مذاہبِ ابراہیمی کا باہمی تعلق

محمداحمد

لائبریرین
یہ آپ نے یہاں بھی لگائی ہے۔ :)

فی الحال صرف دو باتیں:
  • سورۃ مریم کی آیت نمبر 32 میں برکت (مبارک) کے بجائے سلامتی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
  • درودِ ابرہیمی میں میں ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ " اے اللہ! رحمت نازل فرما، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر، جیسا کہ آپ نے رحمت نازل فرمائی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر۔" یعنی دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرمانے کا کہا گیا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کا نام مثال کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

اب یہ ویڈیو دوبارہ دیکھ لیجے اور دیکھیے کس طرح بات کو گھما پھرا کر اپنی مرضی کے معنی نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مزید یہ کہ تمام تر انبیاء ہمارے لئے لائقِ تکریم ہیں اور ہم اُن پر رحمتیں بھیجنے کی دعا کرنا پسند فرماتے ہیں۔ سو اوپر والی باتوں کو صرف ویڈیو کے کانٹیکسٹ میں پڑھا جائے۔
 
یہ آپ نے یہاں بھی لگائی ہے۔ :)

فی الحال صرف دو باتیں:
  • سورۃ مریم کی آیت نمبر 32 میں برکت (مبارک) کے بجائے سلامتی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
  • درودِ ابرہیمی میں میں ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ " اے اللہ! رحمت نازل فرما، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر، جیسا کہ آپ نے رحمت نازل فرمائی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر۔" یعنی دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرمانے کا کہا گیا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کا نام مثال کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

