مجذوب غزل : عبث کہتا ہے چارہ گر یہاں تک تھا یہاں تک ہے - خواجہ عزیز الحسن مجذوب

غزل
عبث کہتا ہے چارہ گر یہاں تک تھا یہاں تک ہے
وہ کیا جانے کہ زخمِ دل کہاں تک تھا کہاں تک ہے

مرا خاموش ہو جانا دلیلِ مرگ ہے گویا
مثالِ نَے مرا جینا فغاں تک تھا فغاں تک ہے

نہ دھوکہ دے مجھے ہمدم وہ آیا ہے نہ آئے گا
پیامِ وعدۂ وصلت زباں تک تھا زہاں تک ہے

کٹی روتے ہی اب تک عمر آگے دیکھئے کیا ہو
بتاؤں کیا کہ دل میں غم کہاں تک تھا کہاں تک ہے

وہاں تک قیس کب پہنچا وہاں فرہاد کب آیا
بیاباں میں گزر اپنا جہاں تک تھا جہاں تک ہے

مجھے تو عمر بھر رونا ہے یارو کوئی موسم ہو
یہ مت سمجھو مرا نالہ خزاں تک تھا خزاں تک ہے

قدم راہِ اثر میں اس نے رکھا تھا نہ رکھا ہے
یہ وہ نالہ ہے جو اب تک زباں تک تھا زباں تک ہے

مرے ہی دل تک آنا تھا مرے ہی دل تک آنا تھا
خدنگِ ناز کا پلہ یہاں تک تھا یہاں تک ہے

تکلف یہ تری خاموشیاں تجھ کو مٹا دیں گی
زمانے میں ترا چرچا فغاں تک تھا فغاں تک ہے
خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ
 

یاقوت

محفلین
غزل
عبث کہتا ہے چارہ گر یہاں تک تھا یہاں تک ہے
وہ کیا جانے کہ زخمِ دل کہاں تک تھا کہاں تک ہے


خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ
کیا کہنے خواجہ صاحبؒ کے یہ ہوتی ہے مجذوب کی صدا۔درحقیقت خواجہ صاحبؒ صرف تخلص کی حد تک مجذوب نہ تھے بلکہ حقیت میں بھی مجذوب ہی تھے واقفان احوال خوب جانتے ہیں۔فراز صاحب یا دآئے۔۔۔۔
جہاں ناصحوں کا ہجوم تھا وہیں عاشقوں کی دھوم تھی
جہاں بخیہ گر تھے گلی گلی وہیں رسم جامہ دری رہی​
 
Top