ڈالرتاریخ کی بلند ترین سطح 142 کو چھو کر 138.50 پر آگیا

جاسم محمد

محفلین
ڈالرتاریخ کی بلند ترین سطح 142 کو چھو کر 138.50 پر آگیا

کراچی: انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح 142 روپے پر پہنچنے کے بعد کم ہونا شروع ہوگیا۔

ٹریڈنگ کے دوران ڈالر کی قیمت میں 8 روپے اضافہ ہوا جس کے بعد انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 142 روپے کی سطح پر پہنچا تاہم کچھ دیر اس میں کمی واقع ہوئی اور 138.50 کی سطح پر آگیا جو اب بھی بلند ترین سطح ہے۔

اوپن مارکیٹ میں ڈالر 141 روپے 50 پیسے کا ہے جس کی قیمت میں 6 روپے 10 پیسے اضافہ ہوا، ڈالر مہنگا ہونے سے قرضوں کا بوجھ 430 ارب روپے بڑھ جائے گا۔

گزشتہ ایک سال کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں 36 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد سے ڈالر کی قیمت میں 19 روپے 50 پیسے تک اضافہ ہوچکا ہے جب کہ قرضوں کے بوجھ میں 1377 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

یاد رہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے باعث روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ڈالر تاریخ میں پہلی مرتبہ 142 روپے کی سطح پر پہنچا ہے۔

معاشی تجزیہ کار محمد سہیل کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے ڈالر اور روپے کی قدر میں توازن لانے پر زور دیا تھا اور بظاہر لگتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ڈالر میں اضافے کو مینج کیا جارہا ہے اور ہم آئی ایم ایف پروگرام کی طرف جارہے ہیں۔

محمد سہیل کا مزید کہنا تھا کہ آئندہ چند ہفتوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 150 روپے تک گر سکتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ تو بہترین کام ہو گیا۔ اب عوام کو سمجھ آئی کہ پچھلے 5 سال اسحاق ڈالر نے ان کی قومی کرنسی کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا تھا۔ ہو ردو ن لیگ نوں ووٹ!

مصنوعی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول نہیں کریں گے: وزیر خزانہ
193687_1010128_updates.jpg

وزیر خزانہ اسد عمر کی پریس کانفرنس: ویڈیو اسکرین گریب

اسلام آباد: وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہےکہ اسٹیٹ بینک اپنے طور پر فیصلے کررہا ہے اور مصنوعی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول نہیں کرے گا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان پر غیر ملکی قرضے 95 ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے، ہم نے ڈالر سستا کرکے اپنی پیداوار تباہ کرلی، پاکستان ڈالر سستا کرنے کی وجہ سے گندم برآمد نہیں کرسکتا، ڈالر سستا کرنے سے انٹرنیشنل پیداواری یونٹ کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، پاکستان میں ڈالر سستا ہونے کی وجہ سے جوتا بننا بند ہوگیا اور ٹیکسٹائل برباد ہوگئیں، ٹیکسٹائل یونٹ کباڑ دام بک گئے، ڈالر سستا ہونے کی وجہ ترسیلات زر بڑھیں گی۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال 19 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا، ڈالر کا معاملہ طلب اور رسد سے جڑا ہوا ہے، ڈالر کی طلب زیادہ ہے اور دستیاب کم ہے، ماضی میں مصنوعی طریقے سے روپے کی قدر برقرار اور ڈالر کی کم رکھی جاتی تھی مگر اسٹیٹ بینک اب اپنے طور پر فیصلے کررہا ہے اور مصنوعی طریقے سے اسٹیٹ بینک ڈالر کو کنٹرول نہیں کرے گا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے زراعت اور صنعت کو مستحکم کرنا ہے، ابھی بہت کام کرنےکی ضرورت ہے لیکن صحیح سمت نظر آنا شروع ہوگئی ہے، عوام کے لیے مشکلات ہیں لیکن ہماری پالیسیوں کی وجہ سے جلد بہتری آئے گی۔

