آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟

محمداحمد

لائبریرین
انگارے نامی مجموعہ نظر سے گزرا۔ مجھے تو اس میں صرف رشید جہاں کی تحریریں پسند آئیں۔ اب شعر شور انگیز پڑھنے کا ارادہ ہے۔

اچھا ۔۔۔۔!

انگارے بہت معروف نام ہے، مجھے تو کبھی نظر نہیں آیا۔ یہ ترقی پسند مصنفین کے افسانوں کا مجموعہ تھا سنتے ہیں کہ اس پر پابندی بھی لگی ہوئی تھی۔
 

نمرہ

محفلین
اچھا ۔۔۔۔!

انگارے بہت معروف نام ہے، مجھے تو کبھی نظر نہیں آیا۔ یہ ترقی پسند مصنفین کے افسانوں کا مجموعہ تھا سنتے ہیں کہ اس پر پابندی بھی لگی ہوئی تھی۔
جی ہاں، متنازعہ کتاب تھی اس وقت۔ ریختہ پر پڑھ سکتے ہیں آپ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جی ہاں، متنازعہ کتاب تھی اس وقت۔ ریختہ پر پڑھ سکتے ہیں آپ۔

اچھا۔۔۔! یعنی ریختہ پر موجود ہے۔

ویسے ریختہ پر پڑھنا ذرا مشکل کام ہے۔ محمد حسن عسکری کی ایک کتاب پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن فرصت نہیں ملتی۔ ریختہ کی ایپ پر بکس کا آپشن موجود نہیں ہے۔
 

نمرہ

محفلین
اچھا۔۔۔! یعنی ریختہ پر موجود ہے۔

ویسے ریختہ پر پڑھنا ذرا مشکل کام ہے۔ محمد حسن عسکری کی ایک کتاب پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن فرصت نہیں ملتی۔ ریختہ کی ایپ پر بکس کا آپشن موجود نہیں ہے۔
کتابیں اچھی ہیں مگر گنی چنی ہیں۔ موبائل ایپ بھی ہے ان کی؟
 
images

:)

السلام علیکم بھیا!
اس کتاب کے بارے میں کافی سنا ہے لیکن معلوم نہیں کہ اصل کہانی کیا ہے۔ آپ اس کا مختصر سا خلاصہ چند لائنوں میں اگر بیان کردیں تو ۔۔ ؟
 
ممکن ہو تو ان کا مختصر تعارف کروا دیجیے
شفیق الرحمن اردو میں طنز و مزاح کے حوالے سے بہت بڑا نام ہے۔ ان کی بہت سی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں حماقتیں اور مزید حماقتیں یہ دو کتب زیادہ مشہور ہیں۔ شفیق الرحمن کو پاکستانی ادب کے بانیوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی دیگر کتب میں کرنیں، شگوفے، لہریں، مدو جزر، پرواز، پچھتاوے، انسانی تماشہ، دجلہ اور دریچے شامل ہیں۔ شفیق الرحمن کو مستنصر حسین تارڑ، اشفاق احمد ورک، عطاالحق قاسمی، ضمیر جعفری جیسی دیگر کئی ادبی شخصیات نے خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ شخصیت کے حوالے سے صرف ایک بات کہ ان کی بارات میں جنرل ایوب خان اور ان جیسے بہت سے لوگ شامل تھے جب کہ سہرا ضمیر جعفری نے لکھا تھا۔کتاب ان کی زندگی کا مکمل احاطہ کرتی ہے اور ان کے فکر وفن سے بحث کرتی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
جب آپ مطالعہ کتب کے زمرے میں آئے ہیں تو اس کے نیچے سابقےکے ڈبے بنے ہیں۔آپ نے ایک نیا دھاگہ کسی کتاب پہ تبصرہ کے لیے کھولنا ہے تو ان ڈبوں میں سے کتب پہ تبصرہ کو منتخب کر لیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ کئی دھاگے ان ہی سابقوں کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے عنوانات بھی ہیں۔
نئی لڑی بنائیے
پہ جائیں
عنوان پہ ایرو ہوگا ۔اسے کلک کرنے سے ایک باکس کھلے گا۔ جس میں سابقے ہوں گے۔ اُن میں اپنا مطلوبہ سابقہ منتخب کر لیں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
میری "بھارت یاترا" عرف "آزادی کے بعد انڈیا کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ" کا اگلا پڑاؤ۔

