منیر نیازی کی شاعری کے متعلق ادبی تعاون کی درخواست

فاخر

محفلین
السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ
منیر نیازی کا شمار پاکستانی ادب کے ان معماروں میں ہوتا ہے کہ جن کا ذکر نہ کرنا ادبی خیانت ہوگی ، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس محفل میں ایسے ایسے لوگ ہوں گے ،جو منیر نیاز ی کو قریب سے جانتے اور پہچانتے بھی ہوں گے۔ یہ تو سچ ہے کہ منیر نیازی ’جدیدیت‘ کے بادہ خوار تھے ؛بلکہ ’جدیدیت‘ اور ما بعد جدیدیت کے ترجمان بھی سمجھے جاتے تھے ۔ الغرض مجھے ان کی شاعری اور جدید نظم گوئی کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنی تھی ، اس لیے جس کسی صاحب کو ان کی شاعری کے متعلق لکھی گیی کتاب کے بارے میں جانتے ہوں ، اس کتاب کا نام بتائیں یا اگر کسی سائٹ وغیرہ پر ان کی نظم گوئی کے متعلق ’ تبصرہ جات‘ ہوں تو اس کا لنک ارسال فرمائیں ، عین نوازش ہوگی۔
والسلام
افتخاررحمانی ، فاخر ، نئی دہلی
 

فرقان احمد

محفلین
السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ
منیر نیازی کا شمار پاکستانی ادب کے ان معماروں میں ہوتا ہے کہ جن کا ذکر نہ کرنا ادبی خیانت ہوگی ، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس محفل میں ایسے ایسے لوگ ہوں گے ،جو منیر نیاز ی کو قریب سے جانتے اور پہچانتے بھی ہوں گے۔ یہ تو سچ ہے کہ منیر نیازی ’جدیدیت‘ کے بادہ خوار تھے ؛بلکہ ’جدیدیت‘ اور ما بعد جدیدیت کے ترجمان بھی سمجھے جاتے تھے ۔ الغرض مجھے ان کی شاعری اور جدید نظم گوئی کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنی تھی ، اس لیے جس کسی صاحب کو ان کی شاعری کے متعلق لکھی گیی کتاب کے بارے میں جانتے ہوں ، اس کتاب کا نام بتائیں یا اگر کسی سائٹ وغیرہ پر ان کی نظم گوئی کے متعلق ’ تبصرہ جات‘ ہوں تو اس کا لنک ارسال فرمائیں ، عین نوازش ہوگی۔
والسلام
افتخاررحمانی ، فاخر ، نئی دہلی
وعلیکم السلام!
منیر نیازی مرحوم کا شمار ہمارے پسندیدہ شعراء کی فہرست میں ہوتا ہے تاہم انہیں جدیدت اور ما بعد جدیدیت کا ترجمان یا نمائندہ شاعر سمجھنا غالباً درست نہ ہے۔ فی الوقت ایک ربط پیش خدمت ہے۔ امید ہے کہ ہماری جانب سے اس لڑی میں مزید شراکت کا سلسلہ جاری رہے گا۔

ربط
 

یاسر شاہ

محفلین
و علیکم السلام !
جو ناقص معلومات میرے پاس ہے ان کے متعلق ، وہ یہ کہ عجیب شاعر تھے ،اس جدیدیت کے وہ قائل نہ تھے جس کے فیض 'احمد فراز اور ساحر وغیرہ قائل تھے، یعنی دین بیزار نہ تھے پابند صوم وصلوات تھے بلکہ پابند تلاوت قرآن بھی تھے -بس شعر کو وہ کوئی اور ہی چیز سمجھتے تھے ،جس میں فلٹریشن نہ کی جائے ،خالص آمد ہو - اس لیے اصلاحی اور انقلابی شاعری کو وہ شاعری نہیں مانتے تھے -یہی وجہ ہے کہ اپنے دور کے بیشتر شعراء کو وہ شاعر ہی نہیں سمجھتے تھے -

