مزاروں پر محبت جاودانی سن رہے تھے:::تصاویر

؎ قطب پور سادات|جہانیاں
ملتان حاضری کے دوران سوچا کہ رات کہاں گزاری جائے۔ اپنے اک مشفق دوست سید عبد الرؤف شاہ صاحب سے رابطہ کیا۔ معلوم پڑا شاہ جی کی آج ملتان میں ہی محفل ہے (شاہ جی پروفیشنل نعت خواں ہیں، کلاسیکل انداز میں پڑھتے ہیں)۔ شاہ جی نے بتایا کہ شام تک جب آپ حاضری سے فارغ ہوں گے تب تک میں محفل سے۔ لہذا کاظمی شاہ صاحب کے پاس حاضری کے بعد شاہ جی کے ساتھ ان کے گاؤں قطب پور سادات روانہ ہوئے۔
قبلہ شاہ جی کے والد محترم کاظمی شاہ صاحب کے شاگرد اور جید عالم دین ہیں۔ ان کے بڑے بھائي عالم اور نعت خواں ہیں۔ خود شاہ جی انہیں کے شاگرد ہیں۔ یہ وہ لوگ کہ چہرہ دیکھتے ہی دل کہے کہ ہاں یہ سید ہیں۔ بہت ہی خوبصورت گھرانہ۔ انتہائی ملنسار، عاجزی انکساری، تواضع، سخا، متقی، للاہیت، اور سب سے بڑھ کر سدا کی مسکراہٹ۔ قبلہ شاہ جی کے والد محترم جب تشریف لارہے تھے تو ہمیں لگا بہت جلالی طبیعت کے ہوں گے لیکن قبلہ اس قدر انکساری اور بے پناہ رحمتیں بکھیرتی مسکراہٹ سے ملے کہ واللہ۔
سید چراغ شاہ رحمۃ اللہ علیہ
قبلہ سید عبد الرؤف شاہ صاحب کے مطابق اس علاقے کو آباد کرنے والی یہ ہستی ہیں۔ یہ سید جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ (اچ شریف) کے پوتے ہیں، جو بخاری سادات کے برصغیر میں جد امجد مانے جاتے ہیں۔ پہلے پہل قطب پور میں صرف سادات تھے سو اس کا نام قطب پور سادات تھا۔ بعد میں دیگر اقوام و انساب کے لوگ آتے گئے۔ شاہ جی فرماتے ہیں وہ اس مزار پر نعت کی پریکٹس فرماتے ہیں اور قبلہ شاہ جی سے دل کی باتیں کرتے ہیں۔ ہمیں شاہ جی نے یہاں "کن فیکون تاں کل دی گل اے" سنایا۔
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

xZ4cq5V.jpg

سید عبد الغفور شاہ رحمۃ اللہ علیہ
سید عبدالرؤف شاہ صاحب کے دادا جان ہیں۔


AgMicw3.jpg
hFEeB91.jpg


سید عبد الغفور شاہ جی، سید عبدالرؤف شاہ جی زیدہ مجدھما (دائیں سے بائیں)
عبدالغفورشاہ صاحب نے جو چند اشعار سنائے۔

ساری صدیوں سے بھاری ہے جو لمحہ ملتا
کاش سرکار دو عالم کا زمانہ ملتا
بھول جاتا میں کسی طاق میں رکھ کر آنکھیں
آپ کو دیکھتے رہنے کا بہانہ ملتا
آپ کے پیچھے کھڑا ہوکے میں نمازیں پڑھتا
آپ کے قدموں کے پیچھے مجھے سجدہ ملتا

a6XXNub.jpg
 
آخری تدوین:
؎ بہاولپور
فیض ملت، مفسر قرآن، شیخ الحدیث حضرت علامہ مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ
قطب پور سادات سے قبلہ شاہ جی سے اجازت چاہی کہ اگلی منزل اچ شریف تھی اور وقت کی شدید کمی۔ راستے میں بہاولپور مختصر قیام رہا۔ بہاولپور آنے کی حسرت ایک مدت سے تھی مگر اس شہر کو گھومنے کے لیے۔ 2007 میں ایک دوست کی وساطت سے قبلہ اویسی صاحب کا تعارف ہوا اور معلوم پڑا کہ اس دور میں بھی ایسی نابغۂ روزگار ہستی ہیں جن کے روز و شب کا معمول صرف اور صرف تصنیف و تالیف ہے۔ قبلہ صاحب تصانیف کثیرہ ہیں۔ جن میں 3 تفاسیر شامل ہیں۔ ان کی حیات میں ان سے ملنےکی آرزو رہی لیکن شومئی قسمت، اور اپنی نالائقی، زیارت نہ ہو سکی۔ لہذا ازالہ کے لیے اس سفر کوغنیمت جانتے ہوئے حضرت کی بارگاہ میں حاضری دی۔ حضور اپنے مدرسہ دارلعلوم اویسیہ رضویہ میں آرام فرما ہیں۔ (جامع مسجد سیرانی، عید گاہ بہاولپور)۔

