ڈرامے باز پکوڑے فروش ہڈی مافیا

زیرک

محفلین
ڈرامے باز پکوڑے فروش ہڈی مافیا
چشمِ فلک نے دیکھا کہ چند میڈیا چینلز اور میڈیا ہاؤسز کے بند ہونے کی وجہ سے بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے چند صحافیوں نے احتجاجاً پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پکوڑے بیچنے شروع کر دئیے۔ بلاول زرداری سمیت کئی ارکان اسمبلی نے ان سے گرما گرم پکوڑے خرید کر کھائے۔ ان صحافیوں کو چاہیے کہ وہ ایسی دکانیں اپنے اپنے میڈیا ہاؤسز کے سامنے بھی کھولیں کہ جن کے مالکان نے آج تک ہلقان زدہ کتے کی طرح حکومتوں کی طرف ہی دیکھا ہے کہ ''دے جا سخیا اشتہار کی ہڈی''۔ اگر میڈیا ہاؤسز کے مالکان کاروباری اصولوں کو اپناتے ہوئے چلتے اور ان کو ادراک ہوتا کہ دنیا میں کوئی میڈیا ہاؤس صرف سرکاری اشتہاروں پر ہی نہیں چلا کرتا، اس کے لیے کاروباری حلقوں اور کاروباری اداروں سے ہی رابطہ کرنا پڑتا ہے اور ان سے اشتہارات لے کر اپنی آمدنی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ دنیا میں میڈیا کو ٪90 اشتہارات پرائیویٹ سیکٹر سے ہی ملتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا جس حال کو پہنچا ہے وہ اس کا خود ذمہ دار ہے۔ مغربی دنیا خاص کر برطانیہ نے حکومتیآمدنی بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا پر بھی ٹیکس عائد کر دیا ہے اور آج بھی برطانیہ میں میڈیا ہاؤسز سب سے زیادہ ٹیکس دینے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں میڈیا ہاؤسز صرف اپوزیشن یا مخالفین کے کپڑے اتارنے کا آلۂ کار بنے حکومتوں سے راتب یا ہڈی ہی وصول کرتے آئے ہیں۔ اب جبکہ پاکستانی حکومت کی طرف سے اشتہارات کے زمرے میں ہڈی ملنی بند ہوئی ہے تو اب پکوڑے بیچنے کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔
 
Top