مہدی نقوی حجاز
محفلین
کشفی ملتانی کی مشہور غزل "شور ہے ہر طرف سحاب سحاب" اور داؤد اورنگ آبادی کی غزل "مست ہوں مست ہوں خراب خراب" دونوں ایک ہی زمین میں ہیں۔ دونوں کے مطلع کا ثانی بھی ایک ہی ہے، یعنی "ساقیا ساقیا شراب شراب"۔ ظاہرا دونوں غزلوں میں بدیعی صنعت بھی ایک سی ہی معلوم ہوتی ہے۔ البتہ داؤد اورنگ آبادی کے ہاں صنعت کا حسن زیادہ ہے، یعنی تکرار حسین۔
ان دو غزلوں کی صنایع بدایع پر مزید تبصرے کا خواہاں ہوں، نیز یہ کہ کوئی کرم فرما وضاحت کرے کہ ان میں سے کس نے کس کی زمین پر غزل کہی ہے!
کشفی ملتانی کی غزل
ان دو غزلوں کی صنایع بدایع پر مزید تبصرے کا خواہاں ہوں، نیز یہ کہ کوئی کرم فرما وضاحت کرے کہ ان میں سے کس نے کس کی زمین پر غزل کہی ہے!
کشفی ملتانی کی غزل
شور ہے ہر طرف سحاب سحاب
ساقیا ساقیا! شراب شراب
آب حیواں کو مے سے کیا نسبت
پانی پانی ہے اور شراب شراب
رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب
اک وہی مست با خبر نکلا
جس کو کہتے تھے سب خراب خراب
مجھ سے وجہ گناہ جب پوچھی
سر جھکا کے کہا شباب شباب
جام گرنے لگا تو بہکا شیخ
تھامنا تھامنا کتاب کتاب
کب وہ آتا ہے سامنے کشفیؔ
جس کی ہر اک ادا حجاب حجاب
اور داؤد اورنگ آبادی کی غزل
مست ہوں مست ہوں خراب خراب
ساقیا ساقیا شراب شراب
ساقیا ساقیا! شراب شراب
آب حیواں کو مے سے کیا نسبت
پانی پانی ہے اور شراب شراب
رند بخشے گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب
اک وہی مست با خبر نکلا
جس کو کہتے تھے سب خراب خراب
مجھ سے وجہ گناہ جب پوچھی
سر جھکا کے کہا شباب شباب
جام گرنے لگا تو بہکا شیخ
تھامنا تھامنا کتاب کتاب
کب وہ آتا ہے سامنے کشفیؔ
جس کی ہر اک ادا حجاب حجاب
اور داؤد اورنگ آبادی کی غزل
مست ہوں مست ہوں خراب خراب
ساقیا ساقیا شراب شراب
آتش عشق سوں تری جل جل
دل ہوا دل ہوا کباب کباب
دل ہوا دل ہوا کباب کباب
دور مکھ سوں عرق نہ کر گل رو
دے مجھے دے مجھے گلاب گلاب
دے مجھے دے مجھے گلاب گلاب
کہہ اپس چشم با حیا کوں صنم
رفع کر رفع کر حجاب حجاب
رفع کر رفع کر حجاب حجاب
دیکھ چھپتا ہے ابر میں خورشید
دور کر دور کر نقاب نقاب
دور کر دور کر نقاب نقاب
منتظر دل ہے یار کے خط کا
قاصد آ قاصد آ شتاب شتاب
قاصد آ قاصد آ شتاب شتاب
شیوۂ گل رخاں ہے اے داؤدؔ
غمزہ و غمزہ و عتاب عتاب
غمزہ و غمزہ و عتاب عتاب