار جڑ گیا۔ دوسرے لفظوں میں اس طبقے نے حال میں جاری رسومات اور ان کے انعقاد کو ہی دین سمجھا لہذا یہ جہاں ہیں وہیں خوش ہیں۔ لیکن اس طبقے کا معاملہ بھی یہاں رکا نہیں۔ عقائد میں تندی آئی۔ اپنے سے مختلف لوگ الگ ہوئے۔ ایک ہی مسلک کے لوگوں کی مسجدیں الگ ہوئیں ایک ہی مسلک کے لوگوں نے ایک دوسرے پر تبرا بازی شروع کر دی یعنی ہر گروہ نے یہ خیال کیا کہ دوسرا گمراہ ہے اور اس کو راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری میری ہے۔ اور اس ذمہ داری میں کوتاہی عقائد میں بگاڑ کا سبب بنے گی۔

تیسرا گروہ اپنی ترجیحات میں بہت واضح ہے۔ اسلاف، ان کے طور طریقے، اور نظریات۔ اس طبقے کے لیے ہر شے سے زیادہ اہم ہیں خلافت راشدہ کے دور کو واپس لانے، حکومتوں کی قانون سازی کے لیے ماضی کی حکومتوں سے استدلال اور استناد اور اسلاف کی طرح فتوحات کے سلسلے کو جاری رکھنے پر اصرار اس طبقے کی شناخت کی نمایاں ترین نشانیاں ہیں ہیں۔

بخشی صاحب اور ہمارے بیان کردہ طبقات میں صرف ایک فرق ہے۔ ہمارا بیان کردہ دوسرا طبقہ بخشی صاحب کے ہاں موجود نہیں ہے۔ اب اس سوال پر آئیے کہ ان طبقات میں سے زیادہ خطرناک طبقہ کون سا ہے پہلا، دوسرا یا تیسرا۔

ہمارے بیان کرتا دوسرے طبقے کو اگر آپ رسومات کی بجاآوری کی اجازت دے دیں تو وہ آپ کو کچھ نہیں کہتا۔ بخشی صاحب کی یہ بات اس حوالے سے ماننے کے لائق ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ تر تیسرا طبقہ ملوث ہوتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ دہشتگردی کی منصوبہ بندی ہمیشہ پہلے طبقے نے کی ہے۔ گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے کون تھے؟ گو واجبی ہی سہی مگر دنیاوی تعلیم رکھنے والے پڑھے لکھے اور مغرب میں رہنے والے لوگ۔

کچھ اور واقعات میں لندن اسکول آف اکنامکس اور آئی بی اے کے تعلیم یافتہ افراد کی شمولیت میری بات کی دلیل ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھ کر لوگوں پر الحاد کے فتوے لگانے والے، ما بعد جدیدیت سے بچنے کی دعائیں کرانے والے سب اسی پہلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کون ہے جو ایک طرف یہ کہتا ہے کہ اسلام جمہوریت کا داعی ہے مگر اگلے ہی سانس میں وہ سیکولر ریاست کے مقابل قرآن کو لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ وہ کون ہے جو ایک طرف تکفیر کو برا کہتا ہے مگر دوسری طرف تصوف کو متوازی دین اور ضلالت قرار دیتا ہے۔

یونیورسٹیوں پر قبضے، نصابوں پر تصرف، اساتذہ پر تشدد، اور نوجوانوں کو تربیت کے آزادانہ مواقع فراہم کرنے کے بجائے ان کی ذہن سازی کس کا خواب ہے۔ یہ طبقہ ایک ہی وقت میں آگے اور پیچھے جانا چاہتا ہے۔ یہ ناممکن الحصول ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جس کا خیال ہے کہ سائنس کی ہر ایجاد کا ماخذ صرف قرآن ہے۔ سائنسدان اپنی تجربہ گاہوں میں قرآن کی تفاسیر کی روشنی میں اپنے تجربات سرانجام دیتے ہیں ہر ایجاد کے منظر عام پر آتے ہیں یہ ہی طبقہ شور مچا دیتا ہے کہ یہ بات تو ہمارے بزرگوں میں پہلے ہی فرما دی تھی۔ خدا لگتی کہئیے علم کا راستہ کس نے روکا اس طبقے نے یا باقی دو طبقات نے۔

میں اپنے سلسلہ مضامین میں تفصیل سے گزارش کر چکا ہوں کہ دہشتگردی علامت ہے۔ انتہا پسندی اصل مرض ہے۔ انتہا پسندی کا ذمہ دار وہ طبقہ ہے جو بخشی صاحب اور ہماری فہرست میں سب سے پہلے بیان ہوا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
فلسفہ پرانے زمانے کی سائنس کی ایک شکل تھی۔ اب اس کی جگہ سائنس نے لے لی ہے۔ اور فلسفہ اب یونیورسٹیوں میں صرف ایک کورس "لاجک" تک محدود ہو گیا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ فلسفے میں دلچسپی رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور اس میں پی ایچ ڈیز بھی ہوتی ہیں۔ اور اس کی تاریخ بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ لیکن زمان ومکان اور وجود کے بارے میں اس میں اٹھنے والے سوالات اب سائنس کی domain ہے۔ کل کے فلسفی آج کے ریاضی دان یا پھر تھوریٹیکل فزسسٹ ہیں۔ یہ ایک تصحیح کرنا میں نے لازم سمجھی۔ باقی مصنف کی دوئی والی بات سے مجھے اتفاق ہے۔ :)
 

آصف اثر

معطل
جدید مسلم ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ
09/07/2019 عاصم بخشی


’مذہب پسند‘ کی اصطلاح کوا ن سب طبقات تک محدود کرتے ہوئے جو اس قضیے سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں کہ معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی خدوخال مرتب کرنے میں تن تنہا مذہب ہی ایک واحد بامعنی قدر ہے، اگر ان تمام طبقات کا ایک عمومی سا جائزہ لیا جائے تو ہمارے ہاں فلسفہ و سائنس کو لے کر دو قسم کے فکری دھارے دیکھنے میں آتے ہیں۔ ان مذہب پسندوں میں سے ایک تو وہ ہیں جو اپنے علمی منہج کو غزالی سے منسوب کر کے ’تہافت الفلاسفہ‘ میں مشغول ہیں اور ’جدید مغربی تہذیب‘ نامی کسی ایک ٹھوس اکائی کو نظریاتی طور پراپنے مقابل فرض کر کے اس کے خلاف جہاد کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

روایتی جہاد و قتال کے لئے چونکہ ہتھیار مغربی تہذیب سے لینا واضح شرعی عذر کے کارن مباح ہے لہٰذا اس تنقیدی معرکے میں بھی ہتھیار وں کی سپلائی کا کام مغرب کے ان مارکسسٹ اور پوسٹ مارکسسٹ نقادوں سے لیا جاتا ہے جن کی ’سرمایہ دارانہ لبرل ہیومنزم‘ پر ہونے والی پچھلی نصف صدی کی تنقیدوں کو ان کے خاص سماجی وسیاسی تناظر سے نکال کر کسی حد تک کامیابی سے ایک چوں چوں کا مربہ تیار کیا جاتا ہے جو ہمارے ہاں کے لبرل طبقات(جن میں سے کچھ اپنے ردعمل پر مبنی استدلال میں ان مذہب پسندوں جتنے ہی علمی متشدد ہو چکے ہیں ) کے سامنے کھڑے ایک سادہ لوح ’مذہب پسند‘ کو تقریباًٍ اسی طرح استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے جس طرح مناظراتی تربیت کے کورسوں میں طالبعلموں کو ’مخالف کو زیر کرنے کے دس اہم ترین ہتھکنڈے‘ سکھلائے جاتے ہیں۔

اس طبقے سے اختلاف کے ساتھ بہرحال ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ طبقہ کچھ مخصوص نفسیاتی مجبوریوں اور عارضہ نرگسیت کے باعث تہذیبی مباحث کا تجزیہ کسی عالمگیر انسانی تناظر میں کرنے کی قوت ہی نہیں رکھتا لہٰذا مجبورِ محض ہوتے ہوئے حلق کے ایک حصے سے تو ’سرمایہ دارانہ تہذیب‘ کی مئے فرنگ کا درد تہ جام تک اپنے اندر انڈیلتا رہتا ہے اور اسی حلق کے دوسرے حصے سے تیزی سے تنقیدیں باہر اگلنے کا کام جاری رکھے ہے۔ سچ پوچھئیے تو ہمیں ان سے اس کے علاوہ کوئی شکایت نہیں کہ وہ ہم جیسے کیوں نہیں، یعنی مان کیوں نہیں لیتے کہ جدید دور میں تہذیبی سرحدیں تیزی سے انہدام پذیر ہیں اور کم از کم اتنی دھندلا چکی ہیں کہ مشرق و مغرب کی تہذیبی دوئی ایک ایسا قصہ پارینہ ہے جو بس تاریخِ فکر کی کتابوں میں ہی ڈھونڈنے سے ملتا ہے۔

