داعش کا فتنہ اور اہل توحید کی ذمہ داریاں

تو اس کا حل یہی ہے کہ جہاں یہ جھوٹ بول کر باور کرائیں انہی کی زبان میں انہیں باور کرایا جائے کہ آپ درست نہیں فرما رہے. امریکہ سے نفرت کی وجوہات وہ نہیں جو آپ ہمیں بتا رہے ہیں بلکہ اسکی ناکام خارجہ پالیسی. استعمارانہ اور دنیا کو اپنا بیک یارڈ سمجھنا اور اپنی مرضی سے متضاد پالیسیاں اپنانا ہے جس میں سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہو رہا ہے کیونکہ یاد رکھیں جو جتنا بڑا جابر اور ظالم ہوتا ہے اتنا ہی بڑا بزدل اور منافق بھی ہوتا ہے امریکہ چھے سو سال پرانی قوم ہے اور مسلمان قوم کو وجود میں آئے چودہ سو سال گزر چکے ہیں.
آپ ہمیں ایسے اگنور نہیں کر سکتے
 
امريکی حکومت کے پاس نہ تو اتنے وسائل ہيں اور نہ ہی خواہش کہ وہ ہزاروں ميل دور ممالک ميں بڑے پيمانے پر عوامی ريليوں اور احتجاجی مظاہروں کو کنٹرول کر سکے يا ان کا موجب بنے۔
لیکن اسرائیل کو اڑتیس بلین ڈالر دینے کے وسائل اور خواہش موجود ہیں
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
تو اس کا حل یہی ہے کہ جہاں یہ جھوٹ بول کر باور کرائیں انہی کی زبان میں انہیں باور کرایا جائے کہ آپ درست نہیں فرما رہے. امریکہ سے نفرت کی وجوہات وہ نہیں جو آپ ہمیں بتا رہے ہیں بلکہ اسکی ناکام خارجہ پالیسی. استعمارانہ اور دنیا کو اپنا بیک یارڈ سمجھنا اور اپنی مرضی سے متضاد پالیسیاں اپنانا ہے جس میں سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہو رہا ہے کیونکہ یاد رکھیں جو جتنا بڑا جابر اور ظالم ہوتا ہے اتنا ہی بڑا بزدل اور منافق بھی ہوتا ہے امریکہ چھے سو سال پرانی قوم ہے اور مسلمان قوم کو وجود میں آئے چودہ سو سال گزر چکے ہیں.
آپ ہمیں ایسے اگنور نہیں کر سکتے
سر سو بات کی ایک بات ... ڈنڈا ان کے ہاتھ میں ہے ... اب آپ کا کچھ بھی کہنا صرف "میں میں" کے سوا کچھ نہیں ....ان کے پاس 600 سال میں ڈنڈا آگیا ہم 1400 سال میں بھی بکری بنے ہوئے ہیں
 

فاخر رضا

محفلین
سر سو بات کی ایک بات ... ڈنڈا ان کے ہاتھ میں ہے ... اب آپ کا کچھ بھی کہنا صرف "میں میں" کے سوا کچھ نہیں ....ان کے پاس 600 سال میں ڈنڈا آگیا ہم 1400 سال میں بھی بکری بنے ہوئے ہیں
اکمل زیدی
ایسے وقتوں میں دو سال کا اونٹ بننے کو کہا گیا ہے، بکری یا شیر بننے کو نہیں کہا گیا
 