اسد عمر نے مزید کہا کہ پاکستان کے ٹیکس پیئرکے پیسے سے غیر ملکی تاجر کو سبسڈی دی گئی، قرضے روپے کی قدر برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے گئے، پچھلے چار سال میں ایکسپورٹ انڈسٹریز بند ہوئی ہیں، ہم نے اپنا روزگار ایکسپورٹ کردیا، اس کا نقصان ہماری انڈسٹری کو ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی کا منفی اثر ہوتا ہے لیکن روپے کی قدر میں کمی کا آئی ایم ایف پروگرام سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم آئی ایم ایف پروگرام میں جانا نہیں چاہتے، ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہواہے، سرمایہ کاری بھی بڑھ رہی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی مثبت پیش رفت ہورہی ہے اور مختلف ممالک سے بڑی بڑی سرمایہ کاری بھی جلد نظر آئے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہاہاہاہا بوہت مذاقیہ توں وی گل لنگ گئی اے۔
قصور آپ کا نہیں۔ آپ کی قیادت کا ہے۔ دنیا کے چوٹی کے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عاطف میاں اس بارہ میں کیا فرماتے ہیں:
ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر 5 سال 100 روپے سے نیچے رکھا گیا تاکہ قوم دھوکے میں رہے اور سمجھے ملک معاشی ترقی کر رہا ہے۔ جبکہ پس پردہ بیرونی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچایا گیا۔ قرضوں کی واپس ادائیگی کا سارا بوجھ نئی حکومت پر ڈال کر اسحاق ڈالر رفو چکر ہو گئے۔ جبکہ لیگی اپنی قیادت کے غلط فیصلے بھلا کر نئی حکومت کے پیچھے پڑ گئی۔ جیسے یہ بیرونی قرضے انہوں نے لئے ہیں۔ یہ ہے آپ کی 'تجربہ کار' ٹیم کے کرتوت۔ آئینہ دکھایا تو برا مان گئے:
 
نہیں بُرا نہیں مانے صرف اتنا پوچھ رہے کہ "پچھلی حکومت، پچھلی حکومت کی گردان کب ختم ہو گی" مطلب چھ ماہ سال دو سال آخر کب موجودہ حکومت کی ذمہ داری شروع ہوگی۔
دوسری بات کل سے ایک روز پہلے یعنی پرسوں چائنیز ورن بفٹ اسد عمر صاب فرما رہے تھے کہ انکی زبردست پالیسیوں کے بدولت اب خسارے پورے ہو گئے ہیں۔ تو اب انکی پرسوں کی مانیں یا کل کی؟

جیسے یہ بیرونی قرضے انہوں نے لئے ہیں۔ یہ ہے آپ کی 'تجربہ کار' ٹیم کے کرتوت۔ آئینہ دکھایا تو برا مان گئے:
 

جاسم محمد

محفلین
نہیں بُرا نہیں مانے صرف اتنا پوچھ رہے کہ "پچھلی حکومت، پچھلی حکومت کی گردان کب ختم ہو گی" مطلب چھ ماہ سال دو سال آخر کب موجودہ حکومت کی ذمہ داری شروع ہوگی۔
دوسری بات کل سے ایک روز پہلے یعنی پرسوں چائنیز ورن بفٹ اسد عمر صاب فرما رہے تھے کہ انکی زبردست پالیسیوں کے بدولت اب خسارے پورے ہو گئے ہیں۔ تو اب انکی پرسوں کی مانیں یا کل کی؟
ملک کو درپیش معاشی و اقتصادی بحران تحریک انصاف کی حکومتوں کا پھیلایا ہوا نہیں ہے۔ یہ ہماری قیادت کو سابقہ حکومتوں سے ورثہ میں ملا ہے۔ ملک کا قرضہ 6000 سے 30000 ارب روپے تک لے کر جانا اور وہ بھی محض دس سالوں میں پیپلز پارٹی اور نون لیگی قیادت کا کمال ہے۔ اس وقت اپوزیشن کا وہ حال ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی تاریخی بیرونی قرضے(جو انہوں نے لئے ) کی اقساط بھی ادا ہو جائیں اور عوام پر مہنگائی کا بم بھی نہ گرے۔ ایسا صرف فسانوں میں ہو سکتا ہے۔ حقیقت میں نہیں۔ اس کا مستقل حل ملک کی برآمداد ایمرجنسی لگا کر بڑھانا ہے۔ لیکن یہ حل بھی اپوزیشن کو قبول نہیں۔ کیونکہ انڈوں اور کٹوں پر ڈنمارک، کینیڈا، سوئٹزلینڈ جیسے ملک تو چل سکتے ہیں۔ پاکستان نہیں۔
 