دوسرا طبقہ پہلے طبقے کی نسبت کہیں زیادہ دلچسپ اور تخریبِ ذہن و فکر کی ہلاکت خیزیوں میں اس سے کہیں آگے ہے۔ اس کی وجہ اس کی تجاہل عارفانہ میں ڈوبی وہ رجعت پسندی ہے جو فلسفے کو تفکر، تجسس، جستجو، تحقیق، خرد افروزی، ندرتِ فکر وغیرہ جیسے انسانی خواص سے علیحدہ کر کے اس کو مذہب کا روایتی حریف گردانتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس طبقے کے نزدیک سوال کا ذہن میں پیدا ہونا تفلسف کی علت نہیں بلکہ فلسفیانہ ذہن کی تربیت ’بے جا‘ سوال اٹھانے کے مرض کی علت ہے۔



ہماری رائے میں علتوں کا یہ الٹ پھیر اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ اس طبقے کے نزدیک فلسفہ چونکہ سوال اٹھانے اور عمومی طور پر اٹل سمجھے جانے والے مفروضوں پر تشکیک و تحقیق کی دعوت ہے، لہٰذا وہ ایک ایسے ذہن کو تیار کرتا ہے جو اپنے طرف پھینکی جانے والی اٹل مذہبی اور صرف مذہب کی بنیاد پر سماجی تعبیرات کو فکر پر حاکم ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔

انگریزی محاورے کی رو سے اگر ہمیں ایک لحظہ کے لئے شیطان کی وکالت کرنی ہو تواس مخصوص مذہبی تناظر میں جدید (سیکولر)تعلیم و تربیت کا سارا ڈھانچہ ہی از سر نو ترتیب کا تقاضہ کرتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ہماری رائے میں نہ صرف روایتی مسلم ذہن کو ’تشکیل نو‘ ، ’تجدد پسندی‘ ، ’روشن خیالی‘ وغیرہ جیسی تراکیب کو ایک مخصوص شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ ذہن میں موجود نظریہ علم کے خدوخال کو دو مختلف خانوں میں تقسیم کرتا بھی نظر آتا ہے۔

قرونِ وسطی کے مذہبی متون کا ایک سرسری سا جائزہ بھی ا س مخصوص مسلم ذہنیت کے تخمِ اول کی نشاندہی کے لئے کافی ہے جب ہمیں ابن رشد فکرِ غزالی کے خلاف فلاسفہ کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ گوراقم کی رائے میں جدید مسلم ذہن کے لئے اوراقِ تاریخ میں دبی ان بحثوں سے چند مبہم اشاروں سے زیادہ کچھ خاص استفادے کی امید نہیں لیکن یہ مبہم سے اشارے بھی پچھلے دو سو سال کے روایتی مسلم ذہن کی کسی بھی قسم کی خردافروزی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی کیفیت سمجھنے کے لئے بہت کافی ہیں۔

یہ ایک ایسا مسلم ذہن ہے جو ایک طرف تواپنی تمام تر پسماندگیوں کا الزام مغرب بالخصوص مغربی استعماریت پر دھرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا اور دوسری طرف اپنے نظریہ علم میں ایک وحشت ناک قسم کی دوئی میں بٹا ہے۔ وحشت کے اس احساس کا تجرباتی جائزہ لینا ہو تو مذہبی کتابوں کے کسی بھی اسٹال سے ’حصول علم کے فضائل‘ یا ’علم کی برکتیں‘ نامی کوئی بھی رسالہ اٹھا کر تلاش کیجئے کہ ایک اوسط مسلم ذہن علم کا کیا تصور قائم کیے بیٹھا ہے۔

مثالیں ان گنت ہو سکتی ہیں لیکن اگر سند ہی کی تلاش ہے تو ابن رجب حنبلی کے رسالے ”ورثہ الانبیا“ کو دیکھ لیجیے جس کا انگریزی ترجمہ The Heirs of the Prophets کے نام سے مغرب کے اعلی تعلیم یافتہ مذہبی عالم زید شاکر کے ہاتھوں ہوا ہے اور ہمارے ہاں پیٹروڈالرز سے چلنے والے مشہور سعودی کتب خانے ’مکتبہ دارالسلام‘ میں موجود ہے۔

مقصد یقیناً ابن رجب یا مخصوص سلفی فکر پر تنقید نہیں بلکہ صرف اتنا واضح کرنا ہے کہ روایتی مسلم فکر، چاہے اس کا تعلق کسی بھی تعبیراتی دھارے سے ہو، علم کو حقیقی اور اضافی کے درجہ اولی اور درجہ ثانیہ میں بانٹتی نظر آتی ہے۔ چونکہ اول الذکر کا تعلق خالص مذہبی متون یعنی قرآن و حدیث اور فقہ وغیرہ سے ہے، لہٰذا طبقہ علما کی تعبیرات میں ایک ایسے خدا اور رسول کا تصور ابھرتا نظر آتا ہے جو ایک فقیہ اور ماہرِ طبیعات میں ان کی علمی ترجیحات کی بنیاد پر لازماً فرق کرتا نظر آتا ہے۔



آپ کسی بھی روایتی مذہبی گھاٹ کا پانی پی کر دیکھ لیجیے، اس مخصوص طبقاتی بھاشا میں خدا اور اس کے نبی کا ’مطلوب انسان‘ کبھی ریاضی دان یا کیمیا دان وغیرہ نہیں ہو گا۔ لہٰذا یہ ہرگز حیران کن نہیں کہ ہم قرونِ وسطٰی کی مسلم معاشرت میں کبھی الخوارزمی یا ابن الہیثم وغیرہ کے ناموں کے ساتھ ’امام‘ کا سابقہ نہ لگا سکے اور یہ بھی خارج از امکان ہے کہ مستقبل بعید کے مسلم معاشروں میں کسی چوٹی کے سائنسدان یا فلسفی کو کسی دینی مبلغ یا فقیہ جتنی پذیرائی میسر آ سکے۔ صاحبو، ہود بھائی اور تقی عثمانی کا کیا مقابلہ۔ بھلا دنیا اور آخرت بھی کبھی ایک جتنے اہم ہوئے ہیں؟

اگر بات یہیں تک رہتی تو کچھ ایسی وحشت کی بات نہ تھی۔ ہم اپنی جدو جہد اسی سست رفتاری سے جاری رکھتے اور اپنے مذہب پسند دوستوں کوریت میں ’مسلم نشاة ثانیہ‘ کے خیالی محل تعمیر کرتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے منہ دوسری طرف کر لیتے۔ لیکن مسئلہ اب صرف اپنے مخصوص آدرشوں کے لئے جدوجہد کرنے کا نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کا ہے۔ وحشت ناک امر یہ ہے کہ انسانی ترقی کے ایک مخصوص جدید تصور سے ظاہری طور پر اختلاف کرتے ہمارے یہ مذہب پسند نقادتعبیر پر اپنا اجارہ قائم رکھنے کی خواہش میں ایک طرف تو آزادانہ سوچنے، سمجھنے اور سوال اٹھانے کے بنیادی حق پر اخلاقی استعمار کے ذریعے قدغن لگاتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف سائنسی مادیت و افادیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہو کر سر ے سے سائنس کی مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ بنیادوں کا انکار کر دیتے ہیں۔

کسی بھی درجے کی پاکستانی جامعہ کے فزکس، ریاضی یا انجینئرنگ کی جماعت میں طالبعلموں سے یہ سوال پوچھ کر دیکھئے کہ ریاضی کی کتاب پوری دل جمعی سے پڑھنے سے خدا کے خوش ہونے کی کوئی امید ہے تو آ پ کو معلوم ہو جائے کہ مرض کی جڑیں کتنی پختہ ہیں۔ اس استدلال کے لئے بہت زیادہ لفاظی کی ضرورت نہیں کہ اس مخصوص مذہبی نفسیات میں کم و بیش تیرہ صدیوں سے گندھے انسان کی جینیاتی ماہیت کبھی اسے اس مرحلے کو اتنی خوش اسلوبی سے طے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی کہ خدا اور وصال ِ صنم ایک ساتھ ہی مل جائے۔

ہم نے بحیثیت استاد اپنی کلاس میں ایک سے زیادہ بار دیکھا کہ وضع قطع سے مذہبی معلوم ہونے والے طالبعلم نے بہت اعتماد سے اپنا مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے ایک پیچیدہ اور نہایت دلچسپ ریاضیاتی بحث کے دوران ہمیں بیچ میں ٹوک کر اذان سننے کی ترغیب دی۔ یقین جانئے ہمیں اس روک ٹوک سے کوئی شکایت نہیں کیوں کہ ہماری نگاہ میں مسئلہ خالصتاً مذہبی نہیں بلکہ دوئی میں پھنسی مذہبی نفسیات کی ترجیحات کا ہے جس کی مذہبی اور غیر مذہبی دونوں جہتیں سراسر افادیت پرستی کے فلسفے پر قائم ہیں جو خود تردیدی کے مجسم پیکروں پر مشتمل نسلوں کی مسلسل ترسیل جاری رکھے ہیں۔ یہ تیسری دنیا کی پسماندہ مذہبی معاشرت کا ایک ایسا جدید انسان ہے جو اپنی قدیم فطرت میں موجود عقلی و جبلی وحدت اس طرح بانٹ چکا ہے کہ اب اس وحدت کو محض ایک خوبصورت آدرش مان کر اس کی طرف قدم اٹھانے کی فکری قوت بھی نہیں رکھتا۔



