چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اور اس کے سائے میں پستے اویغور مسلمان

جاسم محمد

محفلین
چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اور اس کے سائے میں پستے اویغور مسلمان
انسانی اور مذہبی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے اہم شراکت دار پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے رہنماوں کا کھلے عام چینی حکومت پر تنقید کرنے سے گریز۔
انڈپینڈنٹ اردو
اتوار 28 اپریل 2019 12:15

14341-663738279.jpg


گوکھرکرمنالیوا کا کہنا ہے کے دسمبر2017 میں چین اور قازاقستان کے خصوصی اقتصادی زون میں چند نامعلوم چینی افراد ان کے کزن کو چھین کر چینی سرحد میں لے گئے۔ وہ اب بھی وہاں قید ہے۔ تصویر: اے ایف پی

چین اور قازاقستان کی سرحد سے متصل قورغاس کے چہل پہل والے خصوصی اقتصادی زون میں تاجر آزادانہ نقل و حرکت کر سکتے ہیں لیکن سنکیانگ میں داخل ہوتے ہی ماحول یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہاں لگے سائن بورڈوں میں صاف صاف لکھا ہے کہ نقاب اور لمبی داڑھی رکھنے پر پابندی ہے۔

یہ نوٹس چین کے جنوب مغربی خطے سنکیانگ میں سخت سیکورٹی پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں جسے چینی حکومت نے مقامی مسلمان اویغور برادری پر لاگو کیا ہوا ہے، یہ وہی خطہ ہے جس کے ذریعے چینی صدر شی جن پنگ قدیم شاہراہِ ریشم کے احیا کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے وسطی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، یورپ اور افریقہ کو جوڑنے کے لیے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے سنگم پر واقع سنکیانگ کا خطہ بین الاقوامی تجارتی راہداری کے لیے مرکزی علاقے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہاں سب کچھ معمول کے مطابق بھی نہیں ہے۔

سنکیانگ میں اویغور برادری چینی حکومت کی سخت ترین پابندیوں کا سامنا کر رہی ہے اور یہاں جھڑپوں، بم دھماکوں اور خنجر سے حملوں کے واقعات کو وجہ بتا کر چینی سیکورٹی فورسز مقامی اقلیتی آبادی کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔

جرمن ماہر اورمحقق ایڈرین زینز، جو سنکیانگ پر مقالہ لکھ رہے ہیں، کا ماننا ہے کہ چینی حکومت اس خطے کو مکمل طور پر اپنے زیر تسلط لانے کے لیے ہرممکن کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’ چین کے لیے بدامنی کے شکار سنکیانگ صوبے کو اپنے زیر تسلط لانے کے پیچھے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی اہمیت ہے۔‘

ان اقدامات کے تحت تقریباً دس لاکھ اویغور برادری کے لوگوں کو وسیع و عریض حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ ان افراد میں زیادہ تعداد ترک زبان بولنے والے قازق اور کرغیز مسلمانوں کی ہے۔ بیجنگ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان حراستی کیمپس کو ووکیشنل تعلیمی ادارے قرار دیتا ہے۔

کئی پاکستانی تاجروں کی اویغور بیویاں بھی ان مراکز میں قید ہیں جن کو اپنے خاوندوں سے ملنے کی اجازت تک نہیں ہے۔

اس صورت حال نے رواں ہفتے بیجنگ میں جاری بیلٹ اینڈ روڈ اجلاس میں شریک پاکستانی اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے سربراہان کے لیے کافی مشکل بھی پیش کی ہے۔

سنکیانگ میں جاری مبینہ انسانی اور مذہبی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے اہم شراکت دار پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے رہنماوں نے کھلے عام چینی حکومت پر تنقید کرنے سے گریز کیا جبکہ ان کے ممالک میں اس معاملے پر عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

مارچ میں انگریزی اخبار فائنینشل ٹائمز سے انٹرویو کے دوران جب پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے اویغور برادری کے ساتھ چینی حکومت کے برتاؤ پر سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: ’اگر میں بے تکلفی سے کہوں تو مجھے اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔‘

اگرچہ قزاقستان نے کہا ہے کہ چین میں قازق نسلی برادری کی خوشحالی اس کے بیجنگ کے ساتھ تعلقات میں ایک ’اہم عنصر‘ ہے، لیکن دوسری جانب اس نے دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے خلاف چین کی جنگ کی بھی حمایت کی ہے۔

قازقستان نے چین کے دباؤ پر قازق نسلی برادری کے ایک رکن کو نسلی نفرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے جبکہ سنکیانگ کے ایک حراستی مرکز سے فرار ہو کر آنے والے چینی باشندے کو بھی سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا ہے۔

رائل یونائٹیڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے بین الاقوامی سیکیورٹی کے شعبے کے ڈائریکٹر رافییلو پینٹوچی کا ماننا ہے کہ بنیادی طور پر ان ممالک کے لیے تنقید کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ چین ان کا بڑا اقتصادی شراکت دار ہے اور معاشی لحاظ سے مزید طاقتور بننے جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا: ’ان ممالک کو چین کے ساتھ اپنے رشتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے لوگوں کی کسی حد تک نمائندگی بھی کرتے رہیں۔‘

چینی صدر شی جن پنگ نے 2013 میں قازاقستان کے دارالحکومت میں قدیم شاہراہ ریشم کے احیا کے منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔ آستانہ کا انتخاب اس قدیم شاہراہ کے لیے وسطی ایشیا کی اہمیت کوظاہرکرنے کا ایک علامتی قدم تھا۔

ان منصوبوں میں چین کو کرغیزستان اور ازبکستان سے منسلک کرنے کے لیے ہائی وے کی تعمیر، ازبکستان میں ریلوے سرنگ اور ایک علاقائی قدرتی گیس پائپ لائن کی تعمیر بھی شامل ہے۔

