سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کی پارٹی رہنماؤں کو عید کے بعد حکومت کے خلاف احتجاج کی ہدایت
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1669400-nawazsharif-1557996882-792-640x480.jpg

مسلم لیگ (ن) اب مہنگائی پر مزید خاموش نہیں رہے گی، نواز شریف فوٹو: فائل

لاہور: سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پارٹی رہنماؤں کو بےروزگاری ، ایمنسٹی اسکیم اور مہنگائی پر حکومت کے خلاف احتجاج کی ہدایت کردی ہے۔

کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف سے پارٹی کے اہم رہنماؤں نے ملاقات کی، ملاقات کرنے والے رہنماؤں میں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال ،خواجہ آصف، پرویز رشید، رانا تنویر، طلال چوہدری، سائرہ افضل تارڑ اور عباس آفریدی شامل تھے۔ پارٹی رہنماؤں نے نواز شریف سے ان کی صحت سے متعلق دریافت کیا، جس پر نواز شریف نے جواب میں کہا کہ کہ الحمداللہ ٹھیک ہوں اور روزے بھی اچھے جارہے ہیں۔

نوازشریف نے جیل واپسی پر لاہور کی تاریخی ریلی پر کارکنوں کا شکریہ ادا کیا اور نئے پارٹی عہدیداران کو ذمہ داریاں سنبھالنے پر مبارک باد بھی دی۔ پارٹی رہنماؤں نے نواز شریف کو ملک کی موجودہ صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی ملکی معیشت کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔

نواز شریف نے پارٹی رہنماؤں کو عوام رابطہ مہم تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی سے عوام پریشان ہیں اور ہمیں عوام کی آواز بننا ہے، اخبارات میں مہنگائی اور ڈالر کی اڑان کا پڑھ کر بہت پریشان ہوتا ہوں، آئی ایم ایف پیکیج کے بعد ڈالر کی قیمت میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے تھا، کسان اس مہنگائی میں پس چکا ہے، پیٹرول ،ڈیزل اور کھاد کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، حکومت نے عوام کے ساتھ جو رویہ اپنایاہے وہ کسی صورت قبول نہیں، مسلم لیگ (ن) اب مہنگائی پر مزید خاموش نہیں رہے گی۔

ذرائع کے مطابق (ن) لیگ ڈالر کی بڑھتی قیمت، بےروزگاری ، ایمنسٹی اسکیم اور مہنگائی کے خلاف عید الفطر کے بعد بھرپور تحریک کا آغاز کرے گی، نواز شریف نے پارٹی کو احتجاج کی اجازت بھی دے دی ہے تاہم احتجاج کس نوعیت کا ہوگا، اس حوالے سے آئندہ ملاقات میں نوازشریف کو بریفنگ دی جائے گی۔ نوازشریف نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ہدایت کی کہ وہ حکومت کے خلاف لائحہ عمل بنائیں، شاہد خاقان عباسی مرکزی اور صوبوں میں پارٹی میٹنگز بلائیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف نے پارٹی رہنماؤں کو عوام رابطہ مہم تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی سے عوام پریشان ہیں اور ہمیں عوام کی آواز بننا ہے، اخبارات میں مہنگائی اور ڈالر کی اڑان کا پڑھ کر بہت پریشان ہوتا ہوں، آئی ایم ایف پیکیج کے بعد ڈالر کی قیمت میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے تھا، کسان اس مہنگائی میں پس چکا ہے، پیٹرول ،ڈیزل اور کھاد کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، حکومت نے عوام کے ساتھ جو رویہ اپنایاہے وہ کسی صورت قبول نہیں، مسلم لیگ (ن) اب مہنگائی پر مزید خاموش نہیں رہے گی۔
آپ کی اپنی حکومت کے کرتوت اب اقتصادی میدان میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ نئی حکومت کے خلاف احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں۔
ڈالرکی قیمت میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں، اسد عمر
ویب ڈیسک 40 منٹ پہلے
1669525-asadumar-1558000958-674-640x480.jpg

روپے کی قدر میں کمی کا معاملہ قومی اسمبلی کی خزانہ امور کمیٹی میں اٹھایا جائے گا، سابق وزیر خزانہ۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ ڈالرکی قیمت میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہیں ہے۔

قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں رہنما تحریک انصاف اسدعمر کا کہنا تھا کہ ڈالرکی قیمت میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں جب تک میں تھا ایسی کوئی شرط نہیں تھی تاہم روپے کی قدر میں کمی کا معاملہ قومی اسمبلی کی خزانہ امور کمیٹی میں اٹھایا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر سمت درست نہ ہوئی تو….!
16/05/2019 ارشاد بھٹی



آئی ایم ایف پیکیج کہانی سے پہلے کچھ سنی سنائی باتیں، سنا ہے دونوں اپوزیشن جماعتوں کے قاصد چیئرمین نیب سے ملے، کہا ’’مستعفی ہو جائیں، جو چاہیں گے ملے گا‘‘۔ تین مراعات بھری پیشکشیں وصول کر کے چیئرمین نیب نے جب بہت اصرار کیا کہ ’’یہ تو بتاو ٔمیرے مستعفی ہونے سے آپ کو کیا ملے گا‘‘ جواب ملا ’’احتساب کا عمل slowہوگا، آپ کے جانے کے بعد نیا چیئرمین لگانے کا مرحلہ آئے گا۔

اپوزیشن ہر حکومتی امیدوار رد کر دے گی، پیچیدہ، گمبھیر صورتحال میں لین دین ہوگا، اُس کے بعد کا پلان، یہ نہیں بتا سکتے‘‘، اندازہ لگائیں جو اپوزیشن چیئرمین نیب کو اتنی بڑی پیشکشیں صرف اِس لئے کر رہی کہ نظام مفلوج کیا جائے، وہ حکومت کو خوشی خوشی کیسے چلنے دے گی، ہاں کچھ لین دین، سودے بازی ہو تو وہ علیحدہ بات، جیسے اندر خانے چھوٹے سے ’مک مکا‘ کے بعد دو دن پہلے پارلیمنٹ میں عمران خان کی تقریر اپوزیشن نے سکون سے سنی۔

زیادہ شور ڈالنے والے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسمبلی میں ہی نہ آئے، باقی چپ چاپ بیٹھے رہے، سنا ہے کہ نیب پر بہت دباؤ کہ ایک صاحب کو کلیئر کیا جائے کیونکہ اُسے وفاقی وزیر اطلاعات لگانا، نیب حکام جوابی پیغام بھجوا چکے ’’کیس چلے گا، میرٹ پر بری ہو جائیں تو ٹھیک، اُس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں‘‘۔

سنا ہے کہ ایک وفاقی وزیر کی انکوائری حتمی مراحل میں، پبلک عہدوں کے دوران اثاثوں میں اربوں کا اضافہ ہوا‘‘، سنا ہے کہ دو نامور سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات آخری مراحل میں، جنگلات کی سینکڑوں ایکڑ زمین دے کر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی سے 2سو کنال زمین لی، سنا ہے کہ وزیراعظم کے ایک مشیر کے خلاف فنڈز کی خوردبرد، سرکاری بسیں NGOکو دینے کا معاملہ بھی اختتامی لمحوں میں۔

سنا ہے کہ نیب نے ایک وفاقی وزیر کیخلاف ڈیکلیئر کی گئی بیرون ملک جائیدادوں، منی لانڈرنگ ثبوت ملنے پر انکوائری شروع کی تو نیب کو بتایا گیا یہ انکوائری ایف آئی اے میں ہو رہی، آپ اُس سے دور ہی رہیں، اب نیب اور ایف آئی اے میں خط و کتابت ہورہی، سنا ہے ایک وفاقی وزیر کے خلاف ریفرنس تیار ہو چکا، کبھی بھی کچھ ہو سکتا ہے، سنا ہے پنجاب کے چند حاضر، کچھ سابق وزراء کے خلاف بھی کرپشن ثبوت مل چکے، کرپشن ریکارڈ کی چھان بین ہورہی۔

