امن وسیم

محفلین
حصہ اول
( مولانا امین احسن اصلاحی )

حروف مقطعات کو مقطعات کیوں کہتے ہیں؟ چونکہ ان حرفوں کی قراء ت عام حروف کے خلاف ہے، یعنی یہ حروف ہمیشہ الگ الگ کر کے ساکنۃ الاواخر پڑھے جاتے ہیں۔ مثلا
ً ’الٓم‘ کو الف، لام، میم پڑھیں گے۔
اس لیے ان کو ’’مقطعات‘‘ کہا جاتا ہے۔

یہ حروف قرآن مجید میں جہاں جہاں آئے ہیں، سورتوں کے بالکل شروع میں آئے ہیں۔ ان کے مواقع پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ حروف جن سورتوں کے شروع میں آئے ہیں، ان سورتوں کے نام ہیں۔

قرآن مجید میں اکثر جگہ ان حرفوں کے بعد
’ذٰلِکَ‘ اور ’تِلْکَ‘ وغیرہ کے الفاظ ملتے ہیں۔

مثلاً سورۂ لقمان میں فرمایا گیا ہے:
الٓمّٓ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ.(۳۱: ۱)
’’’ا ل م‘ یہ کتاب حکیم کی آیتیں ہیں۔‘‘

سورۂ شعراء میں آیا ہے:
طٓسٓمّٓ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ.(۲۶: ۱۔۲)
’’’طٓسٓمٓ‘ یہ کتاب مبین کی آیتیں ہیں۔‘‘

سورۂ حجر میں ہے:
الٓرٰ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ.(۱۵: ۱)
’’’ا ل رٰ‘ یہ کتاب اور قرآن مبین کی آیتیں ہیں۔‘‘

سورۂ بقرہ میں ہے:
الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لاَ رَیْْبَ فِیْہِ.(۲: ۱)
’’’ا ل م‘ یہ آسمانی کتاب ہے جس میں کوئی شبہ نہیں۔‘‘

اس قسم کی آیتیں قرآن مجید میں بہت ہیں۔
ان تمام آیتوں میں حروف مقطعات کے بعد ہی فرمایا گیا ہے کہ
’تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ‘ (یہ کتاب آسمانی کی آیتیں ہیں)،
’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ‘ (یہ کتاب ہے)۔

اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اسم اشارہ کا مشارٌ الیہ کون ہے؟ یہ تو معلوم ہے کہ قرآن نے ان تمام مقامات میں اسماء اشارہ میں سے صرف ’ذٰلِکَ‘ اور ’تِلْکَ‘ استعمال کیے ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ ’ذٰلِکَ‘ اور ’تِلْکَ‘ عام طور پر ماسبق ہی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے خاص ہیں اور اہل نحو جو یہ کہتے ہیں کہ یہ اشارہ بعید کے لیے ہے تو اس سے ان کی مراد یہی ہوتی ہے۔ ارباب تفسیر جو ’ذٰلِکَ‘ کو ’ھذا‘ کے معنی میں لیتے ہیں تو محض تقریب فہم کے لیے یہ کہتے ہیں، ورنہ مطلب ان کا بھی یہی ہوتا ہے۔ اس لیے انھی حروف مقطعات کو جو ان کے پہلے مذکور ہیں، ان اسماء اشارہ کا مشارٌ الیہ ماننا پڑے گا۔ اگر ان حرفوں کو مشارٌ الیہ نہ مانیے تو پھر ’ذٰلِکَ‘ کو ’ھذا‘ کے معنی میں لینا پڑے گا۔ اور ان دونوں میں جو عظیم فرق ہے، وہ زبان کے جاننے والوں سے مخفی نہیں، خود قرآن مجید میں اس فرق کی متعدد واضح مثالیں موجود ہیں۔ پس جب یہی حروف ان اسماء اشارہ کے مشارٌ الیہ ہیں، تو پھر آیت کا ترجمہ یہ ہوا کہ یہ
’’(یعنی ’الٓم‘) کتاب حکیم کی آیتیں ہیں‘‘۔
جس کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں
کہ یہ سورہ جس کا نام ’الٓم‘ ہے کتاب حکیم کی آیتیں ہیں۔
غور کیجیے، آیتوں کے سیاق اور لفظوں کے اشارہ سے یہ بات کس قدر واضح ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔

اس موقع پر ایک اہم مغالطہ کو رفع کر دینا ضروری ہے۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ جب یہ سورتوں کے نام ہیں تو ان کو قرآن سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ حروف گو سورتوں کے نام ہیں، لیکن پھر بھی من جملۂ قرآن ہیں، دو وجہوں سے،
ایک تو یہ کہ جیسا اوپر گزر چکا، قرآن نے انھی حروف کو مشارٌ الیہ قرار دیا ہے۔ پس قرآن جب خود ان کی طرف اشارہ کر رہا ہے تو وہ حروف بھی قرآن ہی میں داخل ہیں۔
دوسرے یہ کہ یہ حروف بھی قرآن ہی کے ساتھ نازل ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کو کسی طرح ترک نہیں کیا جا سکتا۔ ’ما بین الدفتین‘ جو صحیفہ ہمارے پاس موجود ہے، وہ عہدرسالت سے حرف بہ حرف محفوظ و مصون چلا آتا ہے اور ہم کو اسی کی قراء ت و تلاوت کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے ان حروف مقطعات کو کسی طرح بھی قرآن سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ بعض سورتوں کے نام ایسے حروف سے رکھنا جن کے معنی عمیق و مستور ہیں، قرآن کے عربی مبین ہونے کے منافی ہے، لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ تمام حروف ہجا عربوں کو معلوم تھے اور ان کی عام بول چال میں ان کا رواج تھا، اس لیے تمام مفرد اسماء سورہ، مثلاً صؔ ، قؔ ، نؔ عربی مبین کے حکم میں ہیں۔ باقی رہے مرکبات مثلاً ’حم‘، ’الٓم‘، ’المص‘، ’حمعسق‘ تو جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں جن کے شروع میں یہ واقع ہیں تب بھی عربی مبین کے حکم میں داخل ہو گئے، اگر اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ اہل عرب ان کلمات سے بالکل ناواقف تھے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ عرب اس طرح کے مرکبات سے نام رکھتے تھے اور ان کے معنی بالکل ایسے مخصوص اصطلاحی قرار دے لیتے تھے جو ان کے مفردات سے نہیں سمجھے جا سکتے تھے۔ ان کے اشخاص، گھوڑوں، جھنڈوں، تلواروں کے اسماء میں اس کی مثالیں تلاش سے دستیاب ہو سکتی ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ اسماء اس وضع جدید کے لیے متعارف ہو جاتے تھے اور سامع ان کو سن کر ان سے اس جدید معنی کو سمجھ جاتا تھا۔ اس لیے یہ مرکب اسماء بھی عربی مبین کے حکم سے خارج نہیں ہوئے،

لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی سورہ کا نام ’الٓم‘ کسی کا ’الٓر‘، کسی کا ’طٓسٓم‘ کیوں رکھا گیا؟ ان ناموں میں اور ان سورتوں میں جن کے شروع میں یہ حروف آئے ہیں، کوئی معنوی ربط اور مناسبت بھی ہے یا نہیں؟
اگلے علما نے بھی اس حقیقت کے کھوج میں بڑی بڑی محنتیں کی ہیں اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے، اس بارے میں ان کے ۲۹ اقوال ہیں، لیکن ان تمام اقوال میں سے کسی قول میں بھی قرآن سے تمسک نہیں کیا گیا ہے، اس لیے ہم ان اقوال سے کوئی بحث نہیں کریں گے۔ قرآن کی روشنی میں ہم نے جو معنوی مناسبت سمجھی ہے، صرف اسی کے بیان پر اکتفا کریں گے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر اس حقیقت مستور کی طرف قرآن کے اشاروں کی روشنی رہنمائی نہ کرتی تو ہم اس بحث کو ہاتھ نہ لگاتے۔ ’اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِقَبَسٍ‘ (طٰہٰ ۲۰: ۱۰)۔

عربوں کا یہ دستور تھا کہ جب وہ کسی چیز کا نیا نام رکھتے تو اس چیز کا خاص خیال رکھتے کہ اسم اپنے مسمیٰ کی مخصوص خصوصیات کا حامل ضرور ہو۔ عربوں کے القاب پر نگاہ ڈالو تو یہ حقیقت آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی ’اَلْمَلِکُ الضِّلِّیْلُ‘ امرء القیس کا لقب ہے۔ دیکھو، یہ مختصر لقب صاحب لقب کی مخصوص خصوصیات کا کس درجہ حامل ہے؟ اور ہونا بھی یہی چاہیے، کیونکہ ’اسم‘ دراصل ’وسم‘ سے مشتق ہے۔ پس اہمیت کے لیے وہی چیز صالح اور مناسب ہو سکتی ہے جو علامت کا کام دے سکے، اس لیے ضروری ہے کہ جب کسی چیز کا کوئی نام رکھا جائے تو اس میں اتنی صلاحیت تو ضرور ہو کہ اگر سب نہیں تو مسمیٰ کی بعض ابھری ہوئی اور نمایاں خصوصیتوں کو واضح کر سکے۔ قرآن مجید میں جو سورتوں کے نام رکھے گئے ہیں، ان میں اسی طرح کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوتی ہے۔ ان ناموں سے کم از کم ان سورتوں کی کوئی نمایاں علامت ضرور سامنے آجاتی ہے۔ پس جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ حروف مقطعات بھی سورتوں کے نام ہیں تو ضروری ہے کہ یہ حروف بھی بامعانی ہوں اور ان حروف سے جو مرکبات بنائے گئے ہیں، وہ بھی عربی زبان کے عام مرکب ناموں کی طرح بامعانی ہوں۔

( جاری ہے )
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
حصہ دوم

یہ معلوم ہے کہ قدیم عربی زبان میں ہندی اور انگریزی کی طرح حرفوں کے نام مجرد آوازوں کے نام نہیں تھے، بلکہ یہ نام درحقیقت چیزوں کے نام ہوتے تھے اور انھی کی شکلوں پر بنائے جاتے تھے۔ آج بھی باوجود یہ کہ زبان پر ہزاروں انقلابات آ چکے ہیں اور بے شمار تبدیلیاں ہو چکی ہیں، بہت سے حروف انھی چیزوں کے ناموں کے لیے بولے جاتے ہیں اور کسی قدر انھی کی شکلوں میں لکھے بھی جاتے ہیں۔ عربی حروف کے ناموں کے اصل معانی کے بعض گوشے ظاہر ہو چکے ہیں۔ مثلاً الف اپنی اصل اور قدیم شکل میں گائے کے سر کی شکل کا ہوتا تھا اور ’الف‘ گائے کا نام تھا اور ’با‘ عبرانی زبان میں بیت کا نام تھا، جس کو عربی میں بیت کہتے ہیں اور جیم عبرانی میں جیمل کو کہتے تھے، جس کو عربی میں جمل کہتے ہیں۔ غور کرو ’ج‘ کی موجودہ شکل اونٹ کی بگڑی ہوئی صورت سے کس قدر ملتی جلتی ہے۔
ہم نے جس حقیقت کی طرف اوپر اشارہ کیا ہے، وہ نہایت معروف ہے۔ عربی کتابت کی تاریخ جاننے والے اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ موجودہ عربی حروف دراصل عبرانی حرفوں کی مہذب شکلیں ہیں اور عبرانی حروف عرب کے قدیم حرفوں سے ماخوذ تھے۔ اہرام مصر پر قبطیوں کی تمثالی کتابت کے جو کتبے آج بھی موجود ہیں، وہ تمام کے تمام قبطیوں نے عربوں ہی سے سیکھے تھے، لیکن چونکہ ایک چیز دوسرے قالب میں جا کر کچھ نہ کچھ ضرور بدل جاتی ہے، اس لیے عربوں کے تمثالی حروف جب قبطیوں کے ہاتھ میں پہنچے تو انھوں نے اپنے افکار و عقائد کے مطابق بہت کچھ ان میں تبدیلیاں کر دیں۔ اس طرح پر عرب قدیم کی تمثالی کتابت مشکوک و مشتبہ ہو کر رہ گئی۔
عربی حرفوں کے ناموں کے متعلق اوپر جو کچھ عرض کیا گیا ہے، وہ کوئی افسانہ یا من گھڑت بات نہیں ہے۔ اگر غور کیجیے تو خود قرآن مجید بھی اس راز کی طرف رہنمائی کر رہا ہے۔ مثلاً دیکھیے قرآن مجید نے ایک سورہ کا نام نؔ رکھا ہے۔ ن ایک ایسا حرف ہے جو موجودہ عربی زبان میں بھی بامعنی سمجھا جاتا ہے۔ نونؔ کے معنی مچھلی کے ہیں اور جس سورہ کا یہ نام ہے، اس میں صرف یونس علیہ السلام کا تذکرہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں یونس علیہ السلام کو ’صَاحِبُ الْحُوْتِ‘ (مچھلی والے) ہی کے نام سے یاد بھی فرمایا ہے۔ غور کرو! ان تمام باتوں میں ایک متوسم کے لیے سورہ کے وجۂ تسمیہ کو سمجھنے کے لیے کتنا واضح اشارہ موجود ہے۔ کیا کوئی اسم اس سے بھی زیادہ اپنے مسمیٰ کے ساتھ ربط اور مناسبت کا حامل ہو سکتا ہے؟