نبی نہ تھے مگر انساں پہ جاں چھڑکتے تھے
سنا ہے اگلے زمانے کے لوگ اچھے تھے
وہ ہستیاں بھی عجب تھیں وہ بستیاں بھی عجب
کہ آندھیوں میں بھی جن کے چراغ جلتے تھے

IWv7kW1.jpg
rBPdToo.jpg
 
؎ اوچ شریف

سادات سے بھر پور، اولیاء سے بھر پور اوچ شریف۔ اس شہر سے متعلق زیادہ معلومات اس لڑی سے لی جا سکتی ہیں۔ ہم صرف اپنی حاضری کے احوال پیش کررہے ہیں
یہاں حاضری کے احوال سے قبل چند گزارشات پیش کرنا ضروری ہیں۔
ہم جب پہلے مزار میں داخل ہورہے تھے، دروازے پہ دربان کے ساتھ، ایک پولیس اہلکار ڈیوٹی پر مامور بیٹھے تھے۔ ہم نے ان سے اپنا تعارف کرایا اور بتایا لاہور سے آئے ہیں۔ اس پر ان صاحب نے کہا بھائی " بزرگوں کی بارگاہ میں حاضری ضرور دیں۔ لیکن احتیاط کیجیے گا یہاں لوٹنے والے بازاری بہت ہیں۔ ان سے بچیے گا"۔
لٹیروں کے احوال سن لیجيے۔ ایک بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ مزارات پر ہونے والی جملہ غیر شرعی حرکات سے صاحب مزار اور کسی بھی صوفی بزرگ کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ جہلا اور پیداگیروں نے دوکانداری چمکانے کے لیے سلسلہ بنا لیا ہے۔
یہاں جن مزارات پہ حاضری ہوئی، قبر انور کے ساتھ ایک حضرت بلند آواز میں بلا کر آپ کا سلام کرائیں گے۔ صاحب مزار کا تعارف اور ان کی کرامات بیان کرنے کے بعد آپ سے کہا جائے گا کہ مرادیں پوری ہونے کے لیے نذر کے طور پر حسب توفیق نذرانہ دیں۔ اس کے علاوہ بھی لوگ ملتے رہے جو گھیر گھار کے اطراف و اکناف کی چیزوں کے تعارف اور کرامات کے بعد اسی قسم کے صدقے اور واسطے دیتے ہیں جس سے بسا اوقات بندہ ڈر جاتا ہے کہ اللہ کے ولی کی بارگاہ میں گستاخی نہ ہوجائے میں شک کرکے گنہگار نہ ہوجاؤں وغیرہ کے وساوس آنے کے بعد جیب ہلکی کرنے کاضرور سوچتا ہے۔ لہذا وہاں جو بھی عجیب و غریب کہانیاں بیان ہوں ان سے قطع نظر، توجہ صاحب مزار کی بارگاہ میں اپنی حاضری پہ رکھتے ہوئے اپنی حاجات کی دعا کریں اور اکتساب فیض حاصل کرتے ہوئے خاموشی سے روانہ ہوں۔ (یہ محض ذاتی تجربات کی بنا پر ایک رائے دی گئي ہے)۔
اوچ شریف ہماری حاضری مغرب کے وقت ہوئی۔ چند مزارات کے علاوہ جملہ مزارات اور تاریخی مقامات تالہ بند تھے۔ مغرب کے بعد یہاں سب مقامات کو تالہ بند کر دیا جاتا ہے۔ الحمد للہ اوچ شریف بھی جتنی حاضری تھی سب جگہ پیدل سفر کیا قریب قریب آدھا شہر۔ اکثریت جگہ مقفل تھیں لہذا قبور پہ حاضری ممکن نہ ہوئی لیکن مزارات پہ حاضری اور سلام پہ ہی اکتفا کیا۔

حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاری رحمۃ اللہ علیہ
انہیں برصغیر میں بخاری سادات کا جد امجد مانا جاتا ہے۔ اوچ شریف میں پہلی حاضری یہاں ہوئی۔


