ہم چھان چکے ہیں عالم کو تسکینِ دلِ رنجور نہیں

عباد اللہ

محفلین
جز حسن کی نظرِ عنایت کے (اس شوخ کو جو منظور نہیں)
ہم چھان چکے ہیں عالم کو تسکینِ دلِ رنجور نہیں

کیا جا ہے جو تیرے جلوے سے لبریز نہیں معمور نہیں
ہم جھانک کے خود میں حیراں ہیں اب حاجتِ برقِ طور نہیں

اس حسن کی ضو محصور نہیں باوصفِ حجابِ نور نہیں
وہ دیدمگر کیا ہے جس میں ہر ریشہء تن مسحور نہیں

چھوڑی نہ شکوہِ عشق نے جا اب دیدہء و دل میں سمائے کیا
کوئی جو ہو تجھ رخ کا شیدا ہرگز وہ حریصِ حور نہیں
۔۔
1۔نظرِ عنایت میں ظ کو تسکینِ اوسط کے تحت ساکن کیا ہے اگر چہ کوئی نظیر ہم کو اس کی دستیاب نہیں ہو سکی:)
2۔اس کو ہماری طبیعت خطا ماننے ہی پر آمادہ نہیں :(
 

یاسر شاہ

محفلین
عزیزم عباد اللہ السلام علیکم !

آپ کے اشعار پسند آئے 'داد قبول کیجئے -ظاہر سی بات ہے یہاں غزل پیش کرنے کا مقصد داد سے زیادہ اساتذہ کی اصلاح اور ہم ایسوں کا بیلاگ تبصرہ ہے جس میں تبصرہ نگار کے اپنے سیکھنے کا بھی بہت کچھ سامان ہو جاتا ہے - میرا بیلاگ تبصرہ حاضرِ خدمت ہے -

جز حسن کی نظرِ عنایت کے (اس شوخ کو جو منظور نہیں)
ہم چھان چکے ہیں عالم کو تسکینِ دلِ رنجور نہیں

واہ -جزوِ شعر قوسین میں غالباً جون ایلیا کی اختراع ہے -بہر حال جملۂ معترضہ کا شعر میں یوں استعمال خوب ہے -

کیا جا ہے جو تیرے جلوے سے لبریز نہیں معمور نہیں
ہم جھانک کے خود میں حیراں ہیں اب حاجتِ برقِ طور نہیں

یہاں مجھے لگتا ہے آپ جیسے کہنہ مشق شاعر نے ایک ذرا سی بات کہنے میں کہ "ہر جگہ تو ہے " مصرعۂ اولیٰ کو اسراف کی نذر کر دیا ہے -مثَلاً "معمور نہیں" مقصد برآوری کے لئے کافی تھا -آپ کا "لبریز نہیں" کا اضافہ زاید از ضرورت سا ہے -چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے مصرع سے اس سیکڑوں بار استعمال شدہ مضمون میں کچھ ندرت پیدا کی جاتی -کیا خیال ہے ؟

اس حسن کی ضو محصور نہیں باوصفِ حجابِ نور نہیں
وہ دیدمگر کیا ہے جس میں ہر ریشہء تن مسحور نہیں

"باوصفِ حجابِ نور " ترکیب نے شعر کے مفہوم کو الجھا کے رکھ دیا ہے -میں نے بھی اپنے طور پر یہ اجتہاد کیا ہے کہ غالباً آپ کی مراد کچھ یوں ہے :

اس حسن کی ضو محصور نہیں' زندانئ پردہ نور نہیں
وہ دید مگر منظور نہیں ' دل و جاں جس سے مسحور نہیں

ہرچند مسحور قافیہ قاصر ہے' وہ خاص کیفیت بیان کرنے میں جو مقصود ہے- مگر میرے ذہن میں بھی کوئی مفیدِ مطلب قافیہ نہیں -دوسرا مصرعہ محض تفریح طبع کے لئے بدل دیا ہے وگرنہ آپ کا مصرعہ خوب ہے البتہ "جس میں ہر ریشہء تن........" کی جگہ "جس سے ہر ریشہء تن........"کہیے-

چھوڑی نہ شکوہِ عشق نے جا اب دیدہء و دل میں سمائے کیا
کوئی جو ہو تجھ رخ کا شیدا ہرگز وہ حریصِ حور نہیں