سنا ہے کہ ایف آئی اے نے 8ارب ہنڈی اسکینڈل پکڑ کر ریکارڈ ایف بی آر کو دیا کہ اُن سے غیر قانونی طور پر بھیجی گئی رقم پر ٹیکس وصول کریں، ایف بی آر نے ایف آئی اے سے کہا ’’فکر نہ کریں، اب یہ معاملہ ہمارا ہوا‘‘ اور پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، ایف بی آر نے ابھی تک مذکورہ پارٹی کو ایک نوٹس بھی نہیں بھیجا، سنا ہے کہ اِسی طرح ایف آئی اے نے کراچی میں 15ارب کا ہنڈی اسکینڈل ایف بی آر کے سپرد کیا، اُس پر 3ماہ سے خاموشی۔

سنا ہے کہ سندھ میں منی لانڈرنگ کی تحقیق کرنے والی جے آئی ٹی ٹیم نے شوگر مافیا کے ذمے واجب الادا ساڑھے 9ارب کا ٹیکس ریکارڈ ایف بی آر کے ذمے کیا، یہاں بھی لمبی چپ، یہ سب وہاں ہو رہا جہاں ایک ایک ڈالر کی بھیک مانگی جارہی، جہاں ٹیکس شارٹ فال ریکارڈ ساز ہو چکا۔

جہاں غریبوں پر ٹیکس پہ ٹیکس لگائے جا رہے وہاں تینوں مذکورہ پارٹیاں ایف آئی اے کے سامنے کہہ چکیں کہ ہم جرمانہ، واجب الادا ٹیکس دینے کو تیار مگر ایف بی آر فل اسٹاپ، کاموں کی غلطیاں نکالنے، میٹنگوں پہ میٹنگیں ہی کر رہا، سنا ہے کہ سندھ، پنجاب میں کرپشن کی کئی ہوش ربا داستانیں سامنے آنے والیں، سنا ہے کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان سے بھی بڑے بڑے ناموں کے بڑے بڑے ’کرتوتوں‘ کا کچھا چٹھا کھلنے والا، سنا ہے کہ مرکز، پنجاب، خیبر پختونخوا میں عید کے بعد وسیع پیمانے پر تبدیلیاں ہونے والیں۔

اب آجائیں آئی ایم ایف پیکیج پر، بلاشبہ نئے ٹیکسوں کی بھرمار ہونے والی، مہنگائی جوبن پر ہوگی، بلاشبہ آئی ایم ایف کی شرطیں، پل صراط پر چلنے کے مترادف، حکومت کیلئے اگلے 39ماہ Do or Dieوالے، حکومت یہ امتحان پاس کر گئی، قوم آئی ایم ایف کے جھٹکے برداشت کر گئی تو آگے اچھا وقت۔

آئی ایم ایف پیکیج کیا، شرطیں کیا، کیا کچھ کتنے عرصے میں ملے گا، یہ سب تو سب کے سامنے، یہاں کرنے والی چند باتیں، بلاشبہ حکومتی معاشی ٹیم نے 9مہینے ضائع کئے، نالائقی، نااہلی دکھائی، کنفیوژن کا شکار رہی مگر وہ ملک جہاں پاناما، دبئی لیکس یہ بتائیں کہ سیاستدانوں کا کرپشن مال باہر، بڑے بڑے تاجروں کی ڈکیتیوں کا کالا دھن باہر، بیوروکریسی نے دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹا، اپنی اپنی اوقات، بساط کے مطابق قوم کی اکثریت لوٹ مار کر رہی، جہاں نظام کرپٹ، ٹیکس چوری انتہا پر، ٹیکس لینے والے ٹیکس چوری کے طریقے بتانے والے، جہاں بیڈ گورننس کے تڑکے ’کرپشن ہانڈی‘ کے مزے دوبالا کر چکے۔

مطلب جہاں حکمراں خود خزانہ لوٹیں، بیوروکریسی مال بنائے، دوسروں کو مال بچانے کے رستے بتائے اور جہاں مردہ جانوروں کی انتڑیوں، چربی سے گھی بناتی، یتیموں، مسکینوں کی زکٰوتیں ہڑپ کر جاتی، گدھوں، کتوں کی کڑاہیاں کھلاتی قوم کا حال یہ کہ 22کروڑ میں صرف 7لاکھ ٹیکس دیں وہاں پالیسیاں آئی ایم ایف ہی بنائے گا، وہاں رضا باقر ہی آئیں گے، پھر یاد رہے بھکاریوں کی خود مختاریاں نہیں ہوا کرتیں، بھوکوں سے من مرضی کے معاہدے نہیں کئے جاتے، کرپٹ لیڈروں والی کرپٹ قوم سے برابری کی سطح پر ڈیلیں نہیں کی جاتیں اور اپنے گھروں میں خود چوریاں کرنے والوں کی عزتیں نہیں ہوا کرتیں۔