رافیلو نے بتایا کہ وسطی ایشیا میں چین کی سرمایہ کاری کا مقصد علاقے کی ترقی کے ساتھ ساتھ سنکیانگ خطے کو قومی دھارے میں لانا بھی ہے۔ ’چین کے نقطہ نظر سے سنکیانگ کے طویل مدتی مسائل کے حل اور علیحدگی پسندی کے خاتمے کے لیے بنیادی طور پر خطے کی اقتصادی خوشحالی ضروری ہے۔‘

قازقستان اور چین نے قورغاس میں خصوصی تجارتی مرکز قائم کیا ہے جہاں دونوں اطراف سے تاجر ویزا اور سیکورٹی چوکیوں سے گزرے بغیر کپڑے، اشیائے خوردونوش اور دیگر سامان کی خریداری کر سکتے ہیں۔

قازقستان کے شہر الماتی کے رہائشی عیدہ میسیم زانوا نے اے ایف پی کو بتایا کہ قورغاس میں سامان سستا ہے اور وہ ہر روز بغیر رکاوٹ کے ادھر آ جا سکتے ہیں۔

لیکن قورغاس چین کے مسلم عقیدے سے تعلق رکھنے والی برادری پر مبینہ مظالم کی یاد دہانی بھی کراتا ہے۔ وہی برادری جس کی قازاقستان میں اکثریت ہے۔

قازق اخباری نمائندوں کے اس تجارتی مرکز کے خصوصی دورے کے دوران ایک خاتون صحافی کو قازق اہلکاروں نے کہا کہ ان کے حجاب کے باعث ان کو چینی سیکورٹی چیک پوسٹ سے گزرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ انہوں نے حجاب اتارنے کی بجائے واپس جانے کا انتخاب کیا۔

باڈر کے چینی حدود میں صحافیوں کو ایک نوٹس کو پاس سے دیکھنے سے روک دیا گیا جس پر حجاب پر پابندی کے بارے میں لکھا تھا۔

چینی حکام نے سنکیانگ میں کئی دیگر اسلامی روایات پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں جن میں ’غیر معمولی‘ داڑھی رکھنا بھی شامل ہے۔

دوہری شہریت رکھنے والی خاتون گوکھرکرمنالیوا اس خصوصی اقتصادی زون کو قازاقستان میں بیجینگ کے بڑھتے رسوخ کی ایک نشانی سمجھتی ہیں۔

دسمبر2017 میں اسی اقتصادی زون میں چند نامعلوم چینی افراد ان سے ان کے کزن اکصر اسدبیگ کو چھین کر چینی سرحد میں لے گئے تھے۔

قازقستان کی وزارت خارجہ نے بیجنگ کے ساتھ اس معاملے کو اٹھایا اور پھر گوکھرکرمنالیوا کو کہا کہ اکصر اسدبیگ، جو چین میں پیدا ہوئے تھے مگر قازقستان کا پاسپورٹ رکھتے ہیں، کو چینی شہریت کے قوانین توڑنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔

گوکھرکرمنالیوا نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم نہیں جانتے کہ اسے کہاں قید میں رکھا گیا ہے یا یہ کہ وہ کس حالت میں ہے۔‘

دوسری جانب کرغیزستان میں بھی سنکیانگ میں سیکورٹی فورسز کے چھاپوں کے دوران غائب ہونے والے افراد کے رشتہ داروں کی طرف سے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔

چین میں رہنے والے اپنے دوستوں کے لیے فکرمند میرات تیگاوف بھی اس کمیٹی میں شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ وزارت خارجہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ زیادہ تر کرغیز باشندے چینی حراستی مراکز سے نکل چکے ہیں۔

انہوں نے کہا:’ لیکن کیمپ میں اب بھی کتنے کرغیز باشندے باقی ہیں یہ کہنا مشکل ہے۔‘

چین کی وزارت خارجہ نے سنکیانگ میں حراستی مراکز کی موجودگی سے متعلق سوالات کا جواب نہیں دیا تاہم ایک بیان میں اس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بیلٹ اور روڈ منصوبہ چین اور وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان تعاون کی بنیاد بن چکا ہے۔

بیجنگ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے خشکی سے گھیرے اپنے جنوب مغربی خطے کو گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرنے کے لیے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے لیکن پاکستانی تاجر بھی سنکیانگ کی صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔

پاکستانی تاجروں نے چین کے علاقوں میں زیر حراست اپنی اویغور بیویوں کی رہائی کے لیے مظاہرے بھی کیے ہیں۔

شمالی پاکستان کے ایک 39 سالہ تاجر علی ابرار، جنہوں نے سنکیانگ کی ایک خاتون سے شادی کی تھی، اپنی اہلیہ کے لیے فکرمند ہیں۔ وہ حکومت پاکستان کی توجہ چین کی جانب سے ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کرانے کی کوششوں میں لگے ہیں۔

ابرار نے کہا: ’حکومت پاکستان نہ صرف خود اویغور مسلمانوں کے بدترین حالات پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے بلکہ ہم جیسے متاثرین کو خاموش کروا کر چین کے ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔‘
 

فرقان احمد

محفلین
بھائی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مصدقہ رپورٹ ہے۔
Up to one million detained in China’s mass “re-education” drive
کسی حد تک متنازعہ معاملہ ہے کیونکہ چینی انہیں حراستی مراکز نہیں سمجھتے ہیں۔ تاہم، چین کو اس حوالے سے اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنی چاہیے۔ اقوام متحدہ میں رکن ممالک اس ایشو کو ہائی لائیٹ کریں گے تو بات بنے گی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ بھی حرفِ آخر نہیں ہے۔
 
Top