یہ شعر بھی خوب ہے -گو کلاسیکیت کی طرف بتکلف رجوع حسین لگتا ہے مگر دوسرا مصرعہ اگر یوں ہوتا تو کیا ہوتا ؟کہ غالب تو مر گیا :-P-واضح رہے یہاں بھی مصرعۂ اولیٰ تفریحِ طبع کے طور پہ بدلا ہے 'خیال مت کیجئے گا -مقصود آپ کی رائے دوسرے مصرع کے متعلق جاننا ہے -

چھوڑی نہ شکوہِ عشق نے جاں 'سب دیدہء و دل ہیں فرشِ راہ
ہو جائے جو تیرا شیدائی
' ہرگز وہ حریصِ حور نہیں


یاسر
 
1۔نظرِ عنایت میں ظ کو تسکینِ اوسط کے تحت ساکن کیا ہے اگر چہ کوئی نظیر ہم کو اس کی دستیاب نہیں ہو سکی:)
2۔اس کو ہماری طبیعت خطا ماننے ہی پر آمادہ نہیں :(
نظر کے 'ظ' کو ساکن نہ بھی کیا جائے تب بھی مصرع درست رہے گا۔ حقیقتِ حال یہی ہے کہ بحرِ ہندی اور زمزمہ عروضی بحور نہیں یعنی ان پر عروض کے قواعد و ضوابط کا اطلاق ایک سعیِ لاحاصل ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ انھیں شاعر کی موزوں طبیعت پر چھوڑ دینا چاہیے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
نظر کے 'ظ' کو ساکن نہ بھی کیا جائے تب بھی مصرع درست رہے گا۔ حقیقتِ حال یہی ہے کہ بحرِ ہندی اور زمزمہ عروضی بحور نہیں یعنی ان پر عروض کے قواعد و ضوابط کا اطلاق ایک سعیِ لاحاصل ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ انھیں شاعر کی موزوں طبیعت پر چھوڑ دینا چاہیے۔

تسکین اوسط کا اصول کیا ہے؟
 

یاسر شاہ

محفلین
نظر کے 'ظ' کو ساکن نہ بھی کیا جائے تب بھی مصرع درست رہے گا۔ حقیقتِ حال یہی ہے کہ بحرِ ہندی اور زمزمہ عروضی بحور نہیں یعنی ان پر عروض کے قواعد و ضوابط کا اطلاق ایک سعیِ لاحاصل ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ انھیں شاعر کی موزوں طبیعت پر چھوڑ دینا چاہیے۔
کم از کم میرے خیال سے تو' بے تسکین اوسط 'مطلع بحر سے خارج ہو جاتا ہے -چونکہ دعویٰ آپ نے کیا ہے دلیل آپ کے ذمّے ٹھہری - :)
خاص اس بحر کی بات چل رہی ہے جس میں آٹھ بار "فعلن" ہے ف' ل متحرک اور ع کو بھی تحریک دی جا سکتی ہے -
 
کم از کم میرے خیال سے تو' بے تسکین اوسط 'مطلع بحر سے خارج ہو جاتا ہے -چونکہ دعویٰ آپ نے کیا ہے دلیل آپ کے ذمّے ٹھہری - :)
خاص اس بحر کی بات چل رہی ہے جس میں آٹھ بار "فعلن" ہے ف' ل متحرک اور ع کو بھی تحریک دی جا سکتی ہے -
روایتی عروضی نظام جو فارسی سے مستعار لیا گیا ہے اس میں ایسی کوئی بحر موجود نہیں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
چار حروفِ متحرک اگر ایک ساتھ پیوست ہوں تو ان میں درمیان والے کو ساکن کر دینا تسکینِ اوسط کہلاتا ہے۔ یہ اصول بحور کے ارکان اور مختلف الفاظ پر لاگو کیا جا سکتا ہے۔

  1. چار حروف کا وسط کیا ہوگا ؟
  2. کیا ابھی بھی بحر کے ارکان میں لاگو کر سکتے ہیں ؟
  3. کیا ہر شاعر ہر وقت مختلف الفاظ کو تسکین اوسط کے لحاظ سے بدل سکتا ہے ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
چار حروف کا وسط کیا ہوگا ؟
دوسرا حرف.
کیا ابھی بھی بحر کے ارکان میں لاگو کر سکتے ہیں ؟
جی بالکل.
کیا ہر شاعر ہر وقت مختلف الفاظ کو تسکین اوسط کے لحاظ سے بدل سکتا ہے ؟
اجتناب ہی بہتر ہے.
 
