حکمران قیادت نے معیشت ڈبو دی

جاسم محمد

محفلین
حکمران قیادت نے معیشت ڈبو دی
11/04/2019 اظہر سید



مان لیں کہ ایک اور کارگل ہو گیا ہے۔ وہاں بھارت نے بقول جنرل مشرف اوور ریکٹ کیا تھا یہاں معیشت نے اوور ریکٹ کیا ہے۔ بھارت والے کارگل میں بقول سابق جنرل شاہد عزیز، جنرل جمشید گلزار کیانی اور جنرل ضیا الدین بٹ وزیراعظم میاں نواز شریف نے فوج کی درخواست پر امریکی صدر کلنٹن کو مداخلت کے لئے کہا اور پاکستان کو مشکل صورتحال سے نکالا۔ موجودہ کارگل میں بھی میاں نواز شریف سے ہی درخواست کرنا ہو گی کہ وہ پاکستان کو معیشت کے اوور ری ایکشن سے بچائیں۔

کراچی حصص بازار کا ہنڈرڈ انڈکس 36 سو کی نفسیاتی حد پر پہنچ گیا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں پاکستانی معیشت آئی سی یو سے نکل آئی ہے وہ پھر فراڈ کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دھوکہ دیا تھا 200 بہترین ماہرین معیشت کی ٹیم ان کے پاس موجود ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو برطانیہ میں سزا یافتہ انیل مسرت کو ساتھ ساتھ لئے پھرتے تھے اور فوجی افسران سے ملاقاتیں کراتے تھے۔ 50 لاکھ گھروں کے لئے سرمایہ کاری کرے گا اور معیشت گیسی غبارے کی طرح آسمان کی وسعتوں تک پہنچ جائے گی۔ 40 صنعتوں کا پہیہ اتنا تیز چلے گا کہ دنیا بھر سے لوگ نوکریوں کے لئے پاکستان آیا کریں گے۔

حصص بازار کے موجودہ کریش کی حقیقی ذمہ داری اگر کسی پر عائد ہوتی ہے تو وہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہے۔ بھارتی حملے سے شاید معیشت تین دن میں اتنی کریش نہ ہوتی جتنی بھارتی حملے کے بیان سے ہوئی تھی۔ ڈالر خریدنے والے غدار نہیں کیونکہ خود وزیرخزانہ گزشتہ تین ماہ میں کبھی صحافیوں کو خصوصی ملاقات میں اور کبھی کھلے عام ڈالر کی قیمت میں اضافہ کی خبریں سناتا تھا۔ اس کے بعد سرمایہ کار چھوڑیں، عام لوگ بھی ڈالر خریدیں گے اور اس کی قیمت بھی بڑھے گی۔ جو لوگ پہلے ڈالر کی قیمت 160 روپے تک ہونے کی خبریں پھیلاتے ہیں اور مارکیٹ میں افراتفری پھیل جانے پر اسٹیٹ بینک کو اپنے ڈالر مارکیٹ میں پھینکنے کی ہدایات جاری کرتے ہیں وہی اس بحران کے ذمہ دار ہیں۔

جن لوگوں نے پراپرٹی کی خریداری پر فائلر کی شرط لگائی اور بحریہ ٹاون کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا وہی رئیل اسٹیٹ کی تباہی کے ملزم ہیں۔ ٹیکسوں میں شارٹ فال 400 ارب روپیہ کا ہونے جا رہا ہے۔ ان نااہلوں سے کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ کیا کر رہے ہو۔ ان بقراطوں کو کیوں نہیں سمجھایا گیا کہ سرمایہ کار بھاگ جاتے ہیں۔ ایف بی آر کو کیوں ڈنڈہ پکڑا کر صنعت کاروں، درآمد اور برامدکنندگان پر چھوڑ دیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ٹیکسوں کا کا سب سے بڑا شارٹ فال ہونے جا رہا ہے جو دفاعی بجٹ اور سالانہ ترقیاتی پروگرام پر اثرانداز ہو گا۔

کیا اب تک پتہ نہیں چلا کہ یہ فراڈ ہیں اور کچھ بھی نہیں۔ اطلاعات کے مطابق انیل مسرت نے کسی کو لندن دورے کے دوران ایک فلیٹ کا تحفہ دیا تھا لیکن کایاں سرمایہ کار نے صرف چابی دی ملکیت کی۔ منتقلی کے کاغذات نہیں دیے۔ اب انیل مسرت کہاں غائب ہو گیا ہے۔ اب پچاس لاکھ گھر کہاں اڑن چھو ہو گئے ہیں؟

معاشی ارسطو سے کم از کم اتنا پوچھ لیں کہ میاں روپیہ کی قدر میں کمی سے جو برآمدات میں اضافے کا جھانسا دیا تھا، وہ اضافہ کیوں نہیں ہوا۔ ان سے کیوں نہ پوچھا جائے کہ شرح سود میں اضافہ کا اصل مقصد کیا ہے؟ مقامی قرضوں کے حجم میں اضافہ کرنا تھا، سرمایہ کاروں کو کاروباری سرگرمیاں روکنے پر راغب کرنا تھا کہ کاروبار چھوڑو اور بینکوں میں پیسے جمع کرا کے سود کھاو، یا یہ مقصد تھا بینکوں کے مہنگے قرضے لے کر خبردار کوئی کاروبار کیا۔ یا تو یہ لوگ جان بوجھ کر معیشت برباد کر رہے ہیں یا پھر اعلی ترین سطح کے نا اہل، جھوٹے اور فراڈیے ہیں۔ غضب خدا کا، یہ اب بھی دھوکہ دے رہے ہیں کہ معیشت آئی سی یو سے نکل آئی ہے۔

برآمدات میں کیسے اضافہ ہو، جب بجلی اور پٹرول مہنگا کر کے پیداواری لاگت بڑھا دی۔ جب روپیہ کی قدر 45 فیصد کم کر کے تمام درآمدی خام مال مہنگا کر دیا پاکستانی برآمدات کیسے عالمی مارکیٹ میں مسابقت کر سکتی ہیں۔ حصص بازار 53 ہزار پر تھا اب 36 ہزار پر ہے۔ مارکیٹ کا حجم 98 کروڑ تھا، اب حصص کی خرید و فروخت 25 کروڑ کی اوسط پر پہنچ گئی ہے۔ تمام تیزی سے ترقی کرتی لسٹڈ کمپنیوں کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ پی پی ایل کا حصص 224 کا تھا اب 145 کا ہے۔

پی ایس او میں لوگ روز منافع کماتے تھے 289 کا حصص اب 196 کا ہے۔ پی او ایل 713 روپیہ سے کم ہو کر 405 کا رہ گیا ہے۔ او جی ڈی سی کا حصص 178 سے کم ہو کر 125 پر پہنچ گیا ہے حالانکہ آپ نے سمندر میں عظیم ترین گیس ذخائر کی ہوائی بھی چھوڑی لیکن سرمایہ کار جھانسے میں نہیں آئے او جی ڈی سی کا حصص یتیم ہی رہا۔ اینگرو 324 سے کم ہو کر 280 کا رہ گیا ہے۔ یہ تو حصص بازار کی نمایاں کمپنیاں ہیں۔ تباہی ہمہ گیر ہے اور یہ کہتے ہیں معیشت آئی سی یو سے نکل آئی ہے۔

زبردست طریقے سے ٹیکس دہندگان کو بھگا دیا ہے جو چند بچے ہیں انہیں نوٹس پہ نوٹس۔ اب وہ بھاگ رہے ہیں موسم گرما کی چھٹیوں کے بہانے یورپی ممالک کی طرف۔ بڑے لوگوں نے بینکوں میں پیسے رکھنے بند کر دیے ہیں۔ ایف بی آر والے اٹیچ نہ کر لیں ان کے اکاونٹ۔ سرمایہ کار پرندے ہیں، انہیں دانہ ڈالا جاتا ہے، ترغیبات دے کر پکڑا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک سرمایہ کاروں کو ترغیبات دیتے ہیں دانہ ڈالتے ہیں اور ہمارے معاشی لال بجھکڑ پتھر مار کر پرندوں کو آڑا رہے ہیں، اور پھر جھوٹ بولتے ہیں معیشت آئی سی یو سے نکل آئی ہے۔

ملک میں سیاسی بے یقینی پیدا کر دی ہے۔ ایک وزیر لاٹھی لے کر آصف علی زرداری کو چور پکارتا ہے دوسرا ڈنڈہ لے کر شریف خاندان کی طرف بھاگتا ہے۔ کوئی افسر ان نااہلوں کے فیصلوں کو روکنے پر تیار نہیں۔ آج ٹیکسوں میں چار سو ارب روپیہ کی کمی سے آئندہ بجٹ بری طرح متاثر ہو گا۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ موجودہ حکمران صرف اپنی پراپرٹی پاک صاف کرنے کے لئے ایمنسٹی اسکیمیں لا سکتے ہیں اور دوسروں کو کرپٹ کہہ سکتے ہیں، ملکی معیشت کا استحکام ان کے بس کی بات نہیں
 

جاسم محمد

محفلین
عاطف میاں کہتے ہیں ملک کے لئے نااہلی، کرپشن سے زیادہ نقصان دہ ہے
12/04/2019 ہم سب نیوز



