پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ کی ساتھیوں کے ہمراہ میرانشاہ میں چیک پوسٹ پر فائرنگ

جاسم محمد

محفلین
شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی گاڑی پر حملے میں اہلکار شہید
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے

دہشتگردوں کے سہولت کاروں کیخلاف آپریشن کے دوران خار قمر چیک پوسٹ واقعہ پیش آیا تھا، آئی ایس پی آر فوٹو:فائل

راولپنڈی: بویا کے علاقے میں پاک فوج کی گاڑی پر حملہ میں سپاہی عامل شاہ شہید ہوگیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقہ بویا میں پاک فوج کی پٹرولنگ گاڑی پر فائرنگ اور آئی ای ڈی (بارودی سرنگ) کے حملہ میں 26 سالہ سپاہی عامل شاہ شہید ہوگیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان میں گزشتہ چند دنوں کے دوران دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ ایک ماہ کے دوران دہشتگردانہ حملوں میں پانچ فوجی شہید اور 31 زخمی ہوئے۔

دہشتگردوں کے سہولت کاروں کو پکڑنے کے لئے کارروائیاں کی جارہی تھی اور اسی دوران ہی 25 مئی کا خار قمر چیک پوسٹ کا واقعہ پیش آیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
خیبرپختونخواہ میں دو تہائی اکثریت سے جیتنے والی جماعت پی ٹی ایم کے دو ممبران کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہی ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت کا وزیرستان واقعے میں جاں بحق افراد اور زخمیوں کی مالی امداد کا اعلان
نمائندہ ایکسپریس 2 گھنٹے پہلے
1688697-mahmoodkhan-1559392869-172-640x480.jpg

جاں بحق افراد کے لواحقین کو 25 لاکھ روپے، زخمی کو دس لاکھ روپے دیے جائیں گے فوٹو:فائل

پشاور: وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان نے شمالی وزیرستان کے علاقہ خڑ قمر میں پیش آنے والے واقعے میں متاثرہ افراد کیلئے امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پختونوں کے نام پر سیاست کرنے والے پختون قوم کو دوبارہ جنگ میں دھکیلنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔

محمود خان نے واقعے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے 25 لاکھ روپے جبکہ زخمی کو دس لاکھ روپے معاوضہ کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلی نے واضح کیا کہ عوام، پاک فوج اور سکیورٹی اداروں کی قربانیوں کی بدولت امن قائم ہوا ہے جسے برقرار رکھنے کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

محمود خان نے واضح کیا کہ اس وقت وفاقی اور صوبائی قیادت پختونوں کے پاس ہے جو پختونوں کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے، تمام تر مسائل حکومت کے سامنے رکھے جائیں تاکہ حکومت موثر انداز میں ان کو حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے نہ کہ مسائل کو بنیاد بنا کر ایک غیر ضروری مہم جوئی میں اپنا وقت ضائع کریں۔

محمود خان نے مزید کہا کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پختون قوم کے لئے مخلصانہ جدوجہد کئی ملک دشمن عناصر ہضم نہیں کر پا رہے اور پختونوں کو ورغلا کر ایک نئے بد امنی کے دور اور غیر یقینی صورتحال میں دکھیلنا چاہتی ہے۔
 

آصف اثر

معطل
خیبرپختونخواہ میں دو تہائی اکثریت سے جیتنے والی جماعت پی ٹی ایم کے دو ممبران کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہی ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت کا وزیرستان واقعے میں جاں بحق افراد اور زخمیوں کی مالی امداد کا اعلان
نمائندہ ایکسپریس 2 گھنٹے پہلے
1688697-mahmoodkhan-1559392869-172-640x480.jpg

جاں بحق افراد کے لواحقین کو 25 لاکھ روپے، زخمی کو دس لاکھ روپے دیے جائیں گے فوٹو:فائل

پشاور: وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان نے شمالی وزیرستان کے علاقہ خڑ قمر میں پیش آنے والے واقعے میں متاثرہ افراد کیلئے امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پختونوں کے نام پر سیاست کرنے والے پختون قوم کو دوبارہ جنگ میں دھکیلنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔

محمود خان نے واقعے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے 25 لاکھ روپے جبکہ زخمی کو دس لاکھ روپے معاوضہ کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلی نے واضح کیا کہ عوام، پاک فوج اور سکیورٹی اداروں کی قربانیوں کی بدولت امن قائم ہوا ہے جسے برقرار رکھنے کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

محمود خان نے واضح کیا کہ اس وقت وفاقی اور صوبائی قیادت پختونوں کے پاس ہے جو پختونوں کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے، تمام تر مسائل حکومت کے سامنے رکھے جائیں تاکہ حکومت موثر انداز میں ان کو حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے نہ کہ مسائل کو بنیاد بنا کر ایک غیر ضروری مہم جوئی میں اپنا وقت ضائع کریں۔

محمود خان نے مزید کہا کہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پختون قوم کے لئے مخلصانہ جدوجہد کئی ملک دشمن عناصر ہضم نہیں کر پا رہے اور پختونوں کو ورغلا کر ایک نئے بد امنی کے دور اور غیر یقینی صورتحال میں دکھیلنا چاہتی ہے۔
پشتو میں کہتے ہیں کتے کی عزت ہوتی ہے لیکن ان لوگوں کی نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی ایم: حقائق چھپانے سے مسائل حل نہیں ہوتے
01/06/2019 فضل ربی راہی



اٹلی کے فلاسفر نیکولو میکاؤلی نے اپنی مشہور عالم کتاب ”دی پرنس“ میں محکوم ریاستوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے بادشاہ کو تین اہم مشورے دیے ہیں۔ اوّل جب آپ کسی ملک کو فتح کریں تو بہترین راستہ یہ ہے کہ پوری آبادی کو نیست و نابود کر دیں۔ دوم اگریہ ممکن نہ ہو تو اس میں جگہ جگہ فوجی چھاؤنیاں قائم کریں، سوم اگر معاشی طور پر ایسا کرنا مشکل ہو تو پھر اس کے کچھ اہم لوگوں کو شرکت اقتدار کا جھانسا دے کر انھیں رام کریں۔

وطن عزیز کے موجودہ حالات دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے نیکولو میکاؤلی کے ان ہدایات پر پورے شد و مد سے عمل کیا جا رہا ہو اور یہ عمل بھی مخصوص علاقوں اور مخصوص قوموں کو نشانہ بنا کر جاری ہے۔

سوات میں فوجی آپریشنوں کے دوران بے گناہ لوگوں کی ہلاکت، بعد میں سرچ آپریشنوں کے ذریعے چادر اور چاردیواری کی حرمت کی بری طرح پامالی، چیک پوسٹوں پر بچوں، بڑوں، بزرگوں اور خواتین تک کو ذلت آمیز تلاشی سے گزارنے کا عمل اور آخری حربے کے طور پر علاقے کے لوگوں کو آئی ڈی پیز بناکر دربدر کردینا اور اس کے بعد سوات میں ایک بڑی فوجی چھاؤنی کا قیام، یہ سب کچھ کیا ظاہر کرتا ہے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سوات میں فوجی آپریشنوں کے ذریعے جو ماورائے آئین و قانون بے قاعدگیاں کی گئی ہیں، اس کی فہرست کافی طویل ہے لیکن اس وقت میڈیا پر پابندی عائد تھی اور وہ اصل صورت حال سے لوگوں کو باخبر نہیں رکھ رہا تھا لیکن اہل سوات کے ذہنوں میں سکیورٹی اداروں کی بد تدبیری اور غیرانسانی سلوک کی وجہ سے جو بدگمانی اور ذہنی دوری پیدا ہوئی ہے، وہ ختم نہیں ہوئی ہے۔ تاہم یہ ایسے حالات تھے جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور خود بھی ان جاں گسل مراحل سے گزرتے رہے ہیں لیکن وزیرستان کے حالات سوات کے مقابلے میں زیادہ سنگین تھے۔

سوات میں تو جعلی طالبان تخلیق کیے گئے تھے لیکن وزیرستان کے مختلف علاقوں میں غیر ملکی جنگجوؤں کو پناہ دی گئی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ حکومت کی طرف سے ان کی باقاعدہ مردم شماری کی گئی تھی اور انھیں وہاں خود کو رجسٹر کرانے کا کہا گیا تھا۔ جب نائن الیون کے بعد امریکی سرکار سے انھیں ختم کرنے کا حکم آیا تو وزیرستان کے لوگوں کی اصل آزمائش شروع ہوگئی۔ ان متذکرہ غیر ملکی جنگجوؤں اور برے طالبان کو ختم کرنے کے لئے فوجی آپریشوں کا آغاز کردیا گیا جن میں مقامی آبادی کو بری طرح تکلیفوں اور اذیتوں سے گزرنا پڑا۔ انھیں آئی ڈی پیز بننے پر مجبور کردیا گیا اور پناہ گزیں کیمپوں میں بھی ان کے احترام اور روایات کا خیال نہیں رکھا گیا۔

