صائب تبریزی کی چند تُرکی ابیات

حسان خان

لائبریرین
منی مکرِ رقیب آواره قېلدې یار کویوندان
چېخاران آدمی فردوس‌دن، تزویرِ شیطان‌دېر
(صائب تبریزی)

مجھے مکرِ رقیب نے کوچۂ یار سے آوارہ کر دیا؛ آدم کو فردوس سے بیرون نکالنے والی چیز فریبِ شیطان ہے۔

Məni məkri-rəqib avarə qıldı yar kuyundan
Çıxaran Adəmi firdövsdən təzviri-şeytandır


حُسین محمدزادہ صدیق نے صائب تبریزی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:
مرا مکرِ رقیب آواره کرد از کویِ یارِ خود
ز باغ اخراجِ آدم را سبب، تزویرِ شیطان است

مجھے مکرِ رقیب نے اپنے یار کے کوچے سے آوارہ کر دیا؛ باغِ [جنّت] سے آدم کے اخراج کا سبب فریبِ شیطان ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مهِ شب‌گرد اگر گؤرسۆن اۏنون خورشید رخسارېن
کمند ائیلر اۏنو صید ائتمک اۆچۆن، هاله زُنّارېن
(صائب تبریزی)

اگر شب میں گردش کرنے والا ماہ اُس کے خورشیدِ رُخسار کو دیکھ لے تو اُس کو شکار کرنے کے لیے اپنے مثلِ زُنّار ہالے کو کمند بنا لے۔

Məhi-şəbgərd əgər görsün onun xürşid rüxsarın
Kəmənd eylər onu seyd etmək üçün halə zünnarın


صائب نے اِس بیت میں ماہ کے گِرد موجود ہالۂ نور کو زُنّار سے تشبیہ دی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
منِ خاکی نه تنها اۏلموشام مجنون کیمی رسوا
که اولدوزدان فلک سنگِ ملامت ایچره پنهان‌دېر
(صائب تبریزی)

فقط میں خاکی ہی مجنون کی طرح رسوا نہیں ہوا ہوں، بلکہ ستاروں سے فلک [بھی] سنگِ ملامت کے اندر پنہاں ہے۔


Məni-xaki nə tənha olmuşam Məcnun kimi rüsva
Ki, ulduzdan fələk səngi-məlamət içrə pünhandır


صائب نے مندرجۂ بالا بیت میں فلک پر موجود ستارے کو سنگِ ملامت سے تشبیہ دی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
لب‌لرین شهدی دیلین آجېلېغېن آز ائتمه‌دی
نئجه شیرین ائیله‌سین آجې اۏلان بادامې قند
(صائب تبریزی)

تمہارے لبوں کے شہد نے تمہاری زبان کی تلخی کو کم نہ کیا؛ جو بادام تلخ ہو، اُسے قند کیسے شیریں کرے؟

Ləblərin şəhdi dilin acılığın az etmədi
Necə şirin eyləsin acı olan badamı qənd


صائب تبریزی کی مندرجۂ ذیل فارسی بیت بھی دیکھیے:

صحبتِ نیکان، بدان را چون تواند کرد نيک؟
تلخی از بادام نتوانست بيرون بُرد قند
(صائب تبریزی)

نیکوں کی صحبت بدوں کو کیسے نیک کر سکتی ہے؟ قند بادام سے تلخی کو بیرون نہ کر سکا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
لب‌لرین شهدی دیلین آجېلېغېن آز ائتمه‌دی
نئجه شیرین ائیله‌سین آجې اۏلان بادامې قند
(منسوب به صائب تبریزی)

تمہارے لبوں کے شہد نے تمہاری زبان کی تلخی کو کم نہ کیا؛ جو بادام تلخ ہو، اُسے قند کیسے شیریں کرے؟