ان حالات میں فلسفے کے کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں، قرونِ وسطیٰ کے محبوب مناظرانہ متون سے ’تہافت الفلاسفہ‘ کشید کر کے پوری دیانت داری سے ایک ایسی نادیدہ بیماری کی دوا بنانے میں مصروف ہیں جو زمانہ جدید میں اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔ جب تشخیص ہی درست نہ ہو تو دوا اکسیر نہیں بلکہ زہر کا کام کرتی ہے۔ ہمارے ہاں مختلف سائنسی علوم کے طلبا کچھ اس سطحی طرز سے حصول علم کی منزلیں طے کرتے ہیں کہ دیکارت، اقلیدس، فیثا غورث، کیپلر اور نیوٹن وغیرہ کے فکری منہج کا سایہ بھی اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے۔

نتیجتاً پیچیدہ مسائل کے خدوخال مرتب کرنے کی تکنیکی اہلیت تو دور کی بات وہ اس نفسیاتی تجربے سے ہی بہت فاصلے پر رہتے ہیں ہیں جو انہیں نفس علم کے ساتھ ایک جذباتی لگاؤ ¿ میں جوڑ دے۔ اس پر فلسفیانہ مباحث سے کامل لا تعلقی اور سائنس کی مابعد الطبیعاتی بنیادوں سے کامل ناواقفیت انہیں یہ باور کراتی ہے کہ سائنس، مذہب اور فلسفے کو کسی ایسی کلی وحدت میں نہیں باندھا جا سکتا جس میں ان تینوں چشموں سے ایک ساتھ فیض یاب ہوتا انسان اپنے وجدان اور عقل کو ایک ایسے لطیف اور ماورائے سخن بندھن میں پرو سکے جس میں اس کی پوری ذات ایک کامل تسکین کے تجربے کے قابل ہو۔

ظاہر ہے کہ عوامی سطح پر فلسفے اور سائنس کے کسی ایسے عام فہم تدریسی بیانیے کی روایت نہ ہونا، جو سائنس کے نفس علم میں فلسفے سے مستعار لئے گئے مابعدالطبیعاتی اور نیم مابعد الطبیعاتی مفروضوں کی موجودگی کو اجاگر کرے، مذہب پسندوں کے اس خاص طبقے کی وحشت ناک تنقیدوں کو کسی کم از کم درجے میں بھی معقولیت نہ بخشنے کی اولین علت ہے۔ ہماری رائے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے آپ کو ہماری رائے سے متفق پانے والے سائنس کے اساتذہ اور شوقین والدین فلسفے کے بنیادی مباحث سے واقفیت پیدا کریں اور اسکولوں اور کالجوں کی سطح پر سائنس کی تدریس میں ان طبیعاتی و مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ مباحث پر گفتگو کا آغاز کیا جائے جو سولہویں صدی سے سائنسی استدلال کی بنیادوں میں موجود ہیں۔

کون جانے کب خدا کو ہمارے حال پر رحم آ جائے اور نیوٹن، گیلیلیو، ڈارون اور دیکارت وغیرہ کو تو خیر دور کی بات ہے، ہماری تہذیب میں کم ازکم ابن رشد، ابن طفیل، الخوارزمی، ابن الہیثم اور ابن باجہ ہی کو وہی پذیرائی مل جائے جو اس وقت غزالی، ابو حنیفہ اور بخاری و مسلم وغیرہ کو ملتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جو ایک نوجوان مسلم ذہن کو سطحی ٹیکنالوجی کی بھیڑچال اور محض ایک افادیت پسند سائنسی تعلیم کے فنی شوق سے اوپر اٹھ کر ندرتِ فکر، تحقیق و جستجو اور ایجاد علم کی طرف راغب کر سکتا ہے۔
مسلم ذہن کا مسئلہ۔ عاصم بخشی صاحب کی تائید میں چند گزارشات‬
11/07/2019 اختر علی سید



عاصم بخشی صاحب کی تحریر کچھ مدت کے بعد نظر نواز ہوئی۔ انہوں نے مسلم ذہن کے ایک پیچیدہ مسئلہ کو دوبارہ اٹھایا ہے۔ جب کوئی مسئلہ کم از کم تین صدیوں پرانا ہو جائے تو اس کو دائمی کہنا شاید غلط نہ ہو۔ اس پیچیدہ اور دائمی مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہوئے بخشی صاحب نے مسلمانوں کے تصور علم کی وضاحت کی ہے۔ انہوں نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ علم سے مسلمانوں کی مراد علم دین ہے۔ اور عالم سے مراد مفتی تقی عثمانی، مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد، اور جاوید غامدی صاحب جیسے ذعما ہیں نہ کہ پرویز ہودبھائی، ڈاکٹر اختر احسن، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی اور ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگ۔

بخشی صاحب نے بجا طور پر دو طبقات کی نشاندہی فرمائی ہے۔ ایک وہ جو جدید و قدیم علوم کے حامل افراد پر مشتمل ہے۔ یہ طبقہ ایک سطح پر مغرب سے آنے والے علوم کو رد کرنے پر اپنی قوتیں صرف کرتا ہے۔ جبکہ ان کی تنقید دوسری طرف مغربی علم ہی کے منہاج پر استوار ہوتی ہے۔ اور تیسری طرف اس طبقہ کو اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوپاتا کہ وہ امتیاز من و تو جس پر یہ خود کو مامور من اللہ نگران سمجھے بیٹھے تھے وہ امتیاز وقت کا پانی کب کا بہا کر لے جا چکا۔ ذرا اس طبقے کی ذہنی پراگندگی اور کنفیوژن کو نوٹ کیجیئے۔ ہم واپس اس طبقے کی جانب لوٹ کر آتے ہیں۔

دوسرا طبقہ جس کی جانب بخشی صاحب نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے ہمارے روزمرہ کے مشاہدہ کا حصہ ہے۔ اس طبقے کے نزدیک سوال اٹھانا فکر کرنا اور سوالوں کے جواب ڈھونڈنا ایک کار ممنوعہ ہے۔ ہر چیز اس طبقے کے نزدیک طے شدہ ہے، متعین ہے، صرف جواب جو پہلے سے موجود ہیں ان کو ڈھونڈنا ہے۔ یہ جواب صاحبان علم کے سینوں میں ہیں یا ان کی تحریر کردہ کتابوں میں۔ ہم ایسے عامیوں کو صرف ان کے دروازے پر دستک دینا، جواب لینا اور اس پر من و عن عمل کرنا ہے۔

بخشی صاحب نے اس دوسرے طبقے کو ”تخریب ذہن اور فکر کی ہلاکت خیزیوں“ میں پہلے طبقے سے کہیں زیادہ خطرناک ٹھہرایا ہے۔
یہاں یہ طالب علم بخشی صاحب سے اختلاف کی جسارت کرتا ہے۔

مسلمان ذہن میں علم کی تعریف کے حوالے سے جس مسئلے کی جانب اشارہ فرمایا گیا ہے یہ مسئلہ اس طالب علم کے نزدیک مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ کی علامت ہے۔ مسلمان ذہن کا اصل مسئلہ پیش قدمی (پراگریس) کے اسلوب سے متعلق ہے۔

مذہبی ذہن آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ اس نے آگے کیسے جانا ہے۔ یہ سوال مذہبی ذہن پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے کہ مستقبل کی جانب اس کا یہ سفر کیسے طے ہو گا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ان مذہبی اذہان کے لیے نسبتاً آسان ہے کہ جن کے نزدیک مذہب ان سے اپنے اجتماعی نفاذ کا مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ مذہب کو اجتماع یا معاشرے کی بجائے فرد کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ سوال ان مذہبی اذہان کے لئے بہت گھمبیر صورت اختیار کر لیتا ہے جن کے لیے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح بھی فرد کی ذمہ داری ٹھہرتی ہے۔ مذہب کے اجتماعی اطلاق کے قائل تین طبقات کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

ایک وہ طبقہ جو مستقبل کی صورت گری ماضی کے مزارات کے نقشے ذہن میں رکھ کر کرنا چاہتا ہے۔ یہ طبقہ آگے جانا چاہتا ہے۔ جدید علوم سیکھنا چاہتا ہے۔ اور سیکھتا ہے۔ کمپیوٹر پڑھتا ہے، اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے۔ جدید فلسفہ پڑھتا ہے۔ اس پر نقد کرتا ہے۔ اس طبقے کے افراد تسلیم کرتے ہیں کہ جدید فلسفیانہ نظریات کی تشکیل تو درکنار مسلم ذہن تو ان کی تفہیم کے لائق بھی نہیں ہے۔ مانتے ہیں کہ فکر جدید نے قدیم فکر ہی نہیں بلکہ اس کے اسلوب ومنہاج تک کو تبدیل کر دیا ہے۔