آخری تدوین:
کچھ مثالیں مل جاتیں تو لطف آجاتا
بنمای رخ که باغ و گلستانم آرزوست

اصل لفظ بِنُمَاْ ہے جسے شاعر نے بِنْمَاْ باندھا ہے.

اسی طرح فاعلاتن مفاعلن فعِلن کے آخری رکن کو اسی اصول کے تحت کبھی کبھی فعلن کر دیا جاتا ہے.
 

حسان خان

لائبریرین
بنمای رخ که باغ و گلستانم آرزوست

اصل لفظ بِنُمَاْ ہے جسے شاعر نے بِنْمَاْ باندھا ہے.

اسی طرح فاعلاتن مفاعلن فعِلن کے آخری رکن کو اسی اصول کے تحت کبھی کبھی فعلن کر دیا جاتا ہے.
ریحان بھائی، فارسی شاعری میں ایسا اُن فعلی صیغوں میں روا ہے جن کے شروع میں بائے تزئینی، نونِ نفی یا میمِ نہی لگا ہو۔ نونِ نفی کی ایک مثال:
عندلیبم، به گُلستان شُدنم نگْذارند
(میں بُلبُل ہوں، مجھ کو گُلستان کی جانب جانے نہیں دیتے۔)
اِس مصرعے میں شعری ضرورتوں کے تحت «نَگُذارَنْد» کو «نَگْذارَنْد» منظوم کیا گیا ہے۔

لیکن فارسی شاعری میں کسی اسم میں تسکینِ اوسط کرنا روا ہے یا نہیں، اِس کے بارے میں لاعلم ہوں۔
 
آخری تدوین:

عباد اللہ

محفلین
وعلیکم السلام قبلہ یاسر صاحب اچھا لگا اپنے اشعار پر (بلکہ نور سعدیہ شیخ کے نام کرنا چاہئے ان کا گناہ و ثواب کہ یہ انہی کے متصوفانہ مضامین کو نظم کرنے کی کوشش ہے) آپ کا تبصرہ اچھا لگا ۔
کیا جا ہے جو تیرے جلوے سے لبریز نہیں معمور نہیں
ہم جھانک کے خود میں حیراں ہیں اب حاجتِ برقِ طور نہیں

یہاں مجھے لگتا ہے آپ جیسے کہنہ مشق شاعر نے ایک ذرا سی بات کہنے میں کہ "ہر جگہ تو ہے " مصرعۂ اولیٰ کو اسراف کی نذر کر دیا ہے -مثَلاً "معمور نہیں" مقصد برآوری کے لئے کافی تھا -آپ کا "لبریز نہیں" کا اضافہ زاید از ضرورت سا ہے -چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے مصرع سے اس سیکڑوں بار استعمال شدہ مضمون میں کچھ ندرت پیدا کی جاتی -کیا خیال ہے ؟
دیکھئے بھئی اگر صرف مضون ہی ادا کرنا ہے تو پھر شعر پر وقت صرف کرنا کارِ لاحاصل ۔خود ہم کو اس کا پہلا مصرع رواں لگتا ہے اگر حشو ہے بھی تو ہم اسے حشو ملیح سمجھتے ہیں ، دوسرے مصرعے میں طور البتہ قافیے کی قید سے آیا ہے اور سارے شعر کا بیڑا غرق کر گیا ہے اگر غالب نے نہ کہا ہوتا کہ "ہم کو تقلیدِ تنک ظرفیِ منصور نہیں" تو ہم بھی یہاں منصور ہی پر طنز کرنے کا شوق پورا کرتے ۔اس پر اگر آپ کوئی اچھا مشورہ دے سکیں !
:):)
اس حسن کی ضو محصور نہیں باوصفِ حجابِ نور نہیں

"باوصفِ حجابِ نور " ترکیب نے شعر کے مفہوم کو الجھا کے رکھ دیا ہے -میں نے بھی اپنے طور پر یہ اجتہاد کیا ہے کہ غالباً آپ کی مراد کچھ یوں ہے :