Ləblərin şəhdi dilin acılığın az etmədi
Necə şirin eyləsin acı olan badamı qənd


ایرانی آذربائجانی مُحقّق حُسین محمدزادہ صدّیق نے اپنی ایک کتاب میں مندرجۂ بالا بیت کو صائب تبریزی سے منسوب کیا ہے، لیکن مجھے کسی دیگر کتاب یا مأخذ میں یہ بیت نظر نہیں آئی، اور میرا خیال ہے کہ یہ بیت صائب تبریزی کی نہیں ہے۔ البتہ، میرے پاس اِس انتساب کی نفی کی کوئی دلیلِ قاطع نہیں ہے۔
جمہوریۂ آذربائجان سے ۲۰۰۸ء میں شائع ہونے والی ایک کتاب 'قرنِ ہفدہم کی آذربائجانی غِنائی شاعری کا انتخاب' میں صائب تبریزی کے ذیل میں مجھے مذکورہ بیت نظر آ گئی ہے۔ یعنی ظاہراً میرا گمان نادرست تھا اور اِس بیت کو صائب تبریزی ہی کی سمجھنا چاہیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جمہوریۂ آذربائجان سے شائع ہوئی دو کتابوں اور ایرانی آذربائجان سے شائع ہونے والے ایک ادبی مجلّے 'وارلیق' میں صائب تبریزی کی ایک فارسی و تُرکی سے مُرکّب ملمّع غزل نظر آئی ہے، جس کا مقطع یہ ہے:
در دلِ صائب بسی جا کرده آن چشمانِ مست
ایکی کافر بیر مسلمان اؤلدۆرۆر، بیداد هَی!

(صائب تبریزی)
صائب کے دل پر وہ چشمانِ مست بہ شدّت متصرّف ہو گئی ہیں؛ دو کافر ایک مسلمان کو قتل کر رہے ہیں، ہائے فریاد!

Dər dile Saeb bəsi ca kərdə an çeşmane məst

İki kafər bir müsəlman öldürür, bidad hey
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قېلدې پیدا حُکمِ تقویمِ کُهن گُل دفتری
آچدېلار تا چهرهٔ دل‌دارېمې نقّاش‌لار
(صائب تبریزی)

جب نقّاشوں نے میرے دلدار کا چہرہ کھولا (یعنی ظاہر کیا) تو دفترِ گل تقویمِ کُہن کی مانند ہو گیا۔
(یعنی چہرۂ معشوق نے گُل کی زیبائی کو بے آبرو و بے قیمت کر دیا۔)
× دفتر = ڈائری × تقویم = کیلینڈر

Qıldı peyda hökmi-təqvimi-kühən gül dəftəri
Açdılar ta çöhrei-dildarımı nəqqaşlar


 

حسان خان

لائبریرین
مسلمانام دئییر مستین، ایچیر عاشق‌لرین قانېن
منم کافر، اگر اۏل دشمنِ ایمان مسلمان‌دېر
(صائب تبریزی)
تمہاری [چشمِ] مست کہتی ہے "میں مسلمان ہوں"، [اور پھر] عاشقوں کا خون پیتی ہے۔۔۔ میں کافر ہوں، اگر وہ دشمنِ ایمان مسلمان ہے۔

Müsəlmanam, deyir məstin, içir aşiqlərin qanın
Mənəm kafir, əgər ol düşməni-iman müsəlmandır


ایک جا مجھے مذکورہ بیت کی مندرجۂ ذیل شکل نظر آئی ہے، جو میرے نزدیک بہتر اور مناسب تر ہے:
مسلمانام دئییر مَی تک ایچر عاشق‌لرین قانېن

منم کافر اگر اۏل دشمنِ ایمان مسلمان‌دېر
(صائب تبریزی)
وہ کہتا ہے "میں مسلمان ہوں"، [اور پھر] شراب کی طرح عاشقوں کا خون پیتا ہے۔۔۔ میں کافر ہوں، اگر وہ دشمنِ ایمان مسلمان ہے۔

Müsəlmanam deyir mey tək içər aşiqlərin qanın
Mənəm kafir əgər ol düşməni-iman müsəlmandır
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آرتېرېر گَردِ معاصینی قورو استغفار
بو زمین‌گیر تۏزونونو اشکِ ندامتله سیلین
(صائب تبریزی)

خُشک اِستِغفار گَردِ معاصی میں اضافہ کرتا ہے؛ اِس زمیں گیر (یعنی فاقدِ قُدرتِ حرَکت) غُبار کو اشکِ ندامت کے ذریعے پاک کیجیے۔