پس تفصیل بالا سے جب یہ ثابت ہو چکا کہ سورۂ نؔ کا نام ن حرف ن کی معنوی مناسبت کی بنا پر رکھا گیا ہے تو ہم کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ باقی اور سورتوں کے نام بھی جن کے نام حروف مقطعات پر رکھے گئے ہیں، ان حروف کے ابتدائی معانی کے مطابق اپنی اپنی سورتوں کے ساتھ معنوی مناسبت رکھتے ہوں گے۔ اس لیے اب ہمارا فرض ہے کہ ہم خط تمثالی میں حرفوں کے جو معانی رہے ہوں، ان کا سراغ لگائیں۔ اگر ہم کو یہ تمام معانی صحیح صحیح معلوم ہو جائیں تو حروف مقطعات کی اقرب الی الصحۃ تاویل متعین کی جا سکتی ہے۔ ہمارے اس خیال کی تائید ایک اور حرف سے بھی ہوتی ہے جس کو ہماری بولی میں طؔ کہتے ہیں۔ ط کی صورت عبرانی زبان میں 6 ہے، اس کی ظاہری صورت عین اس کی معنوی حقیقت کے مطابق ہے۔ عبرانی زبان میں ط کے معنی سانپ کے ہیں اور دیکھیے یہ حرف بنایا بھی گیا ہے بالکل سانپ ہی کی صورت پر۔ حرف کی اس صورت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک سانپ ہے جو اپنے سر کو اٹھائے ہوئے کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ اب حرف کی اس حقیقت کو سامنے رکھ کر غور کیجیے تو سمجھ میں آتا ہے کہ جن سورتوں کے نام میں ط ہو گا، ان کو سانپ سے کسی نہ کسی طرح مناسبت ضرور ہو گی۔ اچھا آئیے قرآن مجید میں ان سورتوں کی تلاوت کریں جو ط سے شروع ہوتی ہیں اور دیکھیں کہ اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے یا نہیں؟ قرآن مجید میں ایک سورہ ہے جس کا نام ہے ’طٓہٰ‘۔ اس سورہ میں ابتدائی تمہید کے بعد ہی فوراً موسیٰ علیہ السلام کی حکایت اور ان کے عصا کے سانپ بن جانے کا معجزہ بیان فرمایا گیا ہے۔ دیکھیے اس سورہ میں سورہ کے نام اور اس کے مسمیٰ میں کتنی واضح معنوی مناسبت موجود ہے۔ سورہ ’طٓہٰ‘ کے علاوہ اور دوسری سورتیں بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے ط سے شروع فرمایا ہے۔ مثلاً ’طسٓم‘، ’طسٓ‘ اور ’طسمٓ‘ سب کی سب موسیٰ علیہ السلام کے قصہ سے شروع ہوتی ہیں اور سب میں ان کے عصا کے سانپ بن جانے کا تذکرہ صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ پھر اس نکتہ کو بھی سامنے رکھیے کہ ان چار سورتوں (’طٓہٰ‘، ’طسٓم‘، ’طسٓ‘، ’طسمٓ‘) کو جو ط سے شروع ہوتی ہیں، چھوڑ کر باقی تمام سورتوں کی دو قسمیں ہیں۔ کچھ سورتیں تو ایسی ہیں جس میں سرے سے حضرت موسیٰ کا قصہ ہی مذکور نہیں ہے اور اکثر سورتیں ایسی ہیں جن میں موسیٰ علیہ السلام کا قصہ تو مذکور ہے، لیکن لٹھیا کے سانپ بننے کا واقعہ مذکور نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن سورتوں میں لٹھیا کے سانپ بننے کا واقعہ مذکور تھا، وہی اس نام کی مستحق تھیں اور ط کا تسمیہ انھی سورتوں کو سزاوار تھا۔ پورے قرآن میں صرف سورۃ الاعراف ایک ایسی سورہ ہے جس نے عصا کے سانپ بننے کا معجزہ بھی بیان کیا ہے اور اس کے ابتدا میں ط بھی نہیں ہے، لیکن اس سے ہمارے نظریہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے۔ اس سورہ کو امعان نظر سے پڑھو تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سورہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ حضرات انبیا سابقین، حضرت نوح، ہود، صالح، لوط، شعیب علیہم السلام کے قصوں کے سلسلہ میں تبعاً آ گیا ہے۔ اسی وجہ سے اس سورہ کو ط سے نہیں شروع کیا گیا۔ ورنہ جن سورتوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس قصہ کو بطور اصل کے بیان فرمایا گیا ہے، آپ نے دیکھا کہ ان تمام سورتوں کو ط سے شروع کیا گیا تھا۔ ط والی تمام سورتیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے مخصوص ہیں۔ ان سورتوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے مخصوص قرار دینا تنہا ہمارا ہی خیال نہیں ہے۔ بعض علماے متقدمین نے بھی یہی سمجھا ہے۔ سخاوی کا قول ہے کہ سورۂ ’طٓہٰ‘ کا نام سورۂ کلیم ہے اور ہذلی نے بھی ’’کامل‘‘ میں اس سورہ کا نام سورۂ موسیٰ لکھا ہے۔
بہرحال ان تمام تفصیلات سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ جن سورتوں کے تہجی ناموں میں ط موجود ہے، ان کے ناموں میں اور مسمیٰ میں نہایت ہی گہری معنوی مناسبت ہے۔ اسی طرح دائرۂ فکر و نظر کو اگر اور وسیع کیجیے تو سمجھ میں آتا ہے کہ ’الٓم‘ اور ’الٓرٰ‘ کی قسم کے ناموں میں بھی ان کی سورتوں کے ساتھ خاصی معنوی مناسبت پائی جاتی ہے۔ اوپر گزر چکا ہے کہ خط تمثالی میں الف کی شکل گائے کے سر کی طرح ہوتی تھی۔ نیز یہ حرف ان کے نزدیک ’’الٰہ واحد‘‘ پر دلالت کرتا تھا۔ قرآن مجید کو گہری نظر سے مطالعہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ جن جن سورتوں کے نام کے شروع میں الف آیا ہے، ’’ایمان باللہ‘‘ ان کے اعظم مطالب میں سے ہے۔ اس لیے ان ناموں کے متعلق بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنے اپنے مسمیٰ سے گہرا ربط نہیں رکھتے ہیں۔
یہ چند مثالیں ہیں۔ اگر اسی طرح ہر حرف کے متعلق صحیح معلومات حاصل کی جا سکیں تو امید ہے کہ تمام حروف مقطعات کی مناسبت واضح ہو سکتی ہے، لیکن اس میں پوری کامیابی صرف اللہ تعالیٰ کی ہدایت و رہنمائی سے ہی ممکن ہے، مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی چیز سے ناواقفیت اس کے عدم کو مستلزم نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز موجود ہو، مگر ہم اس سے واقف نہ ہوں پس تلاش جاری رہنی چاہیے اور خدا پر پورا بھروسا رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر مشکل میں مدد فرماتا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
حروف مقطعات کے معنی ولی اللہ جانتے ہیں. صاحب ولایت کو راز سے پردہ ہٹانے کی اجازت نہیں ہوتی. قران پاک کے لفظ روح میں اتار لیجیے، معانی کھل جاتے ہیں. مقطعات قران کے اصل کو سمجھنے کی کنجیاں ہیں..یہ اللہ کے پیامبر اور اللہ ہی جانتے ہیں کہ کیا مطلب ...باقی سارا قران پاک ہے ...اس کے خیال پر ڈسکشن کرتے ہیں.ماشاء اللہ آپ کی لگن قابل دید ہے .آج کل قران پاک کے قاری کم ہیں ..آپ کے علم سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا. سلامت رہیے
 