مگر اپنے لیکچر کا اختتام مسلم ذہن کو اس فکر جدید سے بچنے اور بچانے کی دعا پر کرتے ہیں۔ ایسے کردار آپ کو تعلیمی اداروں کے شعبہ فلسفہ، میڈیکل کالجز بزنس سٹڈیز، بینکنگ، انجینئرنگ کے شعبوں اور صحافت میں بکثرت اور بآسانی مل جائیں گے۔ ان کے خیال میں آگے کا سفر ماضی کی مکمل رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں ہے نہ صرف یہ بلکہ ماضی سے روگردانی نے ہی ہمارے مستقبل کی راہوں کھوٹا کیا ہے۔ اس طالب علم کی رائے میں یہ طبقہ آگے تو جانا چاہتا ہے مگر ماضی کے تمام لوازمات کے ساتھ یعنی بیک وقت آگے اور پیچھے کا سفر ایک ساتھ۔

دوسرا طبقہ اس ضمن میں ان لوگوں کا ہے جو میلاد کی محفل سجاتے ہیں، محرم کی عزاداری کرتے ہیں، نعتیں، قوالیاں، منقبتیں، مرثیے اور نوحے سنتے ہیں۔ محافل و مجالس اور دروس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرنا اپنے لیے باعث نجات سمجھتے ہیں۔ ان رسومات میں آنے والی تبدیلیوں کو بسروچشم قبول کرتے ہیں۔ نعت خوانی نے مظفر وارثی مرحوم سے لے کر جنید جمشید تک کا سفر طے کیا۔ نعت خوان سونے میں تلے۔ نوحہ خانی پیشہ بن گئی۔

شب بیداریاں لاکھوں میں طے ہونے لگیں یعنی یہ رسومات ایک صنعت بن گئیں جن سے ہزاروں لاکھوں لوگوں کا روزگار جڑ گیا۔ دوسرے لفظوں میں اس طبقے نے حال میں جاری رسومات اور ان کے انعقاد کو ہی دین سمجھا لہذا یہ جہاں ہیں وہیں خوش ہیں۔ لیکن اس طبقے کا معاملہ بھی یہاں رکا نہیں۔ عقائد میں تندی آئی۔ اپنے سے مختلف لوگ الگ ہوئے۔ ایک ہی مسلک کے لوگوں کی مسجدیں الگ ہوئیں ایک ہی مسلک کے لوگوں نے ایک دوسرے پر تبرا بازی شروع کر دی یعنی ہر گروہ نے یہ خیال کیا کہ دوسرا گمراہ ہے اور اس کو راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری میری ہے۔ اور اس ذمہ داری میں کوتاہی عقائد میں بگاڑ کا سبب بنے گی۔

تیسرا گروہ اپنی ترجیحات میں بہت واضح ہے۔ اسلاف، ان کے طور طریقے، اور نظریات۔ اس طبقے کے لیے ہر شے سے زیادہ اہم ہیں خلافت راشدہ کے دور کو واپس لانے، حکومتوں کی قانون سازی کے لیے ماضی کی حکومتوں سے استدلال اور استناد اور اسلاف کی طرح فتوحات کے سلسلے کو جاری رکھنے پر اصرار اس طبقے کی شناخت کی نمایاں ترین نشانیاں ہیں ہیں۔

بخشی صاحب اور ہمارے بیان کردہ طبقات میں صرف ایک فرق ہے۔ ہمارا بیان کردہ دوسرا طبقہ بخشی صاحب کے ہاں موجود نہیں ہے۔ اب اس سوال پر آئیے کہ ان طبقات میں سے زیادہ خطرناک طبقہ کون سا ہے پہلا، دوسرا یا تیسرا۔

ہمارے بیان کرتا دوسرے طبقے کو اگر آپ رسومات کی بجاآوری کی اجازت دے دیں تو وہ آپ کو کچھ نہیں کہتا۔ بخشی صاحب کی یہ بات اس حوالے سے ماننے کے لائق ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں زیادہ تر تیسرا طبقہ ملوث ہوتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ دہشتگردی کی منصوبہ بندی ہمیشہ پہلے طبقے نے کی ہے۔ گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے کون تھے؟ گو واجبی ہی سہی مگر دنیاوی تعلیم رکھنے والے پڑھے لکھے اور مغرب میں رہنے والے لوگ۔

کچھ اور واقعات میں لندن اسکول آف اکنامکس اور آئی بی اے کے تعلیم یافتہ افراد کی شمولیت میری بات کی دلیل ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھ کر لوگوں پر الحاد کے فتوے لگانے والے، ما بعد جدیدیت سے بچنے کی دعائیں کرانے والے سب اسی پہلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کون ہے جو ایک طرف یہ کہتا ہے کہ اسلام جمہوریت کا داعی ہے مگر اگلے ہی سانس میں وہ سیکولر ریاست کے مقابل قرآن کو لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ وہ کون ہے جو ایک طرف تکفیر کو برا کہتا ہے مگر دوسری طرف تصوف کو متوازی دین اور ضلالت قرار دیتا ہے۔

یونیورسٹیوں پر قبضے، نصابوں پر تصرف، اساتذہ پر تشدد، اور نوجوانوں کو تربیت کے آزادانہ مواقع فراہم کرنے کے بجائے ان کی ذہن سازی کس کا خواب ہے۔ یہ طبقہ ایک ہی وقت میں آگے اور پیچھے جانا چاہتا ہے۔ یہ ناممکن الحصول ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جس کا خیال ہے کہ سائنس کی ہر ایجاد کا ماخذ صرف قرآن ہے۔ سائنسدان اپنی تجربہ گاہوں میں قرآن کی تفاسیر کی روشنی میں اپنے تجربات سرانجام دیتے ہیں ہر ایجاد کے منظر عام پر آتے ہیں یہ ہی طبقہ شور مچا دیتا ہے کہ یہ بات تو ہمارے بزرگوں میں پہلے ہی فرما دی تھی۔ خدا لگتی کہئیے علم کا راستہ کس نے روکا اس طبقے نے یا باقی دو طبقات نے۔

میں اپنے سلسلہ مضامین میں تفصیل سے گزارش کر چکا ہوں کہ دہشتگردی علامت ہے۔ انتہا پسندی اصل مرض ہے۔ انتہا پسندی کا ذمہ دار وہ طبقہ ہے جو بخشی صاحب اور ہماری فہرست میں سب سے پہلے بیان ہوا ہے۔
ویسے تو دونوں خوش فہمی اور اُنہی Pseudologia fantastica اور غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں، جن کی آبیاری پرویز ہود اور اس قبیل کے دیگر رجالِ کار کافی عرصے سے کررہے ہیں۔ البتہ عاصم بخشی صاحب اگر سوالات سے چڑتے نہ ہوں تو ای میل میں تبادلۂ خیال کرکے بعد میں آگاہ کردوں گا۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
۱) مذہب کا سائنس سے تقابل کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی قرآن میں جوتا گانٹھنے کی ترکیبیں ڈھونڈے!!!
۲)سائنس کے عالم کو اگر سر، یا پروفیسر کا ٹائٹل دیا جاسکتا ہے تو مذہبی عالم کو علامہ یا مولانا کہنے سے کیا بغض ہے؟؟؟
۳) ابن الہیثم نے دنیا پر محنت کرکے نام کمایا تو اسے اسی لحاظ سے ٹائٹل ملنا چاہیے۔ ایک آدمی دینی مسائل بتانے کا اہل نہ ہو تو اسے مفتی کا ٹائٹل کیوں کر دیں؟ کسی مفتی نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں ڈاکٹر یا انجینئر کا ٹائٹل دیا جائے۔جب نفرت اور بغض کی آگ میں مت ماری جاتی ہے تبھی آدمی ایسی اول فول باتیں کرتا ہے!!!
۴) آپ جوتا گانٹھنے والے چھوٹے موچی ہوں یا جدید سائنسی ٹیکنالوجی کی مدد سے جوتے کا کارخانہ لگا کر بڑے موچی بنیں، یا سائنس پر ریسرچ کرنے کے نام پر مال بنائیں ۔ مذہب کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ پیسہ کمانے کے لیے، دنیا بنانے کے لیے کون سا پیشہ اختیار کرتے ہیں!!!
۵) اصل علم تو خدا اور رسول کا ہے ۔ دنیاوی لحاظ سے جوتا گانٹھنے کی سائنس ہو یا پکوڑے تلنے کی یا کسی اور قسم کی اسے مجازاً تو علم کہہ دیں لیکن یہ اصل میں پیسہ کمانے کا فن اور ہنر ہے۔ کوئی موچی اپنے پیشے میں پچاس سال کا تجربہ رکھتا ہو اسے آپ عالم کیوں نہیں کہتے، اسے انٹرنیشنل ایوارڈ سے کیوں نہیں نوازتے۔ اس کے پاس بھی تو اپنے فن کی ’’’سائنس‘‘ ہے۔
۶) دین اور دنیا کا تقابل وہ کرے جسے دونوں علوم پر دسترس حاصل ہو۔ جسے نماز روزے جیسے بنیادی احکامات کے بارے میں علم نہیں وہ کیسے چلا ہے تقابل کرنے۔ کوا ہنس کی چال چلنے سے پہلے تھوڑی قابلیت پیدا کرلے!!!
 