بھارت کے شاید سب سے متنازعہ لیڈر ایل کے آڈوانی کی خودنوشت سوانح "مائی کنٹری مائی لائف" My Country My Life

آڈوانی صاحب سندھی ہیں اور سندھ سے محبت ان کے دل میں اتنی ہی ہے جتنی "بھارت ماتا" کے لیے اور اس کا اظہار انہوں نے کتاب میں بھی کیا ہے اور آج کل پھر سے اس بارے میں کچھ بیانات دے رہے ہیں۔ تقسیم کے وقت آڈوانی صاحب کی عمر بیس سال تھی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کے سرگرم رکن تھے۔ تقسیم کے بعد کراچی سے راجھستان منتقل ہو گئے اور ایک دہائی وہیں گزاری اور پھر دہلی منتقل ہو گئے۔ 1951ء جن سنگھ کی بنیاد کے بعد اس پارٹی میں آگئے اور اٹل بہاری واجپائی اور دیگر کے ساتھ مل کر کام کرنے لگے اور یہی پارٹی بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی بنی۔

2005ء میں آڈوانی صاحب پاکستان آئے تو کراچی میں ایک بیان دیا جس میں بانی پاکستان قائد اعظم کی کچھ تعریف جھلکتی تھی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ جناح صحیح معنوں میں سیکولر تھے۔ واپس انڈیا گئے تو وہاں ایک طوفان برپا تھا ان کو بی جے پی کی صدارت سے استغفی دینے پر مجبور کیا گیا اور لگتا تھا کہ ان کا سیاسی کیرئیر ختم ہو گیا لیکن بہرحال بچ نکلے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ آڈوانی صاحب کی زندگی کے پس منظر میں یہ کتاب آزادی کے بعد سے انڈیا کی سیاسی تاریخ کا ایک جائزہ ہے کیونکہ آڈوانی صاحب تبھی سے سیاست میں ہیں اور انڈین سیاست کے ہر اہم موڑ کے گواہ ہیں، وہ کراچی میں آر ایس ایس کی ریلیاں ہوں، تقسیم ہو، جن سنگھ کی جد و جہد سے بھر پور کہانی ہو، اندرا گاندھی کی ایمرجنسی ہو جس میں آڈوانی صاحب بھی انڈیا کے کم و بیش چھوٹے بڑے تیرہ ہزار لیڈروں کے ساتھ قید ہوئے۔ انڈیا میں 1977ء کی پہلی غیر کانگریسی جنتا پارٹی کی حکومت ہو، جس میں آڈوانی صاحب وزیرِ اطلاعات تھے، رتھ یاترا اور بابری مسجد کا انہدام ہو، یا پھر واجپائی کی قیادت میں 46 سال کی جد و جہد کے بعد بننے والی بی جے پی کی حکومت ہو یا پاکستان کے ساتھ تعلق ہوں، آڈوانی صاحب ہر عہد میں پیش پیش تھے۔

لیکن اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ بہت سی باتوں کا ذکر آڈوانی صاحب نے اس کتاب میں نہیں کیا۔ ہزار سے زائد صفحات کی ایک ضخیم کتاب ہے میں نے پچھلے ایک ہفتے سے پڑھنی شروع کی ہے اور ابھی کچھ ابواب ہی پڑھے ہیں، بہرحال کتاب نے اپنی طرف مجھے مائل کر لیا ہے اور میرے اگلے کئی ہفتے یقینا اس دلچسپ کتاب کی معیت میں گزریں گے۔

41wdGy2THHL.jpg
 
آخری تدوین:
Top