Fawad -

محفلین
اس ساری جنگ میں جو اسلحہ استعمال ہو رہا ہے وہ اسلحہ داعش اپنے گھر پر بناتی ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ تمام گروپس کو ملنے والا اسلحہ بنیادی طور پر کالا شاہ کاکو میں بنتا ہے اور گدھوں پر لوڈ ہو کر بذریعہ ایران سمگل ہوتا ہے اور ان گدھوں پر خصوصی رنگ کیا جا سکتا ہے جسے اپنے زعم میں دنیا کی سپر پاور جو اپنے مجرموں کو کہیں بھی پکڑ سکتی ہے کے ایڈوانس سیٹیلائیٹ سسٹمز ٹریس نہیں کر سکتے نہ ان کے اسلحے کے لیئے کوئی پیسہ دیا جاتا ہے جسکی ٹرانزیکشنز کا امریکہ کو علم ہو سکے کیوں کہ ویسٹرن یونین پر ایک ہزار ڈالر ارسال کرنے والے کی ٹرانزیکشن تو رک سکتی ہے اس شک میں کہ کہیں وہ دہشت گردی کی سپورٹ میں نہ ہو سکے لیکن ہزاروں ٹویوٹا گاڑیاں خریدی جاتی ہیں ۔ ان کے پیسے دیئے جاتے ہیں اسلحہ خریدا جاتا ہے اس کے پیسے دیئے جاتے ہیں ۔ داعش تیل کی ریفائنریز پر قبضہ کرتا ہے اور تیل فروخت کرتا ہے ان کی ادائیگی ہوتی ہے ۔ اربوں ڈالر کا اسلحہ اور سیکڑوں سرقلم کی ویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہیں لیکن امریکہ کو پتہ نہیں چلتا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ دہشت گردوں کے تعاقب کے ليے امريکی حکومت کو بہترين ميسر ٹيکنالوجی تک رسائ حاصل ہے، تاہم عملی طور طور پر يہ ممکن نہيں ہے کہ دنيا کے مختلف خطوں ميں دہشت گرد جن وسائل کو بروئے کار لاتے ہيں انھيں مکمل طور پر ختم کر ديا جائے۔

آپ کا يہ سوال کہ تمام تر ٹيکنالوجی ميسر ہونے کے باوجود امريکہ آج تک داعش کو مکمل طور پر شکست دينے ميں کيوں کامياب نہيں ہو سکا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ شايد سی – آئ – اے، ايف – بی – آئ اور امريکی حکومت کے مختلف محمکموں کے طريقہ کار، اختيارات اور اميج کے حوالے سے صرف اتنا ہی جانتے ہيں جو ہالی وڈ کی فلموں ميں دکھايا جاتا ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايجنسياں اپنی فيلڈ ميں بڑے پروفيشنل طريقے سے کام کرتی ہيں ليکن يہ کوئ ايسی جادوئ اور غير انسانی قوتوں کی مالک تنظيميں نہيں ہيں جو دنيا ميں پيش آنے والے تمام واقعات کو کنٹرول کريں۔ آپ کسی بھی دور ميں سی – آئ – اے اور ايف – بی –آئ کو مطلوب افراد کی فہرست ديکھ ليں، اس ميں زيادہ ترلوگ ايسے ہوں گے جو امريکہ کی سرحدوں کے اندر ہی رہائش پذير ہيں۔ ايسے کئ کيسيز کی مثال دی جا سکتی ہے (مثال کے طور پريونا بمبر) جس ميں ان ايجنسيوں کو مطلوب افراد کو امريکہ کے اندر رہائش کے باوجود کئ سالوں تک گرفتار نہيں کيا جا سکا۔ داعش کے دہشت گرد تو نا ہی امريکہ کے اندر روپوش ہيں اور نا ہی ان کے حملوں کے ليے مالی اعانت ہماری سرحدوں کے اندر سے کی جا رہی ہے۔ ان دہشت گردوں کی اکثر کاروائياں ان بيرونی ممالک اور خطوں سے کی جا رہی ہيں جو ان کے قبضے ميں يا زير اثر ہیں۔

عراق اور شام ميں مختلف علاقوں اور زمينوں پر قبضہ جمانے کے بعد يہ کوئ حيران کن امر نہيں ہے کہ آئ ايس آئ ايس نے مختصر سے عرصے ميں دنيا کی امير ترين دہشت گرد تنطيم کا "اعزاز" حاصل کر ليا ہے اور اس کی بڑی وجہ اس تنظيم کے زير تسلط علاقوں ميں منظم لوٹ مار اور وسائل پر بے دريخ قبضہ ہے جو ان کی حکمت عملی کا اہم حصہ رہا ہے۔

يقینی طور پر آئ ايس آئ ايس کچھ بيرونی ذرائع سے بھی رقم حاصل کرتی ہے تاہم يہ ان وسائل کے مقابلے ميں کافی کم ہے جو اس تنظيم نے اپنی مجرمانہ اور دہشت گردی پر مبنی کاروائيوں سے حاصل کر رکھے ہيں۔