تحریک انصاف کی حکومت کی پہلی معاشی ٹیم کے اہم پلئیر عاطف میاں تھے جنہیں احمدی ہونے کے تنازعے کی وجہ سے استعفی دینا پڑا تھا۔ وہ عالمی سطح پر ایک ابھرتے ہوئے ماہر معاشیات قرار دیے جاتے ہیں اور ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں ہونے والی پہلی عالمی کانفرنس برائے اسلامی بینکنگ اور فنانس میں انہیں بطور سپیکر بلایا جا چکا ہے۔ وہ اہم ترین امریکی یونیورسٹیوں سے وابستہ رہے ہیں۔

عاطف میاں نے ٹویٹر پر سوال پوچھا کہ ترقی پذیر ملکوں کے لئے بڑا مسئلہ کیا ہے، اشرافیہ کی کرپشن یا اشرافیہ کی نا اہلی۔ سوا آٹھ ہزار افراد نے ووٹنگ میں حصہ لیا اور 60 فیصد نے یہ رائے ظاہر کی کہ کرپشن زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔

عاطف میاں نے اس کے بعد اپنی مندرجہ ذیل رائے ظاہر کی۔
میں اس پول میں اقلیتی موقف کی حمایت کروں گا اور یہ بحث کروں گا کہ ترقی کے لئے کرپشن سے بڑی رکاوٹ نا اہلی ہے (ظاہر ہے کہ آئیڈیلی ہم دونوں سے پرہیز کرنا چاہیں گے)۔

آئیں چین اور سعودی عرب کا تقابل کریں۔ دونوں مرکزیت پسند پاور سٹرکچر ہیں اور ٹاپ پر بہت زیادہ کرپشن ہے۔ لیکن چینی نظام ایک خاص جہت میں مختلف ہے۔ وہ پاور سٹرکچر کے اندر رہتے ہوئے مقابلے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور انہیں ترجیح دیتا ہے جو زیادہ پیداوار دکھا سکیں (لوکل گورنمنٹ کے ٹارگٹ وغیرہ کے بارے میں سوچیں)۔

ایک سینس میں چینی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ایک بڑھتا ہوا کیک سب کو زیادہ حصہ وصول کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، اور یوں مرکزی پاور کو زیادہ دیر تک قائم رہنے کے قابل بناتا ہے۔

سعودی عرب ایسا کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کوئی حرکت نہیں ہوتی اور صرف بہت نمایاں نا اہل پالیسیاں جیسے سعودینائزیشن ہی دکھائی دیتی ہیں۔

کسی سسٹم کی حتمی کامیابی کا انحصار ایک کلیدی سوال پر ہوتا ہے: کتنے موثر طریقے سے وہ اختیار کو سب سے زیادہ اہل کو سونپتا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ کرپشن اختیار کی ایسی منتقلی کے راستے میں آ سکتی ہے۔ لیکن ایک کرپٹ سسٹم بھی نتائج دے سکتا ہے اگر وہ ایک ایسا راستہ تلاش کر لے جو اہل کو اختیار سونپ سکے۔
پڑھاکو قسم کے افراد کوس تھیورم (Coase Theorem) دیکھ لیں۔

عاطف میاں کی ان ٹویٹس کے نیچے مختلف افراد نے اپنے تبصرے کیے۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کے متحرک رکن ڈاکٹر فرحان ورک نے لکھا

”جو دوست یہ ٹویٹس پڑھ رہے ہیں اور سمجھ نہیں آ رہی ان کو بتاتا چلوں کہ موصوف فرما رہے ہیں کہ ’کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے کے نعرہ پر عمل پیرا ہونے والے لوگ بہت کامیاب ہیں‘۔
ان جناب کو ہم اپنی معیشت سونپنے والے تھے۔ “

سلمان عباسی نے تبصرہ کیا کہ ”آپ کے تجزیے اور دران آجم اوغلو کے ’قومیں کیوں فیل ہوتی ہیں‘ کے درمیان مماثلتیں اور اختلافات دلچسپ ہیں۔ آزاد، اہل ادارے، خواہ وہ کرپٹ ہی کیوں نہ ہوں، کامیابی لا سکتے ہیں اگر ان میں ڈیلیور کرنے کا مقابلہ وجود رکھتا ہو، اور اگر عام افراد کو محنت کرنے کا فائدہ دکھائی دیتا ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران حکومت کا اصل دشمن کون ہے؟
12/04/2019 سید مجاہد علی



اس بارے میں اب دو رائے نہیں ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت ملکی معیشت کی حرکیات کو سمجھنے اور اصلاح احوال کے لئے مناسب، ضروری اور ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔ یہ رائے صرف عمران خان اور ان کی حکومت کے سیاسی مخالفین کی طرف سے ہی سامنے نہیں آرہی بلکہ اس پارٹی کی شدت سے حمایت کرنے والے متعدد مبصر ین کے علاوہ اس کے حامیوں کی بڑی تعداد کو بھی اب تک حکومت کی کارکردگی سے مایوسی ہوئی ہے۔

یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے معاشی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے، یہ اتفاق رائے اسی نکتے پر ختم ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ مخالفین کے نزدیک عمران خان کی ٹیم صرف اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ نااہلی کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہے۔ اس رائے کے مطابق عمران خان صرف اقتدار تک پہنچنے کے شوقین تھے۔ انہوں نے یہ مقصد پانے کے لئے کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ انہیں نہ تو ملک کو درپیش مسائل کی تفہیم تھی اور نہ ہی انہوں نے اس مقصد سے کوئی سیاسی و معاشی منصوبہ بندی کی تھی۔ ایک یہ خیال بھی سامنے لایا جاتا ہے کہ عمران خان کو کسی توقع کے برعکس اچانک حکومت مل گئی تھی، اس لئے وہ اس عہدہ کی ذمہ داریوں سے کما حقہ نمٹنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ جبکہ عمران خان کے بعض حامی کسی حد تک حکومت کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا۔ بلکہ اچھی کارکردگی کو بھی تنقید و تشنیع کا نشانہ بنا کر مسترد کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے حکومت کے بارے میں منفی تصویر ہی سامنے آتی ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں رائے بھی اسی تقسیم کی نشاندہی کرتی ہے جو عام طور سے سیاسی و سماجی امور کے بارے میں پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ یعنی ایک طبقہ کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا اور حکومت پر تنقید اور درپردہ سازشوں کے ذریعے اسے ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ درپردہ سازشیں دراصل انہی کاوشوں کا نام ہے جو مملکت کے مختلف طاقت ور ادارے کسی حکومت کو بنانے، چلانے یا بگاڑنے میں شامل کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں اب یہ رائے مسلمہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی ناکامی اور ان دونوں پارٹیوں کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کے ناخوشگوار تعلقات کی وجہ سے بالآخر عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کی راہ ہموار کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان فوج کی زبان بولتے ہوئے اقتدار تک پہنچے ہیں اور انہوں نے بنیادی حقوق، پارلیمان کے اختیار یا جمہوری نظام کے استحکام کے بارے میں کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کی کابینہ کے بارے میں سابق فوجی حکمران پرویز مشرف خود کہہ چکے ہیں کہ ’یہ تو ان کے اپنے ہی لوگ ہیں‘۔ حال ہی میں آئی ایس آئی کے سابق افسر اور آئی بی کے سابق سربراہ اور پرویز مشرف کے معتمد خاص اعجاز شاہ کو پارلیمانی امور کا وزیر بنا کر اس شبہ کو یقین میں تبدیل کرنے کی اپنی سی کوشش کی گئی ہے۔

یوں بھی عمران خان شروع دن سے دو باتوں پر زور دیتے رہے ہیں۔ ایک یہ کہ ایوب خان کا ساٹھ کی دہائی کا دور ملک کی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ دنیا اس وقت پاکستان کو آئیڈیل مانتی تھی اور اس جیسا ملک بننے کے خواب دیکھے جاتے تھے۔ لیکن بدعنوان سیاست دانوں نے اس خوشگوار صورت حال کو ابتری اور بد حالی میں تبدیل کردیا۔ وزیر اعظم کا دوسرا مؤقف اسی پہلی رائے کی تکمیل کے لئے ان کا لائحہ عمل ہے کہ وہ تمام بدعنوان سیاست دانوں یا سابقہ حکمرانوں کو کیفر کردار تک پہنچاکر ہی دم لیں گے۔ وہ اس کی دو وجوہات بتاتے ہیں۔ ایک یہ کہ قانون کی بالادستی کے لئے ہر کسی کو اس کے کئے کی سزا ملنی چاہئے اور دوسرے یہ کہ جب تک سابق بدعنوان حکمرانوں سے ان کی ناجائز دولت کا حساب نہیں لیا جائے گا، اس وقت تک آئندہ کے لئے لوگ عبرت نہیں پکڑیں گے۔ حکومت سنبھالنے سے پہلے اور تھوڑی دیر بعد تک عمران خان اور ان کے وزیر یہ دعوے بھی کرتے رہے ہیں کہ وہ سابق حکمرانوں کو شکنجے میں لاکر ملک کے لوٹے ہوئے اربوں ڈالر بیرون ملک سے واپس لائیں گے۔ حیرت انگیز طور پر عمران خان اب بھی شریف اور زرداری خاندان کو عبرت کا نشان تو بنانا چاہتے ہیں لیکن وہ لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی کا ذکر نہیں کرتے۔