عرفان سعید

محفلین
حصہ دوم

یہ معلوم ہے کہ قدیم عربی زبان میں ہندی اور انگریزی کی طرح حرفوں کے نام مجرد آوازوں کے نام نہیں تھے، بلکہ یہ نام درحقیقت چیزوں کے نام ہوتے تھے اور انھی کی شکلوں پر بنائے جاتے تھے۔ آج بھی باوجود یہ کہ زبان پر ہزاروں انقلابات آ چکے ہیں اور بے شمار تبدیلیاں ہو چکی ہیں، بہت سے حروف انھی چیزوں کے ناموں کے لیے بولے جاتے ہیں اور کسی قدر انھی کی شکلوں میں لکھے بھی جاتے ہیں۔ عربی حروف کے ناموں کے اصل معانی کے بعض گوشے ظاہر ہو چکے ہیں۔ مثلاً الف اپنی اصل اور قدیم شکل میں گائے کے سر کی شکل کا ہوتا تھا اور ’الف‘ گائے کا نام تھا اور ’با‘ عبرانی زبان میں بیت کا نام تھا، جس کو عربی میں بیت کہتے ہیں اور جیم عبرانی میں جیمل کو کہتے تھے، جس کو عربی میں جمل کہتے ہیں۔ غور کرو ’ج‘ کی موجودہ شکل اونٹ کی بگڑی ہوئی صورت سے کس قدر ملتی جلتی ہے۔
ہم نے جس حقیقت کی طرف اوپر اشارہ کیا ہے، وہ نہایت معروف ہے۔ عربی کتابت کی تاریخ جاننے والے اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ موجودہ عربی حروف دراصل عبرانی حرفوں کی مہذب شکلیں ہیں اور عبرانی حروف عرب کے قدیم حرفوں سے ماخوذ تھے۔ اہرام مصر پر قبطیوں کی تمثالی کتابت کے جو کتبے آج بھی موجود ہیں، وہ تمام کے تمام قبطیوں نے عربوں ہی سے سیکھے تھے، لیکن چونکہ ایک چیز دوسرے قالب میں جا کر کچھ نہ کچھ ضرور بدل جاتی ہے، اس لیے عربوں کے تمثالی حروف جب قبطیوں کے ہاتھ میں پہنچے تو انھوں نے اپنے افکار و عقائد کے مطابق بہت کچھ ان میں تبدیلیاں کر دیں۔ اس طرح پر عرب قدیم کی تمثالی کتابت مشکوک و مشتبہ ہو کر رہ گئی۔
عربی حرفوں کے ناموں کے متعلق اوپر جو کچھ عرض کیا گیا ہے، وہ کوئی افسانہ یا من گھڑت بات نہیں ہے۔ اگر غور کیجیے تو خود قرآن مجید بھی اس راز کی طرف رہنمائی کر رہا ہے۔ مثلاً دیکھیے قرآن مجید نے ایک سورہ کا نام نؔ رکھا ہے۔ ن ایک ایسا حرف ہے جو موجودہ عربی زبان میں بھی بامعنی سمجھا جاتا ہے۔ نونؔ کے معنی مچھلی کے ہیں اور جس سورہ کا یہ نام ہے، اس میں صرف یونس علیہ السلام کا تذکرہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں یونس علیہ السلام کو ’صَاحِبُ الْحُوْتِ‘ (مچھلی والے) ہی کے نام سے یاد بھی فرمایا ہے۔ غور کرو! ان تمام باتوں میں ایک متوسم کے لیے سورہ کے وجۂ تسمیہ کو سمجھنے کے لیے کتنا واضح اشارہ موجود ہے۔ کیا کوئی اسم اس سے بھی زیادہ اپنے مسمیٰ کے ساتھ ربط اور مناسبت کا حامل ہو سکتا ہے؟