بہرحال بنیادی طور پہ میرے نزدیک وہ نظم کے شاعر تھے -عمدہ نظمیں لکھیں -ان کی ایک کتاب "جنگل میں دھنک " میرے پاس تھی، پھر ایمانداری کا جوش چڑھا تو ساری چھپڑ کی ہوئی کتابیں اپنے مالکان تک پہنچا دیں -اسی کتاب میں ان کی مشہور زمانہ نظم "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں " بھی تھی -بڑی خوبصورت نظم ہے -

ان کا ایک پنجابی شعر ان کا تعارف بن گیا ہے -یہ واحد غیر صوفی پنجابی شعر ہے جو مجھے یاد رہ گیا اور بہت پیارا بھی ہے- ایک دن فجر کی نماز کا وضو بناتے ہوئے بلاوجہ مسلسل دل و دماغ پہ چھایا رہا -اسی دن بعد میں خبر آئی کہ منیر نیازی وفات پا گئے -اور وہ شعر یہ ہے :

کجھ شعر دے لوگ وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
 

اکمل زیدی

محفلین
یہ غالباً ’’کچھ شہر‘‘ ہوگا۔۔۔
سن کا مطلب ہمیں نہیں آتا!!!


munirn.jpg


کچھ راہیں اُس کی مشکل تھیں
کچھ شوق تھا آہیں بھرنے کا
کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے
کچھ ہمیں بھی شوق تھا مرنے کا

-----
کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن
کُج گل وچ غم دا طوق وی سی
کُج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کُج سانوں مرن دا شوق وی سی
 

سید عمران

محفلین
munirn.jpg

کچھ راہیں اُس کی مشکل تھیں
کچھ شوق تھا آہیں بھرنے کا
کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے
کچھ ہمیں بھی شوق تھا مرنے کا
-----
کج اونج وی راہواں اوکھیاں سن
کُج گل وچ غم دا طوق وی سی
کُج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کُج سانوں مرن دا شوق وی سی
سن کا مطلب نہیں معلوم ہوسکا؟؟؟
 

فاخر

محفلین
وعلیکم السلام!
منیر نیازی مرحوم کا شمار ہمارے پسندیدہ شعراء کی فہرست میں ہوتا ہے تاہم انہیں جدیدت اور ما بعد جدیدیت کا ترجمان یا نمائندہ شاعر سمجھنا غالباً درست نہ ہے۔ فی الوقت ایک ربط پیش خدمت ہے۔ امید ہے کہ ہماری جانب سے اس لڑی میں مزید شراکت کا سلسلہ جاری رہے گا۔

ربط
ان شاءالله الرحمن ؛ ليكن
موصوف کے اس قول سے کیا اخذ کیا جائے جو کہ ماہنامہ چہار سو راولپنڈی سے شائع ہوا ہے ؟
’’وہ نیوی میں تھے ، لیکن نیوی سے شاعرانہ شوق کی وجہ سے خیرباد کہہ دیا ، بقول منیر نیازی ان کے اندر کے شاعر نے منٹو اور دیگر شعر اءو ادبا کے پڑھنے کے بعد پروان چڑھا ۔ اس تناظر میں خود منیر نیازی کہتے ہیں :’
”جب میں نیوی میں تھا تو میرے ایک دوست عزیز مجھے ادبی دنیا کے بہت سے شمارے دے گئے ، جنہیں میں بمبئی کے ساحل پر جاکر شوق سے پڑھتا تھا ۔ ان ہی شماروں میں سعادت حسین منٹو کو پڑھنے کا اتفاق ہوا او ر دیگر ادباءشعرا ءکو غور سے پڑھنے کا موقع بھی ملا ۔ شاید ان ہی دنوں کے زیر اثر میرا ادبی جوہر پروان چڑھا“۔ ماہنامہ چار سو مارچ ، اپریل ۵۰۰۲ء، ص 5
’’اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ سعادت حسین منٹو یا پھر ان جیسے دیگر جدید رجحان پسند شعرا و ادبا ءسے متاثر ضرور تھے ۔ هم راست طو رپر ان کو مذہب بیزا ر، اشتراکی و الحادی نہیں کہہ رہے ہیں ؛بلکہ موصوف منیر نیازی کے اس انٹرویو سے ’اخذ‘ کررہے ہیں ۔ تاہم مجید ا مجد نے ان کے اور ان کے دل و دماغ کو مذہب سے ہم آہنگ اور اس کا قدر شناس بتایا ہے۔
خیر ! آپ کی جانب سے لڑیوں کے اشتراک کا انتظار ہے گا ۔
 

