آئی ٹی کے ساتھ ہمارا ہنی مون

آئی ٹی کے ساتھ ہمارا ہنی مون

از محمد خلیل الرحمٰن

مشتری ہوشیار باش کہ ہم نے کمپیوٹر کو پیدا ہوتے اور جوان ہوتے دیکھا ہے۔ کالج میں حسابی عمل میں لاگ بک سے مدد لیتے لیتے جب انجینئیرنگ یونیورسٹی پہنچے تو ہمارے خوابوں کا شہزادہ یعنی سلائیڈ رول اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ ایک آخری ہچکی کے ساتھ وہ راہیٗ عدم ہوا اور ہماری کلاس میں پہلا کیلکو لیٹر اس وقت در آیا جب ہمارے دوست کالو کے والد نے اسے امیریکا سے ٹیکساس انسٹرومنٹ کا ایک کالا چمکتا ہوا کیلکو لیٹر لاکریا۔ چونکہ ہم دوست اکٹھے ہی مطالعہ کرنے کے عادی تھے لہٰذا ہم نے اپنی دنیا کے اس پہلے کیلکولیٹر سے خوب استفادہ کیا اور کسبِ علم کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے انجینئیر بن گئے۔



پہلی ٹریننگ کے لیے جرمنی روانہ ہونے کو تھے کہ ہماری دنیا میں کمپئیوٹر بھی متعارف ہوگئے۔ دوستوں سے سنا کہ کمپئیوٹر ایجاد ہوگئے ہیں اور اب ہم بھی ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس استفادے کے لیے پہلی شرط گو بہت سے روپیوں کی تھی ، اِدھر ہماری جیب خالی لہٰذا صرف سوچ کر ہی خوش ہوتے رہے۔



تربیتی کورس پر جرمنی پہنچے تو اندازہ ہوا کہ اپنے اس دو ڈھائی ماہ کے قیام میں ہم بآسانی کچھ رقم پس انداز کرسکتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا ، ہم نے کاغذ قلم سنبھالا اور اپنی حساب دانی کی مدد سے اپنے ٹریولر چیک کی رقم کو ایکسچینج ریٹ سے ضرب دے کر حاصل ضرب یعنی اپنے کل سرمائے کو سب سے اوپر رکھا۔ پھر اس میں سے اپنے ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے نیر بس کے کرائے کی رقم منہا کرتے چلے۔اپنے اس تگڈم کی آخری سطر ہمیں خوش کرنے کے لیے کافی تھی۔ اگلے دن شرماتے شرماتے اپنے کلاس فیلو رچرڈ شرم سے اپنی خواہش کا تذکرہ کرڈالا کہ بھائی ہم ایک کمپئیوٹر خریدنا چاہتے ہیں۔



ادھر شرم کے ساتھ دوستی بھی اچھی نبھ رہی تھی، یعنی اس نے اپنا وعدہ پورا کردکھایا تھا۔ پہلے تو وہ ہمیں شہر کے مختلف اسٹورز پر لے گیا اور وہاں ہماری فرمائش پر کموڈور کی قیمت دریافت کی، پھر ہمیں لے کر شہر سے تقریباً باہر ایک بڑے اسٹورپر جا کر ان کے کاؤنٹر پرہمیں پیش کردیا۔ ہم نے کمپئیوٹر کی قیمت دریافت کی تو پتہ چلا کہ قیمت میں کہیں بھی فرق نہیں ہے، لہٰذا ہم نےاپنے پیارے دوست شرم کے مشورے کے ساتھ، وہیں سے اپنی زندگی کا سب سے پہلا کمپئیوٹر بمع ایک عدد فلاپی ڈرائیو کے خریدا۔ ہم نے ان دونوں چیزوں کے نام لیے اور کلرک نے قریب ہی کسی شیلف سے نکال کر ان چیزوں کو ہمارے حوالے کردیا۔ نہ چیکنگ کی دِقت اور نہ ڈبے کھولنے کی ضرورت، ہم نے قیمت ادا کی اور شرم کے ساتھ آکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اب ایک مشکل اور تھی۔ اس کمپئیوٹر کو ہم کون مانیٹر پر دیکھیں گے؟ ہم نے شرم کو اس مشکل سے آگاہ کیا تو اس نے فوراً گاڑی موڑلی اور سنٹرم میں واقع واحد ڈیپارٹمنٹل اسٹور پہنچ کر ہمیں ایک عدد چھوٹا، چھ انچ اسکرین کا بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی بھی مول لےدیا۔ ہماری ساری مشکلیں آسان ہوچکی تھیں۔ کشاں کشاں گھر پہنچے ۔ گھر پہنچ کر ٹی وی کو ٹیون کیا اور جرمن نشریات دیکھتے ہوئے کمپئیوٹر کو اسکے ڈبوں سے نکال کر سیٹ کیا ۔ پھر کیا تھا، ہماری تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھائی میں۔ رات کوباری باری، دیر تک، کبھی ٹی وی دیکھتے اور کبھی کمپئیوٹر سے کھیلتے۔ چند ایک جملوں کے علاوہ ،( مثلاً ڈانکے شون یا ڈانکے، بیٹے شون، آف ویڈے زین، اش بین آئنے ٹیکنیکار وغیرہ) جو ہم اب تک سیکھ چکے تھے، جرمن زبان گو ہماری سمجھ سے بالاتر تھی ، پھر بھی کبھی کبھی تو اتنے ’اچھے‘ اور ’دلچسپ‘ پروگرام دیکھنے کو ملتے تھے کہ طبیعت باغ باغ ہوجاتی اور ہم عش عش کر اٹھتے۔یہی لن ترانیاں تھیں اور ہم تھے۔پورا ہفتہ اسی طرح مصروف گزر گیا۔



