تم اک گورکھ دھندا ہو ۔ ناز خیالوی

نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کے کھنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی برق تجلی سے مٹھا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈھلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہے کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعان
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
دیکھے یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شاہ مصر بنا دیتے ہو
جزب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں ان الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چھڑا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جسکو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں رلا دیتے ہو
جستجو لے کہ تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلا کا بنا دیتے ہو
جوتھ سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوے تل میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہیوال تصور کرلے
اسکو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرادیتے ہو
یہ ناز خیالوی کی تم اک گورکھ دھندہ ہو کا حصہ ہے یہ ان کی نہیں اک گورکھ دھندہ ہو اور ویسا بھی یہ صاحب نوجوان شاعر ہیں ضیاء رسول امینی
 
نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کے کھنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی برق تجلی سے مٹھا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈھلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہے کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعان
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
دیکھے یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شاہ مصر بنا دیتے ہو
جزب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں ان الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چھڑا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جسکو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں رلا دیتے ہو
جستجو لے کہ تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلا کا بنا دیتے ہو
جوتھ سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوے تل میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہیوال تصور کرلے
اسکو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرادیتے ہو
نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہویہاں پر محترم نے پوسٹ کی ہے لیکن اس بھی اپنا نام شامل نہیں کیا ہوا اس کا مطلب یہی ہے کے یہ ناز خیالوی کی ہی ہے
 
یہ ناز خیالوی کی تم اک گورکھ دھندہ ہو کا حصہ ہے یہ ان کی نہیں اک گورکھ دھندہ ہو اور ویسا بھی یہ صاحب نوجوان شاعر ہیں ضیاء رسول امینی

نت نئے نقش بناتے ہو مٹا دیتے ہویہاں پر محترم نے پوسٹ کی ہے لیکن اس بھی اپنا نام شامل نہیں کیا ہوا اس کا مطلب یہی ہے کے یہ ناز خیالوی کی ہی ہے
ٹھیک ہے مولانا۔میں آپ سے متفق ہوں ۔میں نے غلطی فہمی کی بنیاد پر امینی صاحب کا نام شامل کر دیا۔:)
 
نت نئے نقش بناتے ہو ، مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو

کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو

زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو

خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی ، برقِ تجلی سے جلا دیتے ہو

نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو

چاہ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو

بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شاہ مصر بنا دیتے ہو

جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو

خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو

اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو

کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں اڑا دیتے ہو

جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو

جوت سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو

سوہنی گر تم کو “مہینوال” تصور کر لے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو

خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب ﷺ
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو
ناز خیالوی​
 
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اما بعد ! میرے دوستوں میں مرحوم ناز خیالوی کا یہ کلام کہ "تم اک گورکھ دھندہ ہو" مرحوم نصرت فتح علی خان کی آواز میں ہر روز سنتا ہوں لیکن اس جملے کی مطلب یا معنی سے قاصر ہوں " تم اک گورکھ دھندہ ہو" اس جملے کا مطلب یا معنی کیا ہے ؟ برائے مہربانی معلومات دیجئے ۔
 
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اما بعد ! میرے دوستوں میں مرحوم ناز خیالوی کا یہ کلام کہ "تم اک گورکھ دھندہ ہو" مرحوم نصرت فتح علی خان کی آواز میں ہر روز سنتا ہوں لیکن اس جملے کی مطلب یا معنی سے قاصر ہوں " تم اک گورکھ دھندہ ہو" اس جملے کا مطلب یا معنی کیا ہے ؟ برائے مہربانی معلومات دیجئے ۔
گورکھ دھندا کا مطلب ہے۔ سمجھ میں نہ آنے والا
یعنی شاعر اللہ تعالیٰ کے کاموں کی حکمت سے لاعلمی کا اظہار کر رہا ہے۔
 
یعنی اس جگہ شاعر نے کھلی دل سے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انسان کی عقلی صلاحتیں محدود ہیں ، گورکھ دھندہ یعنی سمجھ سے بالا تر ، شکریہ جناب صدیقی صاحب
 

ابو ہاشم

محفلین
پروفیسر موہن سنگھ نے ایک پنجابی نظم "رب" لکھی تھی جو انکی مشہور کتاب "ساوے پتر" میں شامل ہے ناز خیالوی نے "تم اک گورکھ دھندہ ہو" کا آئیڈیا اسی نظم سے لیا تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں نظمیں ہی شاہکار ہیں دونوں نظمیں یہاں پیش کی جا رہی ہیں پڑھیے اور اپنی قیمتی رائے سے نوازیئے
( پنجابی نظم رب" کا اردو ترجمہ بھی موجود ھے )
"ربّ" ۔۔۔۔ شاعر : پروفیسر موہن سنگھ
اس نظم کا اردو ترجمہ نہیں دیا گیا سید ناصر شہزاد
 
Top