ثناء کیجئے کھل کے آل عباء کی
کہ ذکر انکا خود آبروئے سخن ہے
نہ کیوں مجھ پر اترائے معجز بیانی
کہ منہ میں علی کا لعابِ دھن ہے
نصیر اب میں کیوں مانگنے دور جاؤں
یہ میں ہوں یہ دروازہ پنجتن ہے

j86brgQ.jpg
hnYU4Ot.jpg
F9FnIjw.jpg
4dmpq3u.jpg
HfzSw4u.jpg
Y4r5mN3.jpg


حضرت سید جلال الدین حسین بخاری معروف بہ مخدوم جہاں گشت جہانیاں رحمۃ اللہ علیہ
یہ حضور بخاری شاہ صاحب کے پوتے ہیں۔

3Fs0VN4.jpg
lnL8E07.jpg
65oCPX4.jpg
z6F9poC.jpg


قدم گاہ منسوب بحضرت مولا علی رضی اللہ عنہ
منسوب ہے جنگ خیبر کے دوران حضور مولا کائنات کے جلال کے سبب یہ پتھر پگھل گیا اور آپ کے قدم مبارک اس میں نقش ہوگئے۔ حضور مخدوم جہاں گشت جہانیاں مدینہ شریف سے یہ پتھر ساتھ لے آئے تھے۔ بائیں پاؤں کا قدم مبارک یہاں جبکہ دائيں پاؤں کا نشان ملتان حضرت موسی پاک شہید رحمۃ اللہ علیہ کے خانوادے کے پاس ہے۔ ایک دوست جو عالم دین بھی ہیں محقق شخص ہیں، سے اس روایت کے متعلق پوچھا تو کہنے لگے کہ انہوں نے روایات احادیث میں جنگ خیبر کے اس واقعے کا کہیں نہیں پڑھا۔ کتب تواریخ بھی شاید خاموش ہیں، لہذا ہم بھی خاموشی سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

oGWLgks.jpg
XSSy1SX.jpg
Kv1nUwQ.jpg
VirmLOj.jpg


متفرقات
جامع مسجد حاجات
بیان کیا گیا کہ یہ مسجد محمد قاسم کے حملہ کے وقت تعمیر کی گئی۔

vDVIfia.jpg
AuoPK2a.jpg
sJVtO4g.jpg


کنواں منسوب بحضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ
بیان کیا گیا ، حضور بابا جی نے اپنے قیام کے دوران یہ کنواں یہاں جاری فرمایا۔
FfLkn1X.jpg


حضرت سید فضل الدین لاڈلہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ

WbB6qTJ.jpg


حضرت شیخ صلاح الدین معروف بہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ

FoPxY4N.jpg
blL8jSK.jpg
Fwl0XZM.jpg
 

نایاب

لائبریرین
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وارث شاہ او سدا ہی جیندے نیں جنہاں کیتیاں نیک کمائیاں ۔
بہت خوبصورت شراکت پرنور
بہت دعائیں
 
؎ اوچ شریف

حضرت سید صدرالدین بخاری معروف بہ راجن قتال رحمۃ اللہ علیہ

pfbVzSS.jpg
QhDTDVU.jpg
WV5XoFw.jpg
Dc0Pd8M.jpg
BgXcga6.jpg


حضرت سید صفی الدین حقانی گا ذرونی رحمۃ اللہ علیہ

DP6CyvI.jpg


مقبرہ حضرت سید موسی پاک ملتانی رحمۃ اللہ علیہ

pWXDD5V.jpg
7SiIueG.jpg


حضرت سید محمد غوث بندگی، حضرت سید عبدالقادر ثانی، حضرت سید عبدالرزاق، حضرت سید حامد رحمۃ اللہ علیھم

6YGNWTA.jpg
E4zST4I.jpg
CdDUK8f.jpg
ZpykSxw.jpg
7BU9txw.jpg
JZsBAcn.jpg
eTbQZbd.jpg
 
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وارث شاہ او سدا ہی جیندے نیں جنہاں کیتیاں نیک کمائیاں ۔
بہت خوبصورت شراکت پرنور
بہت دعائیں
حق فرمایا محترم!
پسندیدگی پر شکریہ، خوبصورت لوگوں کی بات ہے تو خوبصورت ہے۔
سلامت، شاد، آباد رہیں۔ اللہ اور اس کا حبیب اپنی بارگاہ سے خیر عطا فرمائیں۔
 