ادھر کسی نے ( گمان غالب یہ ہے کہ شاید شرم نے ہی یا پھر ہمارے امریکن دوست نے) ہمیں آٹھ دس کمپئیوٹر میگزین لادئیے جن میں بہت سے آرکیڈ گیم کے کوڈ موجود تھے۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جُت گئے ٹائیپنگ میں۔ کئی گھنٹوں کی خون ریزی کے بعد جب ہم اس یک پیراگراف کوڈ کو ٹائپ کرچکتے تو ایک معمولی سا آرکیڈ کھیل ہماری دسترس میں ہوتا۔

اسی ٹائیپنگ میں گزریں مری اُن دِنوں کی راتیں



اسی طرح ایک سال گزر گیا اور ہماری دوسری ٹریننگ کا وقت قریب آگیا۔ اس مرتبہ کمپنی ہمیں سنگاپور بھیج رہی تھی۔ کمپئیوٹر ترقی کرچکا تھا اور ہر جگہ آئی بی ایم پی سی ، پی سی ایکس ٹی اور ان کے کلونز کا تذکرہ تھا۔ ہم نے بھی سنگا پور سے ایک عدد کلون خریدنے کی ٹھان لی۔ ہوا یوں کہ:



ہم نے سنگاپور پہنچتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ کاغذ پینسل سنبھال کر بیٹھ گئے اور ایک مکمل بجٹ بنا لیا کہ ہمیں جو زرِ مبادلہ دیا گیا تھا، اس میں سے ہمارا اصل حصہ کتنا ہے اور کس قدر رقم ہمیں واپس لوٹا دینی ہے۔ پھر اپنے حصے میں سے ہم نے ہوٹل اور ٹیکسی کا حساب علیحدہ کرلیا تاکہ کھانے کے لیے اپنی ذاتی رقم کا اندازہ ہوسکے۔ ذاتی یوں کہ اسی میں سے ہم کچھ رقم پس انداز کرسکتے تھے اور اپنی ذاتی خریداری کرسکتے تھے۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو اسی طرح ہم نے اپنے کھانے میں سے کافی رقم پس انداز کی تھی اور ایک عدد کمپئیوٹر خریدا تھا۔ یہاں سے بھی ہم نے ایک عدد کمپئیوٹر خریدنے کا پروگرام بنا لیا ۔ سنگاپور میں یوں تو ساری دنیا کی طرح اچھے ریسٹورینٹ کافی مہنگے ہیں لیکن حکومت کی طرف سےیہاں پر جگہ جگہ کھانے کے سستے اسٹال لگائے گئے ہیں۔ جہاں پر درمیان میں ایک مناسب بیٹھنے کی جگہ کا انتظام کیا گیا ہے اور چاروں جانب کھانے کے اسٹال ہیں جہاں سے کھانے والے اپنی مرضی کی اشیاء خرید کر کھاتے ہیں۔ یہاں پر بیرے ( ویٹرز) نہیں ہوتے بلکہ لوگ خود اپنی مدد آپ( سیلف سروس) کے تحت اپنا کھانا خود ہی اپنی میز تک لے آتے ہیں۔ یہ بندوبست فاسٹ فوڈ ریسٹورینٹوں یعنی میکڈانلڈ اور کے ایف سی سے بھی سستا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جگہ جگہ انڈین مسلمانوں یا ملاین مسلمانوں کے حلال کھانے کے ڈھابے بھی نظر آجاتے ہیں ۔ اسی طرح ہماری دو عدد ترکیبیں ایسی تھیں جو ہماری بچت میں سراسر اضافے کا باعث تھیں۔ پہلی ڈٹ کر ناشتہ کرنا اور دوسری چودھری صاحب کے لائے ہوئے فوڈ کینز سے فائدہ اٹھانا۔ پہلی ترکیب پر ہم سے زیادہ چودھری صاحب عمل کر پاتے تھے اور دوسری ترکیب پرعمل پیرا ہونے میں ہم چودھری صاحب کے شانہ بشانہ شریک ہوتے تھے۔
ہماری دوسری لسٹ خریداری کی تھی ۔ اس دوسری لسٹ میں سرِ فہرست تو جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا ایک عدد کلون کمپئیوٹر تھا۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو ایک عدد کموڈور ۶۴ کمپیوٹر مول لے آئے تھے۔ ادھر کچھ ماہ سے آئی بی ایم کلون کمپئیوٹر عام ہوگئے تھے اور سستے ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ میں تھے۔باقی اشیاء کا دارومدار اس بات پر تھا کہ کمپیوٹر خریدنے کے بعد ہمارے پاس کتنی رقم بچ رہتی ہے۔ اس میں ہمارے اپنے کپڑوں کے علاوہ گھر والوں کے لیے کچھ تحفے تحائف وغیرہ شامل تھے۔ روزآنہ رات کو سونے سے پہلے ہم ان دونوں لسٹوں کو بلا ناغہ اپڈیٹ کرلیتے تھے۔ تاکہ ہر وقت ہمیں اپنی جیب کی حیثیت کا احساس رہے اور ہم اپنے بجٹ سے زیادہ خرچ نہ کرسکیں۔


پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو وہاں دکان پر پہنچ کر دکاندار سے کہا تھا کہ ایک کموڈور کمپیوٹر چاہئے اور اس نے شیلف سے ایک عدد سیل بند ڈبہ نکال دیا تھا جسے لے کر خوشی خوشی ہوٹل آگئے تھے۔ یہاں پر جب ہم نے دکاندار سے کہا کہ ہمیں ایک کمپیوٹر درکار ہے تو وہ پہلے تو حیران ہوکر ہمیں دیکھنے لگا، گویا ہم نے کوئی عجیب بات کہہ دی ہو۔ بولا

’’ کس قسم کا کمپیوٹر چاہیے آپ کو؟‘‘

ہم نے کہا ’’ جیساایک کمپیوٹر ہوتا ہے۔ ویسا ہی چاہیے۔‘‘

بولا’’ کچھ جزیات کی تفصیل ہے آپ کے پاس۔‘‘

ہم نے کہا’’ کمپیوٹر ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو بجلی سے چلتا ہے اور آٹو میٹک ہوتا ہے۔‘‘



وہ ناہنجار اب بھی نہ سمجھا، بولا’’ وہ سب تو مجھے پتہ ہے لیکن آپ کو پروسسر کون سا چاہیے۔ ریم کون سی اور کتنی چاہیے۔ فلاپی ڈسک ڈرائیو کتنی درکار ہیں ۔ مانیٹر کون سا چاہیے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور بھی بہت سی تفصیل تھی جو ہمیں اب یاد نہیں ہے۔

اس بار ہم اسکی بات نہیں سمجھے۔ لوگوں نے بیچ بچائو کروا دیا اور طے پایا کہ وہ جاہل شخص ہمارے لیے ایک عدد کلون آئی بی ایم پی سی ایکس ٹی بنا دے گا ، جس کی جزیات کی تفصیل اس نے ایک کاغذ پرہمیں لکھ دی تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔ ہم نے اسے پیسوں کی نقد ادائیگی کردی اور مال کے طالب ہوئے، بولا۔’’ کمپیوٹر آپ کو ایک ہفتے بعد ملے گا۔ اس عرصے میں میں اسے آپ کے لیے اسمبل کروں گا اور پورا ہفتہ اپنی دکان پر اسے ٹسٹ کروں گا۔‘‘

ہم نے کہا ’’ یہ عجب کہی تم نے۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو ہاتھ کے ہاتھ دکان سے کمپیوٹر لے آئے تھے۔‘‘

لیکن صاحب ہماری ایک نہ چلی۔ اس ناہنجار نے ہماری باتوں کو سمجھنے سے صاف انکار کردیا اور ہم ناکام و نامراد وہاں سے واپس مڑے، اگلے ہفتے تک انتظار کی کوفت اٹھانے کے لیے۔



کراچی ائر پورٹ پر کسٹم آفیسر نے ہمارا سوٹ کیس اور اس کے ساتھ کمپیوٹر اور مانیٹر کے دو ڈبے دیکھے تو بظاہر گھبرا کر اور بباطن خوش ہوتے ہوئے سوال کیا۔‘‘ کیا کیا خرید لیا بھائی جان؟’’

ہم نے سوالیہ انداز میں ان کی جانب دیکھا تو وہ اور زیادہ خوش ہوگئے۔ مرغا پھنس گیا، انھوں نے شاید یہ سوچ کر ہمارا سامان کھلوا لیا، لیکن اسے دیکھتے ہی ان کا منہ بن گیا اور انھوں نے مزید وقت ضائع کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے ہمیں جانے کا اشارہ کردیا۔ ادھر کئی کھیپیے لائن میں موجود تھے جن پر آفیسر صاحب کی نظر کرم ٹہر گئی۔