پس تفصیل بالا سے جب یہ ثابت ہو چکا کہ سورۂ نؔ کا نام ن حرف ن کی معنوی مناسبت کی بنا پر رکھا گیا ہے تو ہم کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ باقی اور سورتوں کے نام بھی جن کے نام حروف مقطعات پر رکھے گئے ہیں، ان حروف کے ابتدائی معانی کے مطابق اپنی اپنی سورتوں کے ساتھ معنوی مناسبت رکھتے ہوں گے۔ اس لیے اب ہمارا فرض ہے کہ ہم خط تمثالی میں حرفوں کے جو معانی رہے ہوں، ان کا سراغ لگائیں۔ اگر ہم کو یہ تمام معانی صحیح صحیح معلوم ہو جائیں تو حروف مقطعات کی اقرب الی الصحۃ تاویل متعین کی جا سکتی ہے۔ ہمارے اس خیال کی تائید ایک اور حرف سے بھی ہوتی ہے جس کو ہماری بولی میں طؔ کہتے ہیں۔ ط کی صورت عبرانی زبان میں 6 ہے، اس کی ظاہری صورت عین اس کی معنوی حقیقت کے مطابق ہے۔ عبرانی زبان میں ط کے معنی سانپ کے ہیں اور دیکھیے یہ حرف بنایا بھی گیا ہے بالکل سانپ ہی کی صورت پر۔ حرف کی اس صورت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک سانپ ہے جو اپنے سر کو اٹھائے ہوئے کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ اب حرف کی اس حقیقت کو سامنے رکھ کر غور کیجیے تو سمجھ میں آتا ہے کہ جن سورتوں کے نام میں ط ہو گا، ان کو سانپ سے کسی نہ کسی طرح مناسبت ضرور ہو گی۔ اچھا آئیے قرآن مجید میں ان سورتوں کی تلاوت کریں جو ط سے شروع ہوتی ہیں اور دیکھیں کہ اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے یا نہیں؟ قرآن مجید میں ایک سورہ ہے جس کا نام ہے ’طٓہٰ‘۔ اس سورہ میں ابتدائی تمہید کے بعد ہی فوراً موسیٰ علیہ السلام کی حکایت اور ان کے عصا کے سانپ بن جانے کا معجزہ بیان فرمایا گیا ہے۔ دیکھیے اس سورہ میں سورہ کے نام اور اس کے مسمیٰ میں کتنی واضح معنوی مناسبت موجود ہے۔ سورہ ’طٓہٰ‘ کے علاوہ اور دوسری سورتیں بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے ط سے شروع فرمایا ہے۔ مثلاً ’طسٓم‘، ’طسٓ‘ اور ’طسمٓ‘ سب کی سب موسیٰ علیہ السلام کے قصہ سے شروع ہوتی ہیں اور سب میں ان کے عصا کے سانپ بن جانے کا تذکرہ صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ پھر اس نکتہ کو بھی سامنے رکھیے کہ ان چار سورتوں (’طٓہٰ‘، ’طسٓم‘، ’طسٓ‘، ’طسمٓ‘) کو جو ط سے شروع ہوتی ہیں، چھوڑ کر باقی تمام سورتوں کی دو قسمیں ہیں۔ کچھ سورتیں تو ایسی ہیں جس میں سرے سے حضرت موسیٰ کا قصہ ہی مذکور نہیں ہے اور اکثر سورتیں ایسی ہیں جن میں موسیٰ علیہ السلام کا قصہ تو مذکور ہے، لیکن لٹھیا کے سانپ بننے کا واقعہ مذکور نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن سورتوں میں لٹھیا کے سانپ بننے کا واقعہ مذکور تھا، وہی اس نام کی مستحق تھیں اور ط کا تسمیہ انھی سورتوں کو سزاوار تھا۔ پورے قرآن میں صرف سورۃ الاعراف ایک ایسی سورہ ہے جس نے عصا کے سانپ بننے کا معجزہ بھی بیان کیا ہے اور اس کے ابتدا میں ط بھی نہیں ہے، لیکن اس سے ہمارے نظریہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے۔ اس سورہ کو امعان نظر سے پڑھو تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سورہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ حضرات انبیا سابقین، حضرت نوح، ہود، صالح، لوط، شعیب علیہم السلام کے قصوں کے سلسلہ میں تبعاً آ گیا ہے۔ اسی وجہ سے اس سورہ کو ط سے نہیں شروع کیا گیا۔ ورنہ جن سورتوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس قصہ کو بطور اصل کے بیان فرمایا گیا ہے، آپ نے دیکھا کہ ان تمام سورتوں کو ط سے شروع کیا گیا تھا۔ ط والی تمام سورتیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے مخصوص ہیں۔ ان سورتوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے مخصوص قرار دینا تنہا ہمارا ہی خیال نہیں ہے۔ بعض علماے متقدمین نے بھی یہی سمجھا ہے۔ سخاوی کا قول ہے کہ سورۂ ’طٓہٰ‘ کا نام سورۂ کلیم ہے اور ہذلی نے بھی ’’کامل‘‘ میں اس سورہ کا نام سورۂ موسیٰ لکھا ہے۔
بہرحال ان تمام تفصیلات سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ جن سورتوں کے تہجی ناموں میں ط موجود ہے، ان کے ناموں میں اور مسمیٰ میں نہایت ہی گہری معنوی مناسبت ہے۔ اسی طرح دائرۂ فکر و نظر کو اگر اور وسیع کیجیے تو سمجھ میں آتا ہے کہ ’الٓم‘ اور ’الٓرٰ‘ کی قسم کے ناموں میں بھی ان کی سورتوں کے ساتھ خاصی معنوی مناسبت پائی جاتی ہے۔ اوپر گزر چکا ہے کہ خط تمثالی میں الف کی شکل گائے کے سر کی طرح ہوتی تھی۔ نیز یہ حرف ان کے نزدیک ’’الٰہ واحد‘‘ پر دلالت کرتا تھا۔ قرآن مجید کو گہری نظر سے مطالعہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ جن جن سورتوں کے نام کے شروع میں الف آیا ہے، ’’ایمان باللہ‘‘ ان کے اعظم مطالب میں سے ہے۔ اس لیے ان ناموں کے متعلق بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنے اپنے مسمیٰ سے گہرا ربط نہیں رکھتے ہیں۔
یہ چند مثالیں ہیں۔ اگر اسی طرح ہر حرف کے متعلق صحیح معلومات حاصل کی جا سکیں تو امید ہے کہ تمام حروف مقطعات کی مناسبت واضح ہو سکتی ہے، لیکن اس میں پوری کامیابی صرف اللہ تعالیٰ کی ہدایت و رہنمائی سے ہی ممکن ہے، مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی چیز سے ناواقفیت اس کے عدم کو مستلزم نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز موجود ہو، مگر ہم اس سے واقف نہ ہوں پس تلاش جاری رہنی چاہیے اور خدا پر پورا بھروسا رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر مشکل میں مدد فرماتا ہے۔
عمدہ شراکت! بہت شکریہ

آپ نے ماہنامہ اشراق کا حوالہ دیا، بہتر ہوتا کہ مصنف کا حوالہ بھی دے دیتے۔
ساری تحریر کچھ لفظی تغیر و تبدل کے ساتھ مولانا امین احسن اصلاحی کی تدبر القرآن سے سورۃ البقرہ کی پہلی آیت کی تفسیر سے لی گئی ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
ج
حروف مقطعات کے معنی ولی اللہ جانتے ہیں. صاحب ولایت کو راز سے پردہ ہٹانے کی اجازت نہیں ہوتی. قران پاک کے لفظ روح میں اتار لیجیے، معانی کھل جاتے ہیں. مقطعات قران کے اصل کو سمجھنے کی کنجیاں ہیں..یہ اللہ کے پیامبر اور اللہ ہی جانتے ہیں کہ کیا مطلب ...باقی سارا قران پاک ہے ...اس کے خیال پر ڈسکشن کرتے ہیں.ماشاء اللہ آپ کی لگن قابل دید ہے .آج کل قران پاک کے قاری کم ہیں ..آپ کے علم سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا. سلامت رہیے
جی۔ بہت شکریہ حوصلہ افزائی کا۔ فی الحال تو حوصلے بہت بلند ہیں۔ آگے آگے دیکھیے۔۔۔۔
 

امن وسیم

محفلین
عمدہ شراکت! بہت شکریہ

آپ نے ماہنامہ اشراق کا حوالہ دیا، بہتر ہوتا کہ مصنف کا حوالہ بھی دے دیتے۔
ساری تحریر کچھ لفظی تغیر و تبدل کے ساتھ مولانا امین احسن اصلاحی کی تدبر القرآن سے سورۃ البقرہ کی پہلی آیت کی تفسیر سے لی گئی ہے۔
جی۔ بہت شکریہ توجہ دلانے کا۔ میں نے تدوین کر دی ہے، مصنف کے نام کی۔
 

عرفان سعید

محفلین
دخل در معقولات کی پیشگی معذرت کے ساتھ کچھ باتیں عرض کرتا ہوں۔
حروف مقطعات کے معنی ولی اللہ جانتے ہیں. صاحب ولایت کو راز سے پردہ ہٹانے کی اجازت نہیں ہوتی.
ولی اللہ اگر ان کے معنی جانتے ہیں تو اسے راز کیوں رکھا جائے؟ وہ کون سی شرعی قباحت ہے جو اس علم کو دنیا تک پہنچانے کی راہ میں حائل ہے؟
اللہ تعالی تو اپنے پیغمبرﷺ کو ان کے منصبِ رسالت کی ذمہ داری ان الفاظ میں یاد دلا رہا ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّ۔۔غْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ
اے پیغمبر ﷺ ، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلے میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا ۔(سورۃ المائدہ 67)

سوال یہ ہے کہ خدا کا بھیجا ہوا رسول اس بات کا پابند ہے کہ خدا کا پیغام بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دے اور اس میں ادنی درجے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔ دوسری طرف ایک ولی اللہ پر اس پیغام کے کچھ اسرار اگر افشا ہوئے ہیں تو اسے راز میں رکھنے کا پابند ہے! آخر ایسا کیوں؟
مقطعات قران کے اصل کو سمجھنے کی کنجیاں ہیں.
کیا قرآن اور کسی صحیح حدیث میں ایسی کوئی صراحت موجود ہے؟
 