یار کب تک الف لیلٰی کی کہانیاں سناؤ گی۔
پہلے بھی گزارش کی تھی کہ 2001 سے 2008 اگر قرضے کی کوئی قسط واپس کی گئی ہے تو بتا دیں؟
اور یہ بھی بتائیں کہ کل ڈالر بڑھنے سے انصافی حکومت میں قرضہ کتنا بڑھ گیا ہے؟ مزید یہ کہ شرح سود میں کو اضافہ کیا گیا اس سے بجٹ کا خسارہ کسقدر بڑھا ہے؟
پائن صرف اینی کو گل کہ مذکورہ بالا ساریاں گلاں پچھلی حکومت تے پا دیو کوئی گل نہیں۔ لیکن صرف "صاف چلی شفاف چلی" دے نعرے دے مطابق گل سیدھی کر لیا کرو۔ باقی کم چُک کے رکھو کہ اگلے دسمبر تک سولہ ہزار ارب کروڑ مُرغیاں تے پیدا کر کے سارا قرضہ لتھ جانا اے۔

ملک کو درپیش معاشی و اقتصادی بحران تحریک انصاف کی حکومتوں کا پھیلایا ہوا نہیں ہے۔ یہ ہماری قیادت کو سابقہ حکومتوں سے ورثہ میں ملا ہے۔ ملک کا قرضہ 6000 سے 30000 ارب روپے تک لے کر جانا اور وہ بھی محض دس سالوں میں پیپلز پارٹی اور نون لیگی قیادت کا کمال ہے۔ اس وقت اپوزیشن کا وہ حال ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی تاریخی بیرونی قرضے(جو انہوں نے لئے ) کی اقساط بھی ادا ہو جائیں اور عوام پر مہنگائی کا بم بھی نہ گرے۔ ایسا صرف فسانوں میں ہو سکتا ہے۔ حقیقت میں نہیں۔ اس کا مستقل حل ملک کی برآمداد ایمرجنسی لگا کر بڑھانا ہے۔ لیکن یہ حل بھی اپوزیشن کو قبول نہیں۔ کیونکہ انڈوں اور کٹوں پر ڈنمارک، کینیڈا، سوئٹزلینڈ جیسے ملک تو چل سکتے ہیں۔ پاکستان نہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
حکومت کا روپے کی گرتی قدر کے معاملے پر میکینزم بنانے کا فیصلہ

اسلام آباد: حکومت نے روپے کی گرتی قدر کے معاملے پر میکینزم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ٹی وی اینکرز اور سینئر صحافیوں سے ملاقات کی جس میں سیاسی صورتحال سمیت مختلف امور پر بات چیت کی گئی۔

سینئر صحافی اور پروگرام کیپٹل ٹاک کے اینکر حامد میر نے جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے گفتگو کے دوران حالیہ دنوں میں روپے کی گرتی قدر سے متعلق انکشاف کیا۔

حامد میر کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ ’پہلے بھی جب ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا تو ان کو علم نہیں تھا اور گزشتہ روز بھی انہیں اس حوالے سے ٹی وی سے پتا چلا، روپے کی قدر اسٹیٹ بینک نے گرائی تھی جو ایک اتھارٹی ہے اور خود یہ کام کرتے ہیں، انہوں نے ہم سے اس حوالے سے نہیں پوچھا‘۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ ’اب ہم میکینزم بنارہے ہیں کہ اسٹیٹ بینک حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر روپے کی قدر نہ گرائے‘۔


واضح رہےکہ گزشتہ دنوں روپے کی قدر میں اچانک کمی اور ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا تھا جس سے ڈالر انٹربینک میں تاریخ کی بلند ترین سطح 142 روپے تک جا پہنچا تھا۔

یاد رہے کہ مالی امداد کے لیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بھی مذاکرات جاری ہیں جو کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں، آئی ایم ایف نے پاکستان سے ڈالر کی قدر مارکیٹ کے مطابق طے ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلے بھی گزارش کی تھی کہ 2001 سے 2008 اگر قرضے کی کوئی قسط واپس کی گئی ہے تو بتا دیں؟
مشرف دور میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی پر استثناء حاصل تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاشی لحاظ سے وہ کوئی بہترین دور تھا۔ حکومت چلانے کیلئے اربوں ڈالر کے قرضے اس وقت بھی لئے گئے، اور اُن کی واپسی کا کوئی میکینزم نہیں بنایا گیا۔