ائر پورٹ سے اپنے نئے نویلے کمپئیوٹر کو لیے ہم مسرت و شادمانی کے نغمے گاتے گھر پہنچے۔ ایسے موقعے پر جو ہنسی پطرس بخاری ہنسا کرتے تھے وہ ہم بھی ہنسے، یعنی اس میں معصوم بچّے کی مسرّت، جوانی کی خوشدلی، ابلتے ہوئے فواروں کی موسیقی، بلبلوں کا نغمہ، سب ایک دوسرے کے ساتھ ملے تھے۔ گھر پہنچ کر سب سے پہلے کمپئیوٹر کو ترتیب دے کر آن کیا۔ آن ہوتے ہوئے اس نے ہلکی سی ایک سیٹی بجائی اور مانیٹر کا اسکرین بے شمار انگریزی الفاظ سے گویا بھر سا گیا۔ یا الٰہی! ہم حیران ہوئے کہ اتنے بہت سے الفاظ کی موجودگی میں ہم کس جملے کو دیکھیں اور کسے نہ دیکھیں؟ ہماری توجہ کس لائن پر ہونی چاہیے؟



کچھ غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ کمپئیوٹر سوئچ آن ہوتے ہوئے بہت سے پیغامات دیتا ہے جنہیں پڑھنا ضروری نہیں۔ جب سوئچ آن کا مرحلہ تمام ہوا اور اسکرین گویا ٹھہر سا گیا تو ہماری جان میں جان آئی۔ اب یہ الیکٹرانک جن ہمارے اشاروں کا منتظر ہے۔ ہم نے بوٹ فلاپی واپس نکال کر ورڈ اسٹار کی فلاپی ڈرائیو میں ڈالی تو کچھ دیر پھر الفاظ کا طوفان اسکرین پر نمودار ہوا اور جب اس میں میں ٹھہراؤ آیا تب ہم نے اسے حکم دیا۔ ’’ میری کہانی کے نام سے ایک نئی فائل بناؤ!‘‘۔



یوں ہم نے پہلی مرتبہ اصلی کمپئیوٹر استعمال کرنا شروع کیا۔ ورڈ اسٹار، لوٹس ون ٹو تھری اور ڈی بیس تھری پلس وہ مشہور پروگرام تھے جو ہمیں سنگاپور سے فری ملے تھے۔ ان پروگراموں کے علاوہ کمپئیوٹر کھیلوں نے خوب مزہ دیا۔ کھیلوں میں سٹرپ پوکر ہمارے پسندیدہ ترین کھیلوں میں سے تھا۔ آخری تصویر دیکھنے کے اشتیاق میں ساری رات کھیلتے رہتے کہ کبھی تو جیتیں گے اور ہمارے دِل کی مراد بر آئے گی۔پکے جواری جانتے ہوں گے کہ جیت کی لگن کیا شے ہوتی ہے۔ بعد میں کسی دوست نے بتایا کہ ہمیں اتنے ترددکی ضرورت نہ تھی۔

دِل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار

جب ذرا گردن جھکائی، دیکھ لی



دوست نے ہمیں تصویر کی اصلی لوکیشن بتادی۔ تصویر تو دیکھ لی لیکن کھیل کا مزہ جاتا رہا۔



انہی دِنوں ہمارے دوست طارق بھنڈر ہمارے گھر تشریف لائے۔ ہم نے بصد شوق انہیں اپنا نیا کمپئیوٹر دِکھایا۔ طارق صحیح معنوں میں کمپئیوٹر نرڈ تھے۔ ہمارے کمپئیوٹر پر ڈی بیس تھری پلس دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ہمیں راز کی بات بتادی۔ ہم تو اس پروگرام کو مینو سے چلاتے تھے، طارق نے بتایا کہ اس پروگرام کے مزید دو طریقے ڈاٹ پرامپٹ اور پروگرامنگ موڈ ہیں۔ مینو کے ذریعے ہم پروگرام کو براہِ راست حکم دے سکتے ہیں اور پروگرامنگ موڈ میں ہم ڈی بیس تھری پلس کی اپنی زبان میں پروگرام لکھ کر اپنا ڈیٹا بیس بناسکتے ہیں۔



لو جی ! تو یوں ہم بنے پروگرامر اور اپنی مرضی سے اپنا پروگرام بنانے لگے۔ یہ آئی ٹی کے ساتھ ہمارے ہنی مون کا آغاز تھا۔ آفس سے گھر پہنچتے اور رات گئے تک پروگرام بنانے میں مصروف رہتے۔ انہی دنوں کسی نے شاید ہمیں اپنے اس پروگرام کو بذریعہ کلپر کمپائل کرنے کا مشورہ دے دیا، یا یہ ہمیں کسی کتاب سے علم ہوا۔ وللہ اعلم۔ بس پھر کیا تھا۔ پروگرام بناتے ، اسے کلپر کے ذریعے کمپائل کرتے، یوں ڈی بگنگ میں ساری رات گزر جاتی۔ اپنی زندگی کی وہ سنہری راتیں ہمیں زندگی بھر یاد رہیں گی۔



