برائے اصلاح

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے

چند لفظوں میں فقط لُبِ لباب آیا ہے
مدتوں بعد کسی خط کا جواب آیا ہے

اس لیے تھام لیا ہاتھ مرا ہاتھوں میں
نیند میں شاید اسے ہجر کا خواب آیا ہے

سرخ آندھی چلی ہے زور سے ، لگتا ہے یوں
مجرموں کی کسی بستی میں عذاب آیا ہے

میرے سب دوست گناہوں سے ہوئے ہیں تائب
آہ کس وقت مرا عہدِ شباب آیا ہے

پاس آ کر بھی نگاہوں سے مری اوجھل ہے
دل کے صحرا میں کوئی مثلِ سراب آیا ہے

ایک پل بھی اسے صدیوں کی طرح لگتا ہے
بے مہر وقت کے جو زیرِ عتاب آیا ہے

لوگ کہتے رہیں اچھا ہے برا ہے لیکن
عشق میں کس کو سمجھ عیب و صواب آیا ہے​
 

الف عین

لائبریرین
یاسر سے متفق ہوں کہ مہر کا غلط تلفظ باندھا گیا ہے، وقتِ بے مہر سے درست ہو جائے گا
اس کے علاوہ
سرخ آندھی چلی ہے زور سے ، لگتا ہے یوں
چلی ہے کی ی کے اسقاط اور لگتا ہے کے الف کے اسقاط کی وجہ سے رواں نہیں لگتا۔ مصرعہ بدل دو
عیب و صواب کی ترکیب درست تو ہے لیکن عموماً عیب و ہنر کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے
 

فلسفی

محفلین
دونوں حضرات کا بہت شکریہ۔
واہ فلسفی صاحب' عمدہ غزل ہے -
ایک جگہ لگتا ہے کہ کچھ چوک ہوگئی ٹائپ کرتے:
خوب انداز ہے حضرت غلطی کی نشاندہی کرنے کا۔ اللہ جزائے خیر عطا کرے۔

دراصل "وقتِ بے مہر " ہونا چاہیے -
جی بہتر ہے۔

یاسر سے متفق ہوں کہ مہر کا غلط تلفظ باندھا گیا ہے، وقتِ بے مہر سے درست ہو جائے گا
اس کے علاوہ
سرخ آندھی چلی ہے زور سے ، لگتا ہے یوں
چلی ہے کی ی کے اسقاط اور لگتا ہے کے الف کے اسقاط کی وجہ سے رواں نہیں لگتا۔ مصرعہ بدل دو
عیب و صواب کی ترکیب درست تو ہے لیکن عموماً عیب و ہنر کی ترکیب استعمال کی جاتی ہے

سر لگتا کا الف تو نہیں گر رہا "فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن" کے حساب سے۔ اگر غلطی کررہا ہوں تو مہربانی کر کے نشاندہی فرمادیں۔ یہ مصرع ٹھیک رہے گا؟

سرخ آندھی جو چلی زور سے، لگتا ہے یوں

سر عیب و صواب کی ترکیب قافیہ کی وجہ سے رکھنی پڑے گی۔ (n)
 

الف عین

لائبریرین
نہ جانے کس دھن میں لگتا ہے کا الف گرا ہوا سمجھا! البتہ چلی ہے کی جگہ جو چلی یقیناً رواں ہے۔ لگتا ہے ایک اور مصرع کا اختتام ہے ورنہ یہاں بھی 'یوں لگتا ہے' بہتر ہے
 

فلسفی

محفلین
نہ جانے کس دھن میں لگتا ہے کا الف گرا ہوا سمجھا! البتہ چلی ہے کی جگہ جو چلی یقیناً رواں ہے۔ لگتا ہے ایک اور مصرع کا اختتام ہے ورنہ یہاں بھی 'یوں لگتا ہے' بہتر ہے
سر ایک ترتیب یہ ذہن میں تھی لیکن "ایسے جیسے" مناسب رہے گا یا نہیں آپ فرمائیے

سرخ آندھی جو چلی زور سے ایسے جیسے
مجرموں کی کسی بستی میں عذاب آیا ہے
 

فلسفی

محفلین
اس قدر زور سے سرخ آندھی چلی ہے. جیسے
کیسا رہے گا؟
شکریہ سر
یہ زیادہ رواں مصرعہ ہے۔ اصل میں الفاظ گرانے کا ہمیشہ خدشہ ہی رہتا ہے کہ کہاں مناسب لگے گا اور کہاں نہیں۔ خیر تبدیلیوں کے بعد غزل حاضر ہے

چند لفظوں میں فقط لُبِ لباب آیا ہے
مدتوں بعد کسی خط کا جواب آیا ہے

اس لیے تھام لیا ہاتھ مرا ہاتھوں میں
نیند میں شاید اسے ہجر کا خواب آیا ہے

اس قدر زور سے سرخ آندھی چلی ہے، جیسے
مجرموں کی کسی بستی میں عذاب آیا ہے

میرے سب دوست گناہوں سے ہوئے ہیں تائب
آہ کس وقت مرا عہدِ شباب آیا ہے

پاس آ کر بھی نگاہوں سے مری اوجھل ہے
دل کے صحرا میں کوئی مثلِ سراب آیا ہے

ایک پل بھی اسے صدیوں کی طرح لگتا ہے
وقتِ بے مہر کے جو زیرِ عتاب آیا ہے

لوگ کہتے رہیں اچھا ہے برا ہے لیکن
عشق میں کس کو سمجھ عیب و صواب آیا ہے​
 
Top