فرقان احمد

محفلین
ان شاءالله الرحمن ؛ ليكن
موصوف کے اس قول سے کیا اخذ کیا جائے جو کہ ماہنامہ چہار سو راولپنڈی سے شائع ہوا ہے ؟
’’وہ نیوی میں تھے ، لیکن نیوی سے شاعرانہ شوق کی وجہ سے خیرباد کہہ دیا ، بقول منیر نیازی ان کے اندر کے شاعر نے منٹو اور دیگر شعر اءو ادبا کے پڑھنے کے بعد پروان چڑھا ۔ اس تناظر میں خود منیر نیازی کہتے ہیں :’
”جب میں نیوی میں تھا تو میرے ایک دوست عزیز مجھے ادبی دنیا کے بہت سے شمارے دے گئے ، جنہیں میں بمبئی کے ساحل پر جاکر شوق سے پڑھتا تھا ۔ ان ہی شماروں میں سعادت حسین منٹو کو پڑھنے کا اتفاق ہوا او ر دیگر ادباءشعرا ءکو غور سے پڑھنے کا موقع بھی ملا ۔ شاید ان ہی دنوں کے زیر اثر میرا ادبی جوہر پروان چڑھا“۔ ماہنامہ چار سو مارچ ، اپریل ۵۰۰۲ء، ص 5
’’اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ سعادت حسین منٹو یا پھر ان جیسے دیگر جدید رجحان پسند شعرا و ادبا ءسے متاثر ضرور تھے ۔ هم راست طو رپر ان کو مذہب بیزا ر، اشتراکی و الحادی نہیں کہہ رہے ہیں ؛بلکہ موصوف منیر نیازی کے اس انٹرویو سے ’اخذ‘ کررہے ہیں ۔ تاہم مجید ا مجد نے ان کے اور ان کے دل و دماغ کو مذہب سے ہم آہنگ اور اس کا قدر شناس بتایا ہے۔
خیر ! آپ کی جانب سے لڑیوں کے اشتراک کا انتظار ہے گا ۔
جدیدیت اور مابعدجدیدیت کی تحریکوں سے منٹو، مجید امجد اور حتیٰ کہ منیر نیازی کا بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ ترقی پسند تحریک کا معاملہ مختلف ہے۔ منٹو کا تعلق اس تحریک سے کسی حد تک جوڑا جا سکتا ہے تاہم مجید امجد اور منیر نیازی کا اس تحریک سے بھی کوئی خاص تعلق نہ رہا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں جو جدید سوچ سامنے آئی، ہماری دانست میں اس کو جدیدیت اور مابعدجدیدیت سے شاید کوئی نسبت نہ تھی۔ دراصل منیر نیازی نے خود کو تاعمر کسی تحریک سے وابستہ ہی نہ رکھا۔ ان ادبی تحریکوں کا پرتو ان کی شاعری میں شاید کہیں کہیں محسوس ہو سکتا ہے تاہم انہیں ان تحریکوں کا نمائندہ شاعر سمجھنا ہماری دانست میں درست نہیں۔
 

فاخر

محفلین
آپ کی باتوں سے اتفاق کیا جاسکتا ہے ؛لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ منیرؔ نیازی کو ’جدیدیت‘ سے متأثر شاعر سمجھتے ہیں ان کے لیے اس سوچ کے تئیں سامانِ تدارک کیا ہوگا ؟ میں بذات خود منیرؔ نیازی کو اس سے متأثر نہیں سمجھتا ؛کیوں کہ جو ’’ پیار ایک پھول ہے اس پھول کی خوشبو تم ہو‘‘ لکھے، یقیناً وہ مذہب بیزار نہیں ہوسکتا ،اس کے علاوہ اور بھی کئی دلائل ہیں جیسا کہ انہوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں اپنی عاجزی اور فیضان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کیا ہے ؏
میں جو اک برباد ہو ں ، آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسم محمدشاد رکھتا ہے مجھے ‘‘
 

