عورت ذات بھی عجیب گورکھ دھندا ہے


عورت ذات بھی عجیب گورکھ دھندا ہے۔۔ مل جائے تو نظر نہیں آتی، نا ملے تو اور کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔

عورت کے وجود میں بسی خوبصورتی کا زہر تو ویسے بھی ہر کس و ناکس کی رگ رگ میں دوڑتا ہے۔ پر۔۔۔ یہاں وجود کی خوبصورتی کسے مطلوب ہے؟ بس ایک عجیب سی طلب ہے، جو کسی آتش کدے میں بھڑکتی ہوئی کبھی نا بجھنے والی آگ کی طرح، کب کے تار تار ہوئے دامن کو مزید لپیٹوں میں لیے ہمیشہ سے جلائے چلی آ رہی ہے۔​

کوئی مجھ نادان سے پوچھے کہ ساری عمر کیا کیا ہے تو میں۔۔۔ میرے پاس تو اور کوئی جواب ہی نہیں۔۔۔ صرف اتنا ہی کہہ سکوں گا کہ عورت ذات کی ایک جھلک دیکھنے کا انتظار کیا ہے اور انتظار بھی ایسا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

میں جو آدم کا سب سے نالائق بیٹا ۔۔۔ ہاں۔۔۔ میں آوارہ فکر، صدیوں کا بھوکا پیاسا، جس نے دل کی امنگوں کی عمر کا تمام حسن اک تلاش کی نذر کیا ہے، جب جب بے خود کر دینے والی کسی چاندنی رات کے سحر کا شکار ہوجاتا ہوں تو مجھے اک نشہ سا چڑھ جاتا ہے، مصنوعی سا، عارضی سا۔ نشہ اترتا ہے تو ۔۔۔ مجھے پھر سے الجھن شروع ہو جاتی ہے ۔۔۔ اونہوں ۔۔۔ اس کا زہر بھی اثر پذیر نہیں ۔۔۔یہ وہ نہیں جس کی مجھے تلاش ہے۔ اور میں پھر سے وقت کی گرد جھاڑ پونچھ کر اک نئی تلاش میں جُت جاتا ہوں۔۔۔ کہ نہیں۔۔۔اس بار بھی نہیں ملی۔ ایک کوشش اور۔۔۔ شاید اگلی بار، شاید۔​

کہاں کہاں نہیں تلاشا۔۔۔کسی کے پاس اکڑ کر گیا، کسی کے پاس گھٹنوں کے بل چل کر، کہیں کورنش بجا لایا اور کہیں قیام کی نیت بھی زیر لب دہرا لی ۔۔۔ کوئی پاس بلا کر کھوج ڈالی اور کسی کو دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بس تلاشتا ہی چلا گیا۔

لیکن۔۔۔

میرا ان کہا جذبہ، بے نام سی تڑپ ، دل کی وہ گرہیں جو کسی اور وجود کے چاہنے سے کھل جانی چاہیے تھیں، بند کی بند ہی رہتی ہیں اور میرا دل کنوارے کا کنوارہ ہی رہ جاتا ہے۔ اور میں۔۔۔ پھر سے پُروا میں دُکھنے والے زخموں کی طرح یادوں کے گھاؤ سمیٹے، سنبھالے اک طرف ہو کر بیٹھ رہتا ہوں اور اس دکھ کو، اس تلاش کو جو صرف میری ہے، سینے میں چھپا لیتا ہوں۔​

میرے بے پرواہ دل میں یہ خواہش بھی کبھی نہیں جاگی کہ وہ کوئی پری رخ، شعلہ بدن، ماہ پارہ، مہ جبین ہی ہو، بھلے اس کی رنگت گلاب جامن کے گندھے میدے جیسی نہ ہو اور وہ شاعروں کے تخیل پرواز پر بھی پورا اترنے والی نا ہو ۔۔لیکن وہ عورت زاد تو ہو ۔

رات گئے سمندر کنارے ٹھنڈی یخ ہواؤں سے لڑتے بھڑتے، کسی ایک من پسند اور دل نشین کے اکلوتے پیغام کے انتظار میں رہتے رہتے، میں یہ جان گیا ہوں۔۔۔ کہ میری تلاش شاید ہی کبھی پوری ہو سکے اور میرا بوسیدہ ہوتا بدن ان صعوبتوں کو برداشت کرتے کرتے کسی روز ڈھے جائے گا۔ لیکن۔۔۔۔ میرا دل، جسے خیالوں کی آوارگی نے اب تک خوب بھٹکائے رکھا ہے، مجھے اس تلاش، اس جستجو، اس حصول کی شدت سے کبھی باز نا رہنے دے گا۔
دن ہفتوں میں، ہفتے ماہ و سال اور پھر سال ہا سال میں بیتتے چلے جا رہے ہیں، کئی بار یوں لگتا ہے کہ دم۔۔۔۔ بس اب سینے میں رکنے سا لگا ہے لیکن پھر تلاش کی جستجو اسے بحال کر ڈالتی ہے اور میں نئے سرے سے کسی اور طرف نکل پڑتا ہوں ۔۔۔ کہ اچھا۔۔۔ ایک تلاش اورسہی۔


وہ تلاش جو صبح ازل سے جاری ہے اور شاید دم رخصت تک جاری رہنی ہے۔​


 
زبردست!!!
بہت ہی زبردست اور عین انسانی جذبات کی عکاسی

لیکن میرا خیال ہے اس جستجو کا جواب تحریر کے پہلے فقرے میں ہی ہے. مل جائے تَو نظر نہیں آتی!!! یہ صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے ، اسی لیے سب کچھ ادھورا ہے اور لوگوں کو اپنے ادھورے پن اور تلاش سے پیار !
جب کوئی چیز نہ مل رہی ہو تو امی کہتی ہوتی ہیں "درست جگہ دیکھا نہیں ہوگا ، وہاں دیکھو، سامنے پڑی ہوئی ملے گی."