اس حسن کی ضو محصور نہیں' زندانئ پردہ نور نہیں
وہ دید مگر منظور نہیں ' دل و جاں جس سے مسحور نہیں
نہیں بھئی یہ تو صاف اور سیدھی بات ہے خدا معلوم آپ کو اس اجتہاد کی حاجت کیوں محسوس ہوئی ، معنی یہ ہے کہ اس حسن کی ضو باوجود محجوبِ حجابِ نور ہونے کے محصور نہیں ہے ،مگر ہم ہی سے حقِ دید ادا نہیں ہوتا اور اصل دید تو وہ ہے جس سے ہر ریشہ ء تن مسحور ہو جائے۔
لیکن وہ دید ہی کیا جس میں ہر ریشہ ء تن مسحور نہیں
سے شاید واضح ہو جائے
یہ شعر بھی خوب ہے -گو کلاسیکیت کی طرف بتکلف رجوع حسین لگتا ہے مگر دوسرا مصرعہ اگر یوں ہوتا تو کیا ہوتا ؟کہ غالب تو مر گیا :-P-واضح رہے یہاں بھی مصرعۂ اولیٰ تفریحِ طبع کے طور پہ بدلا ہے 'خیال مت کیجئے گا -مقصود آپ کی رائے دوسرے مصرع کے متعلق جاننا ہے -

چھوڑی نہ شکوہِ عشق نے جاں 'سب دیدہء و دل ہیں فرشِ راہ
ہو جائے جو تیرا شیدائی
' ہرگز وہ حریصِ حور نہیں
اس آخری حصے میں استمرار مفقود ہے جو ہم کو اس یہاں لازم معلوم ہوتا ہے مگر زمین اجازت نہیں دیتی ، باقی آپ نے شاید دھیان نہیں دیا ہم نے یہاں جا، کیا، اور شیدا کے قوافی برتے تھے جو آپ کی تجویز میں ضائع ہو گئے اور کوئی خوبی بھی پیدا نہیں ہوئی ۔ "ہو جائے جو تجھ رخ کا شیدا" البتہ اچھا ہے ۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
کیونکہ یہ بحور سنسکرت اور ہندی شاعری کے ساتھ مخصوص ہیں جن کے اصول و ضوابط سے میں قطعی طور پر نابلد ہوں.
محترم ریحان صاحب !

قیاس آرائیوں میں ایسے الفاظ کا اضافہ بہرحال ضروری ہے -"میری ناقص رائے میں " 'یا "کم از کم میرے مطالعے کی حد تک" ' یا "میری یاد داشت کے مطابق" وغیرہ وغیرہ -کیونکہ انسان سے بھول چوک 'نسیان وغیرہ کا احتمال ہے -اس بحر کا تذکرہ بالکل ملتا ہے -"میزان سخن" میں حمید عظیم آبادی نے کیا ہے -یہ بحر متدارک مخبون یا مقطوع سولہ رکنی کہلاتی ہے یعنی ہر مصرع میں آٹھ فعلن لہٰذا شعر میں سولہ رکن -مثالیں بھی دی گئی ہیں اساتذہ کی -جیسے :

ہے دل کی حکایت حیرت زا 'کیا اول و آخر اس کا کہیں
اک خاک کا تودہ لائے تھے' صحرائے قیامت لے کے چلے
-------------------------شاد

اس کے علاوہ مجھے یاد ہے اقبال کی ایک نظم جو ان کی کلیات کے ظریفانہ باب میں موجود ہے -


ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا اٹکا ہے
واں کنٹر سب بلّوری ہیں یاں ایک پُرانا مٹکا ہے

اس دَور میں سب مٹ جائیں گے، ہاں! باقی وہ رہ جائے گا
جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکّا اپنی ہَٹ کا ہے

اے شیخ و برہمن، سُنتے ہو! کیا اہلِ بصیرت کہتے ہیں
گردُوں نے کتنی بلندی سے ان قوموں کو دے پٹکا ہے

یا باہم پیار کے جلسے تھے، دستورِ محبّت قائم تھا
یا بحث میں اُردو ہندی ہے یا قربانی یا جھٹکا ہے