؎ لاہور
ہم حد ماہ و سال سے آگے نہیں گئے
خوابوں میں بھی خیال سے آگے نہیں گئے
کچھ وہ بھی التفات میں ایسا سخی نہ تھا
کچھ ہم بھی عرض حال سے آگے نہیں گئے
تھیں تو ضرورمنزلیں اس سے پرے بھی کچھ
لیکن ترے خیال سے آگے نہیں گئے
ہر حد سے ماورا تھی سخاوت میں اس کی ذات
ہم آخری سوال سے آگے نہیں گئے
سوچا تھا میرے دکھ کا مداوا کریں گے کچھ
وہ پرسش ملال سے آگے نہیں گئے
کچھ خود سری کے فن میں نہ تھے ہم بھی کم مگر
اس صاحب کمال سے آگے نہیں گئے
کیا ظلم ہے کہ عشق کا دعویٰ انہیں بھی ہے
جو حد اعتدال سے آگے نہیں گئے
لاہور پیچھے رہ گیا ہم باوفا مگر
اس شہر بے مثال سے آگے نہیں گئے

حکیم الامت، علامہ، ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ قلندر لاہوری رحمۃ اللہ علیہ​
اقبال، بابا جی اقبال۔ ان سے ایک روحانی وابستگی تعلق، الفت اور محبت ہے۔ یہ نام سنتے، پڑھتے ہی دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ آنکھوں کو جھڑی لگ جاتی ہے۔ اقبال سے کئی نسبتیں ہیں۔ ایک عمومی کہ یہ آپ حکیم الامت ہونے کیوجہ سے ہر پاکستانی کے بابا ہیں۔ ایک نسبت میرے سیدی مرشدی حضور پیر سید جماعت علی شاہ صاحب کے توسط سے ہے۔ کے اقبال کو حضور قبلۂ عالم سے نسبت و محبت تھی۔ اور حضور کو بھی اقبال سے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ گوشے ہیں جن کا پردے میں رہنا ہی بہتر ہے۔ بس اتنی عرض ہے کہ صاحب نظر و محبت جانتے ہیں اس شخصیت کا بارگاہ سرور دو جہاں میں کیا مقام ہے۔
یوں مزار اقبال پر الحمد للہ بہت بار حاضری رہی ہے۔ جس حاضری کی تصاویر ہیں، یہ رمضان المبارک کی ایک صبح تھی۔ اک اکیلے ہم اور ہمارے بابا جی۔ خوب لاڈ کیا ہم نے حضرت سے۔ اس کے بعد بادشاہی مسجد کے چبوترے سے ہی سلام دعا ہوتی ہے کہ اب مزار تک رسائی بند کر دی گئي ہے۔ لیکن شکریہ بابا جی کا کہ ہمیں اس پہلے بلاتے رہے۔

خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے


WTqvUwt.jpg
XeHsq66.jpg
sYkhRHd.jpg
TmrUxx7.jpg
TIwSx1Y.jpg
MF85usi.jpg
1H7RgxE.jpg
6Xboqj5.jpg
Z5HIgzf.jpg
 
؎ لاہور


نور الدین سلیم جہانگیر رحمۃ اللہ علیہ​
نور جہاں و دختر رحمۃ اللہ علیھما

مغل بادشاہ اکبر کے صاحبزادے، اپنے معاشقۂ انارکلی کیوجہ سے شہرت پانے والے نورالدین سلیم جہانگیر، شاہدرہ باغ کے ریلوے سٹیشن کے ساتھ ہی دونوں میاں بیوی اور شاہ جہاں کے سسر اور ممتاز کے والد آصف جاہ آرام فرما ہیں۔ نور جہاں کا مقبرہ مکمل طور پر تباہ حالت میں اور اس کا باغ شدید طور پر اجاڑ ہے۔ جہاں دن بھر بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ سکھوں کا کیا رونا کہ وہ سب کچھ لوٹ کر لے گئے، ہماری حکومتوں نے کم ظلم نہیں کیا۔ یہ باغ برصغیرکے بہت خوبصورت باغات میں سے ایک تھا۔ پہلا ستم گوروں نے کیا کہ اس کے قریب ریلوے لائن بچھا دی، اس پر سلام ہماری حکومتوں کی عظمت کو، جنہوں نے باغ کے درمیان میں سے سڑک نکال لی۔ اب یہ باغ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ دائی جانب نور جہاں اپنی بیٹی کے ساتھ اور بائیں جہانگیر اپنے مقبرہ میں آرام فرما ہیں۔​
گوکہ یہاں کئی بار حاضری دی لیکن اب کی بار پر یہ خیال ذہن میں آیا، راوی کے دونوں جانب دو مقبرے ہیں۔ ایک وقت کے فقیر کا اور ایک وقت کے بادشاہ کا۔ آج وقت کا فقیر پورے جہاں پر حکومت کر رہا ہے، 24 گھنٹے امیر غریب بلا تفریق حاضر ہو رہے ہیں، فقیر کا لنگر جاری ہے۔ راوی کے دوسری جانب لوگ یہاں تفریح و آوارہ گردی کو آتے ہیں اور شاید ہی کوئي دو آیتیں پڑھ کر دعا کو ہاتھ بھی اٹھاتا ہے۔
نور جہاں بہت اچھی شاعرہ بھی تھیں۔ ایک دن باغ میں چہل قدمی پر جہانگیر نے ہلال دیکھا تو ایک مصرعہ کہا جس پر نور جہاں نے فی البدیھہ مصرعہ لگایا۔
هلال عید به اوج فلک هویدا شد
کلید میکده گم گشته بود پیدا شد
نور جہاں کا یہ شعر اس کی قبر کے ساتھ کندہ ہے۔۔۔۔۔۔​
بر مزار ما غریبان نی چراغی نی گلی
نی پر پروانه سوزد نی صدای بلبلی
mZhl8XR.jpg
7ALTPaB.jpg
gekji0v.jpg
XQTQOQS.jpg
xOhCaur.jpg
Fdp2SWK.jpg
JRKzAJG.jpg
5iQ3W5X.jpg
LrVUjtg.jpg
PgVozHX.jpg
KcKXC0i.jpg
 
