زمانے نے بخشے ہیں آزار یونہی .

La Alma

لائبریرین
زمانے نے بخشے ہیں آزار یونہی
اُٹھائے ہیں پھرتے یہ انبار یونہی

گر آدم کے ہاتھوں وہ لغزش نہ ہوتی
خطا ہم سے ہوتی نہ ہر بار یونہی

تغافل, تعارض ہے اُس کا وطیرہ
تکلم کو کرتے ہیں اصرار یونہی

روایت و اقدار اپنی جگہ پر
کبھی تو کرو پھر سے اظہار یونہی

کمالِ ہنر کچھ ہمیں بھی دکھاؤ
نہیں تم کو مانیں گے فنکار یونہی

سفر اِرتقا کا بھی رُک سا گیا ہے
خموشی سے بیٹھے ہیں ادوار یونہی

سمیٹے هوئےہیں یہ اِک سرد سی آگ
نہیں سینکتے دھوپ اشجار یونہی

نہ ساحل, سمندر نہ کوئی سفینہ
تخیل میں اترے ہیں اُس پار یونہی

محبت ہو, دُھن ہو, کوئی شاعری ہو
مرے دل کےچھیڑو کبھی تار یونہی
 
پہلی بات تو ردیف کے بارے میں ۔ یونہی کے بارے میں افصح ہے کہ اسے وتدِ مقرون باندھا جائے۔ یعنی فَعَل کے وزن پر۔ آپ نے جو اسے فعلن کے وزن پر باندھا ہے یہ معیوب نہیں گو کہ مستحسن بھی نہیں۔ لیکن اس صورت میں اسے ملا کر لکھنا اچھا نہیں۔ یوں ہی (یعنی الگ الگ) لکھیے۔
زمانے نے بخشے ہیں آزار یونہی
اُٹھائے ہیں پھرتے یہ انبار یونہی
اٹھائے ہیں پھرتے رواں معلوم نہیں ہوتا۔
گر آدم کے ہاتھوں وہ لغزش نہ ہوتی
خطا ہم سے ہوتی نہ ہر بار یونہی
اچھا۔
تغافل, تعارض ہے اُس کا وطیرہ
تکلم کو کرتے ہیں اصرار یونہی
معانی واضح نہیں۔
روایت و اقدار اپنی جگہ پر
کبھی تو کرو پھر سے اظہار یونہی
غالباً روایات و اقدار مراد ہے۔ اگر نہیں تو جس طرح آپ نے واؤ عطفی کو اگلے لفظ سے ملایا ہے وہ ناروا ہے۔ قدما کے ہاں یہ روش ملتی ہے مگر بعد میں متروک شد۔
کمالِ ہنر کچھ ہمیں بھی دکھاؤ
نہیں تم کو مانیں گے فنکار یونہی
مصرعِ ثانی کی روانی مشکوک ہے۔
سفر اِرتقا کا بھی رُک سا گیا ہے
خموشی سے بیٹھے ہیں ادوار یونہی
معنیٰ خیز۔
سمیٹے هوئےہیں یہ اِک سرد سی آگ
نہیں سینکتے دھوپ اشجار یونہی
دو باتیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ سالم بحر میں تسبیغ یا اذالہ وارد نہیں ہو سکتے۔ بالفاظِ دیگر یہ زحافات کسی دوسرے زحاف کی موجودگی ہی میں آئیں گے۔
اس صورت میں مصرعِ اولیٰ جو ایک حرفِ موقوف پر ختم ہو رہا ہے، ناپسندیدہ ہے۔ آگ کے لفظ میں گ موقوف ہے۔ یہ رعایت جدید شعرا نے زبردستی لے لی ہے اور اس طرح کے مصرعے کہا کرتے ہیں مگر انھوں نے اور بھی بہت سی ناروا رعایتیں لے رکھی ہیں۔ بہتر ہے کہ ان کا تتبع نہ کیا جائے۔
دوسری بات املا سے متعلق ہے۔ سمیٹے ھوئے میں ھوئے کو معیاری اردو املا میں اس طرح نہیں لکھا جاتا۔ دوچشمی ھ صرف مخلوط آوازوں کے لیے مخصوص ہے۔ اسے ہائے ہوز کی جگہ استعمال کرنا معیوب ہے۔
نہ ساحل, سمندر نہ کوئی سفینہ
تخیل میں اترے ہیں اُس پار یونہی
پہلا مصرع پایۂِ فصاحت سے ساقط ہے۔
محبت ہو, دُھن ہو, کوئی شاعری ہو
مرے دل کےچھیڑو کبھی تار یونہی
بیت الغزل!
 