فرقان احمد

محفلین
آپ کی باتوں سے اتفاق کیا جاسکتا ہے ؛لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ منیرؔ نیازی کو ’جدیدیت‘ سے متأثر شاعر سمجھتے ہیں ان کے لیے اس سوچ کے تئیں سامانِ تدارک کیا ہوگا ؟ میں بذات خود منیرؔ نیازی کو اس سے متأثر نہیں سمجھتا ؛کیوں کہ جو ’’ پیار ایک پھول ہے اس پھول کی خوشبو تم ہو‘‘ لکھے، یقیناً وہ مذہب بیزار نہیں ہوسکتا ،اس کے علاوہ اور بھی کئی دلائل ہیں جیسا کہ انہوں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں اپنی عاجزی اور فیضان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کیا ہے ؏
میں جو اک برباد ہو ں ، آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسم محمدشاد رکھتا ہے مجھے ‘‘
جدیدیت کی تحریک سے وابستہ ہونے سے دہریت کا کیا تعلق، قبلہ! اگر آپ ترقی پسند تحریک کا تذکرہ فرما رہے ہیں تو اس سے وابستہ ادباء کو بھی دہریہ قرار دینا یا ایسا سمجھنا مناسب نہیں ہے۔
 

فاخر

محفلین
مجیدامجد نے مینرؔ نیازی کے متعلق لکھا ہے کہ :
” میں ہمیشہ سے اس کی صلاحیتوں کا معترف رہاہوں ؛لیکن جو کچھ لکھنا چاہتا ہوں وہ صرف بحیثیت ایک ہم قلم کے ہے ۔ اس کے کلام کے بارے میں جو کچھ میرا تاثر ہے ، ا س کے اظہار میں میں اپنے ذاتی تعلقات کو مخل نہیں ہونے دوں گا ۔ مجھے سب سے زیادہ اس کی شاعری کی وہ فضا پسند ہے ، وہ ’فضا ‘ جواس کی زندگی کے واقعات ، اس کے ذاتی محسوسات اور اس کی شخصیت کی طبعی افتاد سے ابھرتی ہے ۔ اس نے جو کچھ لکھا ، جذبے کی صداقت کے ساتھ لکھا ہے ، اور اس کے احساسات کسی عالم ِ بالا کی چیزیں نہیں ہیں ؛ بلکہ اس کی اپنی زندگی کی سطح پر کھیلنے والی لہریں ہیں ۔ ان ہی نازک ، چنچل ، بے تاب دھڑکتی ہوئی لہروں کو اس نے شعروں کو سطروں میں ڈھال دیا ہے ، ارو اس کوشش میں اس نے انسانی جذبے کے ایسے گریز پا پہلوو¿ں کو بھی اپنے شعر کے جادو سے اجاگر کردیا ہے جو اس سے پہلے اس طرح ادا نہیں ہوئے تھے ۔ یہی منیر نیازی کا کمالِ فن ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی بدبختی ۔ وہ لوگ اور پاکستان میں لاکھوں ایسے انسان بستے ہیں ، جو ایک مانوس طرزفکر ، ایک بنے بنائے، واضح و معین انداز اظہار اور ایک روندے ہوئے اسلوب بیان کو قرنوں سے دیکھتے آئے تھے ، اس نئی آواز کی معنی اندوز لطافتوں سے اخذ ِ کیف نہ کر سکے ۔ کہنے والوں نے جو کچھ منھ میں آیا،کہہ دیا ۔ شاید یہ لوگ سچے تھے ۔ منیر نیازی نے جو کچھ لکھا ، ان کے لیے نہیں لکھا تھا ۔جب قاری کی طرف سے ردِ عمل اس قسم کا ہو تو شاعر کا انجام معلوم ! چنانچہ منیر نیازی کو جو سزاملی کسی سے مخفی ہے؟ زمانہ شاعر کو یہی کچھ دیتا ہے ! ہمارے معاشرے میں ہر چیز کو سونے کی میزان میں تولا جاتا ہے ۔ یہ کون جانتا ہے کہ جس کے دامن میں خوبصورت نظموں کے پھول تھے ، اس کو اس بھری دنیا میں کیا کیا مصائب جھیلنے پڑے ۔ یہ سب کچھ میں اس لیے نہیں جانتا کہ میں منیر کا دوست ہوں ۔ لاہور کے درو دیوار سے، لاہور کے رنگین راستون اور حسین فضاﺅں سے آپ پوچھ لیجئے کس طرح ایک شعلوں مین لتھڑی ہوئی روح صرف شعر کی لگن میں کتنے بے خواب راتوں کی گہری چپ میں اس طرح سرگرداں رہی ہے ، جیسے اسے نان جویں کی بھی طلب نہ تھی ‘ ۔
ماہنامہ چار سو مارچ ، اپریل2005ء، ص18
 