خدا آپ کو سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت نصیب فرمائے. آمین
اللہ اللہ! فاخر بھائی۔۔۔۔۔ آمین آمین۔ مجھے ایسی دعائيں مانگتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے وہ بہت بڑی بارگاہ ہے۔
اللہ رب العزت صدقہ آل رسول آپ کی جملہ حاجات پوری فرمائے
 

madihakhan

محفلین
بہت اچھا ، اچھا مجھے ہم یہاں صرف اردو میں لکھنے کی اجازت ہے بتا دے ، ، اگر کوئی شخص ایک اردو کی بورڈ ہے نہ، تو

 
بہت اچھا ، اچھا مجھے ہم یہاں صرف اردو میں لکھنے کی اجازت ہے بتا دے ، ، اگر کوئی شخص ایک اردو کی بورڈ ہے نہ، تو

پیارے بھائی! آپ یہاں تعارف کے زمرہ میں جائیں۔ بائيں جانب "نئي لڑی ارسال کریں" میں اپنے تعارف کی نئي لڑی بنائيں اور بسم اللہ کریں۔
 
؎ اٹک
افق سے پار کوئی حد نظر میں رکھے گی
تری تلاش مسلسل سفر میں رکھے گی

حضرت شاہ نوری عبدالوہاب بخاری رحمۃ اللہ علیہ (باغ نیلاب)

جون کی ایک تپتی دوپہر دوست کا پیغام آیا "جماعتی صاحب فری ہیں، باغ نیلاب جانا ہے"۔ لیں جی ادھار کی موٹر سائیکل لے ہم 3 دوست اٹک شہر کے مضافات میں باغ نیلاب ایک مزار کی دریافت میں نکل پڑے۔ باغ نیلاب دریائے سندھ کے کنارے ،پہاڑوں پر واقع ایک گاؤں ہے۔ حضرت کا مزار ایک چوٹی پر قریب 103 سیڑھیاں اوپر واقع ہے (فٹ|میٹر کا حساب ہمیں نہیں آتا)۔ یہاں سے نیچے گاؤں اور گاؤں سے نیچے دریائے سندھ دیکھا جا سکتا ہے۔
باغ نیلاب سے آگے ایک گاؤں "گھوڑا مار" کے نام سے مشہور ہے۔ علاقے کے بڑے بتاتے ہیں یہ وہ مقام ہے جہاں سے "جلال الدین خوارزم" نے دریا میں گھوڑا ڈال دیا تھا۔ ایک چٹان پہاڑی کے کنارے پرگھوڑا مار نام سے منسوب ہے۔ جہاں جانے کی ہمت ہم نے نہ کی۔ ہماری آمد سے چند روز قبل کا واقعہ ہے کہ ایک قتل کے بدلے قتل، کرتے کرتے دریا کے دونوں کناروں پر دو گاؤں خالی ہوگئے ہیں۔

CyolgVq.jpg
Y4Othbp.jpg
bi46ZXb.jpg
m8Mrj4P.jpg
PhTocJR.jpg



حضرت سلطان صدرالدین رحمۃ اللہ علیہ

آپ کا مزار راولپنڈی-پشاور جی ٹی روڈ کے کنارے، مشہور اٹک قلعہ سے قریب 500 میٹر کے فاصلے پر، ایک پہاڑی کی چوٹی پر ہے۔ یہ بھی دریائے سندھ کا کنارہ ہے۔ مشہور اٹک قلعہ کے ساتھ اٹک پل اور دو دریاؤں(سندھ اور کابل) کا سنگم ہے۔ اس پورے علاقے میں بہت سے مشہور بزرگان دین مدفون ہیں لیکن فوج کی پابندیوں کے باعث تصاویر اتارنا منع ہے۔

fuzcGmw.jpg
ETf231G.jpg
CYaeAjN.jpg



سائیں کلو بابا سرکار، سید انور علی شاہ صاحب، حضرت راجہ صاحب رحمۃ اللہ علیھم (مانسہر کیمپ)