-------------------علامہ اقبال

ان مثالوں میں غور کریں تو آپ کی رخصتِ مذکورہ جو تسکینِ اوسط نہ کرنے سے حاصل ہو سکتی تھی کہیں نہیں اپنائی گئی -ہرچند اساتذہ کے کلام سے دعوے کی دلیل آپ کے ذمّے تھی مگر چلیں دفاع مؤقف ہی سہی 'میں نے مثالیں پیش کر دیں -
 
قیاس آرائیوں میں ایسے الفاظ کا اضافہ بہرحال ضروری ہے -"میری ناقص رائے میں " 'یا "کم از کم میرے مطالعے کی حد تک" ' یا "میری یاد داشت کے مطابق" وغیرہ وغیرہ -کیونکہ انسان سے بھول چوک 'نسیان وغیرہ کا احتمال ہے -اس بحر کا تذکرہ بالکل ملتا ہے -"میزان سخن" میں حمید عظیم آبادی نے کیا ہے -یہ بحر متدارک مخبون یا مقطوع سولہ رکنی کہلاتی ہے یعنی ہر مصرع میں آٹھ فعلن لہٰذا شعر میں سولہ رکن -مثالیں بھی دی گئی ہیں اساتذہ کی -جیسے :
جب آپ نے بات سمجھنی نہیں ہے تو ان فقروں کا کوئی خاص فائدہ نہیں۔ میں نے صرف یہ کہا کہ یہ بحر شعرائے فارس نے نہ بنائی ہے اور نہ استعمال کی۔ اس لیے یہ رجز، رمل وغیرہ جیسی بحر نہیں۔
اس مصرع کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے اس میں فعلن کے تمام ع ساکن ہیں اسے آپ موزوں سمجھتے ہیں یا نہیں؟ کیا اسے اسی اس بحر کے ردھم پر پڑھا جا سکتا ہے؟

میری مسجد ڈھانے والے اپنا قبلہ سیدھا کرتے

قطع کا زحاف بھی مجھے یاد پڑتا ہے کہ تمام ارکان پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
ان مثالوں میں غور کریں تو آپ کی رخصتِ مذکورہ جو تسکینِ اوسط نہ کرنے سے حاصل ہو سکتی تھی کہیں نہیں اپنائی گئی -
رخصتِ مذکورہ کا تعلق کسی اصول سے نہیں۔ جس طرح میر و سودا کے مصارع کی تقطیع مشکل ہے ویسا ہی معاملہ ادھر بھی ہے:

آگے اس متکبر کے ہم خدا خدا کیا کرتے تھے

یار کہے ہے سودا کے ملنے سے مجھ کو کیا حاصل
 

یاسر شاہ

محفلین
دوسرا حرف.

جی بالکل.

اجتناب ہی بہتر ہے.

اصل میں یہاں بھی میں آپ سے متفق نہیں -ریاضی کی رو سے بھی چار حروف کا وسط دوسرا نہیں البتّہ دوسرا اور تیسرا دو نوں حروف ہوتے ہیں اور تسکین اوسط در اصل ہے تین متحرک حروف میں سے وسط یعنی دوسرے کو بضرورت شعری ساکن کر دینا -

بقول آپ کے' تلفّظ اور بحر کو بدل سکتے ہیں تسکین اوسط کے تحت -اقبال کا مشہور مصرع ہے :

kalimah" parhtay thay ham chaaoN meN talwaaroN ki"

بالفرض اسے اقبال نہ کہتے کوئی اوریوں کہتا تو آپ کے نزدیک درست تھا :

parhtay thay ham kalmah chaaoN maiN talwaaroN ki


کیونکہ کلمہ کے تلفّظ اور بحر کی ہر دو تبدیلیاں آپ کے نزدیک روا ہیں -کم از کم میں تو آپ کی بات سے یہی سمجھا ہوں -


اصل میں تسکین اوسط کے تحت گنجائشیں جو کچھ عروض دانوں نے دینی تھیں دے چکے -اب مزید تسکین اوسط کا قائدہ لاگو کر کے بحروں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا -یہی تلفّظ کا معاملہ ہے کہ سخت ضرورت ہی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے -فارسی شاعری میں چونکہ الفاظ کے بیشتر حروف میں تحرک ہے اس لئے وہاں یہ تلفّظ کی تبدیلیاں عام ہیں-اردو میں ایسا نہیں ہے -
 
Top