محترمہ مریم افتخار صاحبہ کے ساتھ ایک مصاحبہ!

موجودہ منتخب مضمون میں آگے چل کر کیا کرنے کا ارادہ ہے یا اس کے حوالے سے دنیا کو کیا بہتر دینے کا جذبہ رکھتی ہیں ؟
اب میرا مضمون بائیوٹیکنالوجی ہے. بائیولوجیکل سائنسز کی سب برانچز میں سے مجھے یہ پسند ہے. باٹنی پڑھ کر مجھے پودوں سے بہت محبت پیدا ہوئی اور قائم ہے مگر باٹنی سے محبت نہ ہوئی. بہت سی وجوہات کے علاوہ شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کیونکہ اس میں سائینٹفک کام کرنے کا مارجن میرے خیال میں خاصا کم ہے. اسی لیے بائیوٹیکنالوجی پسند ہے کیونکہ اس میں سائینٹفک کام ہونے کا مارجن میرے نزدیک زیادہ ہے اور پھر جس ادارے میں میں زیر تعلیم ہوں یہ بائیوٹیکنالوجی کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ ہے اور یہاں کام ہو رہا ہے مگر یہاں دو لمٹیشنز بلکہ چیلینجز ہیں، ایک یہ کہ میں نے بی ایس کے پانچ سالوں اور چوالیس سبجیکٹس میں بائیوٹیکنالوجی کا ایک سبجیکٹ بھی نہ پڑھا جبکہ یہاں اساتذہ یوں پڑھاتے ہیں جیسے ہم سب کچھ پیچھے پڑھ کر آئے ہی‍ں اور میرے سوا باقی تقریبا زیادہ تر کلاس تو بی ایس بائیوٹیکنالوجی کی ہی ہے اور وہ واقعی سب کچھ پڑھ کر ہی آئے ہیں جب کہ میں ابھی سمجھ ہی رہی ہوں کہ بائیوٹیکنالوجی کیا ہے!
دوسری بات یہ ہے کہ کام تو زندگی بھر بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں اس فیلڈ میں، خاص طور پر مسلم سائنسدانوں کے زوال کی وجہ سے کافی کنسرننگ ہوں مگر یہ وقت اور حالات بتائیں گے کہ کیا کر سکتی ہوں. ابھی تو میں نے ایم فل ریسرچ کے لیے سوچا تھا کہ فلوریسنٹ پلانٹس پر کام کروں. اس پر ایم آئی ٹی میں اور چند اور جگہوں پر کام ہو رہا ہے، مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے کہ کوئی پراڈکٹ لانچ کریں. میرے نزدیک ریسرچ پراڈکٹ آرئینٹڈ ہونی چاہئیے لہذا یہ سوچ ذہن میں تھی اور وجہ اس کی یہ ہے کہ میرے پاس (میری دانست میں) ان سے بہتر آئیڈیاز ہیں، میں ان کو عملی طور پر ٹرائی کرنا چاہتی ہوں اور ہمارے ادارے میں سبھی سہولیات موجود ہیں جو میرے اس ریسرچ ڈیزائن کو عملی جامہ پہنچانے کے لیے چاہئیں مگر ایک متعلقہ ٹیچر جو کہ یہاں پرنسپل سائنٹسٹ ہیں سے تفصیل سے معاملہ ڈسکس کیا تو انہوں نے ایک جملے پر مشتمل ایک پاکستانی جواب دیا اور وہ یہ تھا: 'ایم فل آپ کی زندگی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں! ' :)
 
کیا نام کے شخصیت پر اثرات ہوتے ہیں ؟ اپنی شخصیت کے مطابق آپ کو کیا لگتا ہے؟
جی میرا تو گمان ہے کہ نام شخصیت پر کسی نا کسی طرح اثرانداز ہوتا ہے. مریم کا مطلب ہے نیک لڑکی اور افتخار کا مطلب ہے قابلِ فخر. میرا اپنی ذات کے متعلق مشاہدہ یہ ہےکہ میں ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہوں مگر پھر بھی قدرت نے نام کی لاج رہنے دینے کا ہمیشہ کوئی نا کوئی راستہ نکالے رکھا. یعنی میرا عمل بہت نیک یا قابل فخر نہ ہوسکا مگر مجھے بد یا ناقابل فخر ہونے سے بچایا جاتا رہا اور مریم اور افتخار کی کم سے کم جو حدود ہیں وہ کسی صورت پار نہ ہونے دی گئیں. :)
 