اسی اثنا میں فوکس بیس اور فوکس پرو بھی آگئے لیکن ہم ان پروگراموں کو ٹرائی نہ کرسکے اور اپنے ڈی بیس سے ہی منسلک رہے۔ کچھ دن بعد ڈی بیس فور ایجاد ہوئی اور بری طرح فیل ہوکر قصہٗ پارینہ ہوگئی۔ البتہ جب ونڈوز آگئی اور اس کے ساتھ وژول بیسک کا رواج ہوا اور ڈی بیس فور کے ساتھ ساتھ فوکس بیس اور فوکس پرو بھی مٹ گئے تو ہم نے بھی اپنے آپ کو وژول بیسک پر اپ گریڈ کر لیا اور اسی پروگرامنگ لینگویج میں ڈیٹا بیس پروگرام بنانا شروع کیا۔ کئی کتابیں خریدیں جن میں وژول بیسک کے ذریعے ڈیٹا بیس پروگرامنگ سِکھائی گئی تھی۔ بہت محنت اور بہت سے رت جگوں کے بعد ہم خوبصورت سا انٹر فیس بنانے میں کامیاب ہوگئے۔



اب ہم صرف ان تمام انٹرفیسوں کے لیے سرچ اور کیوریز کی سب روٹین بنانا چاہتے تھے کہ ہمارا ڈیٹا بیس پرگرام مکمل ہوجائے اور ہم اپنی لائبریری کو اپنے کمپئیوٹر کے ذریعے بقائے دوام بخش سکیں۔ اس مقصد کے حصول کی شدید خواہش اپنے دِل میں دبائے ہم اگلے اسباق کی طرف ہمہ تن گوش ہوگئے۔ اگلے اسباق نے ہماری تمام تر امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ سرچ اور کیوریز کے لیے ہمیں کسی لولیول پروگرامنگ لینگویج کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اب ہمیں

جاوا سیکھنی ہوگی؟؟؟ ہائی لیول لینگویج کا بذریعہ کتاب سیکھنا تو ممکنات میں سے ہے اور تھوڑی محنت سے ایس کیا بھی جاسکتا ہے ، جیسا کہ ہم نے کر دکھایا تھا لیکن کسی لو لیول لینگویج کو بذریعہ کتاب سیکھنے کا نہ ہمیں یارا تھا اور نہ ہمارے پاس اتنا وقت، لہٰذا ہم نے دِل پر پتھر رکھ کر پروگرامنگ پر ہی چار حرف بھیج دئیے۔



یوں نہ صرف آئی ٹی اور پروگرامنگ کے ساتھ ہمارے اس سنہری ہنی مون کا خاتمہ ہوگیا بلکہ یوں کہیے کہ وہ چار حرف وہی ثابت ہوئے جو آپ سمجھے۔



غالب ’’چھُٹا یہ شوق اور اب تو ‘‘کبھی کبھی

علامہ اقبال کے انداز میں اپنی مٹھی اپنے سر سے ٹکائے، بیٹھے یہ سوچتے ہیں کہ کیا ہماری اس مختصر زندگی میں آئی ٹی کا امکان ہے؟
 

رانا

محفلین
لاجواب اور بہت ہی عمدہ خلیل بھائی۔:)
آپ نے تو واقعی ہنی مون اسٹائل میں دلچسپ آپ بیتی لکھ ڈالی۔ بہت مزہ ایا پڑھ کر۔ پوری اسٹوری ہی لاجواب تھی لیکن وہ جملہ کمال کا تھا کہ دوست نے کہا ہمیں اتنے تردد کی ضرورت نہ تھی۔:p
 
لاجواب اور بہت ہی عمدہ خلیل بھائی۔:)
آپ نے تو واقعی ہنی مون اسٹائل میں دلچسپ آپ بیتی لکھ ڈالی۔ بہت مزہ ایا پڑھ کر۔ پوری اسٹوری ہی لاجواب تھی لیکن وہ جملہ کمال کا تھا کہ دوست نے کہا ہمیں اتنے تردد کی ضرورت نہ تھی۔:p

آداب عرض ہے رانا بھائی!
 

فلسفی

محفلین
آئی ٹی کے ساتھ ہمارا ہنی مون

از محمد خلیل الرحمٰن

مشتری ہوشیار باش کہ ہم نے کمپیوٹر کو پیدا ہوتے اور جوان ہوتے دیکھا ہے۔ کالج میں حسابی عمل میں لاگ بک سے مدد لیتے لیتے جب انجینئیرنگ یونیورسٹی پہنچے تو ہمارے خوابوں کا شہزادہ یعنی سلائیڈ رول اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ ایک آخری ہچکی کے ساتھ وہ راہیٗ عدم ہوا اور ہماری کلاس میں پہلا کیلکو لیٹر اس وقت در آیا جب ہمارے دوست کالو کے والد نے اسے امیریکا سے ٹیکساس انسٹرومنٹ کا ایک کالا چمکتا ہوا کیلکو لیٹر لاکریا۔ چونکہ ہم دوست اکٹھے ہی مطالعہ کرنے کے عادی تھے لہٰذا ہم نے اپنی دنیا کے اس پہلے کیلکولیٹر سے خوب استفادہ کیا اور کسبِ علم کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے انجینئیر بن گئے۔



پہلی ٹریننگ کے لیے جرمنی روانہ ہونے کو تھے کہ ہماری دنیا میں کمپئیوٹر بھی متعارف ہوگئے۔ دوستوں سے سنا کہ کمپئیوٹر ایجاد ہوگئے ہیں اور اب ہم بھی ان سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس استفادے کے لیے پہلی شرط گو بہت سے روپیوں کی تھی ، اِدھر ہماری جیب خالی لہٰذا صرف سوچ کر ہی خوش ہوتے رہے۔