عمران خان کی جمہوریت پسندی اور بدعنوانی کے خلاف ان کی صدق دلی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک فوجی آمر کے دور کو ملک کی تاریخ کا سنہرا دور مانتے ہیں لیکن ایوب خان کے ذریعے سیاست میں فوج کی مداخلت کے لئے قائم ہونے والی روایت کا ذکر نہیں کرتے۔ وہ نہ ہی یہ سوچنے اور بتانے کی زحمت کرتے ہیں کہ ملک کو اس وقت نظام حکومت اور ریاستی ڈھانچے کے جن نقائص کا سامنا ہے، اس کی بنیاد اسی ’سنہری دور‘ میں رکھی گئی تھی۔ ایوب خان ایک ایسے بے اصول حکمران کا نام تھا کہ اس نے نہ صرف ملک کے پہلے آئین کو منسوخ کرنے کا اہتمام کیا بلکہ اپنی آمریت کے دور میں جو آئین ملک پر مسلط کیا، اقتدار سے رخصت ہوتے ہوئے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا حوصلہ بھی نہیں کیا۔ 1962 کے آئین کے تحت ایوب خان کو صدارت سے علیحدہ ہوتے ہوئے اسمبلی کے اسپیکر کو اختیار سونپنا چاہئے تھا لیکن ا س کی بجائے انہوں نے کمانڈر انچیف جنرل یحی کو اقتدار سونپا۔ گویا ان کا اقتدار پر قبضہ اور اس سے علیحدگی دونوں ملک کے مروجہ آئین کی خلاف ورزی تھی۔

2018 کے انتخاب میں پونے دو کروڑ ووٹ لے کر اقتدار سنبھالنے والی حکومت اور اس کے سربراہ کو صرف جمہوری یا سیاسی حکمرانوں کی بدعنوانی یا بے قاعدگی پر ہی غصہ ہے۔ وہ نہ تو سابق فوجی حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی غیر قانونی و غیر آئینی حرکات کا ذکر کرتے ہیں اور نہ ہی ان ادوار میں ہونے والی بدعنوایوں پر ان کا دھیان جاتا ہے۔ عمران خان کے نزدیک صرف شریف خاندان اور آصف زرادری ہی اس ملک میں بدعنوانی کے ذمہ دار ہیں۔ اسی لئے وہ جہانگیر ترین کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود انہیں قابل اعتماد اور عزیز از جان سمجھتے ہیں۔ ان کا یہی رویہ بدعنوانی کے خلاف اور جمہوریت کی حمایت میں ان کے مقدمہ کو کمزور کرتا ہے۔ مخالفین کو ان وجوہات کی وجہ سے عمران خان کی باتوں میں سیاسی انتقام کی بو آتی ہے اور ان کے رویہ کو غیر جمہوری سمجھا جاتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم اور صوبوں کے اختیارات کے بارے میں ان کے خیالات کے علاوہ صدارتی نظام کے بارے میں عمران خان کے حامیوں کے دلائل ان کے سیاسی اور جمہوری مزاج کے بارے میں نت نئے سوالوں کو جنم دے رہے ہیں۔

اگرچہ حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ملکی معاشی مسائل سے نمٹنے میں ناکامی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی جب اس کے سربراہ کی جمہوریت پسندی کے بارے میں شبہات پیدا ہوجائیں تو یہ سوال اٹھنا فطری ہوجاتا ہے کہ کیا موجودہ نظام ناکام ہورہا ہے۔ کیا عمران خان اسی پارلیمانی طریقہ کو مسترد کرنا چاہتے ہیں، جس کے سہارے تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے وہ اقتدار تک پہنچے ہیں؟ حکومت کی ناکام پالیسیوں اور واضح سیاسی، انتظامی اور معاشی لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ سوالات ملک میں منفی مباحث اور جمہوریت کے بارے میں تشویش کا سبب بن رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اس صورت حال کو کسی بھی طرح اپوزیشن کی عیاری اور اپنی معصومیت سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ اس ملک کے عوام جمہوریت اور استحکام کے نام پر کئی بار ڈسے گئے ہیں۔ اب اگر ایک منتخب لیڈر ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے، انہیں جمہوریت کے راستے سے ہٹانے کا سبب بنے گا یا عوام کی جمہوریت دوستی کے بارے میں غلط فہمی پیدا کرے گا تو یہ رویہ ایک نئے اور خوفناک قومی بحران کا سبب بن سکتا ہے۔

ملک کا ہر جمہوریت پسند موجودہ حکومت کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اس موقع کے انتظار میں ہیں کہ عمران خان کی حکومت خود اپنی ہی غلطیوں کے بوجھ تلے دب جائے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کسی تفہیم اور انتظام کے تحت اقتدار تک پہنچ سکیں۔ لیکن اس ملک کی اکثریت اور ملک کے آئینی پارلیمانی نظام کا احترام کرنے والے سب لوگ موجودہ حکومت کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔

تاہم اس کا انحصار عمران خان اور ان کی ٹیم پر ہی ہے۔ اگر وہ تصادم کا راستہ چھوڑ کر اپنی معاشی اور سیاسی ترجیحات متعین نہیں کریں گے تو کامیابی تو ممکن نہیں ہو گی، اقتدار پر ان کی گرفت بھی کمزور ہونے لگے گی۔
 

سید ذیشان

محفلین
عجیب سے تحریر ہے بے ربط قسم کی۔ پوری تحریر ون لائنرز پر مشتمل ہے جن کو پراگراف کی شکل دی گئی ہے۔ اس طرح کی تحریر کو پڑھنا تو انتہائی مشکل کام ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
چپ چاپ اسحاق ڈار ماڈل
جاوید چوہدری جمع۔ء 12 اپريل 2019

’’لیکن ہمارا گیا کچھ نہیں‘‘ والد خاموشی سے سنتا رہا‘بیٹے نے کہا ’’ڈبہ آپ کھولتے یا میں‘ یہ جنگل میں کھلتا یا گھر میں‘ نتیجہ ایک ہی نکلتا‘‘ والد نے پہلو بدلا اور آہستہ سے کہا ’’بیٹا یہ بات اتنی سادہ نہیں‘ آپ کتنا بڑا نقصان کر چکے ہیں! آپ نہیں جانتے‘‘ بیٹے نے ناں میں سر ہلا دیا‘ وہ ہار ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔

یہ بات بظاہرمعمولی تھی‘ آپ بھی سنیں گے تو آپ بھی بیٹے سے اتفاق کریں گے‘یہ ایک گاؤں کی کہانی تھی‘ گاؤں جنگل کے ساتھ تھا‘ بیٹا مدرسے میں پڑھتا تھا‘ وہ چھٹی پر گھر آنے لگا تو استاد نے اسے لکڑی کا چھوٹا سا ڈبہ دیا اوروہ والد تک پہنچانے کا حکم دے دیاتاہم استاد نے بچے کو نصیحت کی ’’ تم نے راستے میں کسی قیمت پر یہ ڈبہ نہیں کھولنا‘‘بچے نے وعدہ کر لیا‘ وہ گھر کی طرف چل پڑا‘ راستے میں اسے ڈبے میں کوئی چیز ہلتی ہوئی محسوس ہوئی ’’یہ کیا چیز ہے‘‘ وہ بار بار سوچنے لگا‘ وہ ڈبہ کھول کر دیکھنا چاہتا تھا‘ ہمیں جس چیز سے روکا جائے ہم وہ ضرور کرتے ہیں‘ یہ ہماری نفسیات ‘ یہ ہمارا جینسز (ابتدا) ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا ؑ کو جنت میں پھل کھانے سے منع کیا تھا لیکن وہ دونوں وہ پھل کھا کر رہے‘کیوں؟ ہماری نفسیات! میں بچپن میں میٹھا نہیں کھاتا تھا‘ میرے دودھ یا چائے میں چینی مل جاتی تھی تو مجھے ابکائی آ جاتی تھی لیکن مجھے جب شوگر کا مرض لاحق ہوا تو مجھے میٹھا اچھا لگنے لگا‘ میں اس تبدیلی کو کسی دوائی کا کیمیکل ری ایکشن سمجھتا رہا مگر پھر ڈاکٹر نے بتایا’’ آپ کومیٹھا منع کر دیا گیا ہے یہ آپ کو اس لیے اچھا لگ رہا ہے‘‘ یہ ہماری فطرت ہے ہمیں جس سے جتنا روکا جائے ہم اس کی طرف اتنے ہی مائل ہوتے ہیں۔