مریم افتخار. اس کا انتخاب والد محترم نے کیا اور اس کی وجوہات کے متعلق دو روایات بیان کی جاتی ہیں. ایک یہ کہ میری پیدائش سے قبل امی روزانہ سورۂ مریم اور سورۂ یوسف کی تلاوت کیا کرتی تھیں اور دوسری یہ کہ اگرچہ مریم ایک کامن نیم ہے مگر ہمارے پورے گاؤں میں اس وقت کسی خاتون یا بچی کا نام مریم نہ تھا اور والدین کی خواہش اپنے بچے کا انوکھا نام رکھنے کی ہوا کرتی ہے جبکہ ان کی کل کائنات اس وقت ہمارا گاؤں ہی تھا اس لیے میں 'مریم افتخار' قرار دی گئی. افتخار والد محترم کا نام ہے. :)
واہ سبحان اللہ۔ کیا خوبصورت توجیہ ہے۔
 
اگر آپ کو نام بدلنے کا اختیار دے دیا جائے تو کیا رکھے گیں اور کیوں ؟
زندگی کے ایک بڑے حصے میں مَیں انتہائی قنوطیت یا اپنے اعمال پر انتہائی ندامت کے وقت نام بدلنے کا سوچتی رہتی تھی کہ یہ نام میں نے تو نہیں رکھا اور میری نظر میں مَیں یہ ہوں بھی نہیں تو ایک ایسی کتاب کا عنوان جھوٹا کیوں ہو. مگر پھر وہ بات سمجھ آئی جو مندرجہ بالا مراسلے میں لکھی ہے اور اب اپنے نام پر مطمئن ہوں اس لیے کوئی متبادل نام نہیں رکھوں گی. یہ عنوان ہی تو ہے جس نے کتاب کے حواشی متعین کر رکھے ہیں. :)
 
میتھ کے بغیر فزکس کا کیا سوال؟
آپ کی بات درست ہے مگر میرا میتھس بہت اچھا تھا، یہ واحد سبجیکٹ ہے جس میں نہ تو ایک نمبر ہی کٹتا تھا اور نہ ہی میرے لیے محض ایک سبجیکٹ ہی تھا. مگر بائیو رکھنے پر کمپرومائز کرنا پڑا کیونکہ والدین کے نزدیک لڑکیوں کے لیے بائیو میتھس کی نسبت بہتر فیلڈ تھی. وہاں میں نے ان کو کنونس کرنے لیےکہا تھا کہ میتھس گیپ کور کرنا میرا کام ہے! لیکن ان کے رولز تھے کہ پری میڈیکل والوں کو فزکس میں داخلہ نہیں دینا. :) (ویسے ایف ایس سی کا میتھس ہم نے بی ایس میں پڑھا.)
 
دلچسپ بات ہے کہ کیسے نام کا مطلب بدل جاتا ہے
میری نظر سے جو مطالب گزرے ہیں ان کے مطابق نیک لڑکی/پارسا/کنواری اس کے معانی ہیں اور میں نے یہاں محض اول الزکر کا ذکر کرنا مناسب گردانا اور عام طور پر اس نام کی گہرائی میں جانے کا رواج اس لیے نہیں کیونکہ حضرت مریم علیہ السلام ایک ایسا معتبر حوالہ ہیں کہ ان کا نقش پا بنانے کے لیے ہی والدین یہ نام رکھ دیتے ہیں. آپ کو مزید جو مطالب معلوم ہیں ضرور شریک کیجیے. :)
 
پسندیدہ قاری اور سورۃ ؟
قاری المشاری
سورۃ الفاتحہ (اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ یہ مکمل دعا ہے کہ ایک ایمان والے کو کیا کیا چاہئیے اور اس چاہت (مانگ) کو پورا کرنے کے لیے اس دعا (سورۃ) کے جواب میں پورا قرآنِ کریم نازل کیا گیا.) :)
 
