اپنا تو بن!

نوید ناظم

محفلین
انسان اپنے لیے بہت کچھ کرتا ہے ، بس اپنے ساتھ تعاون نہیں کرتا۔ یہ خواہشات کا بوجھ اپنے کندھوں پر لاد لیتا ہے اور بعد میں دکھ کی زمین میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ زندگی کو اگر سفر کہہ لیا جائے تو سفر میں جتنا کم سامان ہو گا سفر اُتنا ہی آسان ہو گا۔ مگر ہم جمع کرنے میں لگے ہیں اور اس کے لیے ضرب کھاتے رہتے ہیں۔۔۔۔ چوٹی پر پہنچنے کی خواہش میں انسان ہر قدم پر نئی چوٹیں کھا رہا ہے۔ پھر اس کے ساتھ جذبات اور کیفیات بھی ہیں۔ یہ ذرا ذرا سی بات پر غصہ کرنا شروع کر دیتا ہے' حالانکہ غصہ ترک کر دینا اپنے اوپر احسان ہے۔۔۔۔ مگر آج کوئی اپنا محسن بننا بھی پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح لالچ، مقابلہ، انا، نفرت، حسد اور ایسے کئی عفریت ہیں جو انسان کو اندر سے ایسے کھا جاتے ہیں جیسے لکڑی کو گھُن۔ یہ سب وہ اذیتیں ہیں جو اس کا باطن بگاڑ کر رکھ دیتی ہیں، جو کسی اور کا ہونے دیتی ہیں نہ اپنا رکھتی ہیں۔ جب لالچ کے بغیر زندگی گزر سکتی ہے تو پھر لالچ کے ساتھ زندگی کیوں گزاری جائے۔۔۔۔ انسان نے آگے بڑھنا ہے، ترقی کرنا ہے، اور یہ سب اک دوسرے سے مقابلہ کئے بغیر بھی ممکن ہے۔ بلکہ اگر ایک دوسرے سے مقابلے کی بجائے محبت ہو تو یہ مرحلہ اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔ پھر اپنے ہی بھائیوں سے مقابلہ کیسا۔ در اصل انسان اس وقت اندر سے جکڑا ہوا ہے۔۔۔۔ اسے آزادی درکار ہے، اسے اپنے ساتھ وقت گزارنے کی ضرورت ہے، یہ خود اپنے آپ کو ہر وقت کچھ نہ کچھ سناتا رہتا ہے، ڈکٹیٹ کرتا رہتا ہے، اب اسے اپنے آپ کی بھی سننی چاہیے، بے سمت مسافر کا منزل سے محروم ہو جانا لازم ہے، اس لیے جلدی میں بھاگنے والے انسان کو آج ایک سمت کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ ریس میں گھوڑے کی طرح دوڑنے والے کو چاہیے کہ کچھ دیر کو ٹھہرے، بیٹھے، باتیں کرے۔۔۔۔ اپنے آپ سے پوچھے تو سہی کہ اس کا حال کیسا ہے۔۔۔۔ آخر ایسی بھی کیا جلدی کہ انسان خود اپنا دوست بھی نہ بن سکے!
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمدظہیر

محفلین
اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن
سر اقبال کے اس شعر کی ترجمانی کرتی خوب صورت تحریر۔
 
Top