Artırır gǝrdi-mǝasini quru istiğfar
Bu zǝmingir tozunu ǝşki-nǝdamǝtlǝ silin
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عاشقِ صادق بیلیر سنگِ ملامت قدری‌نی
مخزنِ سُلطانا لایق‌دیر بو یارار داش‌لار

(صائب تبریزی)
سنگِ ملامت کی قدر کو عاشقِ صادق [ہی] جانتا ہے۔۔۔ یہ مُفید سنگ، مخزنِ سُلطان کے لائق و مُناسب ہیں۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Aşiqi-sadiq bilir səngi-məlamət qədrini
Məxzəni-sultana layiqdir bu yarar daşlar


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
‘Âşık-ı sâdık bilir seng-i melâmet kadrini
Mahzen-i sultâna lâyıkdır bu yarar daşlar
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
محبّت اهلی‌نین جامِ نشاطی دَوردن دۆشمز
نئچون چکسین خمار اۏل کیم همیشه ایچدیڲی قان‌دېر
(صائب تبریزی)
اہلِ محبّت کے جامِ نشاط کی گردش نہیں رُکتی؛ وہ شخص کیسے خُمار میں مبتلا ہو جو ہمیشہ خون پیتا رہا ہو؟
× خُمار = شراب کی مستی زائل ہونے کے بعد عارض ہونے والا سردرد اور کاہلی

Məhəbbət əhlinin camı-nişatı dövrdən düşməz
Neçün çəksin xümar ol kim həmişə içdigi qandır?
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اۏلدو مغلوبِ هوایِ نفس استیلایِ عقل
آلدېلار حاکم الیندن اختیار اوباشلار
(صائب تبریزی)

عقل کا غلبہ و تسلط، ہوائے نفس کے دستوں (ہاتھوں) مغلوب ہو گیا۔۔۔ اوباشوں نے حاکم کے دست سے اختیار لے لیا۔

Oldu məğlubi-həvai-nəfs istilai-əql
Aldılar hakim əlindən ixtiyar ovbaşlar
 

حسان خان

لائبریرین
چون کؤنۆل بی‌نور اۏلوب مطلق‌عنان اۏلور هوس
قاش قارالاندا چېخارلار یووادان خُفّاشلار
(صائب تبریزی)
جب دل بے نور ہو جائے تو خواہشِ نفسانی مُطلَق العِنان ہو جاتی ہے۔۔۔ اُفُق کے تاریک و سیاہ ہو جانے پر آشیانے سے خُفّاشیں (چمگادڑیں) نکل آتی ہے۔

Çün könül binur olub mütləqinan olur həvəs
Qaş qaralanda çıxarlar yuvadan xüffaşlar
 

حسان خان

لائبریرین
بولوت قېنېن کسر جولان ائدنده ایلدېرېم تیغی
کؤنۆل پرده‌لرینده عشقی پنهان ائیله‌مک اۏلماز
(صائب تبریزی)
برق کی تیغ، جولاں کرنے کے دوران ابر کے غلاف کو کاٹ دیتی ہے۔۔۔۔ دل کے پردوں میں عشق کو پنہاں کرنا ممکن نہیں ہے۔

Bulut qının kəsər cövlan edəndə ildırım tiği
Könül pərdələrində eşqi pünhan eyləmək olmaz
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بولوت قېنېن کسر جولان ائدنده ایلدېرېم تیغی
کؤنۆل پرده‌لرینده عشقی پنهان ائیله‌مک اۏلماز
(صائب تبریزی)
برق کی تیغ، جولاں کرنے کے دوران ابر کے غلاف کو کاٹ دیتی ہے۔۔۔۔ دل کے پردوں میں عشق کو پنہاں کرنا ممکن نہیں ہے۔

Bulut qının kəsər cövlan edəndə ildırım tiği
Könül pərdələrində eşqi pünhan eyləmək olmaz
اِسی زمین میں تُرکوں کے معروف ترین شاعر محمد فُضولی بغدادی کی بھی ایک تُرکی غزل ہے، جس کا مطلع یہ ہے:
کؤنۆل‌ده مین غمیم واردېر که پنهان ائیله‌مک ا
ۏلماز
بو هم بیر غم که ائل طعنیندن افغان ائیله‌مک اۏلماز
(محمد فضولی بغدادی)
میرے دل میں ہزاروں غم ہیں، جنہیں پنہاں کرنا ممکن نہیں ہے۔۔۔ [پھر] ایک غم یہ بھی ہے کہ طعنۂ خلق کے باعث فغاں کرنا ممکن نہیں ہے۔