محمد سعد

محفلین
ویسے تو دونوں خوش فہمی اور اُنہی Pseudologia fantastica اور غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں، جن کی آبیاری پرویز ہود اور اس قبیل کے دیگر رجالِ کار کافی عرصے سے کررہے ہیں۔ البتہ عاصم بخشی صاحب اگر سوالات سے چڑتے نہ ہوں تو ای میل میں تبادلۂ خیال کرکے بعد میں آگاہ کردوں گا۔
ابھی سے آگاہ کر دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ تھوڑا اپنے علم سے استفادہ کا موقع دے دیں۔
 

محمد سعد

محفلین
۲)سائنس کے عالم کو اگر سر، یا پروفیسر کا ٹائٹل دیا جاسکتا ہے تو مذہبی عالم کو علامہ یا مولانا کہنے سے کیا بغض ہے؟؟؟
آپ بنیادی شکوے کو نظر انداز کر کے جزئیات کی بحث میں پڑ گئے ہیں۔ بنیادی گلہ یہ ہے کہ ان کو کوئی "شودر ذات" قسم کی شے سمجھا جاتا ہے، جس رویے کا میں خود بھی عینی شاہد ہوں۔

۴) آپ جوتا گانٹھنے والے چھوٹے موچی ہوں یا جدید سائنسی ٹیکنالوجی کی مدد سے جوتے کا کارخانہ لگا کر بڑے موچی بنیں، یا سائنس پر ریسرچ کرنے کے نام پر مال بنائیں ۔ مذہب کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ پیسہ کمانے کے لیے، دنیا بنانے کے لیے کون سا پیشہ اختیار کرتے ہیں!!!
۵) اصل علم تو خدا اور رسول کا ہے ۔ دنیاوی لحاظ سے جوتا گانٹھنے کی سائنس ہو یا پکوڑے تلنے کی یا کسی اور قسم کی اسے مجازاً تو علم کہہ دیں لیکن یہ اصل میں پیسہ کمانے کا فن اور ہنر ہے۔
آپ کو ابھی تک مضمون کے نفس ہی کی سمجھ نہیں آئی تو آپ کو کیا کہا جا سکتا ہے۔
ذرا مضمون کے ان حصوں کی جانب توجہ کیجیے گا۔
ان حالات میں فلسفے کے کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں
اور دوسری طرف سائنسی مادیت و افادیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہو کر سر ے سے سائنس کی مابعدالطبیعاتی فلسفیانہ بنیادوں کا انکار کر دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے ان نکات کو سمجھنے کے لیے آپ کو سائنس یا قدرتی فلسفہ کو محض ایک روزگار کمانے والے ہنر سے آگے بڑھ کر دیکھنا پڑے گا جو کہ آپ کافی واضح انداز میں بتا چکے ہیں کہ آپ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
آپ بنیادی شکوے کو نظر انداز کر کے جزئیات کی بحث میں پڑ گئے ہیں۔ بنیادی گلہ یہ ہے کہ ان کو کوئی "شودر ذات" قسم کی شے سمجھا جاتا ہے، جس رویے کا میں خود بھی عینی شاہد ہوں۔
شودر ذات قسم کی شے سے کیا مراد ہے۔ اپنی شہادت بھی بیان کیجیے۔

آپ کو ابھی تک مضمون کے نفس ہی کی سمجھ نہیں آئی تو آپ کو کیا کہا جا سکتا ہے۔
ذرا مضمون کے ان حصوں کی جانب توجہ کیجیے گا۔
”کچھ ایسے مذہب پسند نقاد جو عملی سائنس کی مابعدالطبیعاتی نظری بنیادوں کے وجود کے ہی انکاری ہیں۔“
بدقسمتی سے ان نکات کو سمجھنے کے لیے آپ کو سائنس یا قدرتی فلسفہ کو محض ایک روزگار کمانے والے ہنر سے آگے بڑھ کر دیکھنا پڑے گا جو کہ آپ کافی واضح انداز میں بتا چکے ہیں کہ آپ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
اگر بات چند ایک ”مذہب پسندوں“ کی ہورہی ہے تو پھر اتنے لمبے مضمون کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں تو چند ایک کی بات ہے اور وہاں دیسی لبرل دنیا میں تقریبا پوری کمیونٹی ہی شدت پسندی کے لپیٹ میں ہے۔ جو آئے روز صفحات کے صفحات بھر کر مزید اس خلیج میں اضافہ فرمارہےہیں۔ اس صورت میں تو اِن دیسی لبرلز کو تلقین کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ تیار حلوے کھانے کے بجائے فلسفے کی شہسواری کریں۔ کیوں کہ چوبیس گھنٹے ”سائنس“ میں پڑے رہنے کے باوجود بھی اگر پاکستان میں سائنسی کمیونٹی کا فلسفے کی حد تک یہ حالت ہےکہ کئی دہائیوں میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوپارہی تو پھر چند ایک ”مذہب پسندوں“ پر اس طرح طنز کے نشتر چلانا ذہنی تھکاوٹ کی علامت ہوسکتی ہے۔
اس بات کی وضاحت بھی ہنوز باقی ہے کہ مابعدالطبیعیاتی نظری بنیادوں کے وجود سے مراد کون سے پہلو ہیں اور اس انکار کے اسباب اور ثبوت کیا ہیں؟
 

محمد سعد

محفلین
شودر ذات قسم کی شے سے کیا مراد ہے۔
اگر آپ جانتے ہوں تو روایتی ہندو معاشرے میں شودر ذات کو بہت نیچ سمجھا جاتا رہا ہے۔ کچھ اسی انداز سے روایتی مسلم مذہبی حلقوں میں بھی سائنس و فلسفہ جیسے "دنیاوی علوم" پر وقت "ضائع" کرنے والوں کو ایک طرح کی نیچ ذات سمجھا جاتا رہا ہے۔

اپنی شہادت بھی بیان کیجیے۔
دینے کو تو ذاتی زندگی سے کئی مثالیں دے سکتا ہوں جیسے اپنے سکول کے دور کے دو حافظ ساتھیوں کی کہ جو ہر چند روز بعد کسی نہ کسی اسلامی رسالے سے اس طرز کا کوئی حوالہ اٹھا کر آ جاتے تھے کہ دنیاوی علوم کا صرف "مجبوری کے بقدر" لینا جائز ہے، اس سے زیادہ سراسر لغو و گمراہی ہے۔ یا اس ساتھی کی مثال کہ جس کے قریبی علماء نے صرف اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ اس کے علم میں یہ مفید اضافہ بھی کیا کہ بجلی پر کنڈا ڈالنا چوری نہیں ہے کیونکہ اس سے بجلی کی مقدار میں کوئی کمی نہیں آیا کرتی۔
لیکن چونکہ ان واقعات کی تصدیق کرنے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہو گا تو شاید کسی تاریخی ریکارڈ سے مدد لے لی جائے جس پر اتفاق کرنے کے لیے کسی فریق پر اندھا اعتبار نہ کرنا پڑے۔
سر سید احمد خان کو تو شاید آپ ناپسند کرتے ہوں گے چنانچہ ان کے علی گڑھ کالج کا تذکرہ فی الحال چھوڑ دیتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ علامہ ابن باز فرماتے ہیں،
" مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ابن سینا ، فارابی کے نام پر دکانوں کے نام رکھیں، اللہ ان کا برا کرے..."
الفوائد الجلية للزهراني

اس صورت میں تو اِن دیسی لبرلز کو تلقین کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ تیار حلوے کھانے کے بجائے فلسفے کی شہسواری کریں۔ کیوں کہ چوبیس گھنٹے ”سائنس“ میں پڑے رہنے کے باوجود بھی اگر پاکستان میں سائنسی کمیونٹی کا فلسفے کی حد تک یہ حالت ہےکہ کئی دہائیوں میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوپارہی تو پھر چند ایک ”مذہب پسندوں“ پر اس طرح طنز کے نشتر چلانا ذہنی تھکاوٹ کی علامت ہوسکتی ہے۔
قدرے حالیہ برسوں میں ہی، کچھ پاکستانی نژاد سائنس دان CERN اور LIGO جیسے پراجیکٹس میں اپنے کام کے حوالے سے مشہور ہوئے ہیں۔
کیا وہ نظریاتی طور پر روایت پسند ہیں یا لبرل؟
ایسی کیا وجہ ہے کہ اس درجے کا کام وہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے نہیں کر پائے؟

اس بات کی وضاحت بھی ہنوز باقی ہے کہ مابعدالطبیعیاتی نظری بنیادوں کے وجود سے مراد کون سے پہلو ہیں اور اس انکار کے اسباب اور ثبوت کیا ہیں؟
آپ کے سوال کے پہلے حصے کا جواب کافی طویل ہے چنانچہ فی الحال معذرت۔ البتہ اس کے انکار کا ایک ثبوت آپ اوپر ہی سید عمران کے تبصرے میں دیکھ چکے ہیں کہ جس میں سائنس و فلسفہ کو مکمل طور پر مادیت و افادیت پرستی کی دیوارں کے اندر محدود کر دیا گیا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
اس بات کی وضاحت بھی ہنوز باقی ہے کہ مابعدالطبیعیاتی نظری بنیادوں کے وجود سے مراد کون سے پہلو ہیں
پہلے سوچ رہا تھا کہ اس کی وضاحت کروں، لیکن پھر سوچا کہ اگر آپ کسی مضمون پر اتنے وثوق کے ساتھ Pseudologia fantastica کا الزام لگا رہے ہیں تو آپ کو کم از کم اس کے بنیادی نکات کی تو سمجھ ہونی ہی چاہیے۔
کیا آپ واقعی نہیں جانتے کہ سائنس کی مابعد الطبیعیاتی فلسفیانہ بنیادیں کیا ہیں؟ اگر واقعی نہیں جانتے تو پھر آپ اتنے یقین کے ساتھ پورے مضمون کو Pseudologia fantastica کیسے قرار دے رہے ہیں؟ کچھ سمجھ نہیں آئی۔
 