ہاں عمران خان سے یہ امید ضرور تھی کہ کرپشن، ڈکیتیاں، چوریاں روکیں گے، فرسودہ نظام بدلیں گے، پرانی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، تبدیلی غریبوں کی زندگیوں میں آئے گی مگر 9مہینوں میں تو وہی ہوا جو پہلے ہورہا تھا، وہ بھی بیڈ گورننس کے ساتھ۔

لیکن ہم پہلی بار آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئے، گزرے 70سالوں میں 21بار آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹا چکے اور ابتک صرف ایک آئی ایم ایف پیکیج کامیابی سے سرے چڑھا، لیگی حکومت کے دور میں وہ بھی 15چانسز لینے کے بعد، آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، اگر ہم آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر گئے، ادارہ جاتی ریفارمز، ٹیکس اصلاحات کر گئے، سمت درست ہوئی تو حالات بدل سکتے ہیں، یہ نہ ہوا تو موجودہ حالات تو بہت اچھے، بعد کے حالات ایسے ہوں گے کہ ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

جاسم محمد

محفلین
آصف زرداری کی فضل الرحمان سے ملاقات، حکومت مخالف تحریک پر غور
ویب ڈیسک ہفتہ 18 مئ 2019
1671643-zardarifazl-1558166140-649-640x480.jpg

اپوزیشن جماعتوں نے عید کے بعد حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی تیاریاں شروع کردیں فوٹو:فائل

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔

اسلام آباد میں سابق صدر آصف علی زرداری رات گئے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ کی رہائش گاہ پہنچے تو مولانا فضل الرحمان نے ان کا استقبال کیا۔ آصف علی زرداری نے مولانا فضل الرحمان کو عمرہ کی ادائیگی پر مبارک باد دی۔ دونوں رہنماؤں نے ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ ذرائع کے مطابق ملاقات میں عید کے بعد حکومت مخالف تحریک چلانے پر بھی غور کیا گیا۔

اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے عید کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن بھی ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔

حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدہ، مہنگائی کی نئی لہر کے ساتھ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے اور اپوزیشن جماعتیں عید کے بعد حکومت کیخلاف صف آرا ہونے کو تیار ہیں۔

ن لیگ نے 20 مئی کو شاہدخاقان عباسی کی زیرصدارت اجلاس طلب کررکھا ہے اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی عید کے بعد سڑکوں پرآنےکاعندیہ دےچکی، جبکہ مولانا فضل الرحمان بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینےکیلئےپرتول رہےہیں۔ حکومت 12 جون کو نیا وفاقی بجٹ پیش کرنے جارہی ہے جس کے بعد ملک میں نئے ٹیکسوں، اور مہنگائی کا طوفان آنے کا خطرہ ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدہ، مہنگائی کی نئی لہر کے ساتھ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے اور اپوزیشن جماعتیں عید کے بعد حکومت کیخلاف صف آرا ہونے کو تیار ہیں۔
تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن اپنے ماضی کے اقدامات کے خلاف صف آراء ہو گی۔ حکومت کو بھی اس احتجاج میں شامل ہو جانا چاہئے :LOL:
D61nN0KWkAA3d2M.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن جماعتوں نے عید کے بعد حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی تیاریاں شروع کردیں
لوگ سڑکوں پر کیوں نہیں آئیں گے؟
17/05/2019 ذیشان حسین