وزیرستان میں فوجی آپریشنوں کے دوران ایک ایک گھر سے کئی کئی جنازے اٹھتے تھے۔ علی وزیر جن پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے اور اس وقت زیر حراست ہیں، ان کے گھر سے دس جنازے اٹھے تھے جن میں ان کے والد اور بھائی سمیت قریبی رشتے دار شامل ہیں۔ ان کے گھر اور تجارتی مرکز کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا۔ عام لوگوں کو سکیورٹی چیک پوسٹوں پر جس طرح ذلیل اور خوار کیا جاتا تھا، اس نے لوگوں کے ذہنوں میں سکیورٹی اداروں کے خلاف شدید نفرت بھر دی ہے۔

اس جبر سے بھری ہوئی صورت حال میں سکیورٹی ادارے کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ ملک اور اس کے پرچم کے لئے احترام کا جذبہ پیدا کرسکیں گے؟ نہ کسی کو زبردستی محب الوطن بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی غدار۔ آپ کے اچھے یا برے عمل کے نتیجے میں اچھا یا برا ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ وزیرستان کے معصوم عوام تو سچے پاکستانی ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1948 ء میں ان پختونوں ہی نے موجودہ آزاد کشمیر کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

یہ تفصیل اس لئے لکھنی پڑ رہی ہے کہ مین سٹریم اور سوشل میڈیا پہ پی ٹی ایم کے خلاف غیر معمولی طور پر منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ملک بھر میں مقیم پشتونوں بلکہ بیرون ملک رہائش پذیر پشتونوں میں شدید منفی ردِ عمل ابھر رہا ہے۔ حالیہ فوجی تصادم کے نتیجے میں مزید پختون پی ٹی ایم کے موقف کے حامی ہو رہے ہیں۔ انھیں احساس ہو رہا ہے کہ پختونوں پر ظلم بھی ڈھایا جا رہا ہے، انھیں دہشت گرد اور غدار بھی قرار دیا جا رہا ہے اور جب وہ پرامن احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو ان پر گولیاں بھی برسائی جاتی ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ملک کی رائے عامہ کے ذہنوں کی اس قدر برین واشنگ کی گئی ہے کہ سوشل میڈیا پہ ان کی طرف سے پی ٹی ایم کے کارکنوں کو غدار اور بیرون ملک ایجنٹ جیسے گھناؤنے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض تو ان کے خلاف دشنام طرازی پر بھی اتر آتے ہیں لیکن انھیں معلوم نہیں کہ مسئلہ پی ٹی ایم کا نہیں، وہاں کے عام لوگوں کا ہے۔ پی ٹی ایم تو ان کے لئے ایک پلیٹ فارم ہے جس میں وہ اپنے مسائل، مشکلات اور مطالبات بیان کرنے کے لئے جمع ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف قومی میڈیا کا کردار تو سب کے سامنے ہے۔ اس نے مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دے کر پختونوں کے ذہنوں میں مزید نفرتیں کاشت کی ہیں جن کے اثرات تا دیر قائم رہیں گے۔

اس وقت مسئلہ دو فریقین کے درمیان ہے۔ ایک طاقت ور ہے اور دوسرا کمزور۔ کمزور فریق پر ظلم ہوا ہے اور اس کے ساتھ ماورائے قانون سلوک روا رکھا گیا ہے لیکن اسے اس ظلم اور زیادتی پر پرامن احتجاج کا حق نہیں دیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس کے جائز مسائل حل کرنے اور مشکلات ختم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں بلکہ مظلوم کی آواز دبانے کے لئے جبر کے مختلف حربے استعمال میں لائے جا رہے ہیں۔ طاقت ور نے اپنے جرائم چھپانے کے لئے میڈیا پر سخت ترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں تاکہ مظلوم کا موقف کسی بھی صورت میں عوام کے سامنے نہ آسکے اور اس کی بے قاعدگیوں پر پردہ پڑا رہے۔

مظلوم عوام کی رسائی منتخب جمہوری حکومت تک بھی ممکن نہیں۔ وزیر اعظم عوام اور سکیورٹی فورسز کے درمیان حالیہ تصادم پر مہر بہ لب ہیں اور صوبے کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اطلاعات نے جو بیانات جاری کیے ہیں، وہ بھی مظلوموں کے خلاف ہیں۔ ایسے میں وزیرستان ہی کے نہیں بلکہ جہاں جہاں پختون بستے ہیں، ان کے دلوں میں کس قسم کے جذبات اور احساسات سر اٹھا رہے ہوں گے؟ ان کو سمجھنے کے لئے کسی افلاطونی قابلیت کی ضرورت نہیں۔

منتخب جمہوری حکومت جب جمہور کے مسائل سے اغماز برتے اور اہم قومی معاملات غیر جمہوری قوتوں کے حوالے کریں تو اسے کیسے عوام کی نمائندہ جمہوری حکومت قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ عوام کی منتخب جمہوری حکومت بدترین آمریت کی گود میں پل رہی ہے اور اسے جو احکامات موصول ہوتے ہیں، وہ ان پر من و عن عمل پیرا ہوتی ہے۔

وزیرستان کے عوام کے مسائل حقیقی ہیں، ان کا اعتراف حکومتی اور عسکری دونوں سطحوں پر کیا جاچکا ہے۔ اس سلسلے میں مذاکرات بھی ہوئے ہیں، چند ہفتے قبل پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے ساتھ بات چیت میں بھی شریک ہوئے تھے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے اہم سینیٹرز موجود تھے جنھوں نے اعتراف کیا کہ منظور پشتین کو سننے کے بعد ہم نے محسوس کیا ہے کہ کئی چیزیں حل طلب ہیں اور امید ہے کہ اصلاح احوال کے لئے مثبت اقدامات اٹھائے جائیں گے لیکن اصلاح احوال کے لئے مثبت قدم اٹھانے کی بجائے مظلوموں کی آواز گولی سے دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

اس وقت ملک کے معاشی اور سیاسی حالات نہایت نازک ہیں۔ عالمی سطح پر بھی وطن عزیز کے لئے صورت حال تسلی بخش نہیں، ایسے میں فوج اور عوام کے مابین تصادم بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ سلگتا ہوا بلوچستان پہلے سے ہی دردِ سر بنا ہوا ہے، کیا خیبر پختون خوا میں بھی بغاوت کی آگ بھڑکانا مقصود ہے؟ ملک کے بعض صاحب فہم صحافیوں، دانش وروں اور قومی سیاست دانوں نے حکومت اور سکیورٹی اداروں پر اس خطرناک صورت حال کی سنگینی واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں بار بار سقوط ڈھاکہ کی مثال بھی دی جاتی رہی ہے کہ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے اور کسی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں وطن عزیز کسی سانحہ سے دوچار ہوجائے۔

عمران خان سے تو کسی مدبر سیاست دان کی توقع نہیں کی جاسکتی کیوں کہ اس سنگین صورت حال میں مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے وہ مسلسل خاموشی کی رِدا اوڑھے ہوئے ہیں لیکن فوجی زعماء کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور پختونوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے علاقے کے عمائدین کی مدد سے ایک لویہ جرگہ تشکیل دینا چاہیے جو اس تمام صورت حال کا جائزہ لیں اور پی ٹی ایم کے ذریعے عوام نے جو مطالبات پیش کیے ہیں، ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور مسائل کے حل کے لئے فوری عملی اقدامات کئے جائیں۔ قبائلی علاقہ جات کو چوں کہ صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کیا جا چکا ہے، اس لئے ان علاقوں میں فوج کا عمل دخل کم سے کم کرنا چاہیے اور چیک پوسٹوں پر ایف سی یا ریگولر پولیس کے اہل کار تعینات کیے جائیں۔

حقائق چھپانے سے مسائل حل نہیں ہوتے اور سوشل میڈیا کے اس دور میں انھیں چھپانا ممکن بھی نہیں۔ میڈیا پر پابندیاں عائد کر کے اس کے ذریعے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش حالات کو مزید خرابی کی طرف لے جائے گی۔ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے سے سبکی نہیں ہوتی بلکہ مزید غلطیوں کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اپنی کوتاہیوں اور بے قاعدگیوں پر اڑنا یا انھیں اَنا کا مسئلہ بنانا بد ترین حماقت ہے۔ ملک کی سلامتی اور قومی یک جہتی کے لئے ضروری ہے کہ پختونوں کے گِلے شکوؤں کو سنجیدہ لیا جائے اور انھیں دھتکارنے کی بجائے گلے لگایا جائے۔ ان کی آواز پوری ہمدردی سے سنی جائے اور فراست و تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے مسائل حل کرنے کے لئے سنجیدہ اور عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حقوقِ انسانی کی پوشیدہ خلاف ورزیاں
ایم الیاس خان بی بی سی نیوز، ڈیرہ اسماعیل خان
  • ایک گھنٹہ پہلے
_106779271_mediaitem106779270.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images
Image caption ایک دہائی سے پاکستانی فوج نے وزیرستان کے علاقے میں نقل و حمل پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے
پاکستان میں نائن الیون حملوں کے بعد شروع ہونے والی ’وار آن ٹیرر‘ کے دوران شدت پسندوں سے ہونے والی طویل لڑائی میں کئی ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ تاہم فوجیوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں قتال اور تشدد کے شواہد اب جا کر سامنے آنے لگے ہیں۔ بی بی سی نے ایسے ہی کچھ متاثرین تک رسائی حاصل کی ہے۔