امريکہ اور عالمی مالياتی نظام ميں ديگر اہم کردار دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق خطرات اور اس پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت سے پوری طرح آشنا ہيں۔ عالمی مالياتی نظام ميں اپنے جن شراکت داروں کے ساتھ ہم ان معاملات پر نظر رکھتے ہيں ان ميں ايف اے ٹی ايف (انٹر گورمينٹل فائنينشل ايکشن ٹاسک فورس) کے علاوہ معاشی محتسب، معاشی ادارے اور ان کے ايسے اعلی عہديدار شامل ہيں جو قواعد وضوابط پر عمل داری کو يقینی بناتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
 

قیصرانی

لائبریرین
Fawad - پاکستان کو بلا امتیاز کاروائی کا کہتے ہوئے امریکہ کیوں داعش, فری سیرئین آرمی, اور شام میں متحارب دھڑوں میں تفریق کرتا ہے کیا یہ منافقت نہیں کہ پاکستان کو بلا امتیاز کارروائی کا مشورہ دیتے ہوئے اپنی امتیازی کاروائی نظر نہیں آتی... ؟؟؟؟
اس سوال کا جواب میں دیکھنے کا منتظر ہوں
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ دہشت گردوں کے تعاقب کے ليے امريکی حکومت کو بہترين ميسر ٹيکنالوجی تک رسائ حاصل ہے، تاہم عملی طور طور پر يہ ممکن نہيں ہے کہ دنيا کے مختلف خطوں ميں دہشت گرد جن وسائل کو بروئے کار لاتے ہيں انھيں مکمل طور پر ختم کر ديا جائے۔

آپ کا يہ سوال کہ تمام تر ٹيکنالوجی ميسر ہونے کے باوجود امريکہ آج تک داعش کو مکمل طور پر شکست دينے ميں کيوں کامياب نہيں ہو سکا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ شايد سی – آئ – اے، ايف – بی – آئ اور امريکی حکومت کے مختلف محمکموں کے طريقہ کار، اختيارات اور اميج کے حوالے سے صرف اتنا ہی جانتے ہيں جو ہالی وڈ کی فلموں ميں دکھايا جاتا ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ يہ ايجنسياں اپنی فيلڈ ميں بڑے پروفيشنل طريقے سے کام کرتی ہيں ليکن يہ کوئ ايسی جادوئ اور غير انسانی قوتوں کی مالک تنظيميں نہيں ہيں جو دنيا ميں پيش آنے والے تمام واقعات کو کنٹرول کريں۔ آپ کسی بھی دور ميں سی – آئ – اے اور ايف – بی –آئ کو مطلوب افراد کی فہرست ديکھ ليں، اس ميں زيادہ ترلوگ ايسے ہوں گے جو امريکہ کی سرحدوں کے اندر ہی رہائش پذير ہيں۔ ايسے کئ کيسيز کی مثال دی جا سکتی ہے (مثال کے طور پريونا بمبر) جس ميں ان ايجنسيوں کو مطلوب افراد کو امريکہ کے اندر رہائش کے باوجود کئ سالوں تک گرفتار نہيں کيا جا سکا۔ داعش کے دہشت گرد تو نا ہی امريکہ کے اندر روپوش ہيں اور نا ہی ان کے حملوں کے ليے مالی اعانت ہماری سرحدوں کے اندر سے کی جا رہی ہے۔ ان دہشت گردوں کی اکثر کاروائياں ان بيرونی ممالک اور خطوں سے کی جا رہی ہيں جو ان کے قبضے ميں يا زير اثر ہیں۔

عراق اور شام ميں مختلف علاقوں اور زمينوں پر قبضہ جمانے کے بعد يہ کوئ حيران کن امر نہيں ہے کہ آئ ايس آئ ايس نے مختصر سے عرصے ميں دنيا کی امير ترين دہشت گرد تنطيم کا "اعزاز" حاصل کر ليا ہے اور اس کی بڑی وجہ اس تنظيم کے زير تسلط علاقوں ميں منظم لوٹ مار اور وسائل پر بے دريخ قبضہ ہے جو ان کی حکمت عملی کا اہم حصہ رہا ہے۔