آج موڈ ہوا کہ آپ کی غزل پر کچھ کہوں۔ سو مشوروں کے نام پر چند بے ربط سی باتیں لکھ رہا ہوں جنہیں آپ مسترد بھی کر سکتی ہیں۔
زمانے نے بخشے ہیں آزار یونہی
اُٹھائے ہیں پھرتے یہ انبار یونہی
اٹھائے پھرے ہیں یہ انبار یوں ہی
گر آدم کے ہاتھوں وہ لغزش نہ ہوتی
خطا ہم سے ہوتی نہ ہر بار یونہی
نہ آدم کے ہاتھوں سے ہوتی وہ لغزش
نہ ہوتی خطا ہم سے ہر بار یوں ہی
تغافل, تعارض ہے اُس کا وطیرہ
تکلم کو کرتے ہیں اصرار یونہی
ستانے کوکرتے ہیں اصرار یوں ہی
روایت و اقدار اپنی جگہ پر
کبھی تو کرو پھر سے اظہار یونہی
روایت یا اقدار اپنی جگہ پر
کمالِ ہنر کچھ ہمیں بھی دکھاؤ
نہیں تم کو مانیں گے فنکار یونہی
نہ ہم تم کو مانیں گے فنکار یوں ہی
سفر اِرتقا کا بھی رُک سا گیا ہے
خموشی سے بیٹھے ہیں ادوار یونہی
خوب۔
سمیٹے هوئےہیں یہ اِک سرد سی آگ
نہیں سینکتے دھوپ اشجار یونہی
راحیل بھائی کی بات سے متفق ہوں۔
نہ ساحل, سمندر نہ کوئی سفینہ
تخیل میں اترے ہیں اُس پار یونہی
سمندر نہ ساحل کہاں کا سفینہ
محبت ہو, دُھن ہو, کوئی شاعری ہو
مرے دل کےچھیڑو کبھی تار یونہی
محبت کی دھن ہو، کوئی شاعری ہو

ایک بار پھر گستاخی کی معافی چاہونگا۔
 

La Alma

لائبریرین
پہلی بات تو ردیف کے بارے میں ۔ یونہی کے بارے میں افصح ہے کہ اسے وتدِ مقرون باندھا جائے۔ یعنی فَعَل کے وزن پر۔ آپ نے جو اسے فعلن کے وزن پر باندھا ہے یہ معیوب نہیں گو کہ مستحسن بھی نہیں۔ لیکن اس صورت میں اسے ملا کر لکھنا اچھا نہیں۔ یوں ہی (یعنی الگ الگ) لکھیے۔

اٹھائے ہیں پھرتے رواں معلوم نہیں ہوتا۔

اچھا۔

معانی واضح نہیں۔

غالباً روایات و اقدار مراد ہے۔ اگر نہیں تو جس طرح آپ نے واؤ عطفی کو اگلے لفظ سے ملایا ہے وہ ناروا ہے۔ قدما کے ہاں یہ روش ملتی ہے مگر بعد میں متروک شد۔

مصرعِ ثانی کی روانی مشکوک ہے۔

معنیٰ خیز۔

دو باتیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ سالم بحر میں تسبیغ یا اذالہ وارد نہیں ہو سکتے۔ بالفاظِ دیگر یہ زحافات کسی دوسرے زحاف کی موجودگی ہی میں آئیں گے۔
اس صورت میں مصرعِ اولیٰ جو ایک حرفِ موقوف پر ختم ہو رہا ہے، ناپسندیدہ ہے۔ آگ کے لفظ میں گ موقوف ہے۔ یہ رعایت جدید شعرا نے زبردستی لے لی ہے اور اس طرح کے مصرعے کہا کرتے ہیں مگر انھوں نے اور بھی بہت سی ناروا رعایتیں لے رکھی ہیں۔ بہتر ہے کہ ان کا تتبع نہ کیا جائے۔
دوسری بات املا سے متعلق ہے۔ سمیٹے ھوئے میں ھوئے کو معیاری اردو املا میں اس طرح نہیں لکھا جاتا۔ دوچشمی ھ صرف مخلوط آوازوں کے لیے مخصوص ہے۔ اسے ہائے ہوز کی جگہ استعمال کرنا معیوب ہے۔

پہلا مصرع پایۂِ فصاحت سے ساقط ہے۔

بیت الغزل!

عروض، بحور اور اوزان کے بارے میں میرا علم نہایت ناقص ہے .میں نے جو تھوڑا بہت سیکھا ہے وہ اپنے اور دوسروں کے مراسلوں پر تبصرہ جات سے ہی سیکھا ہے. گو کہ بعض جگہوں پر یہ اصول اور پابندیاں بے جا بھی معلوم ہوتی ہیں اور بظاہر ان سے شعر کی جمالیات اور موسیقیت پر کوئی خاص فرق بھی پڑتا نظر نہیں آتا بلکہ الٹا تخیل متاثر ہوتا ہے لیکن پھر بھی عروضی ضوابط کی پاسداری بہرحال لازم ہے. ادب کے ساتھ بےادبی بھی تو نہیں کی جا سکتی .
اصلاحِ سخن کے ضمن میں آپ کا یہ مراسلہ معلوماتی تھا .امید ہے آپ اصلاح کے باب میں آئندہ بھی رہنمائی کرتے رہیں گے .جزاک اللّه
 

La Alma

لائبریرین
آج موڈ ہوا کہ آپ کی غزل پر کچھ کہوں۔ سو مشوروں کے نام پر چند بے ربط سی باتیں لکھ رہا ہوں جنہیں آپ مسترد بھی کر سکتی ہیں۔
اٹھائے پھرے ہیں یہ انبار یوں ہی

نہ آدم کے ہاتھوں سے ہوتی وہ لغزش
نہ ہوتی خطا ہم سے ہر بار یوں ہی

ستانے کوکرتے ہیں اصرار یوں ہی

روایت یا اقدار اپنی جگہ پر

نہ ہم تم کو مانیں گے فنکار یوں ہی

خوب۔

راحیل بھائی کی بات سے متفق ہوں۔

سمندر نہ ساحل کہاں کا سفینہ

محبت کی دھن ہو، کوئی شاعری ہو

ایک بار پھر گستاخی کی معافی چاہونگا۔
آپ کی قیمتی آرا کا بہت شکریہ. آپ کی دی ہوئی تجاویز بھی اچھی ہیں .آئندہ بھی اپنے مشوروں سے نوازتے رہیں.
 
Top