یہ 2014 کے اوائل کی بات ہے جب ٹی وی نیوز چینل اس جنگ میں پاکستانی طالبان کے خلاف ایک اہم کامیابی یعنی رات کے اندھیرے میں اس گروپ کے اہم ترین کمانڈرز میں سے ایک کی فضائی کارروائی میں ہلاکت کی خبریں دے رہے تھے۔

یہ عدنان رشید اور ان کے خاندان کے پانچ افراد کی افغان سرحد کے قریب شمالی وزیرستان میں کی جانے والی بمباری میں ہلاکت کی اطلاع تھی۔

عدنان رشید پاکستانی فضائیہ کے ایک سابق ٹیکنیشن تھے اور قدرے معروف تھے۔ انھوں نے ملالہ یوسفزئی کو ایک خط لکھا تھا جس میں انھوں نے 2012 میں ان پر کیے گئے قاتلانہ حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ انھیں سابق صدر پرویز مشرف کو قتل کرنے کے ایک ناکام منصوبے میں ملوث ہونے کے سلسلے میں جیل بھی ہوئی تھی جہاں سے وہ فرار ہو گئے تھے۔

بظاہر اب ایسا لگ رہا تھا کہ قسمت ان پر مہربان نہیں رہی۔

22 جنوری 2014 کو نیوز چینلز نے سکیورٹی حکام کے حوالے سے بتایا کہ ہمزونی کے علاقے میں عدنان رشید کی خفیہ پناہ گاہ کو دو رات قبل نشانہ بنایا گیا تھا۔

9/11 کے بعد امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد طالبان جنگجو، القاعدہ کے جہادی اور دیگر شدت پسند سرحد پار کر کے پاکستانی علاقے میں آئے اور اس وقت سے پاکستانی فوج وزیرستان اور دیگر پہاڑی قبائلی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔

صحافیوں سمیت غیرمقامی افراد ان علاقوں میں داخل نہیں ہو سکتے اس لیے سکیورٹی فورسز کے دعوؤں کی آزادانہ تصدیق کرنا انتہائی مشکل ہے۔ جنھوں نے وزیرستان سے ایسی خبریں کی ہیں جن سے فوج کا اچھا تاثر نہیں ملتا، انھیں اکثر اس کی سزا ملی ہے۔

عادل رشید کی مبینہ پناہ گاہ پر حملے کے تقریباً ایک سال بعد معلوم ہوا کہ پاکستانی جنگی طیاروں نے غلط ہدف کو نشانہ بنا لیا تھا اور عادل رشید نے خود ایک ویڈیو میں نمودار ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ زندہ ہیں۔

_107094916_adnanrasheed.png

Image caption عدنان رشید کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر حملے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی
پاکستانی فوج نے اس کارروائی میں ایک اہم شدت پسند کو مارنے کے بجائے دراصل ایک مقامی آدمی کے خاندان کو مار ڈالا تھا اور اس کا گھر تباہ کر دیا تھا۔

حکام نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ ان سے غلطی ہوئی۔ بی بی سی نے ڈیرہ اسماعیل خان میں اس شخص سے ملاقات کی جس کا مکان اس حملے کا نشانہ بنا تھا۔

اُس وقت نذیراللہ کی عمر 20 سال تھی۔ وہ بتاتے ہیں ’رات کے تقریبآً 11 بجے ہوں گے۔‘

وہ خاتئی کلے نامی گاؤں میں اپنی نوبیاہتا اہلیہ کے ہمراہ دو کمروں کے ایک مکان میں موجود تھے۔ عام طور پر جوڑوں کو علیحدہ کمرہ مشکل سے ہی ملتا ہے مگر اس رات ان کے باقی اہلخانہ مکان کے دوسرے کمرے میں سو رہے تھے۔

’ایسا لگا جیسے میرا مکان دھماکے سے پھٹ گیا ہے۔ میں اور میری بیوی ہڑبڑا کر اٹھے۔ آتش گیر مادے کی شدید بو آ رہی تھی۔ ہم دونوں دروازے کی جانب بھاگے تو ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے کمرے کی چھت ماسوائے اس حصے کے جہاں ہمارا پلنگ پڑا تھا، مکمل طور پر گر چکی تھی۔‘

دوسرے کمرے کی چھت بھی گر چکی تھی اور صحن میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ نذیراللہ کو ملبے کے نیچے سے چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اپنی بیوی کے ساتھ مل کر انھوں نے ان لوگوں کو بچانے کی کوشش کی جنھیں وہ بھڑکتے شعلوں کی روشنی میں دیکھ سکتے تھے۔

اسی اثنا میں پڑوسی ہلاک شدگان اور زخمیوں کو نکالنے کے لیے مدد کرنے آ گئے۔

نذیر اللہ کے گھر والوں میں سے ایک تین سالہ بچی سمیت چار افراد ہلاک ہوئے۔ ان کی بھتیجی سمیہ جس کی ماں بھی ہلاک ہوئی تھی، اس وقت ایک سال کی تھی۔ سمیہ کے کولہے کی ہڈی ٹوٹی مگر وہ بچ گئی تھی۔ ملبے سے خاندان کے چار مزید افراد کو زخمی حالت میں نکالا گیا اور ان سب کو شدید چوٹیں آئی تھیں۔

اس واقعے کے بعد سے نذیر اللہ کے گھر والے ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہو چکے ہیں جہاں زندگی قدرے پرامن ہے۔

_106772289_sumayya-with-nazirullah976.gif

Image caption نذیراللہ اور ان کی بھتیجی سمعیہ تو بچ گئے لیکن ان کے خاندان کے چار افراد بمباری میں مارے گئے
قبائلی علاقے میں 20 سال سے جاری لڑائی کے باعث اس خطے کے بہت سارے پاکستانی شہریوں کی طرح انھیں متعدد بار دہشت گردی کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا ہے۔

حکام اور آزادانہ تحقیق کرنے والی تنظیموں کے مطابق سنہ 2002 کے بعد سے دہشت گردی کی وجہ سے تقریباً 50 لاکھ افراد کو پاکستان کے شمال مغربی علاقوں سے اپنا گھربار چھوڑ کر ملک کے دیگر علاقوں میں یا تو سرکاری کیمپوں میں یا پھر پرامن شہروں میں کرائے کے مکانوں میں پناہ لینا پڑی ہے۔

اس جنگ میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں اس کے کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں تاہم محققین، مقامی حکام اور سماجی کارکنوں کے اندازوں کے مطابق ہلاک ہونے والے عام شہریوں، شدت پسندوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی کل تعداد 50 ہزار سے زیادہ ہے۔

مقامی سماجی کارکن کہتے ہیں کہ فوج کی جانب سے متواتر فضائی اور زمینی کارروائیوں میں بہت سارے عام شہری مارے گئے ہیں۔ وہ اپنے دعوؤں کے شواہد کے طور پر ویڈیو اور دستاویزی شواہد جمع کرتے رہے ہیں۔

ان کارکنان کا تعلق ایک نسبتاً نئی اور معروف انسانی حقوق کی مہم پشتون تحفظ موومنٹ سے ہے جو سنہ 2018 کے آغاز میں سامنے آئی اور تب سے قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی ایسی مبینہ خلاف ورزیوں کی تشہیر کر رہی ہے جن کے بارے میں ماضی میں متاثرین بتانے سے ڈرتے تھے۔

تنظیم کے اہم رہنما منظور پشتین کا کہنا ہے کہ ’15 برس کی تکالیف اور تذلیل کے بعد ہم میں اتنی ہمت آئی ہے کہ بات کر سکیں اور آگاہی دے سکیں کہ کیسے فوج نے براہِ راست کارروائی کر کے اور شدت پسندوں کی حمایت کی پالیسی اپنا کر ہمارے آئینی حقوق کو کچلا ہے۔‘

مگر یہ تنظیم شدید دباؤ کا شکار ہے۔ پی ٹی ایم کا دعویٰ ہے کہ رواں برس 26 مئی کو فوج نے شمالی وزیرستان میں مظاہرین کے ہجوم پر فائرنگ کی جس سے ان کے 13 کارکنان ہلاک ہوگئے۔ فوج کا کہنا ہے کہ تین کارکن اس وقت ہلاک ہوئے جب ایک فوجی چوکی پر حملہ کیا گیا۔ پی ٹی ایم اس الزام کی تردید کرتی ہے مگر اس کے دو رہنماؤں کو جو کہ اراکینِ پارلیمان بھی ہیں، گرفتار کر لیا گیا ہے۔