اب یہ ویڈیو دوبارہ دیکھ لیجے اور دیکھیے کس طرح بات کو گھما پھرا کر اپنی مرضی کے معنی نکالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مزید یہ کہ تمام تر انبیاء ہمارے لئے لائقِ تکریم ہیں اور ہم اُن پر رحمتیں بھیجنے کی دعا کرنا پسند فرماتے ہیں۔ سو اوپر والی باتوں کو صرف ویڈیو کے کانٹیکسٹ میں پڑھا جائے۔
آپ بجا فرما رہے ہیں، بھائی۔
مگر یہ بات سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ خاتون عیسائی ہیں اور ان کا اسلام کا مطالعہ جس قدر بھی ہے قابلِ تحسین ہے۔ میری ناقص رائے میں موصوفہ نے دانستہ کوئی بددیانتی نہیں کی ہے مگر مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس دقتِ نظر سے کام نہیں لے سکیں جو ہر کوئی اپنے مذہب کی تبیین و توضیح میں بروئے کار لاتا ہے۔ اتنی رعایت بہرحال ان کا حق بنتی ہے۔
جہاں تک آپ کے اٹھائے گئے نکات کا تعلق ہے تو سورۂِ مریم کی مذکورہ آیت کی رو سےخاتون کا ادعا بہرطور سچا ہی ثابت ہوتا ہے۔ پورا تناظر ملاحظہ ہو۔ جب بی بی مریمؑ کے ہاں بچے کی پیدائش پر بنی اسرائیل نے انگلی اٹھائی ہے تو قرآن کے الفاظ میں ذیل کا واقعہ پیش آیا:
"پس اس (یعنی بی بی مریمؑ) نے اس (بچے یعنی جنابِ عیسیٰؑ) کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں؟ اس (بچے) نے کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔ اور میں جہاں بھی ہوں (یعنی پالنے ہی میں سہی) مجھے برکت والا بنایا ہے اور مجھے تا حینِ حیات نماز اور زکوٰة کی تاکید کی ہے۔ اور اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا نہ کہ مجھے سرکش و بدبخت بنایا ہے۔ اور سلام مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ یہ عیسیٰؑ ہے مریمؑ کا بیٹا۔ (اور یہ ہے) سچی بات جس میں لوگ شک کرتے ہیں۔"
(سورۂِ مریم۔ آیات ۲۹ تا ۳۴)
قرآن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جنابِ عیسیٰؑ کی پیدائش، وفات اور احیائے مکرر کے دن سلام کے سزاوار ہیں۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ جنابِ عیسیٰؑ کے یومِ میلاد سے اغماض کا باعث درحقیقت وہ دین فروش اور ابلہ فریب مُلّا ہیں جو ایک طرف ہمیں قرآن پڑھنے سے مانع آتے ہیں اور دوسری جانب اس کی من چاہی تفسیر و تعبیر سے اپنی دکان آرائی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔
  • درودِ ابرہیمی میں میں ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ " اے اللہ! رحمت نازل فرما، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر، جیسا کہ آپ نے رحمت نازل فرمائی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر۔" یعنی دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرمانے کا کہا گیا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کا نام مثال کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
بھائی، جب رحمت کا ادعا موجود ہے تو پھر کیا اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ آلِ ابراہیمؑ یعنی بنی اسرائیل علی الخصوص اور نصرانی علی العموم اتنے بے فیض نہیں جتنا ہم انھیں سمجھتے ہیں؟ اگر ہاں، تو ذیل کی آیات پر ذرا نظرِ غائر ڈالیے:
"بے شک ہم نے توراۃ اتاری، اس میں نور اور ہدایت ہے۔ فرمانبردار انبیا اور ربی اور احبار اسی سے یہودیوں کو حکم کرتے ہیں کہ ان سے اللہ کی اس کتاب کی حفاظت مطلوب تھی اور اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس لوگوں سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو کم قیمت پر مت بیچو۔ اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو یہی لوگ تو انکار کرنے والے ہیں۔ اور اس میں ہم نے ان پر جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور گھاؤ کے بدلے گھاؤ لکھ دیا۔ پس جو صدقہ کرے (یعنی معاف کر دے) تو یہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو یہی لوگ تو انکار کرنے والے ہیں۔ اور ہم انھی (بزرگوں) کے آثار پر عیسیٰؑ بن مریم کو لائے جو توراۃ کی تصدیق کرنے والا تھا جو اس سے پہلے تھی۔ اور ہم نے اسے انجیل دی، اس میں نور اور ہدایت ہے اور وہ اپنے سے پہلے کی (کتاب) توراۃ کی مُصَدِّق اور ڈرنے والوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ اور انجیل والوں کو ضرور اسی کے مطابق حکم کرنا چاہیے جو اللہ نے اس میں اتارا۔ اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو یہی لوگ تو فاسق ہیں۔ اور (اے محمدﷺ!) ہم نے تجھ پر کتاب اتاری جو پچھلی کتاب کی تصدیق کرنے والی اور اس پر نگران ہے۔ پس انھیں اس کے مطابق حکم کر جو اللہ نے اتارا۔ اور ان کی خواہشات کی پیروی مت کر بعد اس کے کہ تجھ تک حق آ چکا۔ ہم نے ہر ایک کے لیے شریعت اور منہاج مقرر کر دیا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا مگر اُسے اِس سے جو اُس نے تمھیں دیا، تمھاری آزمائش مقصود ہے۔ پس نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ تم سب کو اللہ ہی کی جانب پلٹنا ہے۔ تو وہ تمھیں آگاہ کرے گا اس سے جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔"
(سورۂِ مائدہ۔ آیات ۴۴ تا ۴۸)
اگر اب بھی شبہ باقی ہے تو یہ دیکھیے:
"اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے وہ انعامات جو میں نے تم پر کیے۔ اور میں نے تمھیں دو جہانوں پر فضیلت بخشی۔ اور ڈرو اس دن سے جب ایک جان دوسری کا کچھ بدلہ نہ اتار سکے اور نہ اس سے سفارش قبول کی جائے اور نہ اس سے (تلافی کی مد میں) کچھ لے (کر چھڑا) لیا جائے اور نہ ان کی مدد (کو کوئی) پہنچے۔"
(سورۂِ بقرہ۔ آیات ۴۷ اور ۴۸)
غور کرنے کا مقام ہے کہ قرآن نے اس قسم کی تفضیلِ کل جیسی کہ نشان زد کی گئی ہے، میری ناقص معلومات کے مطابق کسی اور تو کیا، خود مسلمانوں کے لیے بھی کہیں قرار نہیں دی۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کفار کے لیے تو ہے سو ہے، معاصر مسلمانوں کے لیے سب سے بڑھ کر بت شکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتِ مرحوم کی اکثریت اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ مبادا کہ وہ بت پاش پاش ہو جائیں جن کی پوجا بہرحال سچے خدا کی بندگی سے آسان تر ہے!
پس نوشت: یہ معروضات چونکہ ایک مخصوص تناظر میں ہیں اس لیے تکفیری بھائیوں سے التجا ہے کہ ان سے میرے عقائد کے آزادانہ استخراج کی سعیِ نامشکور نہ فرمائی جائے۔ میں الحمدللہ مسلمان ہوں اور قرآن پر میرا ایمان اور ایقان میری جان سے بھی زیادہ گراں ہے۔
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
آپ بجا فرما رہے ہیں، بھائی۔
مگر یہ بات سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ خاتون عیسائی ہیں اور ان کا اسلام کا مطالعہ جس قدر بھی ہے قابلِ تحسین ہے۔ میری ناقص رائے میں موصوفہ نے دانستہ کوئی بددیانتی نہیں کی ہے مگر مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس دقتِ نظر سے کام نہیں لے سکیں جو ہر کوئی اپنے مذہب کی تبیین و توضیح میں بروئے کار لاتا ہے۔ اتنی رعایت بہرحال ان کا حق بنتی ہے۔
جہاں تک آپ کے اٹھائے گئے نکات کا تعلق ہے تو سورۂِ مریم کی مذکورہ آیت کی رو سےخاتون کا ادعا بہرطور سچا ہی ثابت ہوتا ہے۔ پورا تناظر ملاحظہ ہو۔ جب بی بی مریمؑ کے ہاں بچے کی پیدائش پر بنی اسرائیل نے انگلی اٹھائی ہے تو قرآن کے الفاظ میں ذیل کا واقعہ پیش آیا:
"پس اس (یعنی بی بی مریمؑ) نے اس (بچے یعنی جنابِ عیسیٰؑ) کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بولے کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں؟ اس (بچے) نے کہا کہ میں خدا کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔ اور میں جہاں بھی ہوں (یعنی پالنے ہی میں سہی) مجھے برکت والا بنایا ہے اور مجھے تا حینِ حیات نماز اور زکوٰة کی تاکید کی ہے۔ اور اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا نہ کہ مجھے سرکش و بدبخت بنایا ہے۔ اور سلام مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ یہ عیسیٰؑ ہے مریمؑ کا بیٹا۔ (اور یہ ہے) سچی بات جس میں لوگ شک کرتے ہیں۔"
(سورۂِ مریم۔ آیات ۲۹ تا ۳۴)
قرآن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جنابِ عیسیٰؑ کی پیدائش، وفات اور احیائے مکرر کے دن سلام کے سزاوار ہیں۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ جنابِ عیسیٰؑ کے یومِ میلاد سے اغماض کا باعث درحقیقت وہ دین فروش اور ابلہ فریب مُلّا ہیں جو ایک طرف ہمیں قرآن پڑھنے سے مانع آتے ہیں اور دوسری جانب اس کی من چاہی تفسیر و تعبیر سے اپنی دکان آرائی کا سامان کرتے رہتے ہیں۔