فیصل واڈا نے جب یہ کہا کہ لوگ پٹرول دو سو روپے لیٹر بھی خریدیں گے تو وہ شاید یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ عمران خان کی محبت میں لوگ اتنا مہنگا پٹرول بھی خریدیں گے اور اف تک بھی نہیں کریں گے لیکن وہ نادانستہ طور پر قوم کو ایک بہت بڑا طعنہ دے گئے کہ لوگ مہنگائی کے جوتے کھاتے رہیں گے، روتے رہیں گے، کوسنے دیتے رہیں گے، رشوت اور چور بازاری بڑھا دیں گے، ایک دوسرے کی کھال اتارنا شروع کر دیں گے لیکن باہر نہیں نکلیں گے اور انجانے میں فیصل واڈا بہت شرمناک حقیقت سے پردہ اٹھا گئے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی ذلت اور مجبوری کیوں برداشت کرتے ہیں ہم لوگ؟ اس کی بہت سے نفسیاتی اور سماجی وجوہات ہیں جو فیصل کے پیش نظر یقیناً نہیں ہونگی۔

یونگ کی نفسیات میں ایک اصطلاح ہے، اجتماعی لاشعور، جس کے مطابق ہمارے آبا و اجداد کے تجربات ہمارے لاشعور میں کہیں پوشیدہ ہوتے ہیں اور ہمارے بظاہر شعوری رویوں کو تحریک دیتے ہیں۔ ایک شیر خوار بچہ اونچی جگہ پر بیٹھنے سے ڈرتا ہے حالانکہ وہ اس کی کوئی منطق نہیں جانتا۔ یہ اجتماعی لاشعور جانوروں میں بھی ہے اسی لئے ایک طاقتور گھوڑا دریا اور پہاڑ عبور کرنے کے بعد ایک کمزور سے پل کو پار کرنے سے گھبرانے لگتا ہے۔ ایک ایسے کمزور پل پر جہاں وہ کبھی گیا ہی نہیں ہوتا ہے۔ یہ خوف اس کے اجتماعی لاشعور کا حصہ ہے جو کبھی اس کے آباؤ اجداد نے سہا ہے۔

اس پوری رام کتھا سے خدارا یہ نتیجہ نہ نکال لیجئے گا کہ ہمارے اور گھوڑوں کے آباؤ اجداد بھائی بھائی تھے۔ برصغیر کے لوگوں نے آ ریاؤں، ایرانیوں، عربوں، ترکوں، سلجوقوں، مغلوں اور انگریزوں کے مظالم کو سہا ہے۔ طاقتور کے سامنے کبھی اجتماعی بغاوت نہیں کی اور اگر کسی نے اپنے راجواڑوں، ریاست یا حکمرانی بچانے کے لئے جدو جہد کی بھی تو بیچ سے ہی ایسے غدار مل گئے جنہوں نے ذاتی رنجش اور منفعت پر ایک غیر قوم کی غلامی کو ترجیح دی مثلاً میر جعفر کی سراج الدولہ کے ساتھ ذاتی مخاصمت تھی جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا راستہ ہموار کیا۔

حریت اور آزادی کی چند انفرادی مثالیں ضرور مل جائیں گی لیکن جہاں کہیں گروپس کی جدو جہد دیکھیں گے وہاں راجوں مہاراجوں کا ذاتی مفاد نظر آ ہے گا۔ ایک سرائیکی لطیفہ ہے کہ زمیندار نے مزارے کو مارا پیٹا اور کہا کہ جاؤ اس خشک کھالے میں کھڑے ہو جاؤ تو مزارعہ نے پوچھا، ” سئیں اگر پانی آ ئے تو کھڑے رہیں یا رڑ روڑ (بہہ) جائیں “۔

طاقتور کا حق ہے کہ ہم پر مظالم ڈھائے اور ہمارا فرض ہے کہ بس ” نیویں پا کے وقت نوں دھکا لائی جاؤ” ( سر جھکا کر زندگی گذارتے جاؤ). آج نواز شریف یا زرداری بھی سڑکوں پر آنے کی باتیں کرتے ہیں تو مخلوق کے لئے حشر اٹھانے نہیں آ رہے اپنے راجواڑے اور پچھواڑے ( جو کچھ ماضی میں کیا ہے) بچانے آ رہے ہیں۔ آپ مجھے بتائیے یہی زرداری ہے جس نے رضا ربانی کو کھڈے لائین لگا کر کسی کی مرضی کا چیئرمین سینیٹ لگوایا اور وزارت عظمیٰ کے لئے ووٹ سنبھال کر رکھ لیا تاکہ خان صاحب کو مشکل ہی پیش نہ آ ئے۔ اب خوامخواہ نیاز نہیں بٹنے لگی۔

