شکریہ ریسکیور!

شکریہ ریسکیور!

ننھی سی گیند سے کھیلتے ایک بچے کی ہے داستاں
گیند اس کے گلے میں پھنسی نا گہاں
اس کی ماں روئے جاتی تھی مجبور تھی
درد سے چور تھی غم سے معمور تھی
حلق میں جاں تھی بچے کے اٹکی ہوئی
کھورہی تھی وہ سر مایائے ءزندگی
سلسلہ سانس کا ٹوٹ جانے کو تھا
موت کا جیسے پیغام آنے کو تھا
حد سے پھر بڑھ گئے درد کے سلسلے
کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا ماں کیا کرے
چین جب اپنا غم سے وہ کھونے لگی
گھر سے با ہر نکل کر وہ رونے لگی
جمع خلقت ہوئی سن کے آہ و بکا
منکشف پھر ہوا ان پہ سب ماجرا
ایک نے آگے بڑھ کر کہا سب سنو
ریسکیو 1122کو آواز دو
ہر جگہ چند لمحوں میں آتے ہیں وہ
ٹو ٹتی زندگی کو بچاتے ہیں وہ
چند لمحوں میں پھر کال کر دی گئی
اور وہاں ریسکیو کی مدد آگئی
اپنی تھائی پہ بچہ لٹایا گیا
اس کا ابڈومنل تھرسٹ ہونے لگا
سانس کو ریسکیور نے تھا جھٹکا دیا
حلق سے گیند باہر نکل کر گرا
چشمِ معصوم میں زندگی آگئی
چار جانب خوشی کی فضا چھا گئی
پھر وہ معصوم یوں مسکرانے لگا
جیسے کہتا ہو اےریسکیور شکریہ!
 

عرفان سعید

محفلین
ماشاءاللہ خرم بھائی! اپنے تجربات کو بڑی خوبی سے آپ نظم میں سمو دیتے ہیں۔
پابندِ بحر ہو یا ہر بحر سے ماورا ہو، پوسٹ آپ یہیں کریں گے
 
ماشاءاللہ خرم بھائی! اپنے تجربات کو بڑی خوبی سے آپ نظم میں سمو دیتے ہیں۔
پابندِ بحر ہو یا ہر بحر سے ماورا ہو، پوسٹ آپ یہیں کریں گے
عادت ہوگئی ہے یقین کیجیے :) :) :)
یہ لیجیے غالب کی یہ نثری نظم :

کب ہوتا، کیسے ہوتا، کیوں کر ہوتا
یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔
کہ وصالِ یار ہوتا
ہوتا تو بس یہی ہوتا، بار بار ہوتا
اور جیتے رہتے
یہی انتظار ہوتا
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
 

عرفان سعید

محفلین
عادت ہوگئی ہے یقین کیجیے :) :) :)
یہ لیجیے غالب کی یہ نثری نظم :

کب ہوتا، کیسے ہوتا، کیوں کر ہوتا
یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔
کہ وصالِ یار ہوتا
ہوتا تو بس یہی ہوتا، بار بار ہوتا
اور جیتے رہتے
یہی انتظار ہوتا
:) :) :)
واہ واہ خرم بھائی! مزہ آگیا۔ اہلِ فن تو خوب فن بنائیں گے آپ کا۔
 
Top