بچہ بھی بار بار ڈبے کو دیکھتا تھا اور اس کے اندر ڈبہ کھولنے کی خواہش بڑھتی جاتی تھی یہاں تک کہ وہ جنگل کے درمیان پہنچ کر مجبور ہو گیا‘ اس نے سوچا میں ڈبہ کھولتا ہوں‘ دیکھتا ہوں اور بند کر کے والد کو دیتا ہوں‘ والد اور استاد دونوں کو خبر نہیں ہو گی‘ وہ گھاس پر بیٹھا اور ڈبہ کھول دیا‘ ڈبے کے اندر چوہے کا چھوٹا سا بچہ تھا‘ چوہے کے بچے نے چھلانگ لگائی اور جنگل میں غائب ہو گیا‘ بچہ پریشان ہو گیا‘ وہ اب والد اور استاد کو کیا منہ دکھائے گا‘ وہ ان سے سچ بولے یا جھوٹ ؟وہ دیر تک گومگو کی حالت میں بیٹھا رہا یہاں تک کہ اس نے والد کو سچ بتانے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ گھر آیا اور والد کو ساری بات بتا دی تاہم آخر میں اس کا کہنا تھا‘ ڈبے میں چوہے کا بچہ تھا‘ ڈبہ آپ کھولتے یا میں اور یہ گھر میں کھلتا یا جنگل میں‘ چوہے نے بہرحال نکل کر بھاگ ہی جانا تھا ‘ ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔

والد نے یہ دلیل سن کر کروٹ بدلی اور نرم آواز میں کہا ’’بیٹا آپ نے اپنا بہت بڑا نقصان کر دیا‘ آپ نے میرا اور استاد دونوں کا اعتماد کھو دیا اور اعتماد دنیا کی سب سے بڑی نعمت‘ سب سے بڑی دولت اور سب سے بڑا جذبہ ہوتا ہے‘‘ بیٹا خاموشی سے سنتا رہا‘ والد نے کہا ’’بیٹا آپ کے استاد نے آپ کے ہاتھوں چوہا نہیں بھجوایا تھا‘ اعتماد بھجوایا تھا اور آپ نے وہ اعتماد توڑ کر خود کو بے توقیر کر دیا‘‘بچے نے والد کی بات سے اتفاق نہ کیا لیکن ہمیں کر لینا چاہیے۔

ہم لوگ محبت کو دنیا کا سب سے بڑا جذبہ سمجھتے ہیں لیکن ٹرسٹ (اعتماد) محبت سے بھی بڑا جذبہ ہوتا ہے‘ ہم جس سے محبت کرتے ہیں ضروری نہیں ہم اس پراعتماد بھی کرتے ہوں چنانچہ اعتماد سپریم ہے اور ہم ہوں‘ ریاست ہو یا پھر حکومت ہو یہ جب اعتماد کھو دے تو پھر کچھ نہیں بچتااور ہماری موجودہ حکومت بھی اس وقت اعتماد کے شدید بحران کا شکار ہے‘ میں دل سے سمجھتا ہوں عمران خان نے ووٹ حاصل کیے‘ انھیں اب پانچ سال پورے کرنے کا موقع ملنا چاہیے لیکن میری یہ خواہش اب پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

میاں نواز شریف کی ضمانت‘ شہباز شریف کی لندن روانگی‘ حمزہ شہباز کے ایشو پر نیب کی پسپائی اور اب حنیف عباسی کی رہائی‘ یہ واقعات ثابت کررہے ہیں واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے اور اس کی واحد وجہ اعتماد ہے‘ حکومت اپنا اعتماد کھوتی جا رہی ہے‘ بالخصوص ہم معاشی میدان میں بری طرح مار کھا رہے ہیں‘ کاروبار تباہ ہو چکے ہیں‘ انڈسٹری آئی سی یو میں پہنچ چکی ہے اور رئیل اسٹیٹ کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے۔

ڈالر حکومت کے کنٹرول میں نہیں‘ ہماراٹوٹل بجٹ 5932 ارب روپے ہے لیکن حکومت نے آٹھ ماہ میں 3400 ارب روپے قرض لے لیا‘ حکومت روز 15ارب روپے قرض لے رہی ہے‘ ہم اگر اپریل‘ مئی اور جون کے مہینوں کا قرض بھی شامل کر لیں تو حکومت بجٹ سے پہلے کل بجٹ کے برابر قرضہ لے چکی ہو گی اوریہ سیدھی سادی تباہی ہے‘ ٹیکسوں کے ریونیو میں بھی 236 ارب روپے کا شارٹ فال ہے‘ یہ شارٹ فال بجٹ تک ساڑھے چار سو ارب روپے ہوجائے گا‘ بجلی کی قیمت میں اوسطاً ایک روپیہ 27 پیسے فی یونٹ‘ گیس میں 143فیصد اور پٹرول کی قیمت میں 11فیصد اضافہ ہو گیا‘ مہنگائی ملکی تاریخ میں پہلی بار دس فیصد تک پہنچ گئی۔

ہمارے ہمسائے افغانستان میں مہنگائی چار فیصد‘ چین میں1.7 فیصد‘ بھارت میں 2.57 فیصد‘ بنگلہ دیش میں5.47 فیصد اورسری لنکا میں 4.3 فیصدہے گویا ہم افغانستان سے بھی اڑھائی گنا مہنگے ہیں‘ ادویات کی قیمتوں میں بھی چار سو فیصد اضافہ ہو گیااور آپ ملک کی کسی دکان‘ دفتر‘ فیکٹری یا گھر میں چلے جائیں‘ آپ کو لوگ روتے ہوئے ملیں گے‘ بینکوں کے پاس کیش نہیں‘ آپ کو ہر دوسرا شخص ادھار مانگتا ملے گااور لوگ بچوں کی فیسیں اور گھر کے یوٹیلٹی بل پورے نہیں کر پا رہے۔

یہ صورتحال اگر اسی طرح جاری رہی تو ملک میں بجٹ کے بعد دنگے فساد شروع ہو جائیں گے‘ ہم قحط اور کساد بازاری کے دہانے پر پہنچ جائیں گے لیکن آپ وزراء کے دعوے دیکھیے‘ یہ لوگ سپر جینئس ہیں یا پھر یہ عقل سے بالکل پیدل ہیں کیونکہ ان حالات میں کوئی نارمل شخص یہ دعوے نہیں کر سکتا۔ آپ کو یاد ہو گا عمران خان نے دعویٰ کیا تھا یہ ملک کے اندر سے آٹھ ہزارارب روپے ٹیکس جمع کر کے دکھائیں گے‘ یہ بھی فرمایاتھا ایماندار حکومت آئے گی تو بیرون ملک سے ڈالروں کی بارش ہو جائے گی‘ یہ دعویٰ بھی کیا گیا دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے دیانتدار حکومت کا انتظار کر رہی ہیں۔

مراد سعید نے تو یہ تک فرما دیاتھا ہم سوئٹزرلینڈ سے دو سو ارب ڈالر واپس لائیں گے اور سو ارب ڈالر فلاں کے منہ پر ماریں گے اور سو ارب فلاں کے منہ پر‘ میں نے کل ان کی ایک اور ویڈیو دیکھی‘ یہ اس میں فرما رہے تھے ہم پاکستان کے لوٹے ہوئے 60 ہزار ارب روپے واپس منگوائیں گے (یہ اتنا بھی نہیں جانتے پاکستان کا کل بجٹ ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے ہے اور یہ 60 ہزار ارب روپے باہر سے لانا چاہتے ہیں) اور آپ کو یہ بھی یاد ہوگا عمران خان نے بتایا تھا پاکستان میں روزانہ آٹھ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے‘ حکومت کو 237دن ہو چکے ہیں۔

ایماندار قیادت کی وجہ سے یہ کرپشن یقینا رک چکی ہے لہٰذا ہمارے خزانے میں اب تک 1896ارب روپے کا اضافہ ہو جانا چاہیے تھا لیکن ریونیو تیزی سے گرتا چلا جا رہا ہے‘صرف اسٹاک ایکس چینج میں دس دن میں چھ کھرب روپے ڈوب گئے لہٰذا پوری دنیا خطرے کے سائرن بجا رہی ہے‘ آپ ورلڈبینک‘ایشین ڈویلپمنٹ بینک اوراسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے تازہ ترین بیانات دیکھ لیجیے‘ یہ تمام ادارے پاکستانی معیشت پر شدید پریشان ہیں اور یہ پریشانی ثابت کرتی ہے حکومت اندر اور باہر دونوں جگہوں پر اعتماد کھو چکی ہے اور یہ بہت بڑا نقصان ہے‘ عمران خان کے ساتھ لوگوں کی امیدیں بندھی تھیں‘ یہ امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں‘ حکومت اب زیادہ دیر تک سوشل میڈیا پر حسن نثار‘ ہارون الرشید اور ندیم ملک کو گالیاں دے کر صورتحال نہیں سنبھال سکے گی‘حکومت کو اب ضد چھوڑ دینی چاہیے۔

یہ لوگ اب مان لیں یہ غلط فہمی کا شکار تھے‘ یہ آج تک جس اسحاق ڈار کا منہ چڑاتے رہے ہیں‘ وہ جیسے تیسے‘ مانگ تانگ کر ملک چلاتا رہا اور ملک ٹھیک ٹھاک چلتا رہا‘ یہ آئے اور آ کر ہر ادارے‘ ہر چیز کا ستیا ناس کر دیا چنانچہ عقل کا تقاضا ہے یہ معاشی پالیسیوں کو چپ چاپ اسحاق ڈار ماڈل پر لے جائیں‘ یہ ڈار صاحب کی تکنیکس بھی لے لیں اور ٹیم بھی تاکہ کم از کم معیشت سانس تو لے سکے‘ ملک آگے چل سکے‘ اسد عمر جو بھی تیر چلانا چاہتے ہیں یہ آہستہ آہستہ چلائیں‘ یہ اناڑی مکینک کی طرح سارا انجن کھول کرنہ بیٹھ جائیں‘ یہ اگر ایک بار کھل گیا تویہ پھر کسی سے بند نہیں ہو سکے گا۔