زبان یار من عربی و من عربی نمی دانم

اردو اور پنجابی سے بھی محبت ہے اور ان کی ترویج میں اپنا حصہ ڈالنا بھی چاہتی ہوں. انگریزی بھی بری نہیں لگتی یہ سوچ کر کہ ہمارا کہا ہوا ان کے لیے سیکرٹ ہے جب کہ ان کا کہا ہوا ہم سمجھ سکتے ہیں. ؛ ) تاہم پسندیدہ زبان عربی ہی ہے اور ابھی تک محض اس کی الف بے ہی آتی ہے یا کچھ روٹس وغیرہ کی پہچان. دنیاداری کے جھمیلوں اور وقت ضائع کرنے کے ٹیلنٹ نے اتنا وقت نہیں دیا یا شاید 'مریم' نے ابھی تک لیا ہی نہیں مگر امید ہے مستقبل قریب میں اسے سیکھ لے گی. عربی کے پسند ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میں یہ نہیں سمجھتی کہ قرآنِ کریم کی زبان عربی محض اسے لیے ہے کیونکہ اس وقت کے لوگوں کی یہ زبان تھی، یہ بھی وجوہات میں سے ہے لیکن اللہ تعالی بہتر جانتے ہیں کہ دنیا کی ساری زبانوں میں سے اس کتاب کے لیے جو کہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہدایت ہے عربی کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا ہے. جہاں تک میں سمجھی ہوں تو یہ بہت گہری، خوبصورت اور زندہ زبان ہے. :)
 
میں ایف ایس سی ریپیٹ کرنا چاہتی تھی اور اس کی وجہ میڈیکل گول نہیں تھا بلکہ میں اپنے ایف ایس سی کے نمبروں سے ایک فی صد بھی مطمئن نہیں تھی اور آئندہ ہمیشہ کے لیے وہی رہنے والے تھے. مگر ابو چاہتے تھے کہ میں وقت ضائع نہ کروں. میں نے ریپیٹ کرنا شروع کر دیا یونیورسٹیوں کے داخلے بند ہوگئے مگر انہوں نے کہا کہ چاہے ہماری گلی کی نکڑ والے کالج سے بی ایس سی کر لو. ان دنوں میں خود کو کچھ سمجھا کرتی تھی. ایف ایس سی کے نمبروں، پھر بی ایس سی اور گلی کی نکڑ والے کالج نے میرے لیے زمین تک پہنچنے کے راستے آسان کر دیے. مگر پھر اگلے ہی دن کسی نے ابو کو بتایا کہ ساہیوال کے پوسٹ گریجوایٹ کالج میں (جس کی ریپوٹیشن ہمارے علاقے میں خاصی اچھی ہے اور ابو نے بھی وہیں سے پڑھا تھا) بی ایس آنرز کے لیے داخلوں کی آخری تاریخ تو گزر چکی ہے مگر کسی سیٹ کی امید ہے. اس وقت مجھے یہ بھی غنیمت لگا میں جتنی قنوطیت اور جتنے بڑے سمجھوتے کا شکار تھی. اگلے دن وہاں گئے تو میں نے کہا کہ فزکس میں بی ایس کر لیتی ہوں بہت زیادہ کنونس کیا مگر متعلقہ کلرک