تربیتی کورس پر جرمنی پہنچے تو اندازہ ہوا کہ اپنے اس دو ڈھائی ماہ کے قیام میں ہم بآسانی کچھ رقم پس انداز کرسکتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا ، ہم نے کاغذ قلم سنبھالا اور اپنی حساب دانی کی مدد سے اپنے ٹریولر چیک کی رقم کو ایکسچینج ریٹ سے ضرب دے کر حاصل ضرب یعنی اپنے کل سرمائے کو سب سے اوپر رکھا۔ پھر اس میں سے اپنے ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے نیر بس کے کرائے کی رقم منہا کرتے چلے۔اپنے اس تگڈم کی آخری سطر ہمیں خوش کرنے کے لیے کافی تھی۔ اگلے دن شرماتے شرماتے اپنے کلاس فیلو رچرڈ شرم سے اپنی خواہش کا تذکرہ کرڈالا کہ بھائی ہم ایک کمپئیوٹر خریدنا چاہتے ہیں۔







ادھر کسی نے ( گمان غالب یہ ہے کہ شاید شرم نے ہی یا پھر ہمارے امریکن دوست نے) ہمیں آٹھ دس کمپئیوٹر میگزین لادئیے جن میں بہت سے آرکیڈ گیم کے کوڈ موجود تھے۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور جُت گئے ٹائیپنگ میں۔ کئی گھنٹوں کی خون ریزی کے بعد جب ہم اس یک پیراگراف کوڈ کو ٹائپ کرچکتے تو ایک معمولی سا آرکیڈ کھیل ہماری دسترس میں ہوتا۔

اسی ٹائیپنگ میں گزریں مری اُن دِنوں کی راتیں



اسی طرح ایک سال گزر گیا اور ہماری دوسری ٹریننگ کا وقت قریب آگیا۔ اس مرتبہ کمپنی ہمیں سنگاپور بھیج رہی تھی۔ کمپئیوٹر ترقی کرچکا تھا اور ہر جگہ آئی بی ایم پی سی ، پی سی ایکس ٹی اور ان کے کلونز کا تذکرہ تھا۔ ہم نے بھی سنگا پور سے ایک عدد کلون خریدنے کی ٹھان لی۔ ہوا یوں کہ:



ہم نے سنگاپور پہنچتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ کاغذ پینسل سنبھال کر بیٹھ گئے اور ایک مکمل بجٹ بنا لیا کہ ہمیں جو زرِ مبادلہ دیا گیا تھا، اس میں سے ہمارا اصل حصہ کتنا ہے اور کس قدر رقم ہمیں واپس لوٹا دینی ہے۔ پھر اپنے حصے میں سے ہم نے ہوٹل اور ٹیکسی کا حساب علیحدہ کرلیا تاکہ کھانے کے لیے اپنی ذاتی رقم کا اندازہ ہوسکے۔ ذاتی یوں کہ اسی میں سے ہم کچھ رقم پس انداز کرسکتے تھے اور اپنی ذاتی خریداری کرسکتے تھے۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو اسی طرح ہم نے اپنے کھانے میں سے کافی رقم پس انداز کی تھی اور ایک عدد کمپئیوٹر خریدا تھا۔ یہاں سے بھی ہم نے ایک عدد کمپئیوٹر خریدنے کا پروگرام بنا لیا ۔ سنگاپور میں یوں تو ساری دنیا کی طرح اچھے ریسٹورینٹ کافی مہنگے ہیں لیکن حکومت کی طرف سےیہاں پر جگہ جگہ کھانے کے سستے اسٹال لگائے گئے ہیں۔ جہاں پر درمیان میں ایک مناسب بیٹھنے کی جگہ کا انتظام کیا گیا ہے اور چاروں جانب کھانے کے اسٹال ہیں جہاں سے کھانے والے اپنی مرضی کی اشیاء خرید کر کھاتے ہیں۔ یہاں پر بیرے ( ویٹرز) نہیں ہوتے بلکہ لوگ خود اپنی مدد آپ( سیلف سروس) کے تحت اپنا کھانا خود ہی اپنی میز تک لے آتے ہیں۔ یہ بندوبست فاسٹ فوڈ ریسٹورینٹوں یعنی میکڈانلڈ اور کے ایف سی سے بھی سستا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جگہ جگہ انڈین مسلمانوں یا ملاین مسلمانوں کے حلال کھانے کے ڈھابے بھی نظر آجاتے ہیں ۔ اسی طرح ہماری دو عدد ترکیبیں ایسی تھیں جو ہماری بچت میں سراسر اضافے کا باعث تھیں۔ پہلی ڈٹ کر ناشتہ کرنا اور دوسری چودھری صاحب کے لائے ہوئے فوڈ کینز سے فائدہ اٹھانا۔ پہلی ترکیب پر ہم سے زیادہ چودھری صاحب عمل کر پاتے تھے اور دوسری ترکیب پرعمل پیرا ہونے میں ہم چودھری صاحب کے شانہ بشانہ شریک ہوتے تھے۔
ہماری دوسری لسٹ خریداری کی تھی ۔ اس دوسری لسٹ میں سرِ فہرست تو جیسا کہ ہم نے ابھی عرض کیا ایک عدد کلون کمپئیوٹر تھا۔ پار سال جب ہم جرمنی گئے تھے تو ایک عدد کموڈور ۶۴ کمپیوٹر مول لے آئے تھے۔ ادھر کچھ ماہ سے آئی بی ایم کلون کمپئیوٹر عام ہوگئے تھے اور سستے ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ میں تھے۔باقی اشیاء کا دارومدار اس بات پر تھا کہ کمپیوٹر خریدنے کے بعد ہمارے پاس کتنی رقم بچ رہتی ہے۔ اس میں ہمارے اپنے کپڑوں کے علاوہ گھر والوں کے لیے کچھ تحفے تحائف وغیرہ شامل تھے۔ روزآنہ رات کو سونے سے پہلے ہم ان دونوں لسٹوں کو بلا ناغہ اپڈیٹ کرلیتے تھے۔ تاکہ ہر وقت ہمیں اپنی جیب کی حیثیت کا احساس رہے اور ہم اپنے بجٹ سے زیادہ خرچ نہ کرسکیں۔