حکومت اپنی کریڈیبلٹی اپنے ٹرسٹ پر بھی توجہ دے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ اگر اس بچے کی طرح ہر ڈبہ کھول کر دیکھتی رہے گی اور ڈبوں میں بند چوہے اسی طرح بھاگتے رہیں گے توپھر لوگوں کا حکومت پر اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا اور اعتماد نکاح کی طرح ہوتا ہے‘ یہ اگر ایک بار ٹوٹ جائے توپھر یہ دوبارہ بحال نہیں ہوتا‘ لوگوں نے عمران خان پر اعتماد کیا تھا‘ یہ عوام سے اس اعتماد کا انتقام نہ لیں‘ یہ ان پر رحم کریں۔
 

جاسم محمد

محفلین
موازنۂ ڈار و عمر
11/04/2019 فیصل بٹ



حکومتی کارکردگی جانچنے کے لئے سو دن کی بظاہر بے معنی حد معیّن کرنے کے پیچھے جو حکمت کارفرما تھی وہ یا تو وزیرِاعظم جانتے ہیں یا خدا۔ خاکسار نے تو اتنے قلیل عرصے میں صرف ٹی وی سکرینوں پر جلوہ افروز اینکر و تجزیہ نگاران کو محض اینکر یا تجزیہ نگار سے سینئر اینکر یا سینئر تجزیہ نگار بنتے دیکھا ہے۔ بظاہر ’سینئر‘ کی پخ بھی محض یہ بتانے کے لئے لگائی جاتی ہے کہ موصوف یا موصوفہ نے اس میدان میں چند ہفتے گذار لئے ہیں۔

یہ اس بات کی ہرگز ضمانت نہیں کہ ان خواتین و حضرات کی رائے کو سنجیدگی کی ساتھ لیا جا سکتا ہے۔ اب جب کہ حکومت کو اقتدار میں آئے آٹھ ماہ ہونے کو آئے ہیں، اس کی کاکردگی پر بحث جاری ہے۔ کس فریق کے دلائل میں کتنا وزن ہے اس کا دارومدار سننے والے کی فہم و فراست سے زیادہ اس کی سیاسی وابستگی پر ہے۔ راقم نہ تو صاحبِ فہم ہونے کا دعویدار ہے اور نہ ہی کسی خاص جماعت کا حامی (اگلے انتخابات میں ووٹ خریدنے کا ارادہ رکھنے والے خواتین و حضرات نوٹ فرما لیں ) لہذا اسے ان آٹھ ماہ میں مچائے گئے شوروغل میں سے محض تین باتیں سمجھ میں آئی ہیں۔

1۔ مملکتِ خداداد کو معاشی مسائل نہیں بلکہ باقاعدہ معاشی بحران کا سامنا ہے

2۔ اس معاشی بحران کی تمام تر ذمّہ داری گذشتہ حکومت پر ہے

3۔ اس بحران کا حل کم از کم اسد عمر صاحب کے پاس نہیں

اب جہاں گذشتہ حکومت کی معاشی کارکرگی کا ذکر آئے گا وہاں اسحاق ڈار صاحب کا ذکر ناگزیر ہے۔ راقم کو زندگی میں جن اشخاص پر ٹوٹ کر غصّہ آیا ہے ان میں ڈار صاحب کا مقام خاصا اونچا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ میاں صاحب نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں بھاری مینڈیٹ کے خمار، بلکہ بخار میں جہاں لاہور کو پیرس بنانے، کراچی کو نیویارک بنانے اور گوجرانوالہ کو گوجرانوالہ ہی رہنے دینے پر مصر تھے وہاں ترنگ میں آ کر فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولنا بھی خاصا آسان کر دیا۔

جوابی ترنگ میں آ کر خاکسار نے بھی پانچ سو ڈالر کی خطیر رقم (جو خاکسار کی کل جمع پونجی سے بھی کچھ زیادہ ہی تھی) سے ایک عدد فارن کرنسی اکاؤنٹ کھول لیا۔ اس اکاؤنٹ کھولنے کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر ڈالے۔ ان دھماکوں کی گونج ابھی باقی تھی کہ حکومت نے ڈالر اکاؤنٹ منجمد کر ڈالے۔ اس وقت وزیرِخزانہ تو غالباً سرتاج عزیز صاحب تھے لیکن واقفانِ حال نے اس فیصلے کا سہرا ڈار صاحب کے سر باندھا۔

شکل و صورت سے سرتاج عزیز صاحب بیس برس قبل بھی آج ہی کی طرح معقول و بردبار لگتے تھے لہٰذا خاکسار کے نزدیک اس خبر کو صحیح تسلیم نہ کرنے کی وجہ نہ تب تھی نہ اب ہے۔ ڈالروں کے عوض جو پاکستانی روپے دیے گئے وہ بھی مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ سے دو چار روپے کم ہی تھے۔ پانچ سو ڈالر کے عوض ملنے والی رقم پر ہزار دو ہزار روپے کے مالی نقصان سے زیادہ خاکسار کو قلق اس بات کا تھا کہ اسے بیک جنبشِ قلم فارن کرنسی اکاؤنٹ ہولڈرز کی فہرست سے نکال کر مقامی کھاتہ داروں کی قطار میں شامل کر دیا گیا۔ نتیجتاً راقم کے دل میں اسحاق ڈار کے خلاف ایسی گرہ پڑی جو آج تک نہ کھل سکی۔

جلاوطنی کے دوران دیے گئے ایک انٹرویو میں میاں صاحب نے تسلیم کیا کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ منجمد کرنا ان کی غلطی تھی۔ جہاں تک راقم کو علم ہے یہ وہ واحد غلطی ہے جسے میاں صاحب نے تسلیم کیا ہے (خیال رہے کہ موصوف تین بار معزول ہو چکے ہیں ) ۔ اس اعتراف کے بعد خاکسار نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر کبھی میاں صاحب کی حکومت بنی تو ڈار صاحب کو زیادہ اہمیت نہیں ملے گی (اگر آپ اس مقام پر ہنسنا چاہیں تو راقم معترض نہ ہو گا، البتّہ یہ نشاندہی ضرور کرے گا کہ اس قسم کے نتیجے ہمارے سٹار اینکر اور تجزیہ نگار روزانہ کی بنیاد پر نکالتے ہیں ) ۔

لیکن جب میاں صاحب کی تیسری حکومت بنی تو ڈار صاحب نہ صرف وزیرِخزانہ مقرّر ہوئے بلکہ خاکسار کے سینے پر مونگ دلنے کے لئے ہر قابلِ ذکر کمیٹی کی سربراہی بھی ڈار صاحب کو سونپ دی گئی۔ گویا ’جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے‘ والی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ان دنوں راقم کو تو یہ بھی شک پیدا ہو گیا کہ اگر حکومتی جماعت میں سے کسی کے ہاں زچگی کا مرحلہ درپیش آیا تو پیدائش کے مراحل سے لے کر زچہ و بچہ کی ابتدائی نگہداشت کے لئے بھی ڈار صاحب کو ہی زحمت دی جائے گی اور وہ مان بھی جائیں گے۔

تاہم ایسا بھی نہیں تھا کہ ڈار صاحب کے لئے میدان خالی تھا۔ میڈیا میں راقم کے کئی ہمنوا تھے لہٰذا ’منشی‘ ، ’اکاؤنٹنٹ‘ ، ’سمدھی‘ ، ’ڈارونامکس‘ جیسی پھبتیاں کسی جاتی رہیں جس سے خاکسار کی تلملاہٹ اگرچہ مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوئی لیکن خاصا افاقہ ہوا۔

ڈار صاحب کے برعکس اسد عمر کا تعارف بے داغ ماضی کے حامل ایک ایسے کاروباری عبقری کے طور پر کرایا گیا جس نے کم عمری میں اینگرو جیسے بڑے ادارے کی سربراہی سنبھالی اور کامیابی کے نئے جھنڈے گاڑ دیے۔ اگرچہ ان ہی کی سربراہی کے دوران اینگرو کو مصنوعی طور پر کھاد کے قیمتیں بڑھانے پر اربوں روپے کا جرمانہ بھی ہوا لیکن چونکہ ان دنوں میڈیا کا ایک بڑا حصّہ تبدیلی کے بخار میں مبتلا تھا اس لئے اس بات کا اتنا ذکر بھی نہیں ہوا جتنا ان دنوں لاہور میں بارش سے کھڑے ہونے والے پانی کا ہوتا تھا۔