یہ اور بات ہے کہ نواز شریف اور زرداری کو وچ ہنٹ کیا جا رہا ہے اور مقصد صرف مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ہیں کیونکہ اربوں ڈالرز کی مبینہ منی لانڈرنگ میں سے اب تک حکومت کے بسکٹوں کے پیسے بھی پورے نہیں ہوئے۔ نواز اور زرداری مل کر بھی تحریک نہیں چلا سکتے کیونکہ عوام کے مسائل پر اکٹھے نہیں ہو رہے اور اخلاقی بنیادوں پر بہت کمزور ہیں۔ پنجاب میں جیالا بھاگ گیا یا سو گیا ہے اور سندھ میں جیالے سائیں کی چوکھٹ پر تو بیٹھ سکتے ہیں، مار تو کھا سکتے ہیں لیکن پردیسی نہیں بن سکتے ( پردیسی بننے کے لئے اسلام آباد تک مارچ کرنا ہو گا) اور دوسری طرف تو ویسے ہی اک طرفہ تماشا چل رہا ہے اور وہ ہے نواز شریف کا پیچیدہ سا بیانیہ کہ ادارے اپنی حدود میں رہیں۔

اصولی طور پر تو یہ درست ہے لیکن عوام سمجھتے ہیں کہ نواز شریف آئندہ نکالے جانا نہیں چاہتے۔ اگر عوام کی محبت سے معمور ہوتے تو ڈالر بڑھنے پر، مہنگائی ہونے پر اپوزیشن لیڈر پراسرار سی خاموشی اختیار کرتے؟ جب تک آپ خود کو عوام کے مسائل سے نہیں جوڑیں گے کوئی آپ کے لئے باہر نہیں آ ئے گا۔ ذرا خان صاحب کو اپوزیشن میں آنے دیں پھر دیکھتے کتنے لاک ڈاؤن کرواتے ہیں۔ وہ بھی اپوزیشن کو چور چور کہتے اور معاشی بوجھ عوام پر ڈالتے نہیں تھک رہے۔ قوم ان سے دس مہنیوں میں بہرحال تھک گئی ہے اور اس کا اظہار آپ کو خان صاحب کی پرانے فاٹا کے لئے چار سیٹوں والی چالاکی کی صورت میں نظر آ جائے گا جہاں بلدیاتی الیکشن موخر کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن سینیٹ سے چار سیٹیں بڑھانے کا بل منظور نہ ہونے کی صورت میں منہ کہ کھانی پڑے گی۔ الیکشن چھ مہینے کے لئے موخر کرنا اس لئے ضروری ہے کہ سو ارب کا وعدہ کر کے بیس ارب بھی نہیں دیے۔

ایک اور وجہ جو فیصل واڈا کی انجانے میں بیان کی گئی سچائی کی غماز ہے وہ ہے طبقاتی تقسیم جو حکمرانوں کےبہت کام آتی ہے۔ سفید پوش یعنی مڈل کلاس طبقہ خود ترحمی کا شکار بھی رہتا ہے اور اچھا وقت آنے کا منتظر بھی۔ بس اسی اچھے وقت کے انتظار میں مہنگائی کی مار کھاتا چکا جاتا ہے جبکہ مفلوک الحال ہر معاشی ظلم کو مشیت ایزدی سمجھ کر گھسٹتے رہتے ہیں۔ ان کے لئے مولانا طارق جمیل کے بیان و حور و قصور دنیا میں معاشی غم کا مداوا بن جاتی ہیں اور یہاں کی محرومی اگلے جہان میں عیش و عشرت کا سامان بن جاتی ہے۔ سوچتے ہیں یہاں کی حوروں سے بھی خلد میں انتقام لیں گے اگر قسمت سے یہ وہاں مل گئیں۔