جو کسی بچی کھچی سیٹ پر مجھے ایڈجسٹ کر رہے تھے نہ مانے. چاہے ایف ایس سی میں فزکس پڑھی ہو اور فزکس آپ کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ رہا ہو مگر وہ پری میڈیکل والوں کو فزکس میں ایڈمیشن نہیں دیں گے. پھر میں نے مزید سبجیکٹس دیکھے جن جن میں بی ایس ہو رہا تھا تو میں نے کہا کہ سٹیٹسٹکس میں دے دیں. انہوں نے کہا کہ ہمارے کالج میں اس کا میرٹ لوئیسٹ ہے جس کا کسی میں ایڈمشن نہیں ہوتا اسے یہاں بھیجتے ہیں اور آپ کے نمبر تو بہت اچھے ہیں. پھر میں نے کہا کہ کیمسٹری میں دے دیں تو انہوں نے کہا کہ سیٹس بھر چکی ہیں اگر کسی سٹوڈنٹ نے چھوڑ دیا تو آپ کو اطلاع کر دیں گے ابھی آپ کسی اور جگہ ایڈمشن لے لیں (میرے ذہن میں ہماری گلی کی نکڑ والا کالج گھوما) اور اس کے ساتھ ہی آخری آپشن بھی جو کہ باٹنی کا تھا. اس وقت باٹنی کا میرٹ ہمارے کالج میں سب سے اپ تھا اور اس میں ایک سیٹ بھی تھی مگر ایک اور لڑکی کے ساتھ مقابلہ تھا اس ایک سیٹ کے لیے مگر میرا باٹنی میں انٹرسٹ نہ تھا اور اس کالج میں زوولوجی بھی نہ تھی حتی کہ بائیو کا صرف ایک ہی شعبہ تھا اور وہ تھا باٹنی. آپ اس وقت میرا لیول تصور کیجیے کہ میں نے آخرکار باٹنی کی اس ایک سیٹ پر ہی اپنا ایڈمشن ہونے کے لیے دل ہی دل میں منت مانی. :) یوں میرا بی ایس کا سبجیکٹ 'سیلیکٹ' ہوا.
والد محترم جو سال ضائع نہیں کروانا چاہتے تھے وہ یوں ضائع ہوگیا کہ اس کالج کا بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے الحاق تھا اور یونیورسٹی نے ہر سمسٹر کے فائنلز لینے میں اتنی تاخیر کی کہ چار سالہ پروگرام میں پورا ایک سال زیادہ لگا، حتی کہ ایم فل میں ایڈمشن انٹرویو کے وقت ملک بھر کے دو سو لائق فائق طلبا (جن میں سے محض تیس طلباء سیلیکٹ ہونے تھے) اپنے تھیسز سمیت تشریف لائے جبکہ میرے پاس ابھی تک اپنا سرے سے کسی سمسٹر کا رزلٹ تھا نہ ہی فائنل رزلٹ ابھی آیا تھا اور تھیسز یا انٹرنشپ کا 'رواج' بھی ہمارے کالج میں تو تھا ہی نہیں! :)
جی ہاں پوسٹ گریجوایٹ کالج سے واقفیت ہے وہاں ایک حضرت واقف ہیں افتخار شفیع صاحب ڈاکٹر ہوگئے ہیں اب تو ۔
آپ کے معاملے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہی اللہ کی منشا تھی
 