خاکسار کے لئے بغضٍ ڈار کے علاوہ اسد عمر صاحب سے متاثر ہونے کی ایک وجہ ان کی سالانہ کروڑوں کی آمدن والی نوکری چھوڑ کر بظاہر ملک و قوم کی خدمت کے لئے سیاست میں آنے کا فیصلہ تھا کیونکہ اگر خاکسار کی آمدن کسی معجزے کے نتیجے میں کروڑوں تک جا پہنچے تو ملک و قوم کی خاطر اسے لات مارنے کا خیال چھو کر بھی نہ گزرے۔

پچھلی حکومت کے دور میں اسد عمر صاحب ٹاک شوز کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی کافی متحرّک تھے۔ معاشی اصولوں سے قطعی نابلد ہونے کی وجہ سے خاکسار کو ان بیانات و پیغامات سے یہ تاثر ملتا تھا کہ ڈار صاحب کو معیشیت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں اور عمر صاحب کو اگر سب کچھ نہیں تو بہت کچھ پتہ ہے۔

اسد عمر صاحب کی بزرجمہری پر ہلکا سا شک اس وقت گزرا جب الیکشن کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ فرمایا کہ وہ وزارت سنبھالنے کی تیاری موسیقی سن کر کر رہے ہیں۔ تاہم پھر خیال آیا کہ انسان چاہے کتنے ہی بلند کاررباری مناصب پر فائز رہے، وزارت کا بہر حال اپنا نشہ ہے اور تھوڑا بہت چھچھور پن گوارا کر لینا چاہیے۔ ویسے بھی پچھلے چند برسوں میں ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر عمر صاحب کی آنیاں جانیاں دیکھ کر خاکسار یہ گمان کر بیٹھا تھا کہ موصوف ڈار صاحب کی ’عوام دشمن‘ پالیسیوں کا تریاق تیّار کیے بیٹھے ہیں اور وزارت کا حلف اٹھانے کی دیر ہے کہ ’عوام دوست‘ پالیسیوں کا سنہرا دور شروع ہو جائے گا۔ آٹھ ماہ کی کارکردگی دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف پالیسی معاملات پر کوئی توجّہ نہیں تھی بلکہ موصوف نے وزارت کی تیّاری کے لئے گانا بھی غالباً غلط چنا تھا۔

معاشی اشاریے کچھ بھی کہیں حقیقتاً عوام پچھلے دورِ حکومت میں بھی مطمٔن نہیں تھے۔ مہنگائی کا ماتم اور گیس و بجلی پر بلبلاہٹ پہلے بھی تھی اور حکومت دعوؤں اور عمل میں فاصلہ پہلے بھی تھا۔ فرق یہ ہے کہ پہلے چیک کیش کرانے پر ٹیکس جیسے غیر مقبول فیصلوں اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم رکھنے جیسی متنازعہ پالیسی کا دفاع کرنے کے لئے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار آنکھوں میں سرمہ ڈالے ٹاک شوز اور پریس کانفرنسوں میں بذات خود آتے تھے اور دلائل کے وزنی یا بے وزن ہونے سے قطع نظر کم از کم یہ تاثّر دینے میں کامیاب رہتے کہ فیصلے صحیح ہوں یا غلط، فیصلہ ساز وہی ہیں۔

اس کے بر عکس ہمارے سابقہ کاروباری عبقری اور موجودہ وزیرِ خزانہ بظاہر فیصلے تو کر لیتے ہیں لیکن ان کا بوجھ اٹھانے سے شرماتے ہیں۔ اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرے تو اس کا ملبہ سٹیٹ بینک پر ڈال کر معصوم بن جاتے ہیں۔ پٹرول کی قیمت بڑھے تو یہ اوگرا کی کارستانی ہے۔ کالے دھن کو سفید کرنے کی جس سکیم کا چرچا ہے وہ بھی مبیّنہ طور پر تاجر برادری کے پرزور اصرار بھی دی جا رہی ہے، کسی سوچی سمجھی مالیاتی پالیسی کے تحت نہیں۔

راقم کی شدید خواہش ہے کہ آنے والے چند ماہ میں عمر صاحب اپنی ساکھ اور ملکی معیشیت کو بحال کرنے کا کوئی راستہ تلاش کر لیں وگرنہ اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ ڈار صاحب کا پانچ سو ڈالر پر دیا گیا جو زخم مشرف صاحب کے دس سالہ دور اور اس کے بعد کے عشرۂ جمہوریت میں بھی ہرا رہا وہ نئے پاکستان کے پہلے ہی سال میں مندمل ہونا شروع ہو جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
وزیراعظم تو بڑے ہینڈسم ہیں!
اظہر تھراج ہفتہ 13 اپريل 2019
1628955-imrankhanhandsome-1555054098-886-640x480.jpg

ہمارے وزیراعظم بہت ہینڈسم ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’اتنی زیادہ چیزیں اچھی ہونے والی ہیں، اسٹاک ایکسچینج، انڈسٹری، پراپرٹی، میڈیا میں اتنی نوکریاں آنے والی ہیں کہ خوشحالی آجائے گی، پان والا، ٹھیلے والا کہے گا مجھ سے ٹیکس لے لو، اگر ایسا نہ ہوا تو میری تکہ بوٹی کردینا‘‘۔ یہ الفاظ کسی عام پارٹی ورکر کے نہیں، نہ ہی یہ کسی نجومی نے پیشگوئی کی ہے۔ یہ الفاظ ایک وفاقی وزیر کے ہیں۔ یہ وہی وزیر ہیں جو کراچی کی سڑکوں پر موٹر سائیکل لے کر نکل پڑتے ہیں، چینی قونصلیٹ پر حملہ ہوا تو پتلون کے ساتھ گن لگا کر پہنچ گئے، مار دھاڑ ان کا انداز ہے۔ ان کے منہ میں گھی شکر کہ ایسا ہوجائے۔ ایک اچھے انسان، اچھے مسلمان کو گمان بھی اچھا رکھنا چاہیے۔ ایسا نہ بھی ہوا تو کیا فکر ہمارے وزیراعظم تو ہینڈسم ہیں۔

چند روز پہلے بھی ایسا کچھ سننے کو ملا۔ صاحب تقریر میں فرما رہے تھے کہ دو کے بجائے ایک روٹی کھاؤ، جب حالات ٹھیک ہوجائیں تو ڈھائی کھا لینا، زیادہ بھی کھا سکتے ہیں۔ انہوں نے خوشحالی کےلیے تین چار ہفتے نہیں دو سال کا وقت مانگا۔ وزیر ریلوے پی ٹی آئی کے تو نہیں لیکن ان پر بھی رنگ انہی کا ہے۔ وہ روز کوئی نہ کوئی نئی چھوڑتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ایک مہینہ اہم ہے، کبھی کہتے ہیں چند ہفتوں کی گیم ہے۔ خاتون وزیر موسمیات نے تو حد کردی۔ فرماتی ہیں کہ یہ جو بارشیں ہورہی ہیں یہ ہمارے وزیراعظم کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ ان کو جھٹلا بھی نہیں سکتے، کیونکہ ہمارے وزیراعظم ہیں ہی بڑے ہینڈسم۔

ارسطو کا تو آپ نے سنا ہوگا۔ وہ فرماتے تھے کہ انسان ایک سماجی جانور ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ بھی وقت کے ارسطو ہیں۔ ان کا سماجی تو کہیں گم ہوگیا ہے، بس جانور ہی بچا ہے۔ جب ان سے معیشت کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو آئی سی یو کی بات کرتے ہیں، اسکول کا بتاتے ہیں، گھر کی باتیں سناتے ہیں۔ مایوس تو یہ بھی نہیں کرتے، خواب تو یہ بھی دکھاتے ہیں۔ کیونکہ وزیراعظم کی طرح یہ بھی بہت ہینڈسم ہیں۔

پتا چلا ہے کہ تعلیم کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت نے 25 اضلاع بنائے۔ 19 اضلاع میں ماڈل تعلیمی پالیسی بالکل ناکام ہوگئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2017 میں خصوصی منصوبے کے تحت 41 ہزار اسٹوڈنٹس کو انرول کیا گیا، جن میں سے 21 ہزار جعلی نکلے۔ ایک اسٹوڈنٹ کے کھاتے میں 11 سو روپے ماہانہ ڈالے گئے۔ ایک ہزار کے حساب سے 2 کروڑ روپے ماہانہ گھپلا بنتا ہے، سالانہ 24 کروڑ روپے بنتے ہیں۔ ایک ضلع میں 90 اسکول ظاہر کیے گئے۔ جب معائنہ کیا گیا تو ان میں سے 70 اسکول تھے ہی نہیں۔ اسی صوبے کے دارالحکومت میں ایک شاہکار بن رہا ہے، جو 61 ارب کی لاگت سے وسعت پاتے پاتے 83 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ یہ 6 ماہ میں مکمل ہونا تھا، لیکن کئی 6 ماہ گزر چکے ہیں، تم کو اس سے کیا؟ ہمارے وزیراعظم تو بڑے ہینڈسم ہیں۔