_106779267_mediaitem106779266.jpg

تصویر کے کاپی رائٹAamir Qureshi/Getty Images
Image caption پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم رہنما منظور پشتین نے لاپتہ قبائلی افراد کے لیے آواز اٹھائی ہے
پی ٹی ایم کی جانب سے جن واقعات کی نشاندہی کی گئی اور جن کے بارے میں بی بی سی نے آزادانہ تحقیقات بھی کیں، جب انھیں پاکستانی فوج کے ایک ترجمان کے سامنے رکھا گیا تو انھوں نے ان پر جواب دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ الزامات ’انتہائی متعصبانہ‘ ہیں۔

ادھر بی بی سی نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے بھی ان پر سوال پوچھا تاہم کوئی جواب نہیں ملا اگرچہ حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے عمران خان نے خود قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔

_103693518_086b2036-0a30-4a6f-a4a0-94c46832b58f.jpg

9/11 طالبان کو پاکستان میں کیسے لے آیا؟
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب سنہ 2001 میں نیویارک اور واشنگٹن میں القاعدہ نے حملے کیے۔ اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اسامہ بن لادن کو پناہ دینے والے طالبان جیسے بغیر لڑائی کے ہی غائب ہو گئے۔

سنہ 1996 میں کابل فتح کرنے والے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے تین ممالک میں سے ایک پاکستان کے مفاد میں تھا کہ طالبان کو ختم نہ ہونے دیا جائے تاکہ وہ افغانستان میں انڈیا کے اثرورسوخ کو زیادہ بڑھنے نہ دیں۔

تو ادھر جہاں پاکستان امریکی فوجی امداد پر کئی دہائیوں تک انحصار کرتا رہا اور جنرل پرویز مشرف امریکی ’وار آن ٹیرر‘ کا حصہ بھی بن گئے، پاکستان نے پھر بھی طالبان کو نیم خود مختاد قبائلی علاقوں خاص کر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پناہ گاہیں بنانے دیں۔

مگر افغان طالبان اکیلے ہی سرحد پار نہیں آئے۔ دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے جنگجو بھی قبائلی علاقوں میں آنے لگے اور ان میں کچھ تو پاکستان کی ریاست کے بھی بہت خلاف تھے۔

_106901359_gettyimages-86155688-594x594.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images
Image caption طالبان نے نیم خود مختاد قبائلی علاقوں خاص کر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پناہ گاہیں بنائیں
عالمی عزائم رکھنے والے جہادیوں نے وزیرستان میں بیٹھ کر حملوں کی منصوبہ بندی شروع کر دی جس کے بعد امریکہ پاکستان سے کہتا رہا کہ ان کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔

سکیورٹی امور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ جیسے جیسے دہشت گردی بڑھنے لگی پاکستان ’عسکریت پسندوں سے لڑائی اور دوسری طرف مستقبل میں سودے بازی کے لیے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے ان میں سے کچھ کے ساتھ اتحاد‘ کے درمیان پھنس گیا۔

سنہ 2014 میں پاکستان نے شمالی وزیرستان میں ایک نیا آپریشن شروع کیا جس نے شدت پسند تنظیموں اور ان کی محفوظ پناہ گاہوں پر دباؤ ڈالا اور اسے ملک بھر میں حملوں میں کمی کی وجہ قرار دیا گیا۔

_103693518_086b2036-0a30-4a6f-a4a0-94c46832b58f.jpg

’طالبان اور فوج ایک ہی کام کر رہے ہیں‘
سنہ 2001 میں جب طالبان قبائلی علاقوں میں آئے تو انھیں مقامی لوگوں نے ایک محتاط انداز میں خوش آمدید کہا۔ مگر جلد ہی قبائلی لوگ ان سے نالاں ہو گئے کیونکہ انھوں نے اپنے قدامت پسند مذہبی عقائد لوگوں پر نافذ کر کے قبائلی معاشرے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔

ابتدائی مراحل میں مقامی نوجوان سینکڑوں کی تعداد میں شدت پسندوں کے ساتھ شامل ہونے لگے اور اسی لیے ان تنظیموں میں قبائلی دشمنیوں کا رنگ آنے لگا جو کہ بعد میں ہونے والی داخلی لڑائیوں سے واضح تھا۔

دوسرے مرحلے میں طالبان نے قبائلی عمائدین کو ختم کرنا شروع کیا جو کہ ان جنگجوؤں کی قبیلوں پر قبضے کرنے کی کوشش میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ سنہ 2002 سے لے کر اب تک کم از کم ایک ہزار قبائلی عمائدین کو شدت پسندوں نے قتل کیا ہے اور کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اس تعداد کو تقریباً 2000 قرار دیتی ہیں۔

_106901357_mediaitem106901356.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images
Image caption وزیرستان ایک ایسا علاقہ رہا ہےجہاں صحافیوں اور غیرمقامی افراد کی رسائی آسان نہیں
جولائی 2007 میں شمالی وزیرستان میں ایسا ہی ایک قتل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے کیسے قبائل کو قابو کیا۔

شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک سے تعلق رکھنے والے وزیر قبیلے کے ایک رکن محمد امین کہتے ہیں کہ ’جب انھوں نے میرے بھائی کو اغوا اور قتل کیا اس وقت بھی علاقے میں میرا قبیلہ مضبوط تھا۔ مگر جب فوج نے انھیں (شدت پسندوں کو) ہمارے لوگوں کے خلاف کارروائی کی آزادی دے دی تو ہماری کمر ٹوٹ گئی۔‘

محمد امین کے بھائی کی لاش شدت پسندوں کے ہاتھوں ان کے اغوا کے اگلے دن ایک ٹرک میں پڑی ہوئی ملی تھی۔ محمد امین اور ان کے قبیلے والوں نے اغوا کاروں کا سراغ لگا لیا اور پھر ان کے ساتھ لڑائی کی۔

اس جھڑپ میں محمد امین کے بیٹے اسد اللہ، ان کے ایک کزن اور چار طالبان جنگجو مارے گئے۔

اس کے بعد رزمک میں طالبان کی پرتشدد کارروائیاں روکنے کے لیے قبیلے کی جانب سے عسکری حکام سے کیے گئے مطالبات اس وقت ٹھنڈے پڑ گئے جب رزمک میں ہی موجود طالبان نے جوابی کارروائیاں کرنے کی دھمکیاں دیں۔

ایک دہائی بعد بھی محمد امین کو اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ ماسوائے کبھی کبھی آپس میں جھڑپوں کے ’طالبان اور فوج ایک ہی کام کر رہے ہیں۔‘

_107134781_aminwazir'ssonasadullah.jpg

Image caption اسد اللہ کو طالبان شدت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا
پی ٹی ایم کے کارکنان نے ایسے بھی متعدد واقعات کے شواہد جمع کیے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز نے مقامی آبادی کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا ہے۔

مثال کے طور پر مئی 2016 میں شمالی وزیرستان میں تیتی مداخیل کے علاقے میں فوجی چوکی پر حملے کے بعد حملہ آور کی تلاش میں فوج نے پورے ایک گاؤں کی آبادی کو اکھٹا کیا۔ واقعے کے ایک عینی شاہد نے، جس کا اپنا بھائی بھی اسی آپریشن میں پکڑا گیا تھا، بی بی سی کو بتایا کہ فوجیوں نے ہر کسی کو مارا پیٹا اور بچوں کے منہ میں کیچڑ ڈال دی۔

ایک ویڈیو پیغام میں ایک شخص نے بتایا کہ اس واقعے میں دو لوگ مار پیٹ سے ہلاک ہوئے جن میں سے ایک اس کی حاملہ والدہ تھیں۔ کم از کم ایک اور شخص ابھی تک لاپتہ ہے۔

اس واقعے میں بچ جانے والوں کی کہانیاں بھی درد ناک ہیں۔ میں رزمک میں ہی سترجان محسود سے ملا۔ ہم ایک سفید خیمے میں بیٹھے تھے جہاں انھوں نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔ ان کے دو بچے بھی ساتھ ہی بیٹھے تھے۔

اپریل 2015 کی ایک شام شدت پسندوں نے جنوبی وزیرستان میں شکتوئی کے مقام پر ایک فوجی چوکی پر فائرنگ کی۔ سترجان محسود کا دعویٰ ہے کہ فوج نے قریبی گاؤں سے مشکوک افراد کو پکڑا اور ان میں سے دو کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

_106905829_peshidpcamp2013-2.jpg

Image caption بہت سے قبائلی خاندان پشاور اور دیگر علاقوں میں بنائے گئے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے
21 اپریل کو انھوں نے اپنی تفتیش کا دائرہ بڑھایا اور سترجان محسود کے گاؤں میں تلاشی کا عمل شروع کر دیا۔ انھیں سترجان کے گھر کے عقب میں واقع پہاڑی سے کچھ ہتھیار ملے۔

سترجان محسود کہتے ہیں کہ ’اس وقت میرے گھر میں صرف میرا بھائی ادرجان، اس کی بیوی اور دو بہوئیں موجود تھیں۔‘

