وہم و گمان میں نہ سہی پر نظر میں ہے ٭ راحیلؔ فاروق

وہم و گمان میں نہ سہی پر نظر میں ہے
مہمان سے مکر نہیں سکتے کہ گھر میں ہے

کچھ ماورائے بحر و بر ان بحر و بر میں ہے
کچھ ہے جو خشک و تر نہیں اور خشک و تر میں ہے

آتا نہیں وہ رنگ جو خونِ جگر میں ہے
بنتی نہیں وہ بات جو آہِ سحر میں ہے

جانے سفر میں ہم ہیں کہ منزل سفر میں ہے
کس کو خبر کہ قافلہ کس رہگزر میں ہے

تیری ہی آب و تاب متاعِ ہنر میں ہے
جس قطرے میں ہے بحر وہ قطرہ گہر میں ہے

جو دور ہے سو آنکھ اٹھانے کی دیر تک
طاقت مری نظر کی مرے بال و پر میں ہے

سر پھوڑتا ہوں کس سے یہ اب کیا بتاؤں میں
دیوار و در نہیں ہے جو دیوار و در میں ہے

مردوں کو پردہ ہائے عناصر نصیب ہوں
زندوں کی کائنات ضمیرِ بشر میں ہے

سودا کہیں اسے کہ سراپا کہیں اسے
سودائیوں کے سامنے وہ ہے جو سر میں ہے

مشہور یوں ہوا ہوں کہ مشہور میں نہیں
گمنامیوں کا شہرہ ہے اور شہر بھر میں ہے

شیطان کا گیا نہ خدا ہی کا کچھ گیا
سب خاک و خون معرکۂِ خیر و شر میں ہے

وہ ہم سے ہو گئے متاثر ہیں جن سے ہم
آسیب کا اثر ہے اور آسیب اثر میں ہے

راحیلؔ دل پہ ہاتھ ذرا رکھ کے دیکھنا
بالک بغل میں اور ڈھنڈورا نگر میں ہے

راحیلؔ فاروق​
 
Top