فرقان احمد
محفلین
حیرت اس بات پر ہے کہ آپ ایسے عبقری کو بابا کوڈا سے فیض لینا پڑتا ہے۔۔۔!جمعرات کی اس مبارک رات لاہور ہائیکورٹ پر ڈھیروں لعنت!!! بقلم خود باباکوڈا
آخری تدوین:
حیرت اس بات پر ہے کہ آپ ایسے عبقری کو بابا کوڈا سے فیض لینا پڑتا ہے۔۔۔!جمعرات کی اس مبارک رات لاہور ہائیکورٹ پر ڈھیروں لعنت!!! بقلم خود باباکوڈا
شاہد اورکزئی؟شین الف
کیا حسنِ اتفاق ہے کہ میں یہی آرٹیکل پڑھ رہا تھا۔جواب درست ہوا۔شاہد اورکزئی!
ارے، یہ تو ناقابلِ یقین سی بات معلوم ہوتی ہے ۔۔۔!کیا حسنِ اتفاق ہے کہ میں یہی آرٹیکل پڑھ رہا تھا۔![]()
ارے، یہ تو ناقابلِ یقین سی بات معلوم ہوتی ہے ۔۔۔!
سبحان اللہ۔ پاکستانی عدالتی نظام سے نکلے میرٹ پرچند عمومی فیصلے:امر واقعہ یہ ہے کہ زیادہ تر ججز، چاہے وہ سپریم کورٹ کے ہوں یا ہائی کورٹ کے ہوں، عموماََ میرٹ پر ہی فیصلہ سناتے ہیں یا کم از کم شک کا فائدہ ملزم کو پہنچا ہی دیتے ہیں
الیکشن سے قبل جن دلائل کے تحت بڑے فیصلے سنائے گئے تھے ان کا لب باب تھا: گوگل کر لیںا تاہم ججز کو بہرصورت فیصلہ دیتے ہوئے قانون کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے؛ یہ ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ حنیف عباسی صاحب نے کچھ تو غلط کیا ہو گا جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا۔
آپ نے جو نکات تحریر کیے، اس کی قصوروار عدلیہ نہیں۔ ایسے کتنے ججوں کے نام گنوائے جائیں جنہوں نے مارشل لاء کو آئینی تحفظ دینے کی بجائے استعفیٰ دینا بہتر خیال کیا۔ یوں سویپنگ اسٹیٹمنٹ دینا درست نہیں۔ ان نکات کے جواب میں ہماری گزارشات ۔۔۔سبحان اللہ۔ پاکستانی عدالتی نظام سے نکلے میرٹ پرچند عمومی فیصلے:
یہاں کہیں بھی میرٹ کا نظام ہوتا تو یہ ملک آج اس حال میں ہوتا؟
- 1958، 1977 اور 1999 میں لگنے والے مارشل لازکو آئینی تحفظ فراہم کیا
- قومی اور عالمی دباؤ کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا
- زرداری کوکرپشن کیسز میں کئی سال جیل میں رکھ کر این آر او دےدیا
- نواز شریف کو فوج سے ڈیل کے بعد کرپشن کیسز میں سزا سےبچا لیا
- اور آجکل ہربڑے ملزم و مجرم کوضمانتیں دے کر قانون کی گرفت سے بچایا جا رہا ہے
یوں تو پاناما ایشو بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ذہن کا کرشمہ نہ تھا؛ وہ تو کسی موقع کی تاک میں تھے جو انہیں غیبی طور پر مل گیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر نواز شریف صاحب پاناما کیس میں بچ جاتے تو کسی اور کیس میں دھر لیے جاتے۔ پاناما کیس سے قبل ہی خان صاحب اور قادری صاحب، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے یادگارِ زمانہ دھرنے دے چکے تھے، اور ملٹری کی مداخلت کے امکانات بہت زیادہ بڑھ چکے تھے ۔۔۔!الیکشن سے قبل جن دلائل کے تحت بڑے فیصلے کئے گئے تھے ان کا لب باب تھا: گوگل کر لیں
یہ اسلئے تاکہ الیکشن کے بعد ان کو ضمانتیں دلواکر سیاست میں واپسی کی راہ ہموار کروائی جا سکے۔ جو آجکل ہو رہا ہے۔
باقی جہاں تک حنیفا پوڈری کا سوال ہے تو اس سے متعلق منشیات سمگلنگ کا کیس اسٹیبلشیہ نے نہیں بلکہ آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے اینٹی منشیات اتھارٹیز کی شکایات پر دائر کیا گیا تھا۔ 2012 میں انٹرنیشنل منشیات کنٹرول بورڈ کے نمائندہ خود چل کر پاکستان آئے تھے۔ کیونکہ 2011 کی رپورٹ میں یہ سامنے آیا تھا کہ پاکستان ایفرڈرین کا چوتھا بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔
Ephedrine scam: UN drug regulator to come knocking for answers | The Express Tribune
بے شک ملک کے تمام ججز اس گورکھ دھندے میں شامل نہیں ہیں ۔ سلام ہے ان عظیم ججوں پر جو جھکے نہیں، بکے نہیں!ایسے کتنے ججوں کے نام گنوائے جائیں جنہوں نے مارشل لاء کو آئینی تحفظ دینے کی بجائے استعفیٰ دینا بہتر خیال کیا۔
کرپٹ سیاست دان بھی زیادہ تر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ہی تحفہ ہیں ۔۔۔!بے شک ملک کے تمام ججز اس گورکھ دھندے میں شامل نہیں ہیں ۔ سلام ہے ان عظیم ججوں پر جو جھکے نہیں، بکے نہیں!