بالائی طبقہ تو ویسے ہی دھوپ میں نکلنے سے گھبراتا ہے کہ جلد خراب ہو جاتی ہے۔ گو کہ عوام جلد سڑکوں پر نہیں آتے کیونکہ وہ زیادہ بڑا ظم دیکھ کر ارسطو کے نظریہ ٹریجڈی کے مطابق کتھارسس کر لیتے ہیں۔ جب ہزارہ کمیونٹی ان کے سامنے لاشیں زمیں پر رکھ کے انصاف کی طلبگار ہو گی، سانحہ ساہیوال کے لواحقین جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے دھرنے دیں گے، عاصمہ کو سات ہزار روپے کے لئے ذلت اور موت قبول کرنی پڑے گی، شاہ رخ جتوئی جیسے غنڈے دیت کے نام پر پیسہ پھینک کر وکٹری کا نشان بنائیں گے، لوگ تین تین مہینے کی تنخواہوں کے لئے ہڑتالیں کریں گے، ڈاکٹرز اپنے حق کے لئے ڈنڈے کھائیں گے تو پٹرول کی قیمت بڑھنے پر کون اٹھے گا یا ڈالر کے بڑھنے پر کون گریبان پکڑے گا؟

یہاں تو ایک ساڑھے چار فٹ کا فرعون ڈیم کے نام پر پوری قوم کو بیوقوف بنا کر، گردے اور جگر کے ہسپتال کو تباہ کر کے، سستی شہرت کے لئے ہر طرح کا شغل لگا کے چلا گیا لیکن مجال ہے میڈیا سمیت کسی طبقہ کو ملال ہوا ہو۔ بس اسی بات کے پیش نظر فیصل واڈا نے درست کہا تھا کہ لوگ دو سو روپے لیٹر بھی پٹرول خریدیں گے۔ سڑکوں پر نہیں آ ئیں گے لیکن ایک بات طے ہے ووٹ دینے کا وقت آ ئے گا تو بیلٹ سے فیصلہ کریں گے۔ یہ اور بات ہے کہ آر ٹی ایس سسٹم کبھی بھی بیٹھ سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن کی احتجاج کی تیاری، آج افطار ڈنر پر حکومت کے خلاف جمع ہوگی
اسٹاف رپورٹر / ویب ڈیسک اتوار 19 مئ 2019
1672055-bilawalandmaryam-1558207987-179-640x480.jpg

افطار میں مریم نواز بھی شرکت کریں گی جبکہ حکومت کے خلاف احتجاج پر مشاورت کی جائے گی (فوٹو: فائل)

لاہور: حکومت کے خلاف احتجاج پر مشاورت کے لیے بلاول بھٹو زرداری نے تمام اپوزیشن رہنماؤں کو آج افطار ڈنر کی دعوت دے دی افطار میں جس میں مریم نواز بھی شرکت کریں گی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق آج تمام اپوزیشن افطار ڈنر میں جمع ہوگی جس میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی، امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور اختر مینگل کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔

ذرائع کے مطابق اسلام آباد میں ہونے والے افطار ڈنر میں مسلم لیگ (ن) کا 4 رکنی وفد شرکت کرے گا جس میں پارٹی کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی، نائب صدور مریم نواز، حمزہ شہباز اور سینیٹر پرویز رشید شامل ہوں گے۔

افطار ڈنر میں تمام رہنما حکومت کے خلاف آئندہ کی حکمت عملی طے کریں گے۔ یہ سیاسی افطار پارٹی اپوزیشن کی آئندہ کی حکمت عملی اور سمت کا تعین کرے گی، قبل ازیں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ پہلے ہی عید کے بعد حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کا اشارہ دے چکے ہیں جب کہ مولانا فضل الرحمان بھی حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے آصف زرداری اور نوازشریف سے رابطے کرچکے ہیں۔

بلاول اور مریم کے ملنے پر حیرت نہیں، یہ کرپٹ ٹولہ اکھٹا ہو رہا ہے، وزیراعظم
ویب ڈیسک 3 گھنٹے پہلے
1672857-imrankhane-1558254908-484-640x480.jpg

سارے چور اکٹھے ہونا چاہتے ہیں تاہم عوام کبھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے، وزیراعظم۔ فوٹو: فائل


اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کے ملنے پر حیرت نہیں، یہ کرپٹ ٹولہ اکھٹا ہو رہا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کے افطار ڈنر پر وزیر اعظم عمران خان نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ بلاول بھٹو اور مریم نواز افطاری پر ملنے جا رہے ہیں، ان دونوں نے ایک دوسرے کو کرپٹ کرپٹ کہا اور اب یہ کرپٹ ٹولہ اکھٹا ہو رہا ہے، سارے چور اکٹھے ہونا چاہتے ہیں تاہم عوام کبھی ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین

ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے والے آج افطاری پر ایک دوسرے کا پیٹ بھر رہے ہیں،یہ ان جاہل عوام کے منہ پر تھپڑ ہے جو اب بھی ان 2 خاندانوں کی غلامی سے باہر نہیں آئے!
 