سید عمران

محفلین
دخل در معقولات کی پیشگی معذرت کے ساتھ کچھ باتیں عرض کرتا ہوں۔

ولی اللہ اگر ان کے معنی جانتے ہیں تو اسے راز کیوں رکھا جائے؟ وہ کون سی شرعی قباحت ہے جو اس علم کو دنیا تک پہنچانے کی راہ میں حائل ہے؟
اللہ تعالی تو اپنے پیغمبرﷺ کو ان کے منصبِ رسالت کی ذمہ داری ان الفاظ میں یاد دلا رہا ہے۔

يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّ۔۔غْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ
اے پیغمبر ﷺ ، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا۔ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلے میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا ۔(سورۃ المائدہ 67)

سوال یہ ہے کہ خدا کا بھیجا ہوا رسول اس بات کا پابند ہے کہ خدا کا پیغام بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دے اور اس میں ادنی درجے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔ دوسری طرف ایک ولی اللہ پر اس پیغام کے کچھ اسرار اگر افشا ہوئے ہیں تو اسے راز میں رکھنے کا پابند ہے! آخر ایسا کیوں؟

کیا قرآن اور کسی صحیح حدیث میں ایسی کوئی صراحت موجود ہے؟
ان کے معنی اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔۔۔
کسی ولی حتی کہ صحابی کو بھی اس کا علم نہیں!!!
 

عرفان سعید

محفلین
ان کے معنی اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔۔۔
کسی ولی حتی کہ صحابی کو بھی اس کا علم نہیں!!!
محض تفہیمِ مدعا کے لیے چند باتیں مزید عرض کرتا ہوں۔
اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ کسی صحابی کے لیے بھی حروفِ مقطعات کی معنویت و علت واضح نہیں تھی تو اس کا منطقی نتیجہ لازمی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ صحابہ کرام ؓ نے لامحالہ نبی کریم ‌ﷺ سے اس کی بابت دریافت کیا ہوگا اور آپ‭‍‌‎‏‫‪‮‭‍‌‬ﷺ نے ضرور ان حروف کے پوشیدہ معانی کی طرف اشارہ فرمایا ہو گا۔

کیا ایسی کوئی مستند روایت آپ کے علم میں ہے جس میں صحابہ نے اس بارے میں استفسار کیا ہو؟

مزید برآں جس زمانے میں قرآن نازل ہورہا تھا تو کفارِ مکہ قرآن پر اعتراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اگر حروفِ مقطعات کا مفہوم اس قدر غیر واضح تھا تو لازما مشرکین نے طرح طرح کے اعتراضات کیے ہوں گے، جن کا ثبوت مستند روایات میں ہونا چاہیے۔

حروفِ مقطعات پر مشرکین کے اعتراض کی کوئی مستند روایت آپ کے علم میں ہے؟

لطف کی بات یہ ہے کہ مشرکین نے قرآن پر جو اعتراضات کیے قرآن نے ان میں سے ایک ایک کو موضوع بنا کر کلام کیا ہے۔ مثال کے طور پر:

وَّمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۭ قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ
وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے ، تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے، تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔(سورۃ الحاقہ 41۔42)

جب مشرکین نے کہا کہ یہ کلام کسی جن کی طرف سے القا ہوا ہے تو سورۃ الجن میں ان غیر معمولی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے جو نزولِ قرآن کے وقت اسے کسی دراندازی سے محفوظ رکھنے کے لیے کیے گئے (آیات 8 تا 10)۔
حروفِ مقطعات کا مبہم ہونا مشرکین کے معترض ہونے کو مستلزم کرتا ہے، جس کا جواب قرآن میں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایسی کوئی صراحت قرآن میں موجود نہیں، جس سے قریں قیاس یہی ہے کہ ان حروف کے معانی اس زمانے میں نہاں نہ تھے۔ واللہ اعلم باِلصواب
 

سید عمران

محفلین
محض تفہیمِ مدعا کے لیے چند باتیں مزید عرض کرتا ہوں۔
اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ کسی صحابی کے لیے بھی حروفِ مقطعات کی معنویت و علت واضح نہیں تھی تو اس کا منطقی نتیجہ لازمی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ صحابہ کرام ؓ نے لامحالہ نبی کریم ‌ﷺ سے اس کی بابت دریافت کیا ہوگا اور آپ‭‍‌‎‏‫‪‮‭‍‌‬ﷺ نے ضرور ان حروف کے پوشیدہ معانی کی طرف اشارہ فرمایا ہو گا۔

کیا ایسی کوئی مستند روایت آپ کے علم میں ہے جس میں صحابہ نے اس بارے میں استفسار کیا ہو؟

مزید برآں جس زمانے میں قرآن نازل ہورہا تھا تو کفارِ مکہ قرآن پر اعتراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اگر حروفِ مقطعات کا مفہوم اس قدر غیر واضح تھا تو لازما مشرکین نے طرح طرح کے اعتراضات کیے ہوں گے، جن کا ثبوت مستند روایات میں ہونا چاہیے۔

حروفِ مقطعات پر مشرکین کے اعتراض کی کوئی مستند روایت آپ کے علم میں ہے؟

لطف کی بات یہ ہے کہ مشرکین نے قرآن پر جو اعتراضات کیے قرآن نے ان میں سے ایک ایک کو موضوع بنا کر کلام کیا ہے۔ مثال کے طور پر:

وَّمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۭ قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ
وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے ، تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے، تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔(سورۃ الحاقہ 41۔42)

جب مشرکین نے کہا کہ یہ کلام کسی جن کی طرف سے القا ہوا ہے تو سورۃ الجن میں ان غیر معمولی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے جو نزولِ قرآن کے وقت اسے کسی دراندازی سے محفوظ رکھنے کے لیے کیے گئے (آیات 8 تا 10)۔
حروفِ مقطعات کا مبہم ہونا مشرکین کے معترض ہونے کو مستلزم کرتا ہے، جس کا جواب قرآن میں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایسی کوئی صراحت قرآن میں موجود نہیں، جس سے قریں قیاس یہی ہے کہ ان حروف کے معانی اس زمانے میں نہاں نہ تھے۔ واللہ اعلم باِلصواب

ابھی تک ایسی کوئی مستند روایت نہیں ملی جس سے معلوم ہوسکے کہ مشرکین نے حروف مقطعات کی وجہ سے اعتراض کیا یا انہیں اس کے معنی معلوم ہوں۔..
ضروری نہیں کہ جس لفظ کے معنی معلوم نہ ہوں اس کی وجہ سے مشرکین اعتراض کریں...
صحابہ کرام اکثر سوالات نہیں کرتے تھے...
یہ بھی ابھی تک کسی مستند روایت سے معلوم نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حروف مقطعات میں سے کسی کے معنی بیان کئے ہوں، کسی سوال کے جواب میں یا بغیر سوال کے!!!
 

