ماموں تتیا

با ادب

محفلین
ماموں تتیا

ماموں تَتَیّا بیسیویں صدی عیسوی کی عظیم شخصیات میں شمار ہوتے تھے ۔
انکے آس پڑوس محلے دار رشتے دار ہمہ وقت انکی عظمت کا دم بھرتے دکھائی دیتے ۔ ایسا ہر گز نہیں تھا کہ ان شخصیات کو ماموں سے کوئی فیض نصیب ہواکرتا بلکہ انکی عظمت کے اعتراف کے لیے انکا شریعت محمدی پہ دل و جان سے کار بند رہنا ہی کافی تھا ۔

یوں تو ماموں ہر کس و نا کس کے لیے ہانی کارک تھے انکے ہاتھ اور زبان کے شر سے دنیا کا کوئی شخص محفوظ نہیں تھا لیکن انکا عقیدہ تھا کہ دنیا میں خواتین کی تعداد اسقدر بڑھ چکی ہے کہ اگر انھوں نے آگے بڑھ کر چار کو سہارا نہ دیا تو بہ روز قیامت امت کا فرد ہونے کی حیثیت سے کیا منہ دکھائیں گے ۔ اسلیے اپنی شفاعت کو یقینی بنانے کی خاطر وہ قاضی صاحب کو متعدد بار زحمت دے چکے تھے ۔

جہاں محترم تعدد ازواج کا شکار تھے وہیں امت محمدی کی نفری بڑھانے کی خاطر اولاد کی بھاری بھر کم فوج کے ذمے دار بھی تھے ۔
اب چونکہ وہ دین کے اہم فرائض ادا فرما چکے تھے اور بخشش بھی یقینی ہی تھی تو وہ عاقبت کی فکر سے مکمل آزاد ہو کر اس جہان کے باسیوں کی عاقبت سنوارنے پہ تک گئے ۔

جہاں کوئی ہنستا مسکراتا دکھائی دیتا نعوذ باللہ کہہ کر اسکے پاس سے گزر جاتے اور تمام تر اولاد کو سختی سے نصیحت فرماتے کہ اگر فلاں جہنمی کے پاس بھی دکھائی دئیے تو ٹانگیں توڑ کے ہاتھوں میں پکڑا دیں گے ۔

ماموں کا رعب ایسا تھا کہ بچے اُف تک کرنے کے مجاز نہ تھے ۔ اور شاید یہ ثواب بھی ماموں تتیا کے کھاتے میں لکھا جائے گا کہ اولاد نے عمر بھر ماں باپ کے آگے " اُف " تک نہ کی ۔
اسی پر اکتفا نہیں ماموں نے اولاد کو کسی جنگی سپہ سالار کی طرح تربیت کے اسرار و رموز سکھائے ۔
انکی سختی سے ہدایت تھی کہ بچوں میں سے کوئی بھی والدہ سے تب تک بات چیت کا مجاز نہیں ہوگا جب تک ماموں دورانِ گفتگو موجود نہ ہوں ۔ اور اگر کبھی کسی نے اس فرمان سے روگردانی کی کوشش کی بھی تو یہاں وہ ماتا جی کہنے کو منہ کھولتا وہیں ماموں تتیا آسمانی صحیفے کی مانند نازل ہوجاتے ۔ بچوں نے اسکا حل یہ نکالا کہ زمین پہ چت لیٹ کر والدہ کی کان سے منہ جوڑ کے باتیں کیا کرتے ۔ اسطرح نہ صرف یہ کہ والدہ سے گفت و شنید ممکن ہو پاتی بلکہ وہ آئندہ کی زندگی میں ملک و قوم کے بہترین جاسوس بن سکتے تھے ۔

ماموں چونکہ خود کو عقل کل سمجھتے اور باقی کی تمام دنیا کو اس دائرے سے باہر خیال کیا کرتے اسلیے انھوں نے زندگی بھر ایک ہی کلیہ اپنائے رکھا
" دنیا میں سب انسان گدھے ہیں انھیں نکال کے اور انکے علاوہ کوئی بھروسے کے لائق نہیں "
اس مہان اصول کا پرچار وہ اس طور سے فرمایا کرتے کہ ہر کس و ناکس کو ایمان لاتے ہی بنتی ۔

سمیرا امام
 

فاتح

لائبریرین
یہ 'ہانی کارک' اردو کا لفظ کیسے ہو گیا؟
ہندی کا لفظ ہے .... اردو کا کیوں ہونے لگا ..
اوہ میں تو اسے Samuel Hahnemann کی طرز پر Hahne Cork یا Honey Cork وغیرہ کا کوئی نام سمجھا تھا لیکن اس کا اس تحریر سے کوئی تعلق سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اب اس ہندی ہنی کارک کا مطلب بھی بتا دیں۔
 
Top