البتہ بیرنی دباؤ پر جھک کر بک جانے والے ججوں کی بھی اس ملک میں کمی نہیں ہے۔ جو ’’اوپر‘‘ سے آرڈر لے کر فیصلے صادر کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہاں اوپر سے مراد محض کرپٹ فوجی حکمران نہیں ہے۔ بلکہ جسٹس قیوم اور جسٹس افتخار چوہدر ی جیسے جج تو باقاعدہ کرپٹ سیاستدانوں کی پیداوار رہے ہیں۔
جی ہاں اور یہ اسٹیبلشمنٹ برطانوی سامراج کا تحفہ ہیں۔ جس دن بھارت نے کشمیر کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اسی رات گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاک فوج کو کشمیر کا فی الفور دفاع کرنے کیلئے کہا۔ البتہ اس وقت پاک فوج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی انگریز تھے۔ انہوں یہ حکم ماننےسے صاف انکار کر دیا۔ اور یوں کشمیر پاکستان کے ہاتھ سے ہمیشہ کیلئے نکل گیا۔کرپٹ سیاست دان بھی زیادہ تر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا ہی تحفہ ہیں ۔۔۔!
معلوم ہوتا ہے آپ نیٹ پر وقت گزاری کے لیے ہی تشریف لاتے ہیں ۔۔۔!جی ہاں اور یہ اسٹیبلشمنٹ برطانوی سامراج کا تحفہ ہیں۔ جس دن بھارت نے کشمیر کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اسی رات گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاک فوج کو کشمیر کا فی الفور دفاع کرنے کیلئے کہا۔ البتہ اس وقت پاک فوج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی انگریز تھے۔ اور انہوں یہ حکم ماننےسے صاف انکار کر دیا۔ اور یوں کشمیر پاکستان کے ہاتھ سے ہمیشہ کیلئے نکل گیا۔
Dictators versus democrats - Newspaper - DAWN.COM
پاکستان کے سپریم کمانڈر کا حکم نہ ماننے پر جنرل ڈگلس گریسی کا کورٹ مارشل بنتا تھا مگر ان کو قائد اعظم نے مزید دو سال کیلئے پروموٹ کر دیا۔ اگر ابتداء ملک کے وقت ہی بھارت کی طرح فوج پر سول چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا تو آج فوج کے علاوہ ملک کا ہر ادارہ تباہ نہ ہوتا۔
بھائی یہاں کوئی جنگ یا لڑائی تو چل نہیں رہی جو آپ ’ہار‘ مان رہے ہیں۔یہ ایک تعمیری بحث ہے جس سے حالات و واقعات کو نئے زاویوں سے دیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ہم ہار مان لیتے ہیں اور فی الوقت رخصت لیتے ہیں۔ رات بہت ہو گئی۔
ہم جو کچھ نیم بیداری کے عالم میں تحریر فرما رہے ہیں، اس سے ہمارا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔!بھائی یہاں کوئی جنگ یا لڑائی تو چل نہیں رہی جو آپ ’ہار‘ مان رہے ہیں۔یہ ایک تعمیری بحث ہے جس سے حالات و واقعات کو نئے زاویوں سے دیکھنے میں مدد ملتی ہے۔
بحث کا مقصد اپنا نقطہ نظر منوانا نہیں ہوتا بلکہ اسے بہترین انداز میں پیش کر کے مخالف کی رائے جاننا ہوتا ہے۔ مختلف آراء کے کے تبادلے سے نئی سوچ پنپتی ہے اور یوں سچ کی تلاش کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلاجاتا ہے۔
اسی لئے آزاد مباحثوں میں ہار جیت کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔ یہ کام محض پراپگنڈوں میں ہوتا ہے![]()
قوم کی فوج سے غیرمعمولی محبت عسکری اداروں کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فوج ملک کا واحد ادارہ ہے جہاں بغیر کسی تعصب کے میرٹ کی بنیاد پر نئی بھرتیاں ہوتی ہیں۔ جہاں فوجیوں کے رینک میں ترقی خاندانی یا سیاسی وابستگی کے حساب سے نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ جہاں فوجیوں کی بھرتی سے لے کر ریٹائرمنٹ تک کے تمام اخراجات دفاعی بجٹ کے علاوہ فوجی کمرشل کمپنیز سے پورے کئے جاتے ہیں۔ اگر کل یہ ملک ٹوٹا تھا تو پاک فوج کی وجہ سے۔ اگر آج یہ ملک متحد ہے تو بھی پاک فوج کی وجہ سے۔ہم آج تک بوٹوں کی محبت میں مبتلا ہیں اور یہ سب فریب حب الوطنی کے نام پر دیا جاتا ہے۔ ہمیں بھی فوج سے محبت ہے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں بدقسمتی سے فوج کا کردار نمایاں ترین ہے۔