ائر پورٹ سے اپنے نئے نویلے کمپئیوٹر کو لیے ہم مسرت و شادمانی کے نغمے گاتے گھر پہنچے۔ ایسے موقعے پر جو ہنسی پطرس بخاری ہنسا کرتے تھے وہ ہم بھی ہنسے، یعنی اس میں معصوم بچّے کی مسرّت، جوانی کی خوشدلی، ابلتے ہوئے فواروں کی موسیقی، بلبلوں کا نغمہ، سب ایک دوسرے کے ساتھ ملے تھے۔ گھر پہنچ کر سب سے پہلے کمپئیوٹر کو ترتیب دے کر آن کیا۔ آن ہوتے ہوئے اس نے ہلکی سی ایک سیٹی بجائی اور مانیٹر کا اسکرین بے شمار انگریزی الفاظ سے گویا بھر سا گیا۔ یا الٰہی! ہم حیران ہوئے کہ اتنے بہت سے الفاظ کی موجودگی میں ہم کس جملے کو دیکھیں اور کسے نہ دیکھیں؟ ہماری توجہ کس لائن پر ہونی چاہیے؟



کچھ غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ کمپئیوٹر سوئچ آن ہوتے ہوئے بہت سے پیغامات دیتا ہے جنہیں پڑھنا ضروری نہیں۔ جب سوئچ آن کا مرحلہ تمام ہوا اور اسکرین گویا ٹھہر سا گیا تو ہماری جان میں جان آئی۔ اب یہ الیکٹرانک جن ہمارے اشاروں کا منتظر ہے۔ ہم نے بوٹ فلاپی واپس نکال کر ورڈ اسٹار کی فلاپی ڈرائیو میں ڈالی تو کچھ دیر پھر الفاظ کا طوفان اسکرین پر نمودار ہوا اور جب اس میں میں ٹھہراؤ آیا تب ہم نے اسے حکم دیا۔ ’’ میری کہانی کے نام سے ایک نئی فائل بناؤ!‘‘۔



یوں ہم نے پہلی مرتبہ اصلی کمپئیوٹر استعمال کرنا شروع کیا۔ ورڈ اسٹار، لوٹس ون ٹو تھری اور ڈی بیس تھری پلس وہ مشہور پروگرام تھے جو ہمیں سنگاپور سے فری ملے تھے۔ ان پروگراموں کے علاوہ کمپئیوٹر کھیلوں نے خوب مزہ دیا۔ کھیلوں میں سٹرپ پوکر ہمارے پسندیدہ ترین کھیلوں میں سے تھا۔ آخری تصویر دیکھنے کے اشتیاق میں ساری رات کھیلتے رہتے کہ کبھی تو جیتیں گے اور ہمارے دِل کی مراد بر آئے گی۔پکے جواری جانتے ہوں گے کہ جیت کی لگن کیا شے ہوتی ہے۔ بعد میں کسی دوست نے بتایا کہ ہمیں اتنے ترددکی ضرورت نہ تھی۔

دِل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار

جب ذرا گردن جھکائی، دیکھ لی



دوست نے ہمیں تصویر کی اصلی لوکیشن بتادی۔ تصویر تو دیکھ لی لیکن کھیل کا مزہ جاتا رہا۔



انہی دِنوں ہمارے دوست طارق بھنڈر ہمارے گھر تشریف لائے۔ ہم نے بصد شوق انہیں اپنا نیا کمپئیوٹر دِکھایا۔ طارق صحیح معنوں میں کمپئیوٹر نرڈ تھے۔ ہمارے کمپئیوٹر پر ڈی بیس تھری پلس دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ہمیں راز کی بات بتادی۔ ہم تو اس پروگرام کو مینو سے چلاتے تھے، طارق نے بتایا کہ اس پروگرام کے مزید دو طریقے ڈاٹ پرامپٹ اور پروگرامنگ موڈ ہیں۔ مینو کے ذریعے ہم پروگرام کو براہِ راست حکم دے سکتے ہیں اور پروگرامنگ موڈ میں ہم ڈی بیس تھری پلس کی اپنی زبان میں پروگرام لکھ کر اپنا ڈیٹا بیس بناسکتے ہیں۔