آصف اثر

معطل
اگر آپ جانتے ہوں تو روایتی ہندو معاشرے میں شودر ذات کو بہت نیچ سمجھا جاتا رہا ہے۔ کچھ اسی انداز سے روایتی مسلم مذہبی حلقوں میں بھی سائنس و فلسفہ جیسے "دنیاوی علوم" پر وقت "ضائع" کرنے والوں کو ایک طرح کی نیچ ذات سمجھا جاتا رہا ہے۔
جس سبب آپ نے مذہبی حلقوں کو ”کٹہرے“ میں لاکھڑا کیا ہے، اگر اس سے سو گُنا زیادہ طنز و تضحیک کے ثبوت دیسی لبرلز طبقے کی جانب سے انہی مذہبی حلقوں کو نشانہ بنانے کے دیے جائے تو کیا آپ اپنا مؤقف اسی لبرل طبقے سے متعلق بدلنے کو تیار ہوں گے؟

دینے کو تو ذاتی زندگی سے کئی مثالیں دے سکتا ہوں جیسے اپنے سکول کے دور کے دو حافظ ساتھیوں کی کہ جو ہر چند روز بعد کسی نہ کسی اسلامی رسالے سے اس طرز کا کوئی حوالہ اٹھا کر آ جاتے تھے کہ دنیاوی علوم کا صرف "مجبوری کے بقدر" لینا جائز ہے، اس سے زیادہ سراسر لغو و گمراہی ہے۔ یا اس ساتھی کی مثال کہ جس کے قریبی علماء نے صرف اسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ اس کے علم میں یہ مفید اضافہ بھی کیا کہ بجلی پر کنڈا ڈالنا چوری نہیں ہے کیونکہ اس سے بجلی کی مقدار میں کوئی کمی نہیں آیا کرتی۔
لیکن چونکہ ان واقعات کی تصدیق کرنے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہو گا تو شاید کسی تاریخی ریکارڈ سے مدد لے لی جائے جس پر اتفاق کرنے کے لیے کسی فریق پر اندھا اعتبار نہ کرنا پڑے۔
اگر آپ کو کسی ایسے پی ایچ ڈی شخصیت کے حوالے دیے جائے جو مذہبی علوم کو ”دقیانوسی، متروک اور بوسیدہ علوم“ کی تکرار پر تکرار کرتا رہا ہو، تو کیا آپ انہیں بھی اسی طرح سنجیدگی سے تلقین کریں گے کہ جس طرح سائنسی علوم اہم ہیں، اسی طرح ایک مسلمان کے لیے اسلام کے بنیادی علوم میں مہارت بھی ضروری اور ناگزیر ہے۔ کیوں کہ اسلام دیگر شخصی اور تحریف شدہ مذاہب کے مقابلے میں ممتاز، اعلیٰ و برتر حیثیت کا دین ہے۔ لہذا اس حقیقت کی روشنی میں دیگر مذاہب کے سائنسی کمیونٹی کا اپنے اپنے مذہب کے تحریف شدہ اور من گھڑت احکامات اور کتابیات پر تنقید عین جائز ہے، لیکن کسی مسلمان کا اپنے دین سے متعلق اُن دیگر کمیونٹیز کی طرح جرح جہالت اور انتہائی مذموم ہے۔
سر سید احمد خان کو تو شاید آپ ناپسند کرتے ہوں گے چنانچہ ان کے علی گڑھ کالج کا تذکرہ فی الحال چھوڑ دیتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ علامہ ابن باز فرماتے ہیں،
" مسلمانوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ابن سینا ، فارابی کے نام پر دکانوں کے نام رکھیں، اللہ ان کا برا کرے..."
الفوائد الجلية للزهراني
جس طرح عبدالسلام اور پرویز ہود کے ضمن میں پہلے عرض کرچکا ہوں، کہ مسلم مذہبی حلقوں کو عبدالسلام کے سائنسی خدمات اور پرویز ہود کے تحقیقی پیپرز سے کوئی تکلیف نہیں، اور نہ ہی وہ ان خدمات و تحقیقات کی کسی بھی صورت میں مذمت کرتے ہیں۔ البتہ جب ایک شخص خود کو کسی مذہب کے ساتھ نتی کرکے اس پر فخریہ قائم رہے، اور عامۃ المسلمین کے عقائد کے برخلاف عقائد و نظریات کا پرچار کرتا پھرے تو اس کے عقائد سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا تمام مسلم دنیا کے علمی طبقات پر فرض ہوجاتاہے۔ کیوں کہ اب وہ شخص خالص سائنسی نہیں بلکہ خود کو قصدا، عقائد کے حوالےسے مسلم معاشرے میں فساد پھیلانے کا مؤجب ٹھہرارہاہے، لہذا اس کے عقائد کی مذمت لازم ہوجاتاہے۔ اور چوں کہ وہ سائنس کا لبادہ اوڑھ کر ایسے قبیح عمل کا مرتکب ہوا ہے لہذا اس سے محبت ناجائز اور حرام ہے۔ لیکن اس کی تحقیقات سے اگر انسانیت کی بہبود و ترقی کا کوئی پہلو نکلتا ہے تو جہاں عقائد کے تحفظ میں انسانوں کی بھلائی کو مدنظر رکھ کر اس کے غلط اور گمراہ کُن نظریات کا سدباب ضروری تھا، وہاں انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر اس کی سائنسی خدمات سے اگرکوئی استفادہ کرنا چاہتا ہو تو یہ ممنوع نہیں ہے۔ یہ اصول ابنِ سینا سے لے کر پرویز ہود تک سب پر لاگو ہیں۔ عقائد پر اخروی نتیجے کی بنیاد کے سبب البتہ مذہبی نظریات مقدم رہیں گے۔
اب اگر صرف اس بات کو لے کر کوئی آہ و بکا کرتاہے تو اس کواپنے اوپر رحم کرکے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

قدرے حالیہ برسوں میں ہی، کچھ پاکستانی نژاد سائنس دان CERN اور LIGO جیسے پراجیکٹس میں اپنے کام کے حوالے سے مشہور ہوئے ہیں۔
کیا وہ نظریاتی طور پر روایت پسند ہیں یا لبرل؟
ایسی کیا وجہ ہے کہ اس درجے کا کام وہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے نہیں کر پائے؟
کیا واقعی آپ اُن کا پاکستان میں CERN اور LIGO جیسے پراجیکٹ پر کام نہ کرنے کا ذمہ دار مذہبی طبقے کو ٹھہراتے ہیں؟ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا ثبوت ہے کہ کسی غیرجانبدار اور خالص سائنس بیسڈ سائنسدان یا ماہر کو مذہبی طبقے کی جانب سے اتنا مجبور کیا گیا ہو کہ وہ پاکستان میں کام نہ کرسکے؟
اس مقام پر آکر پھر یہ حقیقت میرا منھ تکتی ہے کہ بیشتر ماہرین پاکستانی جامعات میں مواقع نہ دیے جانے، اقربا پروری، رشوت خوری، سہولیات و مراعات کی عدم دستیابی اور حکومتی و ادارہ جاتی حوصلہ شکنی کے سبب بیرونِ ملک خدمات دینے کو ترجیح دیتے ہیں نہ کہ مذہبی طبقے کے حوالے سے مشہور کے گئے خیالی رویے کی وجہ سے۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
پہلے سوچ رہا تھا کہ اس کی وضاحت کروں، لیکن پھر سوچا کہ اگر آپ کسی مضمون پر اتنے وثوق کے ساتھ Pseudologia fantastica کا الزام لگا رہے ہیں تو آپ کو کم از کم اس کے بنیادی نکات کی تو سمجھ ہونی ہی چاہیے۔
کیا آپ واقعی نہیں جانتے کہ سائنس کی مابعد الطبیعیاتی فلسفیانہ بنیادیں کیا ہیں؟ اگر واقعی نہیں جانتے تو پھر آپ اتنے یقین کے ساتھ پورے مضمون کو Pseudologia fantastica کیسے قرار دے رہے ہیں؟ کچھ سمجھ نہیں آئی۔
چوں کہ مجھے ادراک ہے کہ یہ مصنف کی غلط فہمی اور خیال آرائیاں ہیں۔
لیکن یہاں میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے وضاحت معلوم کرنے سے پہلے ہی اس اصطلاح کو صرف مابعدالطبیعیاتی فلسفیانہ مباحث سے کیوں جوڑا؟ حالاں کہ میں نے مضمون کے کئی نکات کو ذہن میں رکھ کر یہ اصطلاح استعمال کی ہے۔ جن میں سے چند کا ذکر میں مراسلہ 12 میں ابھی ابھی کرچکا ہوں۔ البتہ پھر بھی اگر سید عمران صاحب ہی اس بات پر رضامند ہوں کہ آپ اپنے اس مابعدالطبیعیاتی نظری بنیادوں کے انکار کے دعوے کی وضاحت کریں تو یہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اس کی تشریح کریں۔
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
جس سبب آپ نے مذہبی حلقوں کو ”کٹہرے“ میں لاکھڑا کیا ہے، اگر اس سے سو گُنا زیادہ طنز و تضحیک کے ثبوت دیسی لبرلز طبقے کی جانب سے انہی مذہبی حلقوں کو نشانہ بنانے کے دیے جائے تو کیا آپ اپنا مؤقف اسی لبرل طبقے سے متعلق بدلنے کو تیار ہوں گے؟
یہاں جدید مسلم ذہن میں علم کی دوئی موضوع ہے۔ اگر موضوع پر رہا جائے تو بدقسمتی سے یہاں کوئی ایسا نکتہ نہیں آتا کہ جہاں لبرلوں کو "کٹہرے" میں کھڑا کیا جا سکے۔ یہ کوئی معقول جواب نہیں کہ چونکہ لبرل تضحیک کرتے ہیں تو ہمارا اپنے اندر موجود مسائل کو حل نہ کرنا ایک درست طرز عمل ہے۔