ادارہ شماریات کہتا ہے رواں سال مہنگائی کی شرح 9.41 فیصد بڑھی، کھانے پینے کی اشیاء میں مہنگائی کی شرح 6.01 فیصد رہی۔ جلد خراب ہونے والی خوراک گزشتہ سال کی نسبت رواں سال 6.10 فیصد جبکہ محفوظ رہنے والی اشیا 22.00 فیصد مہنگی ہوئیں۔ بچوں کے ڈائپرز سے لے کر ادویات، سب کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ بجلی، گیس، تیل، ضروریات زندگی سب مہنگے ہوئے۔ پھر کیا ہوا، تم اس بحث میں نہ پڑو۔ یہ سب سابقہ حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ دو سال دے دو، سب ٹھیک ہوجائے گا، کیونکہ ہمارے وزیراعظم بہت ہینڈسم ہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ ساہیوال، کراچی میں آئے روز کے پولیس مقابلے، انصاف کےلیے دہائی دیتے شہری۔ سب تھوڑا سا وقت دیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ سب پرانوں کا کیا دھرا ہے۔ تھوڑا سا وقت دے دیں، کیونکہ ہمارے وزیراعظم بہت ہینڈسم ہیں۔

حکومت نے آتے ہی سو روزہ پلان دیا تھا کہ پاکستان کو مدینے کی طرز پر فلاحی ریاست بنائیں گے۔ بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے گا۔ اداروں میں میرٹ لایا جائے گا۔ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے گا (جس کا بہت کام سابقہ حکومت نے کردیا تھا)۔ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بناکر محروم علاقوں میں اقتصادی پیکیج دیا جائے گا۔ ایک کروڑ نئی نوکریاں پیدا کی جائیں گی۔ خارجہ پالیسی میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ ملک بھرمیں درخت لگائے جائیں گے۔ کراچی میں قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ اداروں کو سیاست سے پاک کیا جائے گا۔ ٹیکس کا بوجھ کم کیا جائے گا۔ بجلی اور گیس کی قیمت کو کم کیا جائے گا۔ وزیراعظم اسکیم کے تحت 50 لاکھ سستے گھر بنائے جائیں گے۔ نئے سیاحتی مقامات کا اعلان کیا جائے گا۔

اس سب کے بارے میں نہیں پوچھنا، یہ تو پانچ سال کےلیے ہے۔ ہم نے تو صرف ’’شغل‘‘ میں ہی سو دنوں کا کہا تھا۔ سابقہ حکومتوں کا گند صاف کرنے کےلیے کچھ وقت تو چاہیے ناں۔ آپ پہلے تو نہیں بولتے تھے، اب کیو ں سوال کرتے ہو؟ لفافے نہیں ملتے اس لیے! تم غلط کہتے ہو۔ ہمارے وزیراعظم بہت ہینڈسم ہیں۔

کشکول توڑ دیں گے، قرض نہیں کھائیں گے، ملک کو مقروض نہیں کریں گے۔ جب وزیر اطلاعات سے پوچھا گیا کہ وہ اربوں ڈالر کہاں ہیں جو لوٹ کر باہر بھیجے گئے۔ ہینڈسم وزیر سعودی عرب سے آئے مہمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔ آ تو گئے ہیں، ہم نے تو ان ’’عربوں‘‘ کی بات کی ہے۔ ان کے رویے پر نہ جائیے، جب لیڈر اچھا ہو تو سب ٹھیک ہوجاتا ہے، کیونکہ ہمارے وزیراعظم بہت ہینڈسم ہیں۔

یقین مانیے، میں نے تو اپنے ہینڈسم وزیراعظم کی تصویر بھی اپنی جیب میں رکھ لی ہے۔ جب بھوک لگتی ہے تو ان کو دیکھ لیتا ہوں، جب پیاس لگتی ہے تو انہی کا دیدار کرلیتا ہوں، بچے اسکول جاتے وقت پیسے مانگتے ہیں تو ان کو بھی ایک ایک تصویر دے دیتا ہوں، حتیٰ کہ کوئی بھکاری ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس کو بھی یہی تصویر دیتا ہوں۔ پہلے تو وہ غور سے پہچاننے کی کوشش کرتا ہے، پھر اپنی راہ لیتا ہے۔ شاید اسے بھی سمجھ آگئی ہے کہ اب بابائے قوم کی تصویر والے نوٹ سے نہیں، 66 سالہ جوان وزیراعظم کی فوٹو سے کام چلے گا۔

اب دور بدل چکا ہے، نسل بدل چکی ہے، اب پرانا نہیں نیا پاکستان ہے۔ اب تو ہمارے وزیراعظم بھی بڑے ہینڈسم ہیں۔ آپ بھی پانچ سال کےلیے یہی نسخہ اپنائیں۔ افاقہ ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکلتی جا رہی ہے؟
13/04/2019 حافظ ذوہیب طیب


پہلے 100 روز میں تبدیلی کے بڑے بڑے دعوے، صحت، تعلیم اور روزگار کو عام آدمی کی دہلیز تک پہنچانے کی باتیں، سابقہ حکمرانوں کی طرح قومی خزانے کو سڑکوں، پلوں اور گلیوں کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر نے کا نعرہ مستانہ لگاتی تبدیلی حکومت اپنے تمام تر نعروں، دعووں اور باتوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے پر ناکام و لاچار دکھائی دیتی ہے۔ 100 روزہ پھر 150 روزہ اور اب ایک سال کا وقت دے کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام جاری ہے۔

حقیقت حال یہ ہے کہ تبدیلی سرکار کے معرض وجود میں آنے سے اب تک ملک میں بے بر کتی کاآسیب ہے۔ کاروباری طبقہ اپنے تباہ حال ہوتے کاروبار کو دیکھ کر اور حکمرانوں کی تاجر و کاروباری دشمن پالسییوں کو دیکھ کر پریشان ہیں۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور غریب پر زندگی مزید تنگ ہو رہی ہے۔ سونا اور ڈالر بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں جبکہ قرضوں میں 110 ارب کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ایشائی ترقیاتی بنک کے مطابق حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 2020 تک پاکستان کی معاشی ترقی خطے میں سب سے کم رہے گی اور مہنگائی میں اضافہ اور روپے کی قدر میں دباؤ رہے گا۔

ماہرین معاشیات اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ملک تاریخ کی انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ملک میں مہنگائی پانچ سال کی بلند ترین شرح کو پہنچ گئی ہے۔ پاکستان شماریات بیورو کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2018 کی نسبت مارچ 2019 میں مہنگائی 9.41 فیصد بڑھی جبکہ اپریل 2014 میں مہنگائی کے بڑھنے کی شرح 9.1 فیصد تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال جولائی تا مارچ مہنگائی 6.7 فیصد بڑھی جبکہ فروری کی نسبت مارچ میں مہنگائی 1.42 فیصد بڑھ چکی ہے۔

قارئین کرام! افسوس کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کے تما م وزیر و مشیر ”وقت ٹپاؤ“ پالیسی پر گامزن ہیں اور پروٹوکول کے مزے لیتے ہوئے روز بروز مہنگائی کے گڑھے میں گرتی عوام کو دیکھتے ہوئے تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں۔ صرف اپنے اپنے مفادات کی خاطر مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں اور مہنگے سوٹ، امپورٹڈ شوز اور فرانسیسی خوشبوئیں لگائے کبھی ایک اجلاس میں تو کبھی دوسرے اجلاس میں صرف اپنی آنیاں جانیاں ریکارڈ کراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں مشیروں اور وزیروں کے مہنگے ترین کپڑوں کا تو وزیر اعظم عمران خان نے بھی ذکر کر دیا۔

پاکستان ٹورارزم سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے زلفی بخاری اور عاطف خان کے کپڑوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ زلفی بخاری نے ایسے کپڑے زیب تن کیے ہوئے ہیں جیسے فرانس کی سیاحت کو پروموٹ کر نے جا رہے ہیں۔ یہ وہی زلفی بخاری ہیں جو اپنے محکمے میں کوئی تبدیلی تو نہ لاسکے لیکن اپنی وزارت کے نشے میں مست ہو کر جیلوں کے جیلرز کو صرف اس وجہ سے معطل کروادیتے ہیں کہ وہ ایماندارکیوں ہے؟ اور ان کے کہنے پر چلنے کی بجائے قانون پر چلنے کا کیوں کہتا ہے۔

جبکہ ایک اور وفاقی وزیر کی بدمعاشی سے تنگ آکر لاہور کے تاجروں نے پورے شہر میں بینرز لگا دیے کہ وہ بھی وزارت کے نشے میں چور ہو کر صرف اپنے مفادات کے لئے لوگوں کے بچوں پر جھوٹے پرچے درج کروا کر اور انہیں گھروں سے اٹھوا کر غائب کروا دیتے ہیں۔ کبھی ایک سیف ہاؤس تو کبھی دوسرے، پھر بھی وزیر موصوف کا نشہ ن اترے تو پھر درجنوں پرچے درج کرواکر اپنی طاقت کا اظہار فرماتے ہیں۔ وزراء کی کم علمی اور کاہلی کا اس بات سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ادویات سازکمپنیوں نے ڈریپ کے سابقہ جعلی چیف ایگزیگٹوافسر کی ملی بھگت سے ادویات کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرتے ہوئے جان لیوا امراض کی ادویات 399 روپے تک مہنگی کر دی ہیں۔