امن وسیم

محفلین
ابھی تک ایسی کوئی مستند روایت نہیں ملی جس سے معلوم ہوسکے کہ مشرکین نے حروف مقطعات کی وجہ سے اعتراض کیا یا انہیں اس کے معنی معلوم ہوں۔..
ضروری نہیں کہ جس لفظ کے معنی معلوم نہ ہوں اس کی وجہ سے مشرکین اعتراض کریں...
صحابہ کرام اکثر سوالات نہیں کرتے تھے...
یہ بھی ابھی تک کسی مستند روایت سے معلوم نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حروف مقطعات میں سے کسی کے معنی بیان کئے ہوں، کسی سوال کے جواب میں یا بغیر سوال کے!!!
یہ باتیں اسی نظریے کو تقویت دیتی ہیں کہ نبی کریم صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے علاوہ تمام ( یا اکثر ) صحابہ کو حروف مقطعات کے معنی معلوم تھے کیونکہ کوئی ایک روایت بھی ( مستند تو کیا، کوئی ضعیف روایت بھی ) پیش نہیں کی جا سکتی کہ صحابہ میں سے کسی نے ان حروف کے مطالب پوچھے ہوں۔ یہ مسئلہ تو بہت بعد میں شروع ہوا جب قرآن کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

رہی یہ بات کہ صحابہ سوال نہیں کرتے تھے تو یہ بے بنیاد بات ہے۔ قرآن نے خود کئی جگہوں پر واضح کیا ہے کہ " یسئلونک " ( وہ آپ سے پوچھتے ہیں )۔ اور اس کے بعد ان باتوں کا جواب دیا گیا ہے جو صحابہ پوچھتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی دوسری آیات کا انداز بتاتا ہے کہ یہ صحابہ کے پوچھے گئے سوال کے جواب کے طور پر آئی ہیں۔
ہاں البتہ صحابہ کرام فضول قسم کے وقت ضائع کرنے والے سوالوں سے اجتناب کرتے تھے۔ لیکن ایسے الفاظ جن کے سرے سے کوئی معنی ہی نہ ہوں جو بالکل نئے اور اجنبی ہوں، ان کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا نا ممکن ہے، چلیں رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم سے نہیں تو صحابہ ایک دوسرے سے تو پوچھ سکتے تھے جبکہ بے شمار ایسی روایات موجود ہیں کہ صحابہ ایک دوسرے سے مختلف آیات و الفاظ کی وضاحت طلب کرتے تھے۔

چلیں اسے بھی رہنے دیں۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قرآن میں بے معنی ( مہمل ) الفاظ نازل ہو رہے ہوں اور مشکرین اعتراض نہ کریں۔ حالانکہ وہ تو ان باتوں پر تو اعتراض کرتے تھے جن پر کوئی اعتراض نہیں بنتا۔ اور جس بات پر اعتراض بنتا ہے اس پر مکمل خاموشی۔ عجیب بات ہے۔ اس کے بعد یثرب کے یہودی۔ وہ تو اعتراض کرنے کے معاملے میں لگتا ہے مشرکوں سے بھی ایک ہاتھ آگے تھے۔ ان کی خاموشی بھی کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے۔ اس کے علاوہ عرب میں عیسائی بھی تھے اور دوسرے مذاہب اور اقوام بھی تھیں لیکن کبھی کسی نے یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ یہ بے معنی الفاظ، ٱللَّه کی کتاب میں کیوں؟

لہذا نتیجہ صرف ایک ہی نکتا ہے کہ یہ نام تھے۔ کیونکہ ناموں ( جو مستعمل ہوں ) کے مطالب کی طرف عموماً دھیان نہیں جاتا۔ ( مثال کے طور پر جب پنکھا بولیں گے تو اس کے مطلب کی طرف دھیان نہیں جائے گا کیونکہ یہ ایک روزمرہ کی چیز ہے۔ میرا بھی آج تک اس کے مطلب کی طرف دھیان نہیں گیا تھا۔ ابھی جب میں نے یہ مثال لکھی تو خیال ہوا کہ پنکھا، پنکھ سے بنا ہو گا یعنی "پر" اور اسے پنکھا کہا جانے لگا ہو گا کیونکہ اس کے پر ہوتے ہیں )۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ حروف مقطعات سورتوں کے نام ہیں جن کے معنی بھی اکثر صحابہ کو معلوم تھے۔ کم از کم صحابہ انہیں سورتوں کے نام تو ضرور مانتے تھے۔ لیکن بعد میں چونکہ سورتوں کے دوسرے نام رائج ہو گئے تو یہ نام متروک ہو گئے اور اب ۱۴۰۰ سو سال بعد لوگ انہیں بے معنی الفاظ سمجھنے لگے۔
 

م حمزہ

محفلین
محض تفہیمِ مدعا کے لیے چند باتیں مزید عرض کرتا ہوں۔
اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ کسی صحابی کے لیے بھی حروفِ مقطعات کی معنویت و علت واضح نہیں تھی تو اس کا منطقی نتیجہ لازمی طور پر یہ ہونا چاہیے کہ صحابہ کرام ؓ نے لامحالہ نبی کریم ‌ﷺ سے اس کی بابت دریافت کیا ہوگا اور آپ‭‍‌‎‏‫‪‮‭‍‌‬ﷺ نے ضرور ان حروف کے پوشیدہ معانی کی طرف اشارہ فرمایا ہو گا۔

کیا ایسی کوئی مستند روایت آپ کے علم میں ہے جس میں صحابہ نے اس بارے میں استفسار کیا ہو؟

مزید برآں جس زمانے میں قرآن نازل ہورہا تھا تو کفارِ مکہ قرآن پر اعتراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اگر حروفِ مقطعات کا مفہوم اس قدر غیر واضح تھا تو لازما مشرکین نے طرح طرح کے اعتراضات کیے ہوں گے، جن کا ثبوت مستند روایات میں ہونا چاہیے۔

حروفِ مقطعات پر مشرکین کے اعتراض کی کوئی مستند روایت آپ کے علم میں ہے؟

لطف کی بات یہ ہے کہ مشرکین نے قرآن پر جو اعتراضات کیے قرآن نے ان میں سے ایک ایک کو موضوع بنا کر کلام کیا ہے۔ مثال کے طور پر:

وَّمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۭ قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ
وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے ، تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے، تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔(سورۃ الحاقہ 41۔42)

جب مشرکین نے کہا کہ یہ کلام کسی جن کی طرف سے القا ہوا ہے تو سورۃ الجن میں ان غیر معمولی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے جو نزولِ قرآن کے وقت اسے کسی دراندازی سے محفوظ رکھنے کے لیے کیے گئے (آیات 8 تا 10)۔
حروفِ مقطعات کا مبہم ہونا مشرکین کے معترض ہونے کو مستلزم کرتا ہے، جس کا جواب قرآن میں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایسی کوئی صراحت قرآن میں موجود نہیں، جس سے قریں قیاس یہی ہے کہ ان حروف کے معانی اس زمانے میں نہاں نہ تھے۔ واللہ اعلم باِلصواب


