معماران ملت کا المیہ

دنیا میں امن قائم کرنے، غربت اور افلاس کا خاتمہ کرنے، مسلسل ترقی اور قوموں اور نسلوں کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے میں تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیا استاد کا کوئی نعم البدل ہوسکتاہے؟ کیا آپ کسی ایسے معاشرے کا تصور کرسکتے ہیں جہاں اسکول نہیں، ٹیچرز نہیں؟ نہیں ، ہر گز نہیں۔ استاد کے بغیر کسی معاشرے کا وجود قائم ہی نہیں رہ سکتا کہ یہ استاد ہی ہوتا ہے جو معاشرے کی قدیم روایات کو آگے بڑھانے میں ممدو معاون ہوتا ہے۔
درس و تقدیس ایک مقدس پیشہ ہے اور غالباً درس و تدریس کے شعبے میں سب سے زیادہ افراد کام کرتے ہیں۔ یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 کے سال تک عالمی سطح پر بنیادی لازمی تعلیم کے لیے 16 لاکھ اضافی اساتذہ کی ضرورت پڑے گی ۔اور اسی طرح 2030 تک مزید 33 لاکھ اساتذہ کی ضرورت ہو گی۔
اساتذہ کی عظمت کے بارے میں دنیا بھر کی زبانوں میں بے شمار اقوال موجود ہیں اور مہذب معاشروں میں انہیں قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ترقی کی منزلیں تعلیم سے جڑی ہیں اور کون ہے جو تعلیم میں اساتذہ کے کردار سے انکار کرے۔ اس ضمن میں ہزاروں نہیں لاکھوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جیسے کہ تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہے کہ جب خلیفہ ہارون رشید اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھنے مسجد گئے تو وہاں ان کے بیٹوں کے استاد بھی نماز پڑھنے آئے ہوئے تھے۔ جیسے ہی نماز ختم ہوئی دونوں لڑکے بھاگے کہ دیکھتے ہیں استاد کے جوتے کون اٹھا کر لاتا ہے۔ خلیفہ ہارون رشید کی آنکھیں عقیدت سے بھر آئیں جب اُنہوں نے دیکھا کہ ایک بیٹے نے ایک جوتا اُٹھایا ہوا ہے اور دوسرے نے دوسرا جوتا اُٹھایا ہوا تھا اور وہ دونوں استاد کاانتظار کررہے تھے۔اسی طرح بابا اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ جاپان میں ان کی گاڑی کا چالان ہوگیا جس کی وجہ سے انھیں ایک دن چھٹی کر کے عدالت میں پیش ہونا پڑا، جب جج کو یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک استاد ہیں تو انھوں نے ان کی عزت وتوقیر کی حد کردی۔
مگر ہمارے ہاں اب یہ احترام کچھ ختم ہوتا جا رہا ہے حالانکہ استاد کی عزت بھی ہم پر اسی طرح فرض ہے جیسے والدین کی کیونکہ اساتذہ روحانی ماں باپ ہوتے ہیں مگر ہم زندگی کے ہر شعبے میں انحطاط کا شکار ہیں۔ اب مال و دولت رکھنے والے کو معاشرے کا معزز فرد سمجھا جاتا ہے ۔
اسی وجہ سے ہمارے ہاں تعلیم کافی مسائل کا شکار ہے کیونکہ یہاں اساتذہ مسائل کا شکار ہیں۔ جب ان کو معاشی اور سماجی آزادی نہیں دی جائے گی تو وہ یکسوئی سے اپنا کام کیسے کر سکیں گے۔ کوئی بھی کام ہو، بچوں کو قطرے پلانے ہوں، الیکشن کی ڈیوٹی ہو، مردم شماری ہو یا سیلابی صورتحال سے نمٹنا ہو ، یا کوئی بھی سروے کرانا ہو، پاکستان میں اساتذہ کو ہر معمولی معمولی خدمت کیلیے ہائر کر لیا جاتا ہے جبکہ ان کا بنیادی کام محض نونہالان ملت کی آبیاری کرنا ہے۔ مگر چونکہ یہاں سیاسی مداخلت ہے جس کے نتیجے میں بدعنوانیاں، اقربا پروری اور جانبداری زور پکڑ رہی ہے اسی وجہ سے ہم ملینیم ڈیولپمنٹ گولز کو پورا کرنے میں ناکام رہےہیں ۔ یعنی دوسرے لفظوں میں ابتدائی لازمی تعلیم کو ہمارے ملک میں بری طرح نظرانداز کر دیا گیا ہے۔۔۔
اساتذہ نظام تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب تک ان کے حالات کار بہتر نہیں ہوں گے ان سے اچھی کارکردگی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایک خوشحال استاد ہی صحت مند تعلیمی ماحول کی ضمانت دے سکتا ہے۔ جب اساتذہ اپنا فرض مکمل انصاف سے پورا کرتے ہیں، تو جو عزت واحترام ان کے حصے میں آتی ہے، اس کااندازہ صرف وہ استاد ہی لگا سکتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو چھوڑ کر بیشتر ماحلک میں، خاص طور پر پاکستان میں اساتذہ انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ انہیں وہ سماجی مرتبہ حاصل نہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ پاکستانی عوام نے تو استاد کے ساتھ جو کیا سو کیا مگر حکومت بھی اس معاملے پہ چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
چونکہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس لیے اس میں لامحالہ اساتذہ اور خواتین اساتذہ کی تعداد بھی اسی تناسب سے زیادہ ہے اور طرفہ تماشا یہ کی پنجاب حکومت ہی اس معاملے پہ آنکھیں بند کیے پڑی ہے۔ یہاں مرد اساتذہ کی تعداد54.71فیصد جبکہ خواتین اساتذہ کی تعداد56 فیصد ہے۔ان تمام اساتذہ کو حکومت کے سوتیلے پن کا سامنا ہے۔ ایک عرصے سے ان کا دیرینہ اپ گریڈیشن کا مطالبہ کھٹائی کا شکار ہے دوسرے تمام صوبوں میں اساتذہ کو کافی عرصے سے اپ گریڈ کیا ہوا ہے جس کے مطابق ایک سیکنڈری سکول ٹیچر گریڈ 17 میں کام کر رہا ہے جبکہ ادھر وہی ٹیچر گریڈ 16 میں ہے۔ اسی طرح وفاق اور دوسرے صوبوں میں پرائمری اور ایلیمنٹری اساتذہ بھی صوبہ پنجاب کے اساتذہ کی بہ نسبت اپ گریڈ ہیں۔ڈی گریڈیشن کا یہ مسئلہ صوبہ پنجاب میں اساتذہ کے مورال کو ڈاؤن کیے ہوئے ہے جس وجہ سے اساتذہ کی کارکردگی بھی مخدوش ہے۔
حکومت پنجاب نے 2002،2004،2006،اور 2009 میں محکمہ تعلیم میں ایجوکیٹرز بھرتی کیے، جن کو پہلی مرتبہ جناب خادم اعلیٰ شہباز شریف صاحب نے 19 اکتوبر2009 کو مستقل کرنے کے احکامات صادر فرماکرایک احسن اقدام کیا۔ لیکن کیا ہی اعلیٰ احسن اقدام ہوتا اگر ان تمام ایجوکیٹرز کو ان کی پہلی تعیناتی کی تاریخ سے مستقل کیا جاتا۔
مختلف ادوار میں بھرتی ہونے والے ان تمام ایجوکیٹرز کو ایک ہی تاریخ سے مستقل کرنے سے جہاں عدم مساوات اور حق تلفی ہوئی وہاں ان کو کیٹیگری وائز سیلری میں نقصان اٹھانا پرا اور مستقل ہونے سے قبل والی سروس سے محروم کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے ان کو مستقبل میں پے انڈیکسیشن، پروموشن اور پنشن وغیرہ جیسے مسائل سے دوچار کر دیا گیا۔ 19 اکتوبر2009 کو مستقل کرنے سے ان تمام ایجوکیٹرز کو سالانہ انکریمنٹ سے محروم کیا گیا جن کی یکم دسمبر 2009 کو انکریمنٹ ملنا تھی۔ اس کے علاوہ کنٹریکٹ پیریڈ کے دوران ملنے والی تمام انکریمنٹس کو پرسنل الاؤنس کی حیثیت دیکر منجمد کر دیا گیا۔ جو بہت بڑی زیادتی ہے۔ اس طرح معاشی لحاظ سے ملازمین کو انتہائی محرومی کا سامنا ہے۔ ان مسائل کے تدارک کیلیے مختلف فورمز پر آواز اٹھائی جاتی رہی ہے مگر تاحال کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اور مسئلہ طوالت کا شکار ہے۔
انہی مسائل کی بنا پر ابھی تک کئی ایجوکیٹرز نے اپنی تنخواہ ریگولر نہیں کروائی۔ جس کی وجہ سے ان کو اب لاکھوں روپے کی ریکوری کا مسئلہ درپیش ہے۔ تنخواہ ریگولر کروانے کی وجہ سے ایجوکیٹرز کو جہاں اوور پیمنٹ ریکوری کا مسئلہ ہے وہاں تنخواہ ریگولر نہ کروانے کی وجہ سے یہ مزید کئی محکمانہ حقوق سے محروم ہو رہے ہیں۔جیسے کہ بچوں کے تعلیمی وظائف ، بچیوں کے جہیز فنڈ اور والدین کے تدفین و تکفین فنڈ وغیرہ
اسی طرح صوبہ پنجاب کے اساتذہ کے حالات کافی دگرگوں ہیں۔ حالانکہ یونیسکو نے اپنی کئی رپورٹس میں تجویز دی ہے کہ اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ مراعات اور تنخواہیں دی جائیں ۔ مگر ہمارے ارباب اختیار کے کان پہ جوں نہیں رینگتی۔ یہ یاد رکھیے کہ ہم اس معاشرے کو جیسے اساتذہ دیں گے آوٹ پٹ میں ہمیں ویسے ہی پروفیشنلز اور افراد ملیں گے۔ واضح رہے کہ ہمیں اپنی قوم و ملک کی تعمیر و ترقی کیلیے ایک ایک فرد کو تراشنے کیلیے انہی اساتذہ کے رہین احسان ہیں۔ بقول شاعر
یہ فیضان نظر بخشا گیا ہے اہل مکتب کوکہ
حذف ریزوں سے کرتے ہیں لعل وگہر پیدا
 
Top