میں ایف ایس سی ریپیٹ کرنا چاہتی تھی اور اس کی وجہ میڈیکل گول نہیں تھا بلکہ میں اپنے ایف ایس سی کے نمبروں سے ایک فی صد بھی مطمئن نہیں تھی اور آئندہ ہمیشہ کے لیے وہی رہنے والے تھے. مگر ابو چاہتے تھے کہ میں وقت ضائع نہ کروں. میں نے ریپیٹ کرنا شروع کر دیا یونیورسٹیوں کے داخلے بند ہوگئے مگر انہوں نے کہا کہ چاہے ہماری گلی کی نکڑ والے کالج سے بی ایس سی کر لو. ان دنوں میں خود کو کچھ سمجھا کرتی تھی. ایف ایس سی کے نمبروں، پھر بی ایس سی اور گلی کی نکڑ والے کالج نے میرے لیے زمین تک پہنچنے کے راستے آسان کر دیے. مگر پھر اگلے ہی دن کسی نے ابو کو بتایا کہ ساہیوال کے پوسٹ گریجوایٹ کالج میں (جس کی ریپوٹیشن ہمارے علاقے میں خاصی اچھی ہے اور ابو نے بھی وہیں سے پڑھا تھا) بی ایس آنرز کے لیے داخلوں کی آخری تاریخ تو گزر چکی ہے مگر کسی سیٹ کی امید ہے. اس وقت مجھے یہ بھی غنیمت لگا میں جتنی قنوطیت اور جتنے بڑے سمجھوتے کا شکار تھی. اگلے دن وہاں گئے تو میں نے کہا کہ فزکس میں بی ایس کر لیتی ہوں بہت زیادہ کنونس کیا مگر متعلقہ کلرک جو کسی بچی کھچی سیٹ پر مجھے ایڈجسٹ کر رہے تھے نہ مانے. چاہے ایف ایس سی میں فزکس پڑھی ہو اور فزکس آپ کا سب سے بڑا پلس پوائنٹ رہا ہو مگر وہ پری میڈیکل والوں کو فزکس میں ایڈمیشن نہیں دیں گے. پھر میں نے مزید سبجیکٹس دیکھے جن جن میں بی ایس ہو رہا تھا تو میں نے کہا کہ سٹیٹسٹکس میں دے دیں. انہوں نے کہا کہ ہمارے کالج میں اس کا میرٹ لوئیسٹ ہے جس کا کسی میں ایڈمشن نہیں ہوتا اسے یہاں بھیجتے ہیں اور آپ کے نمبر تو بہت اچھے ہیں. پھر میں نے کہا کہ کیمسٹری میں دے دیں تو انہوں نے کہا کہ سیٹس بھر چکی ہیں اگر کسی سٹوڈنٹ نے چھوڑ دیا تو آپ کو اطلاع کر دیں گے ابھی آپ کسی اور جگہ ایڈمشن لے لیں (میرے ذہن میں ہماری گلی کی نکڑ والا کالج گھوما) اور اس کے ساتھ ہی آخری آپشن بھی جو کہ باٹنی کا تھا. اس وقت باٹنی کا میرٹ ہمارے کالج میں سب سے اپ تھا اور اس میں ایک سیٹ بھی تھی مگر ایک اور لڑکی کے ساتھ مقابلہ تھا اس ایک سیٹ کے لیے مگر میرا باٹنی میں انٹرسٹ نہ تھا اور اس کالج میں زوولوجی بھی نہ تھی حتی کہ بائیو کا صرف ایک ہی شعبہ تھا اور وہ تھا باٹنی. آپ اس وقت میرا لیول تصور کیجیے کہ میں نے آخرکار باٹنی کی اس ایک سیٹ پر ہی اپنا ایڈمشن ہونے کے لیے دل ہی دل میں منت مانی. :) یوں میرا بی ایس کا سبجیکٹ 'سیلیکٹ' ہوا.
والد محترم جو سال ضائع نہیں کروانا چاہتے تھے وہ یوں ضائع ہوگیا کہ اس کالج کا بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے الحاق تھا اور یونیورسٹی نے ہر سمسٹر کے فائنلز لینے میں اتنی تاخیر کی کہ چار سالہ پروگرام میں پورا ایک سال زیادہ لگا، حتی کہ ایم فل میں ایڈمشن انٹرویو کے وقت ملک بھر کے دو سو لائق فائق طلبا (جن میں سے محض تیس طلباء سیلیکٹ ہونے تھے) اپنے تھیسز سمیت تشریف لائے جبکہ میرے پاس ابھی تک اپنا سرے سے کسی سمسٹر کا رزلٹ تھا نہ ہی فائنل رزلٹ ابھی آیا تھا اور تھیسز یا انٹرنشپ کا 'رواج' بھی ہمارے کالج میں تو تھا ہی نہیں! :)
جی ہاں پوسٹ گریجوایٹ کالج سے واقفیت ہے وہاں ایک حضرت واقف ہیں افتخار شفیع صاحب ڈاکٹر ہوگئے ہیں اب تو ۔
 