اٹک شہر سے قریب 25 کلو میٹر فاصلے پر مانسہر کیمپ ہے۔ سائیں کلو بابا سرکار ایک مجذوب فقیر تھے، سید انور علی شاہ صاحب اور راجہ صاحب نے آپ سے فیض پایا۔ یہ بزرگان اپنی خدمت خلق کیوجہ سے اٹک شہر میں بہت مشہور ہیں۔ آج بھی یہاں فی سبیل اللہ لنگر جاری رہتا ہے۔ فقیر کی حاضری یہاں 2 سال پہلے ہوئی تھی۔ اس دربار سے متعلق فقیر کی رائے ہے، گو کہ یہ ایک فقیر گدڑی پوش کی بارگاہ ہے، مگر یہ در "ایلیٹ کلاس" کے لیے کھولا گیا ہے۔ یہاں بیورو کریٹس، بڑے فوجی افسران اور وہ لوگ، جن کی کاٹن میں شکن نہیں ابھرتی، کو فقیر نے حاضری دیتے دیکھا ہے۔ مزار کا اندرونی منظر بھی کچھ وی آئی پی انداز کا ہے۔ عرس مبارک پر حاضری پہ دیکھا، یہاں ٹیبلز پر لنگر لگتا ہے۔ بہت پر لطف مزار ہے۔ جب دل میں ہلچل ہو یہاں حاضری دی جائے، سکون قلب نصیب ہوتا ہے۔

1bB2Zzm.jpg
seGZBHD.jpg
LoshHKB.jpg
wwUSzk7.jpg



حضرت سائیں محمد عالم رحمۃ اللہ علیہ
آپ سائیں کلو بابا سرکار اور سید انور علی شاہ رحمۃ اللہ علیھما کے سجادہ نشین اور خدمت گار ہیں۔

P4u1FhU.jpg
VyFQZzn.jpg
 
؎ اٹک
سید جعفر باچا (بادشاہ) صاحب رحمۃ اللہ علیہ

"وسیم بھائی یہ ذکر کی آواز کہاں سے آرہی ہے؟ " "یہ بادشاہ صاحب کی مسجد سے"۔ " کسی جگہ ہے یہ، چلیں ذرا دیکھتے ہیں۔ "
مسجد میں داخل ہوئے صحن میں ایک بزرگ شخصیت، مسند پر تشریف فرما ہیں۔ ساتھ میں چند اور بزرگان تشریف رکھتے ہیں۔ ذکر کے ساتھ نعت جاری ہے اور صحن میں کچھ لوگ رقص کناں ہیں۔ کل ملا کر دس لوگ ہوں گے۔ ہم بھی جا کر سامعین اور قارئین کی صف میں بیٹھ گئے۔
بزرگوں نے محفل کے اختتام کا اشارہ فرمایا اور ساتھ بیٹھے شخص (میجر صاحب) سے مجھے پاس بلانے کو کہا۔ ہم وہاں 3 دوست بیٹھے تھے لیکن یہ سعادت میرے حصے میں آئی۔ بزرگوں نے فارسی میں میجر صاحب سے کچھ کلام کیا، میجر صاحب نے مجھے ترجمہ کیا۔
یہ باچا صاحب کے ساتھ پہلی ملاقات تھی جس نے ان کا گرویدہ کر لیا۔ پھر اس بعد ان کے فیض نظر کی بدولت ان سے الفت ہوگئی۔ اب ہر جمعہ حضرت کے پاس حاضر ہونے لگے۔ گرمی، دھوپ، روزے، پیدل اور تین چار کلومیٹر کا فاصلہ۔ کسی شے کی پرواہ کیے بغیر قدم باچا صاحب کی زیارت کو اٹھ جاتے۔
سید جعفر باچا صاحب سلسلہ سیفیہ کے بانی پیر سیف الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سسر ہیں۔ آپ افغانستان سے تشریف لاکر اٹک میں گوشہ نشین تھے۔ 100 سے زائد عمر کے باوجود تندرست تھے۔ آپ ہر نماز کی خود امامت فرماتے۔ بد مذہبوں کو اس علاقے میں اس اللہ کے ولی کی موجودگی کھٹکتی تھی۔ کیونکہ ظاہری اعتبار سے اٹک میں کوئي آستانہ نہ تھا جہاں سے لوگ فیض یافتہ ہوتے۔ اور باچا صاحب ایک صاحب علم و عمل شخصیت تھے۔ تہجد کے نماز کی ادائیگی کے وقت آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا، زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے۔ فقیر بوجہ والدہ کی بیماری جنازہ میں شریک نہ ہوسکا، لیکن اگلے روز آپ کی بارگاہ میں حاضری دی، راستے میں ایک نثری نظم ترتیب پائی جو آپ کی قبر انور کے پاس بیٹھے کر مکمل ہوئی۔ آپ اٹک شہر کے قدیم اور بڑے قبرستان کے عقب میں محو استراحت ہیں۔