آصف اثر

معطل

ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے والے آج افطاری پر ایک دوسرے کا پیٹ بھر رہے ہیں،یہ ان جاہل عوام کے منہ پر تھپڑ ہے جو اب بھی ان 2 خاندانوں کی غلامی سے باہر نہیں آئے!
کیا عمرانی کابینہ ایسے پیٹ پھاڑیوں اور پیٹ بھاریوں سے محروم ہے؟
 

جان

محفلین
ملک کی ۴۰ سالہ موروثی سیاست
گویا کہ قوم کے سامنے اتنا جھوٹ بولا جائے کہ قوم تاریخ پڑھے بغیر ہی اسے سچ تسلیم کر لے۔ آپ صرف اتنا بتا دیں کہ پاکستان میں مسلسل جمہوری حکومت کب کب رہی ہے؟ کل جمہوری حکومت کا عرصہ کتنا ہے اور ان میں سے ن لیگ کا عرصہ کتنا ہے اور پیپلز پارٹی کا عرصہ کتنا ہے؟ آپ نے بس پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیے چالیس کا ہندسہ ثابت کرنا ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
گویا کہ اتنا جھوٹ بولو کہ قوم کو تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے بلکہ وہ اسے سچ تسلیم کر لے۔ صرف اتنا بتا دیں کہ پاکستان میں مسلسل جمہوری حکومت کب کب رہی ہے؟ کل جمہوری حکومت کا عرصہ کتنا ہے اور ان میں سے ن لیگ کا عرصہ کتنا ہے اور پیپلز پارٹی کا عرصہ کتنا ہے؟ آپ نے بس پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے لیے چالیس کا ہندسہ ثابت کرنا ہے۔
ابھی تو میں نے کچھ رعایت کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹونے اپنے والد محترم شاہ نواز بھٹو (جو پیشہ کے لحاظ سے سیاست دان، جاگیردار اور سندھ میں اثر رسوخ رکھنے والے تھے) کی ’جان پہچان‘ پر پہلے صدر سکندر مرزا اور بعد میں جنرل ایوب خان کی آنکھ کا تارا بن کر ملکی سیاست میں قدم جمائے تھے۔
دوسری طرف میاں محمد نواز شریف نے اپنے والد محترم محمد شریف (جو پیشہ کے لحاظ سے بڑے صنعتکار اور پنجاب میں اثر رسوخ رکھنے والے تھے) کی ’سفارش‘ پر پہلے جنرل جیلانی اور بعد میں جنرل ضیاءکی آنکھ کا تارا بن کر ملکی سیاست میں قدم جمائے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی ملکی سیاست میں اینٹری سنہ 1958 میں بطور وفاقی وزیر تجارت (ٹیک نوکریٹ) عمل میں آئی۔
نواز شریف کی ملکی سیاست میں اینٹری سنہ 1980 میں بطور وزیر خزانہ پنجاب (ٹیک نوکریٹ) عمل میں آئی۔
یوں بھٹو خاندان کو ملکی سیاست کرتے ہوئے: 2019-1958= 61 سال بیت گئے ہیں
جبکہ شریف خاندان کو ملکی سیاست کرتے ہوئے: 2019-1980= 39 سال بیت گئے ہیں
پچھلے 61 سالوں میں ان دونوں مفاد پرست سیاسی خاندانوں کو اسٹیبلشمنٹ کی گاہے بگاہے سپورٹ حاصل رہی ہے۔
آج کل اسٹیبلشمنٹ کا مشفقانہ ہاتھ اور اقتدار چھن جانے کے بعد لاتعداد کرپشن کیسز سے بچ نکلنے کیلئے یہ سب جاگیردار، صنعتکار، اشرافیہ، چور، لٹیرے جمہوریت بچانے کے نام پر اکٹھے ہو کر عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔
اب بتائیں میں نے یہاں کیا جھوٹ بولا؟
 
Top