کیوں کہ اسلام دیگر شخصی اور تحریف شدہ مذاہب کے مقابلے میں ممتاز، اعلیٰ و برتر حیثیت کا دین ہے۔ لہذا اس حقیقت کی روشنی میں دیگر مذاہب کے سائنسی کمیونٹی کا اپنے اپنے مذہب کے تحریف شدہ اور من گھڑت احکامات اور کتابیات پر تنقید عین جائز ہے، لیکن کسی مسلمان کا اپنے دین سے متعلق اُن دیگر کمیونٹیز کی طرح جرح جہالت اور انتہائی مذموم ہے۔
بدقسمتی سے یہ ایک ایسی پوزیشن ہے کہ جس پر میں جتنا بھی اصرار کرنا چاہوں، مجھے تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ عین یہی الفاظ کسی اور مذہب کا پیروکار اپنے مذہب کے متعلق بھی کہہ سکتا ہے چنانچہ مجھے اس سے بہتر کسی دلیل کی ضرورت پڑے گی۔

لیکن اس کی تحقیقات سے اگر انسانیت کی بہبود و ترقی کا کوئی پہلو نکلتا ہے تو جہاں عقائد کے تحفظ میں انسانوں کی بھلائی کو مدنظر رکھ کر اس کے غلط اور گمراہ کُن نظریات کا سدباب ضروری تھا، وہاں انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر اس کی سائنسی خدمات سے اگرکوئی استفادہ کرنا چاہتا ہو تو یہ ممنوع نہیں ہے۔
آپ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ پاکستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر انتہائی پکا یقین رکھتی ہے کہ عبدالسلام کو فزکس کا نوبیل دیے جانے کا واحد سبب ان کا مذہب تھا اور ان کی تحقیق میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جس سے ہم یا کوئی اور کچھ استفادہ کر سکے۔ اگر اس بات کی تصدیق کرنا چاہیں تو آپ یہیں اردو محفل پر ہی آرام سے ایک سروے کر سکتے ہیں۔

کیا واقعی آپ اُن کا پاکستان میں CERN اور LIGO جیسے پراجیکٹ پر کام نہ کرنے کا ذمہ دار مذہبی طبقے کو ٹھہراتے ہیں؟
میرا نہیں خیال کہ میں نے کوئی ایسی بات کہی ہو کہ مذہبی طبقہ ہی اس کا واحد سبب ہے۔ اس جملے کا مقصد محض سوچنے کے لیے کچھ مواد مہیا کرنا تھا کہ صورت حال اتنی سادہ بھی نہیں کہ محض مذہبی لوگوں کی شدت پسندی یا محض لبرلوں کی تضحیک کی وجہ سے یہ مسئلہ ہے۔ بہت سے اور بھی معاشرتی فیکٹر ہیں جن کا اثر پڑتا ہے۔
البتہ علم کے حوالے سے اس دوئی کا مسئلہ بہرحال برقرار ہی رہتا ہے جس کا تذکرہ دونوں کالموں میں کیا گیا ہے، اور اس مسئلے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور جو مسئلہ موجود ہے، اسے پھر حل بھی کرنا پڑے گا، چاہے لبرل وبرل اپنی بلا سے جو بھی کرتے ہوں۔
اس مقام پر آکر پھر یہ حقیقت میرا منھ تکتی ہے کہ بیشتر ماہرین پاکستانی جامعات میں مواقع نہ دیے جانے، اقربا پروری، رشوت خوری، سہولیات و مراعات کی عدم دستیابی اور حکومتی و ادارہ جاتی حوصلہ شکنی کے سبب بیرونِ ملک خدمات دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسی طرح اب ہر مسئلے پر "حکومت، حکومت" کی تکرار سن کر بھی تھک گیا ہوں جبکہ زیادہ تر مسائل حکومت سے زیادہ ہمارے خود کے ایک دوسرے کو کاٹ کھانے والے مزاج کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔

میرا بنیادی نکتہ بہرحال آپ نظر انداز کر گئے ہیں کہ آیا یہ لوگ لبرل ہیں یا نہیں۔ چونکہ آپ کا گلہ لبرلوں سے یہ ہے کہ وہ صرف سائنس سائنس کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ یہ گلہ میرا بھی ہے لیکن عملی مشاہدے کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمام لبرل بس اپنے ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر ہی یہ وظائف پڑھتے رہتے ہیں۔ ایسے لبرل بہرحال موجود ہیں جو عملی طور پر کچھ کر رہے ہیں۔ اسی طرح ایسے مذہبی لوگ بھی موجود ہیں جو کافی کام کر رہے ہیں۔
البتہ اس حقیقت سے بھی کوئی فرار نظر نہیں آ رہا کہ
بدقسمتی سے مسلمانوں کی پوری تاریخ میں ایسے لوگوں کی تعداد ہمیشہ کم ہی رہی ہے کہ جنہوں نے سائنس و فلسفہ میں کوئی قابل ذکر کام بھی کیا ہو اور مذہبی طبقے نے بغیر کسی تردد کے ان کو بطور مسلمان قبول بھی کر لیا ہو۔
اوپر آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ یہ مسئلہ علامہ ابن باز کے دور جتنا پرانا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
البتہ پھر بھی اگر سید عمران صاحب ہی اس بات پر رضامند ہوں کہ آپ اپنے اس مابعدالطبیعیاتی نظری بنیادوں کے انکار کے دعوے کی وضاحت کریں تو یہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اس کی تشریح کریں۔
اس کی وضاحت تو سادہ ہے کہ ان کا، اور مضمون میں زیر بحث طبقے کے ایک بڑے حصے کا، یہ خیال ہے کہ سائنس کا مقصد محض کوئی کارآمد ہنر سیکھ کر روزگار کا حصول اور زندگی کی ضروریات پورا کرنا ہے۔ یہ تصور کتنا غلط ہے، اس کی وضاحت کے لیے کافی گہرائی میں جانا پڑے گا۔ اس سفر کی ابتداء آپ ان سوالات سے کر سکتے ہیں۔
حقیقی دنیا کی فطرت کو کیسے جانا جائے؟
اس کو جاننے کا کوئی قابل اعتبار طریقہ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟

اگر آپ کے پاس کچھ وقت ہو تو ان موضوعات پر کافی اچھی کتابیں موجود ہیں۔
فی الوقت یہ ذہن میں آ رہی ہیں۔

The Metaphysical Foundations of Modern Science
E. A. Burtt

The Nature of Scientific Inquiry
Noretta Koertge

Our Knowledge of the External World
Bertrand Russell
 

آصف اثر

معطل
یہاں جدید مسلم ذہن میں علم کی دوئی موضوع ہے۔ اگر موضوع پر رہا جائے تو بدقسمتی سے یہاں کوئی ایسا نکتہ نہیں آتا کہ جہاں لبرلوں کو "کٹہرے" میں کھڑا کیا جا سکے۔ یہ کوئی معقول جواب نہیں کہ چونکہ لبرل تضحیک کرتے ہیں تو ہمارا اپنے اندر موجود مسائل کو حل نہ کرنا ایک درست طرز عمل ہے۔
یہ جواب آپ کے مثال کے حوالے سے تھا۔ آپ نے حوصلہ شکنی اور شودر ذات کی بات کی تھی، میں نے صرف یہ کیا کہ دوسرا رُخ دکھایا۔ اور یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ یہ سمجھتے ہیں اگر کروڑوں میں کوئی ایک ”مذہبی“ کسی لبرل کو شودر ذات سمجھے تو اسے نظر انداز کرکے اپنا کام کرنا چاہیے، نہ کہ اس کو اپنے لیے رُکاوٹ تصور کیا جائے۔
اسی طرح جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں مذہبی شخص نے یہ کہا، فلاں نے یہ کہا تو عین اسی وقت کسی لبرل کو اپنے اردگرد موجود بڑی تعداد میں پائے جانے والے اُن ”دیسی لبرلوں“ کی حالت پر بھی توجہ دینی چاہیے، بلکہ بہت دینی چاہیے کہ وہ اسلامی عقائد اور نظریات کو کس ”قدر“ کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ہمیں اسے سمجھانا چاہیے کہ بھائی کسی مسلمان کے لیے عقائد اور اسلامی نظریات ہی اس کی شناخت اور اسے مزید کام پر اُبھارنے کی بنیادیں ہیں۔ وگرنہ پھر دوئی کا مسئلہ ہی غائب ہوجاتاہے۔

