فیض تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی تیرے جاں نثار چلے گئے

نور وجدان

لائبریرین
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزار چلے گئے

تری کج ادائی سے ہار کے شبِ اِنتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر میرے غمگسار چلے گئے

نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکائتیں نہ شکائتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اِختیار چلے گئے

نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رَسَن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہگار چلے گئے

یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے

فيض احمد فيضؔ
 
مدیر کی آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
فیض کی ایک لازوال غزل ہماری طرف سے بھی :)
 

آوازِ دوست

محفلین
فیض کی ایک لازوال غزل ہماری طرف سے بھی :)
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دِل ریزہ ریزہ گنوا دِیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ داغ داغ لُٹا دِیا

میرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دُشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چُکا دیا

کرو کج جبیں پر سرِ کفن، میرے قاتلوں کو گُماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھُلا دیا

اُدھر ایک حرف کہ کُشتنی، یہاں لاکھ عُذر تھا گُفتنی
جو کہا تو سُن کے اُڑا دِیا، جو لِکھا تو پڑھ کے مِٹا دِیا

جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جوچلے تو جاں سے گُزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھےیادگار بنا دیا

فیض
 

نور وجدان

لائبریرین
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دِل ریزہ ریزہ گنوا دِیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ داغ داغ لُٹا دِیا

میرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دُشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چُکا دیا

کرو کج جبیں پر سرِ کفن، میرے قاتلوں کو گُماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھُلا دیا

اُدھر ایک حرف کہ کُشتنی، یہاں لاکھ عُذر تھا گُفتنی
جو کہا تو سُن کے اُڑا دِیا، جو لِکھا تو پڑھ کے مِٹا دِیا

جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جوچلے تو جاں سے گُزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھےیادگار بنا دیا

فیض
محفل سجادی ۔۔۔ یا لگادی ۔۔۔ یہ میری پسندیدہ ہے ۔۔بہت
 
Top