باچا صاحب کے قدموں میں بیٹھ کے نذارانۂ آپ کی خدمت میں

وہ جو اک صبح کی طرح پرنور

وہ جو اک دن کی طرح روشن

وہ جو رات میں بھی اجالا تھا

وہ جو صبح کا اک ستارہ تھا

وہ جو دریا کا اک کنارہ تھا

وہی بس آخری سہارہ تھا

وہ کسی دشت میں جیسے

ٹھنڈے پانی کا استعارہ تھا

وہ کڑی دھوپ میں جیسے

بوڑھے برگد کی چھائوں کی مانند

سرد شاموں کے راہی کا

ہمسفر وہ اکیلا سا

ساتھ چلتا تھا سائے کی مانند

وہ کسی دور ٹیلے پہ

خستہ حال اک مکاں کی چھت ہو جیسے

وہ جو خاموش اک سمندر تھا

وہ اک جہان اپنے اندر تھا

اس کے ہونے سے زیست میں رونق

جسم میں روح کی جو صورت تھا

آئو چلتے ہیں اس جانب

دیکھتے ہیں وہ منتظر ہو گا

جس سے رشتہ ہے بس محبت کا

اک محبت یہ والہانہ سی

آئو چلتے ہیں بزم میں اس کی

وہ جو تسکین روح و قالب ہے

بزم ساقی سجی ہوئی ہے مگر

بس وہ ساقی نظر نہیں آتا

سارے مے کش "وہی" وہیں موجود

لیکن وہ اک نظر نہیں آتا

اوڑھ کے وصل کی چادر

وہ نگاہوں سے اوجھل ہے

اپنے جاناں سے وصل کی خاطر

اب نگاہوں سے اوجھل ہے

آہ کہ اب آنکھیں ہیں

شاہ بس منتظر تیری

شاہ بس منتظر تیری۔۔۔۔۔۔

(حسن محمود جماعتی)

29/01/2014

6.26pm
5Pk5glm.jpg
PFXsuVc.jpg
408RE6Z.jpg

 
؎ علی پور سیداں شریف

حضرت بابا صادق شاہ ولی سرکار معروف بہ بابا بیری والی سرکار رحمۃ اللہ علیہ

علی پور سیداں بچپن سے آنا جانا ہے۔ اس مزار کو دیکھا تھا لیکن کبھی حاضری نہ دی تھی۔ 2013 میں پیا رنگ کالا کے مطالعہ میں یہ نام نظر سے گزرا لیکن وہم و گمان میں بھی نہ تھا یہ ہستی وہی ہیں جن کے دربار کے باہر سے اکثر گزر رہتا ہے۔ یہی واقعہ 2013 میں بھی ہوا۔ جب حضور قبلۂ عالم پیر سید جماعت علی شاہ صاحب کی بارگاہ میں حاضری کے بعد ان کے والدین کی قبور جو ان کے مزار کے سرہانے کی جانب چند گز فاصلے پر موجود قبرستان میں ہے کی طرف جاتے ہوئے یہ نام پڑھا۔ تو ٹھہر گیا کہ یہ نام کہیں پڑھا ہے۔ پہلی بار مزار کے احاطے میں پاؤں رکھا اور قبر انور پر حاضری دی۔ مکمل نام پڑھنے پہ جھماکا ہوا "ارے یہ تو وہی ہیں جن کا ذکر بابا یحي جی نے پیارنگ کالا میں کیا ہے۔ جہاں سے وہ سکے چرانے آتے تھے اور پھر۔۔۔۔۔
پورے گاؤں میں واحد جگہ ہے جہاں بیری کے درخت اور اس قدر زیادہ ہیں کہ پورا مزار ان کی چھاؤں میں آجاتا ہے۔

yXXvwME.jpg
VY9rlxQ.jpg
Y5LRRgl.jpg
 
؎ پاکپتن شریف
پاکپتن شریف دو بار حاضری نصیب ہوئی۔ پہلی بار جولائی 2013 اور دوسری بار اگست 2016۔ پاکپتن شریف خود آپ اپنا تعارف ہے۔ اس کا تعارف کیا کرایا جائے۔