بدقسمتی سے یہ ایک ایسی پوزیشن ہے کہ جس پر میں جتنا بھی اصرار کرنا چاہوں، مجھے تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ عین یہی الفاظ کسی اور مذہب کا پیروکار اپنے مذہب کے متعلق بھی کہہ سکتا ہے چنانچہ مجھے اس سے بہتر کسی دلیل کی ضرورت پڑے گی۔
لیکن یہ تو بہت آسان ہے۔ آپ ذرا وہ مناظرے، وہ مکالمے، وہ متقابل صفات اور نکات اٹھا کر کسی بھی لبرل کو اس بات پر سہل انداز میں قائل کرسکتے ہیں کہ اسے دوسرے مذاہب کے مقابل ایسا کیوں نہیں کرنا چاہیے۔
مثلا آپ اسے یہ کہہ کر مطمئن کرسکتے ہیں کہ اگر کوئی عیسائی بائبل پر اعتراض کرتا ہے تو اس کے لیے اس کا سب سے پہلا جواز، بائبل میں تحریف ہے۔ وہ کسی بھی طور یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا کہ جس کتاب میں بےتحاشا تبدیلیاں کی گئی ہو وہ کوئی الہامی کتاب نہیں ہوسکتی۔ لیکن اس کے مقابل ہم دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن اس طرح کی تحریفات سے اکمل طور پر پاک اور محفوظ ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اُن لبرلز کی بات ہورہی ہے جو دوئی کا شکار ہے کسی ملحد کی نہیں۔

آپ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ پاکستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر انتہائی پکا یقین رکھتی ہے کہ عبدالسلام کو فزکس کا نوبیل دیے جانے کا واحد سبب ان کا مذہب تھا اور ان کی تحقیق میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جس سے ہم یا کوئی اور کچھ استفادہ کر سکے۔ اگر اس بات کی تصدیق کرنا چاہیں تو آپ یہیں اردو محفل پر ہی آرام سے ایک سروے کر سکتے ہیں۔
اس کے لیے ہمیں دو باتوں کو دیکھنا ہوگا۔
1۔ جس نوبل ملے تحقیق کی بات ہورہی ہے، اس سے کتنا استفادہ کیا جاسکتاہے۔
2۔ کیا واقعی اس تحقیق میں عبدالسلام کا کوئی حقیقی اور قابلِ قدر حصہ تھا، کہ اسے حصہ دار بنایاگیا؟

پہلے سے تو کوئی بھی انکاری نہیں، حالاں کہ آپ کا پوائنٹ ہی یہ ہے کہ مذکورہ تحقیق سے استفادہ پر بعض کو یقین نہیں۔ اگر یہی سے آپ کوئی مثال دیں تو نوازش ہوگی۔

میرا نہیں خیال کہ میں نے کوئی ایسی بات کہی ہو کہ مذہبی طبقہ ہی اس کا واحد سبب ہے۔ اس جملے کا مقصد محض سوچنے کے لیے کچھ مواد مہیا کرنا تھا کہ صورت حال اتنی سادہ بھی نہیں کہ محض مذہبی لوگوں کی شدت پسندی یا محض لبرلوں کی تضحیک کی وجہ سے یہ مسئلہ ہے۔ بہت سے اور بھی معاشرتی فیکٹر ہیں جن کا اثر پڑتا ہے۔
البتہ علم کے حوالے سے اس دوئی کا مسئلہ بہرحال برقرار ہی رہتا ہے جس کا تذکرہ دونوں کالموں میں کیا گیا ہے، اور اس مسئلے کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اور جو مسئلہ موجود ہے، اسے پھر حل بھی کرنا پڑے گا، چاہے لبرل وبرل اپنی بلا سے جو بھی کرتے ہوں۔
جس علم کی دوئی کا ریلا ڈاکٹر پرویز ہود کی عظیم کوششوں سے بہتا چلا آرہاہے، اور جس میں اُن کے حمایتی اور پیروکار دِن دُگنی رات چوگنی اضافہ فرمارہے ہیں، وہ ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اس مسئلے کا تعلق دراصل اِن دیسی لبرلز سے ہے، مذہبی طبقہ ویسے ہی نشانے پر ہے۔ کیوں کہ جب ایک طبقہ اپنے عقائد کو براہِ راست ڈیفنڈ نہ کرسکے تو وہ غصہ کہیں تو نکالے گا۔ آج اگر بقولِ ان دیسی لبرلز کے مذہبی طبقے کے ساتھ دوئی کا مسئلہ ایک فیصد ہے تو یہ دیسی لبرل طبقہ خود ایک کم سو فیصد اس کا شکار ہے۔ البتہ ہمارے سنجیدہ ناقدین کو اِن سے تکلیف اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ ”مذہب برگشتہ“ ہے۔

بدقسمتی سے مسلمانوں کی پوری تاریخ میں ایسے لوگوں کی تعداد ہمیشہ کم ہی رہی ہے کہ جنہوں نے سائنس و فلسفہ میں کوئی قابل ذکر کام بھی کیا ہو اور مذہبی طبقے نے بغیر کسی تردد کے ان کو بطور مسلمان قبول بھی کر لیا ہو۔
اوپر آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ یہ مسئلہ علامہ ابن باز کے دور جتنا پرانا ہے۔
یہ ذکر ہوچکا ہے کہ ایسا کس تناظر میں کیا جاتاہے، اور یہ کیوں اتنا ضروری ہے۔ تکرار کی ضرورت نہیں۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
اس سفر کی ابتداء آپ ان سوالات سے کر سکتے ہیں۔
مجھے اِن سوالات سے نہیں اس بات سے غرض ہے کہ کالم میں اِن جیسے مابعدالطبیعیاتی سوالات سے انکار کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اس کے ثبوت کیا ہیں؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
2۔ کیا واقعی اس تحقیق میں عبدالسلام کا کوئی حقیقی اور قابلِ قدر حصہ تھا، کہ اسے حصہ دار بنایاگیا؟
ڈاکٹر صاحب نے کائنات کی چار بنیادی قوتوں میں سے دو کو یکجا کر کے دنیائے سائنس کو حیران کر دیا تھا۔
unification_idea.jpg

اس الیکٹروویک قوت کی دریافت کے ساتھ انہوں نے ہیگز بوزون نامی "خدائی" ذرہ کی پیشگوئی کی تھی جو کئی سال بعد 2012 میں ایک تاریخی تجربہ کے بعد ثابت ہوئی تھی۔
Higgs boson physicist shunned in Pakistan
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
جاسم محمد محمد سعد آصف اثر سید ذیشان سید عمران

ماشاءاللہ۔ کافی خوبصورت موضوع ہے۔
لیکن ایک بات بڑے مفکرین کی زبان سے ہم نے سنی ہے جو تمام کیلئے ضرور مفید ہوگی۔

سادہ الفاظ میں بیان کرتا ہوں:
جس شخص کو جس مکتب فکر سے دین ملا۔ وہ اسی کو مکمل صحیح سمجھتا ہے، اوردوسروں کو یا تو غلط سمجھتا ہے یا اپنے سے کم تر۔
بالکل اسی قاعدے میں آپ دینی علوم اور غیر دینی علوم سے وابستہ افراد کا موازنہ کریں۔
ہاں ایسا بھی نہیں کہ دینی علوم کے حامل افراد دوسرے علوم کو بالکلیہ قابل ترک اور اس کے حاملین کو قابل التفات نہ سمجھتے ہوں۔
اور نہ ایسا ہے کہ غیر علوم دینیہ کے حامل افراد دینی علوم کو لغو اور اس کے حامل افراد کو خبطی سمجھتے ہوں۔

بلکہ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک حد تک جانبدار ہوتے ہیں۔ اور کوئی مسئلہ نہیں۔
لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور بار بار دیکھنے میں آتا ہے کہ علماء حضرات ان لوگوں کی جو دین پر قائم رہتے ہوئے سائنس یا دوسرے بہت سے میدانوں میں آگے بڑھتے ہیں، ان کی خوب ہمت افزائی کرتے ہیں۔ اور نوجوانوں کو انھیں اپنا آئیڈیل بنانے کیلئے ابھارتے ہیں۔
اور یہ بات ہمیں دوسرے طبقے میں نظر نہیں آتی۔

چونکہ مجھے دونوں طبقوں سے واسطہ ہے ۔ اسلئے یہ مختصر باتیں۔ تاکہ سب کے دل صاف رہیں۔ اور ملت کی فلاح و بہبود کیلئے آگے بڑھیں ۔۔۔
 
Top