لو جی ! تو یوں ہم بنے پروگرامر اور اپنی مرضی سے اپنا پروگرام بنانے لگے۔ یہ آئی ٹی کے ساتھ ہمارے ہنی مون کا آغاز تھا۔ آفس سے گھر پہنچتے اور رات گئے تک پروگرام بنانے میں مصروف رہتے۔ انہی دنوں کسی نے شاید ہمیں اپنے اس پروگرام کو بذریعہ کلپر کمپائل کرنے کا مشورہ دے دیا، یا یہ ہمیں کسی کتاب سے علم ہوا۔ وللہ اعلم۔ بس پھر کیا تھا۔ پروگرام بناتے ، اسے کلپر کے ذریعے کمپائل کرتے، یوں ڈی بگنگ میں ساری رات گزر جاتی۔ اپنی زندگی کی وہ سنہری راتیں ہمیں زندگی بھر یاد رہیں گی۔



اسی اثنا میں فوکس بیس اور فوکس پرو بھی آگئے لیکن ہم ان پروگراموں کو ٹرائی نہ کرسکے اور اپنے ڈی بیس سے ہی منسلک رہے۔ کچھ دن بعد ڈی بیس فور ایجاد ہوئی اور بری طرح فیل ہوکر قصہٗ پارینہ ہوگئی۔ البتہ جب ونڈوز آگئی اور اس کے ساتھ وژول بیسک کا رواج ہوا اور ڈی بیس فور کے ساتھ ساتھ فوکس بیس اور فوکس پرو بھی مٹ گئے تو ہم نے بھی اپنے آپ کو وژول بیسک پر اپ گریڈ کر لیا اور اسی پروگرامنگ لینگویج میں ڈیٹا بیس پروگرام بنانا شروع کیا۔ کئی کتابیں خریدیں جن میں وژول بیسک کے ذریعے ڈیٹا بیس پروگرامنگ سِکھائی گئی تھی۔ بہت محنت اور بہت سے رت جگوں کے بعد ہم خوبصورت سا انٹر فیس بنانے میں کامیاب ہوگئے۔



اب ہم صرف ان تمام انٹرفیسوں کے لیے سرچ اور کیوریز کی سب روٹین بنانا چاہتے تھے کہ ہمارا ڈیٹا بیس پرگرام مکمل ہوجائے اور ہم اپنی لائبریری کو اپنے کمپئیوٹر کے ذریعے بقائے دوام بخش سکیں۔ اس مقصد کے حصول کی شدید خواہش اپنے دِل میں دبائے ہم اگلے اسباق کی طرف ہمہ تن گوش ہوگئے۔ اگلے اسباق نے ہماری تمام تر امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ سرچ اور کیوریز کے لیے ہمیں کسی لولیول پروگرامنگ لینگویج کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اب ہمیں

جاوا سیکھنی ہوگی؟؟؟ ہائی لیول لینگویج کا بذریعہ کتاب سیکھنا تو ممکنات میں سے ہے اور تھوڑی محنت سے ایس کیا بھی جاسکتا ہے ، جیسا کہ ہم نے کر دکھایا تھا لیکن کسی لو لیول لینگویج کو بذریعہ کتاب سیکھنے کا نہ ہمیں یارا تھا اور نہ ہمارے پاس اتنا وقت، لہٰذا ہم نے دِل پر پتھر رکھ کر پروگرامنگ پر ہی چار حرف بھیج دئیے۔



یوں نہ صرف آئی ٹی اور پروگرامنگ کے ساتھ ہمارے اس سنہری ہنی مون کا خاتمہ ہوگیا بلکہ یوں کہیے کہ وہ چار حرف وہی ثابت ہوئے جو آپ سمجھے۔



غالب ’’چھُٹا یہ شوق اور اب تو ‘‘کبھی کبھی

علامہ اقبال کے انداز میں اپنی مٹھی اپنے سر سے ٹکائے، بیٹھے یہ سوچتے ہیں کہ کیا ہماری اس مختصر زندگی میں آئی ٹی کا امکان ہے؟
ارے سر آپ اتنے پرانے پاپی ہیں :eek: بظاہر ماشاءاللہ، نوجوان نہ سہی لیکن جوانوں کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔:)

میرا سب سے پہلا تعارف جدید کمپیوٹر کے بزرگوار محترم 286 سے ہوا تھا۔ اس حساب سے تو آپ بزرگوں کے بھی بزرگوں سے شناسائی رکھتے ہیں اور آپ کا احترام ہم پر لازم ہوگیا ہے۔ :notworthy:

سر بہت ہی مزیدار تحریر ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
 
Top