اور یہ بھی بتائیں کہ کل ڈالر بڑھنے سے انصافی حکومت میں قرضہ کتنا بڑھ گیا ہے؟ مزید یہ کہ شرح سود میں کو اضافہ کیا گیا اس سے بجٹ کا خسارہ کسقدر بڑھا ہے؟
اوپن مارکیٹ میں روزانہ کی بنیادوں پر روپے کی قیمت اوپر نیچےکرناحکومت کا اختیار نہیں ہے ۔ اسے بااختیار ادارہ سینٹرل بینک آف پاکستان چلاتا ہے۔ آج عمران خان نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ سینٹرل بینک نے اس حوالہ سے حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا۔ جبکہ آپ کی اپوزیشن نے سارا ملبہ حکومت پر ڈال کر روایتی پراپگنڈہ شروع کر دیا۔
حکومت کاوزیر خزانہ محض طویل مدتی مانیٹری پالیسی بنا سکتا ہے۔ جیسے سابقہ دور میں اسحاق ڈالر نے مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت 100 روپے سے بڑھنے نہیں دی۔ جس سے پاکستانی ایکسپورٹرزکو شدید نقصان ہوا۔ نئی حکومت کی پالیسی سابقہ حکومتوں کی طرح امپورٹرز کو فائدہ پہنچانا نہیں ہے۔
مزید یہ کہ روپے کی قدر گرنے سے افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے۔ بیرونی قرضہ نہیں بڑھتا۔ اسی لئے ساتھ ہی میں شرح سود بھی بڑھا دی گئی ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
باقی کم چُک کے رکھو کہ اگلے دسمبر تک سولہ ہزار ارب کروڑ مُرغیاں تے پیدا کر کے سارا قرضہ لتھ جانا اے۔
ماشاءاللہ۔ تُسی مرغی انڈے نال پنجاب دے بے تاج بادشاہ تے ارب پتی بن یو۔ اسی اوہی بزنس کریے تے شیخ چلی چھیڑی جاؤ۔ دی نیوز (تاڈے محبوب جیو دا انگریزی اخبار) دی خبر:
Hamza Sharif now Poultry King of Punjab
 
مشرف دور میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی پر استثناء حاصل تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاشی لحاظ سے وہ کوئی بہترین دور تھا۔ حکومت چلانے کیلئے اربوں ڈالر کے قرضے اس وقت بھی لئے گئے، اور اُن کی واپسی کا کوئی میکینزم نہیں بنایا گیا۔

اب ان قرضوں اور پچھلے قرضوں اور ان پر مسلسل بڑھے والے سود بھی بتائیں کہ کسقدر ہوا؟
ماشاءاللہ۔ تُسی مرغی انڈے نال پنجاب دے بے تاج بادشاہ تے ارب پتی بن یو۔ اسی اوہی بزنس کریے تے شیخ چلی چھیڑی جاؤ۔ دی نیوز (تاڈے محبوب جیو دا انگریزی اخبار) دی خبر:
Hamza Sharif now Poultry King of Punjab

جزاک اللہ، ذاتی بزنس اور معاشی پالیسی میں فرق جان کر جیو۔

عمران خان نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ سینٹرل بینک نے اس حوالہ سے حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا۔

کپتان نے فرمایا کہ "میڈیا سے پتہ چلا"۔
لیکن چلیں اعتماد میں نہیں بھی لیا کو مان لیں تو پھر فیصلے کون کر رہا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
جزاک اللہ، ذاتی بزنس اور معاشی پالیسی میں فرق جان کر جیو۔
بہترین معاشی پالیسی ہر شہری کو خود کفیل کرنا ہے۔ جب غریب اور متوسط طبقہ غربت سے باہر آتا ہے تو ملک اپنے آپ اوپر چلا جاتا ہے۔ پرانی حکومتیں بیرونی قرضوں پر گزارہ کرتی رہیں۔ جبکہ اپنی ایکسپورٹ بڑھانے پر بالکل توجہ نہیں دی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کپتان نے فرمایا کہ "میڈیا سے پتہ چلا"۔
لیکن چلیں اعتماد میں نہیں بھی لیا کو مان لیں تو پھر فیصلے کون کر رہا ہے؟
جیسے نیب بغیر حکومت کو بتائے کسی کو بھی کرپشن کی مد میں پکڑ سکتا ہے۔ ویسے ہی سنٹرل بینک حکومت کو لا علم رکھتے ہوئے انٹرسٹ ریٹ کو مینج کرنے اور زرمبادلہ کی خریدو فروخت کرنے میں آزاد ہے۔ دیگر ممالک میں بھی یہ اہم فیصلے وہاں کے سینٹرل بینک کرتے ہیں۔ جس پر اکثر عوامی لیڈران آگ بگولا ہو جاتےہیں۔
Trump Says Fed Moving Too Fast With Interest-Rate Increases
Turkish lira tumbles after central bank keeps interest rates steady
 
Top