مدیر کی آخری تدوین:

فاخر

محفلین
پ ترقی پسند تحریک کا تذکرہ فرما رہے ہیں تو اس سے وابستہ ادباء کو بھی دہریہ قرار دینا یا ایسا سمجھنا مناسب نہیں ہے۔
علی سردار جعفری کے بتائے ہوئے اصول سے یہی واضح ہوتا ہے ۔
علی سردار جعفری | ریختہ اس لنک پر علی سردار جعفری کی کتاب ’’ترقی پسند ادب ‘‘ دیکھیں ۔اس کے صفحہ نمبر 23پر ’’ترقی پسند مصنفین کااعلان نامہ‘‘پڑھیں ۔ ادباء و مصنفین کے متعلق یہی کلیہ اختیار کیا گیا تھا ،جیسا کہ شعراء کے متعلق اختیار کیا گیا تھا ؛بلکہ جو اصول و ضوابط ترقی پسند تحریک نے وضع کیے وہ بلا کم و کاست تمام افراد پر نافذ ہوتے رہے ہیں ۔ حتیٰ کہ مجروح سلطان پوری کو اولاً ترقی پسندوں نے قبول نہ کیا ؛لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی غزلیات ان کے ’نظریات‘ کو پیش کرتی ہیں تو پھر متذبذنانہ کیفیت میں ہی سہی ،قبول کرلیا ۔
 

فرقان احمد

محفلین
علی سردار جعفری کے بتائے ہوئے اصول سے یہی واضح ہوتا ہے ۔
علی سردار جعفری | ریختہ اس لنک پر علی سردار جعفری کی کتاب ’’ترقی پسند ادب ‘‘ دیکھیں ۔اس کے صفحہ نمبر 23پر ’’ترقی پسند مصنفین کااعلان نامہ‘‘پڑھیں ۔ ادباء و مصنفین کے متعلق یہی کلیہ اختیار کیا گیا تھا ،جیسا کہ شعراء کے متعلق اختیار کیا گیا تھا ؛بلکہ جو اصول و ضوابط ترقی پسند تحریک نے وضع کیے وہ بلا کم و کاست تمام افراد پر نافذ ہوتے رہے ہیں ۔ حتیٰ کہ مجروح سلطان پوری کو اولاً ترقی پسندوں نے قبول نہ کیا ؛لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی غزلیات ان کے ’نظریات‘ کو پیش کرتی ہیں تو پھر متذبذنانہ کیفیت میں ہی سہی ،قبول کرلیا ۔
ترقی پسند تحریک کا غالباََ یہ واحد گروہ نہ تھا اور نہ ہی تحریک پر ان کی اجارہ داری کو سبھی ادیبوں نے قبول کیا۔ اس تحریک کے ساتھ اعلانیہ طور پر اور غیر اعلانیہ طور پر کئی ادباء منسلک رہے۔ بعض ادیبوں کو اس تحریک سے زبردستی جوڑا جاتا تھا تاہم وہ کسی تحریک کا حصہ بننے سے انکاری تھے اور سمجھتے تھے کہ ایک ادیب کا تحریکوں سے کیا لینا دینا۔ :) یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ترقی پسند تحریک پر کئی ادوار گزرے اور کئی مذہب سے وابستہ افراد اپنا تعلق اس تحریک سے کسی نہ کسی صورت جوڑے رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر، احمد ندیم قاسمی مرحوم۔
 
Top