بھائی، جب رحمت کا ادعا موجود ہے تو پھر کیا اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ آلِ ابراہیمؑ یعنی بنی اسرائیل علی الخصوص اور نصرانی علی العموم اتنے بے فیض نہیں جتنا ہم انھیں سمجھتے ہیں؟ اگر ہاں، تو ذیل کی آیات پر ذرا نظرِ غائر ڈالیے:
"بے شک ہم نے توراۃ اتاری، اس میں نور اور ہدایت ہے۔ فرمانبردار انبیا اور ربی اور احبار اسی سے یہودیوں کو حکم کرتے ہیں کہ ان سے اللہ کی اس کتاب کی حفاظت مطلوب تھی اور اور وہ اس پر گواہ تھے۔ پس لوگوں سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو کم قیمت پر مت بیچو۔ اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو یہی لوگ تو انکار کرنے والے ہیں۔ اور اس میں ہم نے ان پر جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور گھاؤ کے بدلے گھاؤ لکھ دیا۔ پس جو صدقہ کرے (یعنی معاف کر دے) تو یہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو یہی لوگ تو انکار کرنے والے ہیں۔ اور ہم انھی (بزرگوں) کے آثار پر عیسیٰؑ بن مریم کو لائے جو توراۃ کی تصدیق کرنے والا تھا جو اس سے پہلے تھی۔ اور ہم نے اسے انجیل دی، اس میں نور اور ہدایت ہے اور وہ اپنے سے پہلے کی (کتاب) توراۃ کی مُصَدِّق اور ڈرنے والوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ اور انجیل والوں کو ضرور اسی کے مطابق حکم کرنا چاہیے جو اللہ نے اس میں اتارا۔ اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو یہی لوگ تو فاسق ہیں۔ اور (اے محمدﷺ!) ہم نے تجھ پر کتاب اتاری جو پچھلی کتاب کی تصدیق کرنے والی اور اس پر نگران ہے۔ پس انھیں اس کے مطابق حکم کر جو اللہ نے اتارا۔ اور ان کی خواہشات کی پیروی مت کر بعد اس کے کہ تجھ تک حق آ چکا۔ ہم نے ہر ایک کے لیے شریعت اور منہاج مقرر کر دیا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا مگر اُسے اِس سے جو اُس نے تمھیں دیا، تمھاری آزمائش مقصود ہے۔ پس نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ تم سب کو اللہ ہی کی جانب پلٹنا ہے۔ تو وہ تمھیں آگاہ کرے گا اس سے جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔"
(سورۂِ مائدہ۔ آیات ۴۴ تا ۴۸)
اگر اب بھی شبہ باقی ہے تو یہ دیکھیے:
"اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے وہ انعامات جو میں نے تم پر کیے۔ اور میں نے تمھیں دو جہانوں پر فضیلت بخشی۔ اور ڈرو اس دن سے جب ایک جان دوسری کا کچھ بدلہ نہ اتار سکے اور نہ اس سے سفارش قبول کی جائے اور نہ اس سے (تلافی کی مد میں) کچھ لے (کر چھڑا) لیا جائے اور نہ ان کی مدد (کو کوئی) پہنچے۔"
(سورۂِ بقرہ۔ آیات ۴۷ اور ۴۸)
غور کرنے کا مقام ہے کہ قرآن نے اس قسم کی تفضیلِ کل جیسی کہ نشان زد کی گئی ہے، میری ناقص معلومات کے مطابق کسی اور تو کیا، خود مسلمانوں کے لیے بھی کہیں قرار نہیں دی۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کفار کے لیے تو ہے سو ہے، معاصر مسلمانوں کے لیے سب سے بڑھ کر بت شکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتِ مرحوم کی اکثریت اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ مبادا کہ وہ بت پاش پاش ہو جائیں جن کی پوجا بہرحال سچے خدا کی بندگی سے آسان تر ہے!
پس نوشت: یہ معروضات چونکہ ایک مخصوص تناظر میں ہیں اس لیے تکفیری بھائیوں سے التجا ہے کہ ان سے میرے عقائد کے آزادانہ استخراج کی سعیِ نامشکور نہ فرمائی جائے۔ میں الحمدللہ مسلمان ہوں اور قرآن پر میرا ایمان اور ایقان میری جان سے بھی زیادہ گراں ہے۔