آخری تدوین:
واقفیت 3 دفعہ اور نعت دو پُرسوز ہے کیا؟

جی ہاں پوسٹ گریجوایٹ کالج سے واقفیت ہے وہاں ایک حضرت واقف ہیں افتخار شفیع صاحب ڈاکٹر ہوگئے ہیں اب تو ۔
آپ کے معاملے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہی اللہ کی منشا تھی

بے شک یہ بڑی پرسوز نعت ہے۔ اویس رضا قادری صاحب نے سب سے پہلے دعوتِ اسلامی کے فورم سے پڑھی تھی، آج تک زبان زدِ خاص و عام ہے۔
جی ہاں پوسٹ گریجوایٹ کالج سے واقفیت ہے وہاں ایک حضرت واقف ہیں افتخار شفیع صاحب ڈاکٹر ہوگئے ہیں اب تو ۔
آپ کے معاملے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہی اللہ کی منشا تھی

بے شک یہ بڑی پرسوز نعت ہے۔ اویس رضا قادری صاحب نے سب سے پہلے دعوتِ اسلامی کے فورم سے پڑھی تھی، آج تک زبان زدِ خاص و عام ہے۔

جی ہاں پوسٹ گریجوایٹ کالج سے واقفیت ہے وہاں ایک حضرت واقف ہیں افتخار شفیع صاحب ڈاکٹر ہوگئے ہیں اب تو ۔
آپ کے معاملے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید یہی اللہ کی منشا تھی
 
اب میرا مضمون بائیوٹیکنالوجی ہے. بائیولوجیکل سائنسز کی سب برانچز میں سے مجھے یہ پسند ہے. باٹنی پڑھ کر مجھے پودوں سے بہت محبت پیدا ہوئی اور قائم ہے مگر باٹنی سے محبت نہ ہوئی. بہت سی وجوہات کے علاوہ شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کیونکہ اس میں سائینٹفک کام کرنے کا مارجن میرے خیال میں خاصا کم ہے. اسی لیے بائیوٹیکنالوجی پسند ہے کیونکہ اس میں سائینٹفک کام ہونے کا مارجن میرے نزدیک زیادہ ہے اور پھر جس ادارے میں میں زیر تعلیم ہوں یہ بائیوٹیکنالوجی کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ ہے اور یہاں کام ہو رہا ہے مگر یہاں دو لمٹیشنز بلکہ چیلینجز ہیں، ایک یہ کہ میں نے بی ایس کے پانچ سالوں اور چوالیس سبجیکٹس میں بائیوٹیکنالوجی کا ایک سبجیکٹ بھی نہ پڑھا جبکہ یہاں اساتذہ یوں پڑھاتے ہیں جیسے ہم سب کچھ پیچھے پڑھ کر آئے ہی‍ں اور میرے سوا باقی تقریبا زیادہ تر کلاس تو بی ایس بائیوٹیکنالوجی کی ہی ہے اور وہ واقعی سب کچھ پڑھ کر ہی آئے ہیں جب کہ میں ابھی سمجھ ہی رہی ہوں کہ بائیوٹیکنالوجی کیا ہے!
دوسری بات یہ ہے کہ کام تو زندگی بھر بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں اس فیلڈ میں، خاص طور پر مسلم سائنسدانوں کے زوال کی وجہ سے کافی کنسرننگ ہوں مگر یہ وقت اور حالات بتائیں گے کہ کیا کر سکتی ہوں. ابھی تو میں نے ایم فل ریسرچ کے لیے سوچا تھا کہ فلوریسنٹ پلانٹس پر کام کروں. اس پر ایم آئی ٹی میں اور چند اور جگہوں پر کام ہو رہا ہے، مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے کہ کوئی پراڈکٹ لانچ کریں. میرے نزدیک ریسرچ پراڈکٹ آرئینٹڈ ہونی چاہئیے لہذا یہ سوچ ذہن میں تھی اور وجہ اس کی یہ ہے کہ میرے پاس (میری دانست میں) ان سے بہتر آئیڈیاز ہیں، میں ان کو عملی طور پر ٹرائی کرنا چاہتی ہوں اور ہمارے ادارے میں سبھی سہولیات موجود ہیں جو میرے اس ریسرچ ڈیزائن کو عملی جامہ پہنچانے کے لیے چاہئیں مگر ایک متعلقہ ٹیچر جو کہ یہاں پرنسپل سائنٹسٹ ہیں سے تفصیل سے معاملہ ڈسکس کیا تو انہوں نے ایک جملے پر مشتمل ایک پاکستانی جواب دیا اور وہ یہ تھا: 'ایم فل آپ کی زندگی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں! ' :)
واہ واہ ماشااللہ کیا خوب ارادے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کامیاب فرمائے۔ ایک دوست کی یاد آگئی انھوں نے ایگری یونی سے ہی اس میدان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی تھی۔ اللہ کرے آپ کا یہ پراجیکٹ مکمل ہو ۔بس ایک پودا مجھے بھی بھیج دیجیے گا :)
 
Top