Könüldə min qəmim vardır ki, pünhan eyləmək olmaz
Bu həm bir qəm ki, el tənindən əfğan eyləmək olmaz

ممکن ہے کہ صائب تبریزی نے اپنی تُرکی غزل فضولی کی غزل ہی کی پیروی میں کہی ہو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خاک اۏلدوم اۏل کمان‌ابرو اۏخون صید ائتمڲه
بیلمه‌دیم گۆن یایېدان دۆشمز یئره تیرِ شهاب
(صائب تبریزی)
اُس [محبوبِ] کمان ابرو کے تیر کو شکار کرنے کے لیے میں خاک ہو گیا۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ کمانِ روز سے (یعنی روز کے وقت) زمین پر تیرِ شہاب نہیں گرتا۔

Xak oldum ol kǝmanǝbru oxun seyd etmǝgǝ
Bilmǝdim gün yayıdan düşmǝz yerǝ tiri-şǝhab


× 'گۆن' کا ضمنی معنی 'خورشید' ہے، یعنی یہ بھی کہنا ممکن ہے کہ صائب نے رُخِ محبوب کو خورشید سے تشبیہ دی ہے۔
× چند مآخذ میں 'گۆن یایې' کی بجائے 'گؤک یایې' نظر آیا ہے، جس کا لفظی معنی 'کمانِ آسمان' بنتا ہے، اور اُس سے شاید 'قوسِ قزح' مراد لی جائے گی، لیکن میں نے اوّل الذکر نسخہ بدل کو ترجیح دی ہے۔

حُسین محمدزادہ صدیق نے اِس کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:

خاک گشتم تا که تیرِ آن کمان‌ابرو کشم
غافل آنکه روز ناید بر زمین تیرِ شهاب

میں اُس [محبوبِ] کمان ابرو کا تیر کھانے کے لیے خاک ہو گیا۔۔۔ میں غافل تھا کہ روز کے وقت زمین پر تیرِ شہاب نہیں آتا۔
 
خاک اۏلدوم اۏل کمان‌ابرو اۏخون صید ائتمڲه
بیلمه‌دیم گۆن یایېدان دۆشمز یئره تیرِ شهاب
(صائب تبریزی)
اُس [محبوبِ] کمان ابرو کے تیر کو شکار کرنے کے لیے میں خاک ہو گیا۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ کمانِ روز سے (یعنی روز کے وقت) زمین پر تیرِ شہاب نہیں گرتا۔

Xak oldum ol kǝmanǝbru oxun seyd etmǝgǝ
Bilmǝdim gün yayıdan düşmǝz yerǝ tiri-şǝhab


× 'گۆن' کا ضمنی معنی 'خورشید' ہے، یعنی یہ بھی کہنا ممکن ہے کہ صائب نے رُخِ محبوب کو خورشید سے تشبیہ دی ہے۔
× چند مآخذ میں 'گۆن یایې' کی بجائے 'گؤک یایې' نظر آیا ہے، جس کا لفظی معنی 'کمانِ آسمان' بنتا ہے، اور اُس سے شاید 'قوسِ قزح' مراد لی جائے گی، لیکن میں نے اوّل الذکر نسخہ بدل کو ترجیح دی ہے۔

حُسین محمدزادہ صدیق نے اِس کا منظوم فارسی ترجمہ یوں کیا ہے:

خاک گشتم تا که تیرِ آن کمان‌ابرو کشم
غافل آنکه روز ناید بر زمین تیرِ شهاب

میں اُس [محبوبِ] کمان ابرو کا تیر کھانے کے لیے خاک ہو گیا۔۔۔ میں غافل تھا کہ روز کے وقت زمین پر تیرِ شہاب نہیں آتا۔

حسان خان بھائی! کیا ہم کمانِ روز کا اردو ترجمہ دن کے وقت کرسکتے ہیں۔ ہرچند شب و روز اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن دن کے وقت کے لیے روز شاید اتنا زیادہ مستعمل نہیں۔