فوجیوں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سترجان کے بھائی نے دروازہ کھولا۔ فوجی فوراً اندر گھس آئے، ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور ہاتھ بھی باندھ دیے۔ فوجیوں نے گھر کے دیگر مردوں کا پوچھا اور پھر علاقے سے ادرجان کے چاروں بیٹوں کو لے آئے۔

عینی شاہدین نے بعد میں سترجان کو بتایا کہ ان کے بھتیجوں کو مارا پیٹا گیا اور ان کے سب سے بڑے بھتیجے رضوار جان کے سر پر لگنے والی چوٹ مہلک ثابت ہوئی۔

ان سب کو ایک پک اپ ٹرک میں ڈالا گیا جو کہ فوجیوں نے پکڑ لیا تھا اور انھیں علاقے میں واقع ایک فوجی کیمپ میں لے جایا گیا۔

اس ٹرک کے ڈرائیور نے سترجان کو بعد میں آ کر بتایا کہ کیونکہ رضوارجان پہلے ہی ’ ادھ موا تھا اور خود سیدھا بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا‘ اسی لیے فوجی انھیں ساتھ نہیں لے کر گئے۔
_107179094_satarjanwithkids976.gif

Image caption سترجان نے چار برس اپنے بھائی اور بھتیجوں کی تلاش میں گزارے ہیں لیکن کچھ پتا نہیں چلا
اس نے سترجان کو بتایا کہ ’انھوں نے مجھے کہا کہ گاڑی روکو، رضوارجان کو سر میں گولی ماری اور اس کی لاش سڑک پر پھینک دی۔‘

اس وقت سترجان دبئی میں ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ جب انھیں پتا چلا کہ کیا ہوا ہے تو وہ واپس آئے۔ انھوں نے ایک فلائٹ لی، بس لی اور پھر 15 گھنٹے پیدل سفر کر کے اپنے علاقے میں پہنچے جہاں 23 اپریل کو رضوارجان کی لاش ملی تھی۔

وہاں مقامی لوگوں نے انھیں بتایا کہ کرفیو کی وجہ وہ رضوارجان کی لاش وادی کے پار ان کے گاؤں نہیں لے جا سکے اور انھیں وہیں پر دفن کر دیا گیا۔

سترجان جب گھر پہچنے تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ ان کے بھائی اور بھتیجوں کی بیویاں رشتہ داروں کے پاس رہنے چلی گئی تھیں۔

سترجان جانتے تھے کہ خواتین کو مکمل بات معلوم نہیں ہو گی کیونکہ کرفیو کی وجہ سے وہ دوسرے گاؤں تک جا نہیں سکتی تھیں اور علاقے میں کوئی موبائل نیٹ ورک نہیں تھا۔

جب وہ اپنی بھابھی سے ملے تو انھوں نے وہی بتایا جو انھیں پتا تھا کہ ادرجان کو فوج لے گئی ہے اور گھر کے دیگر مرد لاپتہ ہیں۔

’میں نے سوچا کہ اسے بتاؤں یا نہیں۔ پھر میں نے سوچا کہ جب ادرجان اور میرے بھتیجے واپس آ جائیں گے تو رضوارجان کی بری خبر دینا آسان ہوجائے گا۔ مجھے پتا تھا کہ فوج کے پاس ان کے خلاف کچھ نہیں ہے اور وہ انھیں جلد چھوڑ دیں گے۔‘

اس لیے سترجان نے اپنی بھابھی کے لیے ایک کہانی گھڑی کہ جب فوج گھر پر آئی تو نوجوان کراچی چلے گئے۔ انھوں نے اپنی بھابھی کو یقین دلایا کہ ان کے شوہر جلد واپس آ جائیں گے۔
_106905826_mahsudprotest2013-1.jpg

Image caption قبائلی علاقہ جات کے عوام احتجاج کرتے رہے ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی
26 اپریل 2015 کو انھوں نے اپنے اہلخانہ کو رمک منتقل کر دیا۔ ہفتے مہینوں میں اور مہینے برسوں میں بدل گئے مگر اب تک فوج نے انھیں ان کے بھائی اور تین بھتیجوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔

سترجان اکیلے نہیں ہیں۔ مقامی کارکنان کا کہنا ہے کہ سنہ 2002 سے اب تک فوج نے 8000 لوگوں کو اٹھایا ہے جن کا کچھ پتہ نہیں ہے۔

ادھر سترجان اپنے گھر کی عورتوں کے اس سوال سے بچتے پھر رہے ہیں کہ وہ اپنے گاؤں کیوں نہیں جا سکتیں۔

’میں نے انھیں کہا ہے کہ شکتوئی میں ہمارا گھر آرمی نے گرا دیا ہے جو کہ جزوی طور پر سچ ہے۔ مگر اصل وجہ یہ ہے کہ اگر یہ وہاں جائیں گی تو پڑوسی افسوس کے لیے آئیں گے اور انھیں حقیقت پتا چل جائے گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ بہتر ہوتا کہ اگر انھیں یہ پتا چل جاتا کہ ان کے بھائی اور بھتیجوں کو جیل ہو گئی ہے یا انھیں مار دیا گیا ہے۔ ان کا اصل درد لاعلمی ہے۔

’میں اپنی بھابھی کو نہیں کہہ سکتا کہ ان کے بیٹے لاپتہ ہیں یا مر گئے ہیں۔ میں ان کی دو نوجوان بیویوں کو نہیں کہہ سکتا کہ تم بیوہ ہو گئی ہو۔‘

یہ انفرادی کہانیاں حیران کن تو ہیں مگر انوکھی نہیں۔ پی ٹی ایم کہتی ہے کہ قبائلی علاقوں میں سینکڑوں لوگ ایسی ہی کہانیاں سناتے ہیں مگر انھیں سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔

یہ اس جنگ کے نتائج ہیں جنھیں دنیا سے پوشیدہ رکھنے کے لیے پاکستان نے بہت کوششیں کی ہیں۔ افغان سرحد پر لڑی گئی یہ جنگ معلومات کے لحاظ سے کئی برسوں سے ایک بلیک ہول ہے۔

اور جب گزشتہ سال پی ٹی ایم کھل کر سامنے آئی تو میڈیا کی کوریج پر پابندی لگا دی گئی۔ میڈیا میں جنھوں نے اس پابندی کو نہیں مانا انھیں دھمکیاں اور معاشی دباؤ کا نشانہ بننا پڑا۔

فوج نے سرِعام پی ٹی ایم کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے ہیں اور الزام عائد کیا ہے کہ اس کے دشمن افغان اور انڈین خفیہ ایجنسیوں سے تعلقات ہیں۔

پی ٹی ایم کے کچھ کارکنان جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد جمع کر رہے ہیں یا تنظیم کا سوشل میڈیا چلا رہے ہیں انھیں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔

کئی برسوں سے ظلم سہنے والے ان کارکنان نے جب خاموشی توڑی ہے تو جو سلوک ان سے روا رکھا جا رہا ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اس خفیہ اور طویل جنگ کے متاثرین کو انصاف کے لیے لمبی جدوجہد کرنی پڑے گی۔
 

آصف اثر

معطل
پاکستان کے "محب وطن" اور ڈالرخور آفیسرز اور ان پڑھ، جاہل لیکن "بہادر" سپاہیوں کو تاریخ ہمیشہ "یاد" رکھے گی۔
 

آصف اثر

معطل
‏"ماتې به پنجرې شی ﺯولنۍ به ټولې اوشلېګی
چا دی تل ساتلی اﺯمری په ﺯنځېرونو کې"

قید کے درودیوار گر جائیں گے، زنجیریں ٹوٹ جائیں گی،
کوئی بھی شیر کو باندھ کر قابو نہیں کرسکتا۔
 
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حقوقِ انسانی کی پوشیدہ خلاف ورزیاں
ایم الیاس خان بی بی سی نیوز، ڈیرہ اسماعیل خان
  • ایک گھنٹہ پہلے
_106779271_mediaitem106779270.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images
Image caption ایک دہائی سے پاکستانی فوج نے وزیرستان کے علاقے میں نقل و حمل پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے
پاکستان میں نائن الیون حملوں کے بعد شروع ہونے والی ’وار آن ٹیرر‘ کے دوران شدت پسندوں سے ہونے والی طویل لڑائی میں کئی ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ تاہم فوجیوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں قتال اور تشدد کے شواہد اب جا کر سامنے آنے لگے ہیں۔ بی بی سی نے ایسے ہی کچھ متاثرین تک رسائی حاصل کی ہے۔

یہ 2014 کے اوائل کی بات ہے جب ٹی وی نیوز چینل اس جنگ میں پاکستانی طالبان کے خلاف ایک اہم کامیابی یعنی رات کے اندھیرے میں اس گروپ کے اہم ترین کمانڈرز میں سے ایک کی فضائی کارروائی میں ہلاکت کی خبریں دے رہے تھے۔

یہ عدنان رشید اور ان کے خاندان کے پانچ افراد کی افغان سرحد کے قریب شمالی وزیرستان میں کی جانے والی بمباری میں ہلاکت کی اطلاع تھی۔