مشرکین نے قرآن مجید پر جو بھی اعتراضات کئے ہیں ان کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کو کسی آیت یا کسی لفظ کے معانی سمجھ میں نہیں رہے تھے۔ بلکہ ان کو قرآنی مضامین یا معانی پر ہی یقین نہ آتا تھا۔ جیسے ایک ہی الٰہ یا معبود ہونا، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا، آخرت، جنت و جہنم، انسان کا رسول ہونا وغیرہ وغیرہ۔ ان کو کسی آیت کے سمجھنے میں کوئی دقت نہ تھی۔ اسی لئے انہوں نے کسی بھی آیت کے متعلق یہ جاننے کی کوش نہ کی کہ اس کے معنی کیا ہیں۔ اگر انہوں نے مقطعات پر سوال نہیں اُٹھایا ہے تو کسی دوسری آیت کے لفظوں پر بھی تو سوال نہیں اُٹھایا ہے۔ بلکہ میرے خیال سے وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔

مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے جو صراحت ان حروفِ مقطعات کے بارے میں کی ہے ، اور شاید آپ نے اُسی تحریر کو ذہن میں رکھ کر یہ سوال اُٹھایا ہے، وہ میرے خیال سے کافی ہے۔جیسا آپ کو علم ہے کہ مولانا نے اس دور کی شاعری کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ایسے الفاظ اس وقت بھی مستعمل تھے اور بولنے والا اور سننے والا ان کے معنی و مفاہیم سے بخوبی واقف ہوا کرتے تھے، شاید اس وجہ سے بھی ان کے بارے میں سوالات یا اعتراضات نہیں کئے گئے۔
ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ اس سب کے باوجود کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی صحابی نے اگرچہ ان حروفِ مقطعات کے معانی بیان نہیں بھی کئے ہیں تاہم کئی مفسرین حضرات اپنے علم و تحقیق کے مطابق ان کے معانی بیان کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن شاید ان میں سے کسی نے بھی اپنی تحقیق کو حرفِ آخر یا ناقابلِ اعتراض نہیں بتایا ہے۔ اس لئے اگر کوئی ذی علم شخص ان حروف کے معانی ڈھونڈنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو یہ ایک قابلِ ستائش کوشش ہے۔ و اللہ اعلم بالصواب۔
 

م حمزہ

محفلین
رہی یہ بات کہ صحابہ سوال نہیں کرتے تھے تو یہ بے بنیاد بات ہے۔
سید عمران صاحب نے سوالات نہیں بلکہ
صحابہ کرام اکثر سوالات نہیں کرتے تھے...
کہا ہے۔
صحابہ کو حکم دیا گیا تھا قرآن میں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ (101) سورۃ مائدہ۔
 

م حمزہ

محفلین
تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ حروف مقطعات سورتوں کے نام ہیں جن کے معنی بھی اکثر صحابہ کو معلوم تھے۔ کم از کم صحابہ انہیں سورتوں کے نام تو ضرور مانتے تھے۔ لیکن بعد میں چونکہ سورتوں کے دوسرے نام رائج ہو گئے تو یہ نام متروک ہو گئے اور اب ۱۴۰۰ سو سال بعد لوگ انہیں بے معنی الفاظ سمجھنے لگے۔

میں نہیں کہتا کہ حروفِ مقطعات کے معنی نہیں ہیں۔ لیکن مجھے آپکے اس دعوٰی
حروف مقطعات سورتوں کے نام ہیں جن کے معنی بھی اکثر صحابہ کو معلوم تھے۔ کم از کم صحابہ انہیں سورتوں کے نام تو ضرور مانتے تھے۔ لیکن بعد میں چونکہ سورتوں کے دوسرے نام رائج ہو گئے تو یہ نام متروک ہو گئے اور اب ۱۴۰۰ سو سال بعد لوگ انہیں بے معنی الفاظ سمجھنے لگے۔
کو ماننے میں بھی تامل ہے ۔ ہاں اگر ایسی کوئی مستند روایت ہے تو ضرور شئیر کریں۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ الم ایک ہی سورۃ کی ابتدا میں تو نہیں ہے۔ تو کیا ان سب سورتوں کو صرف الم ہی نام دیں گے؟
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ حروف مقطعات کے بعد ہر جگہ 'تلک' اور 'ذٰلک" ہی نہیں آیا ہے۔ دیکھئے 'ن' کے بعد والقلم ہے۔یس کے بعد والقران الحکیم۔ اسی طرح 'ق' والقرآن المجید۔ پھر کہیعص۔ ذکر رحمت ربک۔
ان جگہوں پہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
ہاں اگر ایسی کوئی مستند روایت ہے تو ضرور شئیر کریں۔
دراصل سید عمران صاحب کے ساتھ میری بحث تلاوت قرآن سے شروع ہوئی تھی۔ جس میں مجھے یہ ثابت کرنا تھا کہ الم کے معنی ہیں یا یہ بے معنی الفاظ ہیں۔ فی الحال، چونکہ کوئی اور دلیل ( یا نظریہ ) ان حروف کے معنی بیان کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ( مجھ کم علم کے مطابق ) اسی لیے مجھے ان کے نام ہونے کا نظریہ ہی صحیح لگا۔
 

امن وسیم

محفلین
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ حروف مقطعات کے بعد ہر جگہ 'تلک' اور 'ذٰلک" ہی نہیں آیا ہے۔ دیکھئے 'ن' کے بعد والقلم ہے۔یس کے بعد والقران الحکیم۔ اسی طرح 'ق' والقرآن المجید۔ پھر کہیعص۔ ذکر رحمت ربک۔
مجھ جیسا کم علم تو ان سب باتوں کی وضاحت نہیں کر سکے گا کیونکہ یہ سب ایک نظریہ کی بنیاد پر ہے۔ البتہ میں نے ایک لڑی " تمام حروف مقطعات کے مطالب " کے نام سے شروع کی ہے۔ اگر آپ اسے ایک نظر دیکھ لیں تو ۔۔۔۔۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
مسند اہل بیت میں درج ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ:
کیا بات ہے کہ کسی شخص سے کئی دفعہ ہماری نہیں بنتی، خواہ وہ کتنا ہی نیک ہو اور کئی دفعہ کسی سے ہماری بہت دوستی ہو جاتی ہے، چاہے وہ اتنا زیادہ متقی اور پرہیز گار نہ بھی ہو۔
حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ارواح کو تخلیق کیا تو کچھ کی کچھ کے ساتھ موافقت اور کچھ کی کچھ کے ساتھ مخاصمت ٹھہرا دی گئی۔ وہ روحیں زمین پر آ کر بھی اسی نظم کے تحت رہتی ہیں
مثلاً جو حروف اکٹھے رکھ دیئے گئے ہیں ان میں مفائرت یا مخاصمت نہیں ہو گی
مثلاً الف لام میم، ان تینوں کی آپس میں دشمنی نہیں بلکہ دوستی ہو گی جس شخص کا نام الف سے شروع ہوتا ہو اس کی ”لام“ کے ساتھ اور ”میم“ کے ساتھ دوستی رہے گی۔ یہ وہ بنیادی گروپ یا Basic Categories اور Adjacent Groupsمیں جن کی آپس میں محبت یا انس Affinityرہے گی لیکن یہ تو بنیادی گروپس ہیں، اس کے بعد ان کے ذیلی گروپس اور Combinationsکا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس پر دسترس حاصل کرنے کے لیے اتنا ہی بڑا علم اور بصیرت چاہیے اور ایک مومن ہی اسے حاصل کر سکتا ہے کہ نبی کریم کی حدیث ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے
 
Top