اس تفصیلی جواب کا شکریہ میرے بھائی!

یہ تمام باتیں میرے لئے غور طلب ہیں سو حسبِ فرصت و استطاعت ان معاملات پر غور خوض کروں گا اور پھر کچھ عرض کرنے کے قابل ہوں گا۔

تب تک آپ میرے لئے آسانی فرمائیے اور یہ بتائیے کہ :

  • ویڈیو والی خاتون کا اصل مدعا کیا ہے اور وہ ہم سے یعنی مسلمانوں سے کیا چاہتی ہیں؟
  • آپ کا یہ ویڈیو شئر کرنے کا مدعا کیا ہے، آپ خود اسے کیسے دیکھتے ہیں اور کس بات کی ترویج چاہتے ہیں؟
 
آخری تدوین:

اظہرعباس

محفلین
سورۃ المائدہ: آیت 12،13

اور الله نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا اور ہم نے ان میں سے بارہ سردار مقرر کیے اور الله نےکہا میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز کی پابندی کرو گے اور زکواة دیتے رہو گے اور میرے سب رسولوں پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے اور الله کواچھے طور پر قرض دیتے رہو گے تو میں ضرور تمہارے گناہ تم سےدور کردوں گا اور تمہیں باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں پھر جوکوئی تم میں سے اس کے بعد کافر ہوا وہ بے شک سیدھے راستے سے گمراہ ہوا -

پھر ان کی عہد شکنی کے باعث ہم نے ان پر لعنت کی اوران کے دلوں کوسخت کر دیا وہ لوگ کلام کو ا سکے ٹھکانے سے بدلتے ہیں اور اس نصیحت سے نفع اٹھانا بھول گئے جو انہوں کی گئی تھی اور تو ہمشیہ ان کی کسی نہ کسی خیانت پر اطلاع پاتا رہے گا مگر تھوڑے ان میں سے سو انہیں معاف کر اور درگزر کر بے شک الله نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے-
 
Top