عدنان رشید پاکستانی فضائیہ کے ایک سابق ٹیکنیشن تھے اور قدرے معروف تھے۔ انھوں نے ملالہ یوسفزئی کو ایک خط لکھا تھا جس میں انھوں نے 2012 میں ان پر کیے گئے قاتلانہ حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ انھیں سابق صدر پرویز مشرف کو قتل کرنے کے ایک ناکام منصوبے میں ملوث ہونے کے سلسلے میں جیل بھی ہوئی تھی جہاں سے وہ فرار ہو گئے تھے۔

بظاہر اب ایسا لگ رہا تھا کہ قسمت ان پر مہربان نہیں رہی۔

22 جنوری 2014 کو نیوز چینلز نے سکیورٹی حکام کے حوالے سے بتایا کہ ہمزونی کے علاقے میں عدنان رشید کی خفیہ پناہ گاہ کو دو رات قبل نشانہ بنایا گیا تھا۔

9/11 کے بعد امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد طالبان جنگجو، القاعدہ کے جہادی اور دیگر شدت پسند سرحد پار کر کے پاکستانی علاقے میں آئے اور اس وقت سے پاکستانی فوج وزیرستان اور دیگر پہاڑی قبائلی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔

صحافیوں سمیت غیرمقامی افراد ان علاقوں میں داخل نہیں ہو سکتے اس لیے سکیورٹی فورسز کے دعوؤں کی آزادانہ تصدیق کرنا انتہائی مشکل ہے۔ جنھوں نے وزیرستان سے ایسی خبریں کی ہیں جن سے فوج کا اچھا تاثر نہیں ملتا، انھیں اکثر اس کی سزا ملی ہے۔

عادل رشید کی مبینہ پناہ گاہ پر حملے کے تقریباً ایک سال بعد معلوم ہوا کہ پاکستانی جنگی طیاروں نے غلط ہدف کو نشانہ بنا لیا تھا اور عادل رشید نے خود ایک ویڈیو میں نمودار ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ زندہ ہیں۔

_107094916_adnanrasheed.png

Image caption عدنان رشید کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر حملے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی
پاکستانی فوج نے اس کارروائی میں ایک اہم شدت پسند کو مارنے کے بجائے دراصل ایک مقامی آدمی کے خاندان کو مار ڈالا تھا اور اس کا گھر تباہ کر دیا تھا۔

حکام نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ ان سے غلطی ہوئی۔ بی بی سی نے ڈیرہ اسماعیل خان میں اس شخص سے ملاقات کی جس کا مکان اس حملے کا نشانہ بنا تھا۔

اُس وقت نذیراللہ کی عمر 20 سال تھی۔ وہ بتاتے ہیں ’رات کے تقریبآً 11 بجے ہوں گے۔‘

وہ خاتئی کلے نامی گاؤں میں اپنی نوبیاہتا اہلیہ کے ہمراہ دو کمروں کے ایک مکان میں موجود تھے۔ عام طور پر جوڑوں کو علیحدہ کمرہ مشکل سے ہی ملتا ہے مگر اس رات ان کے باقی اہلخانہ مکان کے دوسرے کمرے میں سو رہے تھے۔

’ایسا لگا جیسے میرا مکان دھماکے سے پھٹ گیا ہے۔ میں اور میری بیوی ہڑبڑا کر اٹھے۔ آتش گیر مادے کی شدید بو آ رہی تھی۔ ہم دونوں دروازے کی جانب بھاگے تو ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے کمرے کی چھت ماسوائے اس حصے کے جہاں ہمارا پلنگ پڑا تھا، مکمل طور پر گر چکی تھی۔‘

دوسرے کمرے کی چھت بھی گر چکی تھی اور صحن میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ نذیراللہ کو ملبے کے نیچے سے چیخنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اپنی بیوی کے ساتھ مل کر انھوں نے ان لوگوں کو بچانے کی کوشش کی جنھیں وہ بھڑکتے شعلوں کی روشنی میں دیکھ سکتے تھے۔

اسی اثنا میں پڑوسی ہلاک شدگان اور زخمیوں کو نکالنے کے لیے مدد کرنے آ گئے۔

نذیر اللہ کے گھر والوں میں سے ایک تین سالہ بچی سمیت چار افراد ہلاک ہوئے۔ ان کی بھتیجی سمیہ جس کی ماں بھی ہلاک ہوئی تھی، اس وقت ایک سال کی تھی۔ سمیہ کے کولہے کی ہڈی ٹوٹی مگر وہ بچ گئی تھی۔ ملبے سے خاندان کے چار مزید افراد کو زخمی حالت میں نکالا گیا اور ان سب کو شدید چوٹیں آئی تھیں۔

اس واقعے کے بعد سے نذیر اللہ کے گھر والے ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہو چکے ہیں جہاں زندگی قدرے پرامن ہے۔

_106772289_sumayya-with-nazirullah976.gif

Image caption نذیراللہ اور ان کی بھتیجی سمعیہ تو بچ گئے لیکن ان کے خاندان کے چار افراد بمباری میں مارے گئے
قبائلی علاقے میں 20 سال سے جاری لڑائی کے باعث اس خطے کے بہت سارے پاکستانی شہریوں کی طرح انھیں متعدد بار دہشت گردی کی وجہ سے اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا ہے۔

حکام اور آزادانہ تحقیق کرنے والی تنظیموں کے مطابق سنہ 2002 کے بعد سے دہشت گردی کی وجہ سے تقریباً 50 لاکھ افراد کو پاکستان کے شمال مغربی علاقوں سے اپنا گھربار چھوڑ کر ملک کے دیگر علاقوں میں یا تو سرکاری کیمپوں میں یا پھر پرامن شہروں میں کرائے کے مکانوں میں پناہ لینا پڑی ہے۔

اس جنگ میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں اس کے کوئی سرکاری اعداد و شمار نہیں ہیں تاہم محققین، مقامی حکام اور سماجی کارکنوں کے اندازوں کے مطابق ہلاک ہونے والے عام شہریوں، شدت پسندوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی کل تعداد 50 ہزار سے زیادہ ہے۔

مقامی سماجی کارکن کہتے ہیں کہ فوج کی جانب سے متواتر فضائی اور زمینی کارروائیوں میں بہت سارے عام شہری مارے گئے ہیں۔ وہ اپنے دعوؤں کے شواہد کے طور پر ویڈیو اور دستاویزی شواہد جمع کرتے رہے ہیں۔

ان کارکنان کا تعلق ایک نسبتاً نئی اور معروف انسانی حقوق کی مہم پشتون تحفظ موومنٹ سے ہے جو سنہ 2018 کے آغاز میں سامنے آئی اور تب سے قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی ایسی مبینہ خلاف ورزیوں کی تشہیر کر رہی ہے جن کے بارے میں ماضی میں متاثرین بتانے سے ڈرتے تھے۔

تنظیم کے اہم رہنما منظور پشتین کا کہنا ہے کہ ’15 برس کی تکالیف اور تذلیل کے بعد ہم میں اتنی ہمت آئی ہے کہ بات کر سکیں اور آگاہی دے سکیں کہ کیسے فوج نے براہِ راست کارروائی کر کے اور شدت پسندوں کی حمایت کی پالیسی اپنا کر ہمارے آئینی حقوق کو کچلا ہے۔‘

مگر یہ تنظیم شدید دباؤ کا شکار ہے۔ پی ٹی ایم کا دعویٰ ہے کہ رواں برس 26 مئی کو فوج نے شمالی وزیرستان میں مظاہرین کے ہجوم پر فائرنگ کی جس سے ان کے 13 کارکنان ہلاک ہوگئے۔ فوج کا کہنا ہے کہ تین کارکن اس وقت ہلاک ہوئے جب ایک فوجی چوکی پر حملہ کیا گیا۔ پی ٹی ایم اس الزام کی تردید کرتی ہے مگر اس کے دو رہنماؤں کو جو کہ اراکینِ پارلیمان بھی ہیں، گرفتار کر لیا گیا ہے۔

_106779267_mediaitem106779266.jpg

تصویر کے کاپی رائٹAamir Qureshi/Getty Images
Image caption پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم رہنما منظور پشتین نے لاپتہ قبائلی افراد کے لیے آواز اٹھائی ہے
پی ٹی ایم کی جانب سے جن واقعات کی نشاندہی کی گئی اور جن کے بارے میں بی بی سی نے آزادانہ تحقیقات بھی کیں، جب انھیں پاکستانی فوج کے ایک ترجمان کے سامنے رکھا گیا تو انھوں نے ان پر جواب دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ الزامات ’انتہائی متعصبانہ‘ ہیں۔

ادھر بی بی سی نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے بھی ان پر سوال پوچھا تاہم کوئی جواب نہیں ملا اگرچہ حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے عمران خان نے خود قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔

_103693518_086b2036-0a30-4a6f-a4a0-94c46832b58f.jpg

9/11 طالبان کو پاکستان میں کیسے لے آیا؟
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب سنہ 2001 میں نیویارک اور واشنگٹن میں القاعدہ نے حملے کیے۔ اکتوبر 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اسامہ بن لادن کو پناہ دینے والے طالبان جیسے بغیر لڑائی کے ہی غائب ہو گئے۔

سنہ 1996 میں کابل فتح کرنے والے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے تین ممالک میں سے ایک پاکستان کے مفاد میں تھا کہ طالبان کو ختم نہ ہونے دیا جائے تاکہ وہ افغانستان میں انڈیا کے اثرورسوخ کو زیادہ بڑھنے نہ دیں۔

تو ادھر جہاں پاکستان امریکی فوجی امداد پر کئی دہائیوں تک انحصار کرتا رہا اور جنرل پرویز مشرف امریکی ’وار آن ٹیرر‘ کا حصہ بھی بن گئے، پاکستان نے پھر بھی طالبان کو نیم خود مختاد قبائلی علاقوں خاص کر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پناہ گاہیں بنانے دیں۔

مگر افغان طالبان اکیلے ہی سرحد پار نہیں آئے۔ دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے جنگجو بھی قبائلی علاقوں میں آنے لگے اور ان میں کچھ تو پاکستان کی ریاست کے بھی بہت خلاف تھے۔

_106901359_gettyimages-86155688-594x594.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images
Image caption طالبان نے نیم خود مختاد قبائلی علاقوں خاص کر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پناہ گاہیں بنائیں
عالمی عزائم رکھنے والے جہادیوں نے وزیرستان میں بیٹھ کر حملوں کی منصوبہ بندی شروع کر دی جس کے بعد امریکہ پاکستان سے کہتا رہا کہ ان کے خاتمے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔

سکیورٹی امور کی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ جیسے جیسے دہشت گردی بڑھنے لگی پاکستان ’عسکریت پسندوں سے لڑائی اور دوسری طرف مستقبل میں سودے بازی کے لیے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے ان میں سے کچھ کے ساتھ اتحاد‘ کے درمیان پھنس گیا۔

سنہ 2014 میں پاکستان نے شمالی وزیرستان میں ایک نیا آپریشن شروع کیا جس نے شدت پسند تنظیموں اور ان کی محفوظ پناہ گاہوں پر دباؤ ڈالا اور اسے ملک بھر میں حملوں میں کمی کی وجہ قرار دیا گیا۔

_103693518_086b2036-0a30-4a6f-a4a0-94c46832b58f.jpg

’طالبان اور فوج ایک ہی کام کر رہے ہیں‘
سنہ 2001 میں جب طالبان قبائلی علاقوں میں آئے تو انھیں مقامی لوگوں نے ایک محتاط انداز میں خوش آمدید کہا۔ مگر جلد ہی قبائلی لوگ ان سے نالاں ہو گئے کیونکہ انھوں نے اپنے قدامت پسند مذہبی عقائد لوگوں پر نافذ کر کے قبائلی معاشرے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔

ابتدائی مراحل میں مقامی نوجوان سینکڑوں کی تعداد میں شدت پسندوں کے ساتھ شامل ہونے لگے اور اسی لیے ان تنظیموں میں قبائلی دشمنیوں کا رنگ آنے لگا جو کہ بعد میں ہونے والی داخلی لڑائیوں سے واضح تھا۔

دوسرے مرحلے میں طالبان نے قبائلی عمائدین کو ختم کرنا شروع کیا جو کہ ان جنگجوؤں کی قبیلوں پر قبضے کرنے کی کوشش میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ سنہ 2002 سے لے کر اب تک کم از کم ایک ہزار قبائلی عمائدین کو شدت پسندوں نے قتل کیا ہے اور کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اس تعداد کو تقریباً 2000 قرار دیتی ہیں۔

_106901357_mediaitem106901356.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGetty Images
Image caption وزیرستان ایک ایسا علاقہ رہا ہےجہاں صحافیوں اور غیرمقامی افراد کی رسائی آسان نہیں
جولائی 2007 میں شمالی وزیرستان میں ایسا ہی ایک قتل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے کیسے قبائل کو قابو کیا۔

شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک سے تعلق رکھنے والے وزیر قبیلے کے ایک رکن محمد امین کہتے ہیں کہ ’جب انھوں نے میرے بھائی کو اغوا اور قتل کیا اس وقت بھی علاقے میں میرا قبیلہ مضبوط تھا۔ مگر جب فوج نے انھیں (شدت پسندوں کو) ہمارے لوگوں کے خلاف کارروائی کی آزادی دے دی تو ہماری کمر ٹوٹ گئی۔‘

محمد امین کے بھائی کی لاش شدت پسندوں کے ہاتھوں ان کے اغوا کے اگلے دن ایک ٹرک میں پڑی ہوئی ملی تھی۔ محمد امین اور ان کے قبیلے والوں نے اغوا کاروں کا سراغ لگا لیا اور پھر ان کے ساتھ لڑائی کی۔

اس جھڑپ میں محمد امین کے بیٹے اسد اللہ، ان کے ایک کزن اور چار طالبان جنگجو مارے گئے۔

اس کے بعد رزمک میں طالبان کی پرتشدد کارروائیاں روکنے کے لیے قبیلے کی جانب سے عسکری حکام سے کیے گئے مطالبات اس وقت ٹھنڈے پڑ گئے جب رزمک میں ہی موجود طالبان نے جوابی کارروائیاں کرنے کی دھمکیاں دیں۔

ایک دہائی بعد بھی محمد امین کو اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ ماسوائے کبھی کبھی آپس میں جھڑپوں کے ’طالبان اور فوج ایک ہی کام کر رہے ہیں۔‘

_107134781_aminwazir'ssonasadullah.jpg

Image caption اسد اللہ کو طالبان شدت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کیا تھا
پی ٹی ایم کے کارکنان نے ایسے بھی متعدد واقعات کے شواہد جمع کیے ہیں جن میں سکیورٹی فورسز نے مقامی آبادی کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا ہے۔

مثال کے طور پر مئی 2016 میں شمالی وزیرستان میں تیتی مداخیل کے علاقے میں فوجی چوکی پر حملے کے بعد حملہ آور کی تلاش میں فوج نے پورے ایک گاؤں کی آبادی کو اکھٹا کیا۔ واقعے کے ایک عینی شاہد نے، جس کا اپنا بھائی بھی اسی آپریشن میں پکڑا گیا تھا، بی بی سی کو بتایا کہ فوجیوں نے ہر کسی کو مارا پیٹا اور بچوں کے منہ میں کیچڑ ڈال دی۔

ایک ویڈیو پیغام میں ایک شخص نے بتایا کہ اس واقعے میں دو لوگ مار پیٹ سے ہلاک ہوئے جن میں سے ایک اس کی حاملہ والدہ تھیں۔ کم از کم ایک اور شخص ابھی تک لاپتہ ہے۔

اس واقعے میں بچ جانے والوں کی کہانیاں بھی درد ناک ہیں۔ میں رزمک میں ہی سترجان محسود سے ملا۔ ہم ایک سفید خیمے میں بیٹھے تھے جہاں انھوں نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔ ان کے دو بچے بھی ساتھ ہی بیٹھے تھے۔

اپریل 2015 کی ایک شام شدت پسندوں نے جنوبی وزیرستان میں شکتوئی کے مقام پر ایک فوجی چوکی پر فائرنگ کی۔ سترجان محسود کا دعویٰ ہے کہ فوج نے قریبی گاؤں سے مشکوک افراد کو پکڑا اور ان میں سے دو کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

_106905829_peshidpcamp2013-2.jpg

Image caption بہت سے قبائلی خاندان پشاور اور دیگر علاقوں میں بنائے گئے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے
21 اپریل کو انھوں نے اپنی تفتیش کا دائرہ بڑھایا اور سترجان محسود کے گاؤں میں تلاشی کا عمل شروع کر دیا۔ انھیں سترجان کے گھر کے عقب میں واقع پہاڑی سے کچھ ہتھیار ملے۔

سترجان محسود کہتے ہیں کہ ’اس وقت میرے گھر میں صرف میرا بھائی ادرجان، اس کی بیوی اور دو بہوئیں موجود تھیں۔‘

فوجیوں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سترجان کے بھائی نے دروازہ کھولا۔ فوجی فوراً اندر گھس آئے، ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور ہاتھ بھی باندھ دیے۔ فوجیوں نے گھر کے دیگر مردوں کا پوچھا اور پھر علاقے سے ادرجان کے چاروں بیٹوں کو لے آئے۔

عینی شاہدین نے بعد میں سترجان کو بتایا کہ ان کے بھتیجوں کو مارا پیٹا گیا اور ان کے سب سے بڑے بھتیجے رضوار جان کے سر پر لگنے والی چوٹ مہلک ثابت ہوئی۔

ان سب کو ایک پک اپ ٹرک میں ڈالا گیا جو کہ فوجیوں نے پکڑ لیا تھا اور انھیں علاقے میں واقع ایک فوجی کیمپ میں لے جایا گیا۔