روز کے وقت سے شاید ہر روز یا ہر دن مراد لی جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حسان خان بھائی! کیا ہم کمانِ روز کا اردو ترجمہ دن کے وقت کرسکتے ہیں۔ ہرچند شب و روز اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن دن کے وقت کے لیے روز شاید اتنا زیادہ مستعمل نہیں۔


روز کے وقت سے شاید ہر روز یا ہر دن مراد لی جائے۔
جی جناب، آپ کر سکتے ہیں۔ :)
میں نے اپنے شخصی تمایلات اور اپنے ادبی و لسانی ذوق کی بِنا پر گذشتہ چند سالوں سے اِسے اپنا اصولِ مُحکم بنایا ہوا ہے اور اِس پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہوں کہ تحریر کی زبان و اسلوب کو حتی المقدور فارسی اور کلاسیکی تُرکی و اردو کی زبان سے نزدیک رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہی سبب ہے کہ میں بعض اوقات ایسے کلمات استعمال کرتا ہوں جو شاید اردو میں زیادہ رائج نہ ہوں، لیکن جنہیں میں اُن کے ہم معنی متبادل الفاظ کے مقابلے میں مُرجّح سمجھتا ہوں، اور جن سے میں زیادہ قلبی وابستگی محسوس کرتا ہوں۔
 
ظمناً ایک اورسوال پر توجہ فرمائیے۔

جس فارسی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کے آپ دلدادہ ہیں، کیا اس کی حدود ایران ، ترکی اور ترکستان تک کہی جاسکتی ہیں، کیا آبنائے باسفورس کی دوسری جانب یا بلقان بھی اس کا حصہ ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ظمناً ایک اورسوال پر توجہ فرمائیے۔

جس فارسی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کے آپ دلدادہ ہیں، کیا اس کی حدود ایران ، ترکی اور ترکستان تک کہی جاسکتی ہیں، کیا آبنائے باسفورس کی دوسری جانب یا بلقان بھی اس کا حصہ ہیں۔
مغربی نوآبادیاتی دور اور سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط سے قبل تک فارسی زبان، ادب اور ثقافتی روایات کی حدود بنگال اور چینی مسلمان علاقوں سے لے کر بوسنیا، اور تاتارستان سے لے کر حیدرآباد دکن تک تھیں۔ یا یہ کہیے کہ جن جن علاقوں میں کبھی تُرک سلطنتوں کا اقتدار رہا تھا، وہاں شعر و ادب کی دنیا میں فارسی کا بالاترین درجہ تھا۔ ذہن میں رہنا چاہیے کہ جن جن سلطتنوں اور حکومتوں کی زبان فارسی رہی ہے، اُن میں سے سامانیوں اور پہلویوں سے قطعِ نظر کر لیا جائے، تو دیگر تمام سلطنتیں تُرک تھیں۔ گذشتہ صدیوں میں تُرک سلطنتیں ہی فارسی زبان و ثقافت کی سیاسی پُشت پناہ تھیں۔
عثمانی سلطنت کے علاقے بلقان سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کی فارسی کتابوں کے قلمی نسخے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ بس بدقسمتی یہ ہے کہ ابھی تک وہ محقّقوں کی توجہ کا زیادہ مرکز نہیں بنے ہیں۔ حتیٰ کہ عثمانی دور میں چند البانوی شعراء نے اپنی زبان البانوی میں فارسی اور تُرکی کی پیروی میں دیوانِ اشعار بھی ترتیب دیے تھے، جن کی زبان اور مضامین پر فارسی کا اثر غالب ہے۔ ایسے ہی ایک عثمانی البانوی شاعر 'ناظم فراکولا' کا البانوی دیوان میری نظروں سے گذر چکا ہے۔
بلقانی مُلک البانیہ کے قومی شاعر نعیم فراشری کی ایک خوبصورت فارسی نظم اردو ترجمے کے ساتھ پڑھیے۔
بوسنیا کے سُودی بوسنوی نے دیوانِ حافظ اور گلستان و بوستانِ سعدی کی ترکی میں شروح لکھی تھیں، جن کا کئی جلدوں میں فارسی ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور جو ایران و تُرکیہ کے علمی حلقوں میں بِسیار مشہور ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top