حضرت عبد اللہ علبمردار معروف بہ خواجہ عزیز مکی رضی اللہ عنہ
مشہور ہے یہ صحابی رسول ہیں۔ منسوب بہ حضرت بابا فرید گنج شکر ہے کہ پاکپتن آئيں تو پہلے یہاں حاضری دیں پھر میرے پاس آیا جائے۔ دونوں باتوں کا کوئي کتابی حوالہ اور سند تا وقت تحریر میسر نہیں ہے۔

79o6jmC.jpg
IM2DJmG.jpg
jVyGUYB.jpg


حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ

فریدا ایسا ہو رہو ، جیسا ککھ مسیت
پیرا تلے لتاڑیئے کدیں، نہ چھوڑیں پریت
اٹھ فریدا ستیا، جھاڑو دے مسیت
تو ستا رب جاگدا، تیری ڈاہڈے نال پریت

تن نہ تپا تنور جیوں بالن ہڈ نہ بال
سر پیریں کیا پھیڑیا اندر پری نہال

پیریں بیڑا ٹھیلھ کے کنڈھیں کھڑا نہ رو
وت نہ آون تھیسیا ایت نہ نیندڑی سو
(بابا فرید گنج شکر)

wCWiyTy.jpg

بابا جی کے قبر انور کی پائنتی کی جانب اک دروازہ ہے۔ یہ اس کا بیرونی منظر۔

8GxdNQa.jpg
C9eqV5M.jpg


ملحقہ مسجد

NAb4qGv.jpg

چلہ گاہ منسوب بہ حضرت صابر علاؤالدین کلیری رحمۃ اللہ علیہ

zaBzGPf.jpg

مکمل احاطے کا ایک پینا روما

briFHyP.jpg

 

جاسمن

لائبریرین
بہت خوب!
اللہ اِن سب کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے۔ آمین!
اور ہمیں بھی دنیا و آخرت میں خوشیاں اور آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین!
 

فاخر رضا

محفلین
؎ پاکپتن شریف
پاکپتن شریف دو بار حاضری نصیب ہوئی۔ پہلی بار جولائی 2013 اور دوسری بار اگست 2016۔ پاکپتن شریف خود آپ اپنا تعارف ہے۔ اس کا تعارف کیا کرایا جائے۔

حضرت عبد اللہ علبمردار معروف بہ خواجہ عزیز مکی رضی اللہ عنہ
مشہور ہے یہ صحابی رسول ہیں۔ منسوب بہ حضرت بابا فرید گنج شکر ہے کہ پاکپتن آئيں تو پہلے یہاں حاضری دیں پھر میرے پاس آیا جائے۔ دونوں باتوں کا کوئي کتابی حوالہ اور سند تا وقت تحریر میسر نہیں ہے۔

79o6jmC.jpg
IM2DJmG.jpg
jVyGUYB.jpg


حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ

فریدا ایسا ہو رہو ، جیسا ککھ مسیت
پیرا تلے لتاڑیئے کدیں، نہ چھوڑیں پریت
اٹھ فریدا ستیا، جھاڑو دے مسیت
تو ستا رب جاگدا، تیری ڈاہڈے نال پریت

تن نہ تپا تنور جیوں بالن ہڈ نہ بال
سر پیریں کیا پھیڑیا اندر پری نہال

پیریں بیڑا ٹھیلھ کے کنڈھیں کھڑا نہ رو
وت نہ آون تھیسیا ایت نہ نیندڑی سو
(بابا فرید گنج شکر)

wCWiyTy.jpg

بابا جی کے قبر انور کی پائنتی کی جانب اک دروازہ ہے۔ یہ اس کا بیرونی منظر۔

8GxdNQa.jpg
C9eqV5M.jpg


ملحقہ مسجد

NAb4qGv.jpg

چلہ گاہ منسوب بہ حضرت صابر علاؤالدین کلیری رحمۃ اللہ علیہ

zaBzGPf.jpg

مکمل احاطے کا ایک پینا روما

briFHyP.jpg

کیا بات ہے حسن بھائی. خدا آپ کو سلامت رکھے اور آپ ایسے ہی زیارات کراتے رہیں. یہ اولیاء خود خدا کے برگزیدہ تھے. خدا ہمیں بھی اپنا چاہنے والا بنائے
 
Top