اس ٹرک کے ڈرائیور نے سترجان کو بعد میں آ کر بتایا کہ کیونکہ رضوارجان پہلے ہی ’ ادھ موا تھا اور خود سیدھا بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا‘ اسی لیے فوجی انھیں ساتھ نہیں لے کر گئے۔
_107179094_satarjanwithkids976.gif

Image caption سترجان نے چار برس اپنے بھائی اور بھتیجوں کی تلاش میں گزارے ہیں لیکن کچھ پتا نہیں چلا
اس نے سترجان کو بتایا کہ ’انھوں نے مجھے کہا کہ گاڑی روکو، رضوارجان کو سر میں گولی ماری اور اس کی لاش سڑک پر پھینک دی۔‘

اس وقت سترجان دبئی میں ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ جب انھیں پتا چلا کہ کیا ہوا ہے تو وہ واپس آئے۔ انھوں نے ایک فلائٹ لی، بس لی اور پھر 15 گھنٹے پیدل سفر کر کے اپنے علاقے میں پہنچے جہاں 23 اپریل کو رضوارجان کی لاش ملی تھی۔

وہاں مقامی لوگوں نے انھیں بتایا کہ کرفیو کی وجہ وہ رضوارجان کی لاش وادی کے پار ان کے گاؤں نہیں لے جا سکے اور انھیں وہیں پر دفن کر دیا گیا۔

سترجان جب گھر پہچنے تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ ان کے بھائی اور بھتیجوں کی بیویاں رشتہ داروں کے پاس رہنے چلی گئی تھیں۔

سترجان جانتے تھے کہ خواتین کو مکمل بات معلوم نہیں ہو گی کیونکہ کرفیو کی وجہ سے وہ دوسرے گاؤں تک جا نہیں سکتی تھیں اور علاقے میں کوئی موبائل نیٹ ورک نہیں تھا۔

جب وہ اپنی بھابھی سے ملے تو انھوں نے وہی بتایا جو انھیں پتا تھا کہ ادرجان کو فوج لے گئی ہے اور گھر کے دیگر مرد لاپتہ ہیں۔

’میں نے سوچا کہ اسے بتاؤں یا نہیں۔ پھر میں نے سوچا کہ جب ادرجان اور میرے بھتیجے واپس آ جائیں گے تو رضوارجان کی بری خبر دینا آسان ہوجائے گا۔ مجھے پتا تھا کہ فوج کے پاس ان کے خلاف کچھ نہیں ہے اور وہ انھیں جلد چھوڑ دیں گے۔‘

اس لیے سترجان نے اپنی بھابھی کے لیے ایک کہانی گھڑی کہ جب فوج گھر پر آئی تو نوجوان کراچی چلے گئے۔ انھوں نے اپنی بھابھی کو یقین دلایا کہ ان کے شوہر جلد واپس آ جائیں گے۔
_106905826_mahsudprotest2013-1.jpg

Image caption قبائلی علاقہ جات کے عوام احتجاج کرتے رہے ہیں لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی
26 اپریل 2015 کو انھوں نے اپنے اہلخانہ کو رمک منتقل کر دیا۔ ہفتے مہینوں میں اور مہینے برسوں میں بدل گئے مگر اب تک فوج نے انھیں ان کے بھائی اور تین بھتیجوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔

سترجان اکیلے نہیں ہیں۔ مقامی کارکنان کا کہنا ہے کہ سنہ 2002 سے اب تک فوج نے 8000 لوگوں کو اٹھایا ہے جن کا کچھ پتہ نہیں ہے۔

ادھر سترجان اپنے گھر کی عورتوں کے اس سوال سے بچتے پھر رہے ہیں کہ وہ اپنے گاؤں کیوں نہیں جا سکتیں۔

’میں نے انھیں کہا ہے کہ شکتوئی میں ہمارا گھر آرمی نے گرا دیا ہے جو کہ جزوی طور پر سچ ہے۔ مگر اصل وجہ یہ ہے کہ اگر یہ وہاں جائیں گی تو پڑوسی افسوس کے لیے آئیں گے اور انھیں حقیقت پتا چل جائے گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ بہتر ہوتا کہ اگر انھیں یہ پتا چل جاتا کہ ان کے بھائی اور بھتیجوں کو جیل ہو گئی ہے یا انھیں مار دیا گیا ہے۔ ان کا اصل درد لاعلمی ہے۔

’میں اپنی بھابھی کو نہیں کہہ سکتا کہ ان کے بیٹے لاپتہ ہیں یا مر گئے ہیں۔ میں ان کی دو نوجوان بیویوں کو نہیں کہہ سکتا کہ تم بیوہ ہو گئی ہو۔‘

یہ انفرادی کہانیاں حیران کن تو ہیں مگر انوکھی نہیں۔ پی ٹی ایم کہتی ہے کہ قبائلی علاقوں میں سینکڑوں لوگ ایسی ہی کہانیاں سناتے ہیں مگر انھیں سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔

یہ اس جنگ کے نتائج ہیں جنھیں دنیا سے پوشیدہ رکھنے کے لیے پاکستان نے بہت کوششیں کی ہیں۔ افغان سرحد پر لڑی گئی یہ جنگ معلومات کے لحاظ سے کئی برسوں سے ایک بلیک ہول ہے۔

اور جب گزشتہ سال پی ٹی ایم کھل کر سامنے آئی تو میڈیا کی کوریج پر پابندی لگا دی گئی۔ میڈیا میں جنھوں نے اس پابندی کو نہیں مانا انھیں دھمکیاں اور معاشی دباؤ کا نشانہ بننا پڑا۔

فوج نے سرِعام پی ٹی ایم کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے ہیں اور الزام عائد کیا ہے کہ اس کے دشمن افغان اور انڈین خفیہ ایجنسیوں سے تعلقات ہیں۔

پی ٹی ایم کے کچھ کارکنان جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد جمع کر رہے ہیں یا تنظیم کا سوشل میڈیا چلا رہے ہیں انھیں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔

کئی برسوں سے ظلم سہنے والے ان کارکنان نے جب خاموشی توڑی ہے تو جو سلوک ان سے روا رکھا جا رہا ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اس خفیہ اور طویل جنگ کے متاثرین کو انصاف کے لیے لمبی جدوجہد کرنی پڑے گی۔

بہت ہی یکطرفہ اور متعصب مضمون ہے، جس میں طالبان کے مظالم اور طالبان کی پورے پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس پر مضحکہ خیز اور متضاد بات یہ کہ ایک طرف یہ الزام کہ فوج اور طالبان ایک ہیں اور دوسری طرف یہ کہ فوجی آپریشن غلط ہوا!!

کل تک یہی بی بی سی، افغانی حکومت اور دیسی لبڑلز کہتے تھے آپریشن کیوں نہیں کرتے، اب ہو گیا تو کہتے ہیں ظلم کیا!
 

قیام پاکستان سے لیکر روسیوں کی دریائے آمو کو پار کرنے تک کے عرصے کے پاک افغان تعلقات و واقعات سے بھرپور تھریڈ۔

خطے کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے محفلین کے لیے خاصہ دلچسپ رہے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
واہ واہ ایوب خان! آفرین ہے آپ پر جو آج کے نعرے ماضی میں ڈٹ کر استعمال کیے۔ لاجواب اشتہار۔
یہ اشتہار افغانیوں کے کرتوتوں کے جواب میں لگایا گیا تھا۔ البتہ ایک غیرافغان فاطمہ جناح کو اس میں گھسیٹنا ، یہ گھٹیا کام صرف ہماری محبوب اسٹیبلشمنٹ ہی کر سکتی ہے۔ اس الیکشن میں پاکستان کے صف اول کے جمہوری لیڈر بھٹو نے جنرل ایوب کا ساتھ دیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
بی بی سی کی پاکستان سے متعلق خبر جھوٹ کا پلندہ ہے، ترجمان پاک فوج
ویب ڈیسک پير 3 جون 2019
1691403-asif-1559582599-609-640x480.jpg

خبر صحافتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے جس کی شکایت کردی گئی ہے، ترجمان پاک فوج۔ ۔ فوٹو : فائل

راولپنڈی: ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ بی بی سی میں گزشتہ روز پاکستان کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر جھوٹ کا پلندہ اور حقائق کے منافی ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) میں گزشتہ روز پاکستان کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر جھوٹ کا پلندہ ہے، پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کاالزام جھوٹ پر مبنی ہے۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ دو جون کو بی بی سی کی شائع کردہ خبر میں شائع مواد جھوٹ پر مبنی، حقائق اور صحافی آداب کے منافی ہے، بی بی سی نے گزشتہ روز خبر شائع کرنے سے پہلے ہمارا مؤقف نہیں لیا اور پاک فوج پر بنا ثبوت الزام لگا دیا، صحافتی اقدار کے منافی خبر شائع کرنے پر بی بی سی انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے اور اس معاملے پر باضابطہ شکایت بھی کر دی گئی ہے۔
 
Top