مل جائے تو نظر نہیں آتی، نا ملے تو اور کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔
 
کچھ جملوں اور استعاروں کا استعمال بہت بہترین (y)

عورت کے وجود میں بسی خوبصورتی کا زہر
عورت ذات کی ایک جھلک دیکھنے کا انتظار
میں جو آدم کا سب سے نالائق بیٹا
وقت کی گرد جھاڑ پونچھ کر اک نئی تلاش میں جُت جاتا ہوں
دل کی وہ گرہیں جو کسی اور وجود کے چاہنے سے کھل جانی چاہیے تھیں
میرا دل کنوارے کا کنوارہ ہی رہ جاتا ہے
پُروا میں دُکھنے والے زخموں کی طرح یادوں کے گھاؤ سمیٹے
بھلے اس کی رنگت گلاب جامن کے گندھے میدے جیسی نہ ہو

اعلی تحریر اور انداز بیان :) ۔ عورت زاد کو بطور استعارہ استعمال کر کے آپ نے صوفیا کی شاعری کا سا انداز اپنایا ہے۔ پہلی سطر ہی بہت سی حقیقتوں کو وا کرتی ہوئی مزید پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
کسی مسلسل درد کو لفظوں میں پرونا یقیناً بہت مشکل ہوتا ہے گو آپ نے اس سے حتی الامکان انصاف کیا ہے پھر بھی تلاش جیسی تشنگی کا اک احساس رہ گیا ہے۔
 
زبردست!!!
بہت ہی زبردست اور عین انسانی جذبات کی عکاسی

لیکن میرا خیال ہے اس جستجو کا جواب تحریر کے پہلے فقرے میں ہی ہے. مل جائے تَو نظر نہیں آتی!!! یہ صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے ، اسی لیے سب کچھ ادھورا ہے اور لوگوں کو اپنے ادھورے پن اور تلاش سے پیار !
جب کوئی چیز نہ مل رہی ہو تو امی کہتی ہوتی ہیں "درست جگہ دیکھا نہیں ہوگا ، وہاں دیکھو، سامنے پڑی ہوئی ملے گی."
بالکل میں آپ سے سہمت ہوں کبھی کبھی سامنے پڑی چیز دکھائی نہیں دیتی ۔۔۔اور امی جان کہتے ہیں یہ پڑی ہوئی ہے پتہ نہیں تم کہاں دیکھ رہے تھے ۔۔
 
آہم آہم۔
ہمارا تو خیال ہے کہ مرد بھی عورت کے لیے کچھ کم ناقابلِ فہم نہیں۔ اگر عورت ہی مرد کو سمجھ پائی ہوتی تو ہمارا معاشرہ کچھ نہ کچھ مادرسری (matriarchal) ہو گیا ہوتا۔ مرد اور عورت کے طرزِ فکر اور بالخصوص طرزِ احساس میں جو بُعد فطرت نے رکھا ہے اس کا مقصد مجھے سوائے امتحان کے اور کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ دونوں کی عمریں بیت جاتی ہیں ایک دوسرے کو کھوجتے کھوجتے۔ بڑھاپے میں جب کپکپاتی ہوئی آواز میں محبت، خلوص اور تجربے سے بھرپور مشورے دیے جاتے ہیں تو سننے والے نوجوانوں کو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ بزرگ بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ ہے سرمایہ اس کارِ بیکاراں کا!
ہمارے ایک دوست کی یہ رائے ہمیں بہت وقیع لگتی ہے کہ ہم جنس پرستانہ تعلق لاکھ غیرفطری سہی، اس میں کم از کم عاشق اور محبوب ایک دوسرے کی رمزیں سمجھنے کے اہل ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے منہاجِ فکر و احساس سے آشنا ہوتے ہیں۔ مرد اور عورت کے باہمی تعلق کی طرح نہیں کہ ایک کا غمزہ دوسرے کو ستم معلوم ہوتا ہو۔ سوال گندم جواب چنا کی اس صورتِ حال میں قصوروار نہ مرد ہے نہ عورت۔ دیومالائی حکمت کے مطابق مرد مریخ سے ہبوط کر کے آیا ہے اور عورت زہرہ سے۔ اجنبیت (alienation) تو فطری ہے نا پھر؟
ہم نے کچھ عرصہ قبل ایک فلم دیکھی تھی، انکار۔ ہمیں اور ہماری بیگم کو مکمل اتفاق تھا کہ مرد اور عورت کے تعلقات میں جو کشاکش جس حد تک ہے اس کی اس سے بہتر ترجمانی کبھی نظر سے نہیں گزری۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے!
 

علی چشتی

محفلین
فطرت کو الفاظ میں سمونا بہت اعلیٰ پائے کی کاریگری ہے ۔۔ اور مرد و عورت کی باہمی کشش پہ لکھی تحریریں تو کل، آج اور آنے والے کل تک لکھی جاتی رہیں گی۔
 
Top