وزیر اعظم سے لے کر محکمے کے وزیر اور ماتحت ذمہ داران اس ظلم عظیم پر صرف خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور جس کا جو دل کرتا ہے وہ کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق امراض قلب کی میڈیسن ٹری فورج کی قیمت 186 روپے سے بڑھا کر 485 روپے کر دی گئی۔ شوگر کو کنٹرول کرنے والی دوا پہلے 272 روپے کی تھی اب 460 روپے میں مل رہی ہے، گلے کے امراض کی دوا اریتھروسن کی قیمت 548 سے 921 روپے ہوگئی۔ بلڈپریشر کنٹرول کرنے والی کون کور دوا کی قیمت 162 سے بڑھا کر 235 روپے وصول کی جا رہی۔ سردرد کے لئے دوا ڈسپرین کی قیمت میں 27 روپے فی پیکٹ کا اضافہ ہوا ہے۔

قارئین محترم! پنجاب کا حال یہ ہے کہ یہاں وزارت اعلیٰ کے منصب پر ایک ایسا شخص براجمان ہے جسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں وہ صرف اپنے عزیز رشتے داروں کو نوازنے کے لئے متحرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی بیورو کریسی پربھی وزیر اعلیٰ کا رنگ چڑھتا جا رہا ہے۔ جنہیں پہلے ہی کام کرتے ہوئے موت پڑتی ہے وہ بھی اب دفتروں سے غائب رہتے اور مہینوں فائلوں کو لٹکائے رکھتے ہیں۔ اداروں کے جتنے بھی سر براہ ہیں وہ سب انتہائی سست اور کاہل ہیں جس کی وجہ سے عوام اپنے جائز کاموں کے لئے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔

پنجاب کے ہسپتالوں کا یہ حال ہے کہ یہاں انسانوں سے جانوروں سے بھی بد تر سلوک رواء رکھا جا رہا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر نہ جانے کیوں میاں شہباز شریف یاد آجاتے ہیں کہ کم از کم ان کے خوف سے بیورو کریسی نامی مخلوق کانپتی تھی اور یوں لوگوں کو آسانیاں میسر آجاتی تھیں جبکہ اب حال یہ ہے کہ لفظ ”بزدار“ ایک لطیفہ بن کر رہ گیا ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب میں حکومت نامی کوئی شے موجود نہیں۔ عوام کو بے سر و سامانی کے عالم میں ذلیل وخوار ہونے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے اور ایسے حالات میں دیکھتے ہوئے حرام خور اور کرپٹ افسران خوب تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں اور مجھ سمیت کئی لوگ اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ کیا تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکلتی جا رہی ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیچارے عوام
16/04/2019 مہک سہیل


ملک کا وزیرخزانہ اگر یہ کہے کہ ہم دیوالیہ ہو جائیں گے تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ موجودہ حکومت میں یہ آخر چھ سات ماہ تک آئی ایم ایف سے بچنے کا ڈرامہ کیوں کیا جاتا رہا۔ اِس دوران ملک کی معیشت کا جو حشر نشر ہو کر رہ گیا، اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اگر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف کا پروگرام ہی ناگزیر تھا تو پھر اس میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟ بے یقینی میں مبتلا معیشت نے جو ہچکولے کھائے، ڈالر کہاں سے کہاں پہنچا، سٹاک ایکسچینج کا بار بار کباڑہ ہوا، اس کی تلافی کیسے ہو گی، یعنی اب آئی ایم ایف آج کے بعد کی معیشت کے لئے اپنی شرائط دے گا اور ہم قبول کر لیں گے، یعنی ہم نے سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی۔

عمران خان کو کم از کم ایک سال تو دیا جائے، اس میں تبدیلی کی بنیاد نہ رکھی جائے تو پھر مخالفت کا جواز بھی بنتا ہے، مگر اب یہ سب باتیں بیکار ثابت ہو رہی ہیں۔ ملک میں انصاف، صحت اور خوشحالی پھیلانے کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والی حکومت میں ادویات کی قیمتوں میں تقریبا 20 سے 25 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ ابھی تو عنقریب رمضان ہے اور مہنگائی کا دوڑتا ہوا گھوڑا اور کتنی رفتار میں دوڑیگا اس کا انداذہ لگانا مشکل نہیں۔ پچھلی حکومتوں پر شدت سے تنقید کیے جانے کے بجائے اگر اسی شدتکے ساتھ ملک اور عوام کے لیے کام کیا جاتا تو اس وقت عوام اتنی تکلیف میں نہ ہوتی عالمی بینک کے مطابق آئندہ مالی سال پاکستان میں مہنگائی کی رفتار مزید تیز ہو جانے کا خدشہ ہے اور یہ 10 فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے جس سے غربت بڑھ سکتی ہے۔

نئے پاکستان میں عوام کو ریلیف دینے کی دعویدار تحریک انصاف کی حکومت بھی 100 فیصد قرضوں پر انحصار جاری رکھے ہوئے ہے۔ 2019 ء کی پہلی ششماہی میں ستیٹ بینک سے 650 ارب روپے کا قرضہ لیا جا چکا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ سونے کی قیمت ایک ہفتے میں مسلسل اضافہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ ہوا، لوگ چلا رہے ہیں، ان کی حقیقی چیخیں نکل رہی ہیں اور اسد عمر اسی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں، پٹرولیم پر ٹیکس کی شرح 52 فیصد ہے اور اب تو عام آدمی خصوصاً ”فکس انکم گروپ“ اتنا بے حال ہو چکا کہ ذہنی مریض بنتا جا رہا ہے زندگی کے مختلف شعبوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا معیارِ زندگی یک دم گر گیا ہے وہ اپنے بچوں کے سکول کی فیس تک ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، کیونکہ بدلے ہوئے حالات میں وہ یا تو خوراک کی کم از کم ضرورت پوری کر سکتے ہیں یا پھر سکولوں کی فیس دے سکتے ہیں۔

زندگی کے مختلف شعبوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا معیارِ زندگی یک دم گر گیا ہے وہ اپنے بچوں کے سکول کی فیس تک ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، کیونکہ بدلے ہوئے حالات میں وہ یا تو خوراک کی کم از کم ضرورت پوری کر سکتے ہیں یا پھر سکولوں کی فیس دے سکتے ہیں اور اگر حالات نہ سدھرے تو نہ جانے کیا ہو۔ ہماری معیشت روز بروز تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری 1.63 ارب ڈالر سے کم ہو کر 1.31 ارب ڈالر پر آگئی ہے۔ 2018 میں برآمدات میں 10.9 فیصد اضافہ جبکہ 2019 کی پہلی ششماہی میں صرف 1.9 فیصد اضافہ ہوا۔

دوسری جانب حالیہ دور میں ڈالر اڑان بھر رہا ہے اور اب تک 143 روپے پچاس پیسے کا ہوا، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پرواز 160 سے 180 تک جا کر رُک سکے گی۔ آخر پاکستان میں ڈالر کیوں بیش قیمت ہوا جا رہا ہے؟ روپیہ کیوں اپنی قدر کھوتا جا رہا ہے؟ یہ ہیں وہ سوال جو آج کل ہر ذہن میں ابھر رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ڈالر مہنگا نہیں ہو رہا بلکہ روپیہ ناتواں ہو رہا ہے۔ ماہرین معاشیات کی رائے میں اس کی وجہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی غلط معاشی پالیسیاں اور نگران حکومت کا ان کو ٹھیک نہ کرنا ہے۔

10 روز کے اندر سرمایہ کاروں کے 6 کھرب روپے ڈوب گئے۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے، خصوصاً اس وقت جب ایک طرف آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکیج کے لئے بات چیت حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور اس کے سوا حکومت کو کوئی چارا بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ پوری حکومت بس ایک ہی راگ مالا الاپ رہی ہے کہ گزشتہ حکومت ملک کو کنگال کر کے چلی گئی۔ خزانہ خالی، خزانہ بھرنے کے لیے بھینسیں بیچ لیں۔ گاڑیاں بیچ لیں۔

معیشت کو سہارا دینے کے لئے ”مرغیاں اور کٹے پالنے کا مشورہ قوم کو دے دیا، ملکوں ملکوں کشکول لے کر پھر رہے ہیں۔ پرانے پاکستان میں ملک کی اتنی دولت کرپشن کے ذریعے ن لیگ کی حکومت نے نہیں لوٹی ہوگی جتنی پی ٹی آئی کی حکومت میں ملک کی دولت کا نقصان ہوا۔ سٹاک مارکیٹ کریش کرگئی اربوں کے سرمایے ڈوب گئے ڈالر کو پر لگنے سے ملک پر قرضوں میں مذید اضافہ ہوگیا۔ نہ کوئی کرپشن ہوئی نہ چوری ہوئی، میرا سوال یہ نہیں اس سب کا ذمہ دار کون ہے یا کِسے الزام دینا ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ یہ کیسی تبدیلی ہے کہ ہماری مجموعی حالت بگڑی ہی ہے بنی نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کی طرف سے بہتری کی امید دی جاتی رہی ہے اور ہر دفعہ فرما دیتے ہیں کہ میرے پاکستانیوں آپ نے گھبرانا نہیں ہے جبکہ غریب کے لیے یہ روز بھوکا مرنے کا مقام ہے!
 
Top