يقینی طور پر آئ ايس آئ ايس کچھ بيرونی ذرائع سے بھی رقم حاصل کرتی ہے تاہم يہ ان وسائل کے مقابلے ميں کافی کم ہے جو اس تنظيم نے اپنی مجرمانہ اور دہشت گردی پر مبنی کاروائيوں سے حاصل کر رکھے ہيں۔

امريکہ اور عالمی مالياتی نظام ميں ديگر اہم کردار دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق خطرات اور اس پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت سے پوری طرح آشنا ہيں۔ عالمی مالياتی نظام ميں اپنے جن شراکت داروں کے ساتھ ہم ان معاملات پر نظر رکھتے ہيں ان ميں ايف اے ٹی ايف (انٹر گورمينٹل فائنينشل ايکشن ٹاسک فورس) کے علاوہ معاشی محتسب، معاشی ادارے اور ان کے ايسے اعلی عہديدار شامل ہيں جو قواعد وضوابط پر عمل داری کو يقینی بناتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ایک آدمی ایران سے پاکستان داخل ہوتا ہے اور اسے ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا جاتا ہے جو بعد میں ایک بڑا دہشت گرد نکلتا ہے. وہاں ٹیکنالوجی کام کر جاتی ہے. لیکن ایک گروہ ہزاروں جنگ جوؤں کو بھرتی کرتا ہے. علاقوں پر قبضہ کرتا ہے. میڈیا کیمپینز چلاتا ہے لیکن وہاں ان کی مثال آپ انفرادی مجرموں سے تقابل کی صورت دیتے ہیں.... بصد احترام آپ کا جواب ناقابل یقین بھی ہے اور بےحد سطحی بھی.
یہاں بھی سوال گندم جواب چنا والی بات ہو گئی فواد صاحب... پلیز تیاری کر کے تشریف لائیں

اور وہ آخری والا سوال ابھی تک جواب سے مشرف نہیں ہوا.... آپ کا ہمارے لیے طے کردہ معیار آپ پر شام میں لاگو کیوں نہیں ہوتا جہاں آپ خود گڈ ٹیررسٹ اور بیڈ ٹیررسٹ میں تفریق کرتے ہیں. باغیوں کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں اور داعش کو مارنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں اور داعش کی تیسرے درجے کی قیادت کو مار بھی رہے ہیں تو اگر وہاں آپ کے لیے ایک چیز جائز ہے تو یہاں ہمارے لئے کیوں نہیں حالانکہ آپ وہاں ایک جاری بغاوت میں براہ راست ملوث بھی ہیں اسلحہ ہوائی فوج کی مدد اور انٹیلیجنس تک آپ خود تسلیم کرتے ہیں
 

Fawad -

محفلین
لیکن فلسطین پر قابض دن رات ایگریشن کرنے والے اسرائیل کی حکومت کو اڑتیس بلین ڈالر کی فوجی امداد دی جاتی ہے کیا یہ منظر نامہ ایک بڑے پیمانے پر غیر متوازن امریکی پالیسیوں کو ظاہر نہیں کرتا... ؟؟؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اسرائيل کو دی جانے والی امريکی امداد

امريکی حکومت کی جانب سے اسرائيل، فلسطين يا کسی بھی ملک کو دی جانے والی امداد بہت سے عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ اس ضمن ميں کوئ ايسا مستقل کليہ يا ضابطہ استوار نہيں کيا جا سکتا جو بيک وقت دنيا کے تمام ممالک کی ہر پل بدلتی ہوئ صورت حال اور ضروريات کو مد نظر رکھتے ہوئے بحث و مباحثے سے مبرا ہو۔ يہ ايک مستقل عمل کا حصہ ہوتا ہے جس ميں سرکاری اور غير سرکاری تنظيموں اور دونوں ممالک کے مختلف اداروں کے بے شمار ماہرين شامل ہوتے ہيں۔

عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ باہمی مفاد کے ايسے پروگرام اور مقاصد پر اتفاق رائے کیا جائے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ اسی تناظر ميں وہی روابط برقرار رہ سکتے ہيں جس ميں دونوں ممالک کا مفاد شامل ہو۔ دنيا ميں آپ کے جتنے دوست ہوں گے، عوام کے معيار زندگی کو بہتر کرنے کے اتنے ہی زيادہ مواقع آپ کے پاس ہوں گے۔

يہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ امريکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد مختلف جاری منصوبوں اور زمينی حقائق کی روشنی ميں دونوں ممالک کے مابين باہم تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے وقت کے ساتھ تبديل ہوتی رہی ہے۔

مثال کے طور پر اس وقت امريکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ فاٹا ميں جاری ترقياتی منصوبوں پر صرف ہو رہا ہے تاکہ اس علاقے کے لوگوں کو متبادل ذريعہ معاش کے مواقع مہيا کر کے دہشت گردی کا مقابلہ کيا جا سکے۔

اسی طرح اگر آپ سال 2000 سے اسرائيل کو دی جانے والی امداد کا جائزہ ليں تو سال 2003 کے سوا ہر سال اسرائيل کی غير ملکی امداد پر انحصار کے توازن اور ضرورت کے پيش نظر امريکی امداد ميں بتدريج کمی واقع ہوئ ہے۔ ليکن اسی عرصے ميں امريکہ فلسطين کو امداد دينے والے ممالک ميں سرفہرست ہے۔

اس کے علاوہ جب آپ اسرائيل اور فلسطين کو دی جانے والی امريکی امداد کا تقابلی جائزہ پيش کرتے ہیں تو آپ تصوير کے صرف ايک چھوٹے سے حصے پر اپنی توجہ مرکوز کيے ہوئے ہیں۔ آپ کو اس پورے خطے ميں امريکہ کی جانب سے اپنے دوستوں اور اتحاديوں کو دی جانے والی امداد کا تقابلی جائزہ لينا ہو گا جو کہ غير جانب داری اور توازن کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس ضمن ميں آپ اس خطے ميں عرب ممالک کو دی جانے والی امداد کے اعداد وشمار کو بھی مد نظر رکھيں۔ اپنی بات کی دليل کے ليے ميں آپ کو مصر کی مثال دوں گا جس کو امريکہ کی جانب سے پچھلی تين دہائيوں ميں 28 بلين ڈالرز کی امداد دی جا چکی ہے۔


Egypt | U.S. Agency for International Development

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
 

Fawad -

محفلین
ایک اور بات کی وضاحت بھی کر دیں کہ شام میں موجود باغیوں، القاعدہ اور آئی ایس میں امریکہ اور روس کس طرح تمیز کریں گے. یہ انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے. اس حوالے سے روس پھر بھی ایک واضح موقف رکھتا ہے جبکہ امریکہ کا موقف بار بار بدل رہا ہے. کبھی نرم کبھی گرم. Fawad -


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ اصولی طور پر بھی اور اپنی پاليسی کے تحت بھی ہم کسی بھی ايسے گروہ کی حمايت نہيں کرتے جو دہشت گردی کی سوچ پر عمل پيرا ہو اور اپنی خواہش اور ايجنڈے کو خوف، تشدد اور افراتفری کے ذريعے مسلط کرنے پر يقین رکھتا ہے۔ ايسی کوئ‏ بھی حکمت عملی خطے ميں ہمارے واضح کردہ اہداف کی نفی کرتی ہے جس کے تحت خطے کے ان عام شہريوں کے ليے پائيدار امن کا حصول مقصود ہے جو داعش اور شامی حکومت کے مظالم کی وجہ سے دہشت گردی کا شکار ہيں۔

جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو اس ضمن ميں يہ وضاحت ضروری ہے کہ امريکہ تن تنہا فيصلے نہيں کر رہا ہے۔ ہم ايک ايسے اتحاد کا حصہ ہيں جس ميں ساٹھ سے زيادہ ممالک شامل ہيں جو عالمی دہشت گردی کے عفريت سے اپنے شہريوں کو محفوظ کرنے کے ليے مشترکہ کاوشيں کر رہے ہيں۔ اسی طرح شام ميں بھی ہم علاقائ فريقين اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہيں جو زمينی اينٹيلی جنس اور اس ضمن ميں وسائل فراہم کرنے ميں کليدی کردار ادا کر رہے ہيں۔

جہاں تک شام کے تنازعے کے حوالے سے امريکی کردار کا سوال ہے تو ہماری جانب سے اس معاملے کے پرامن حل کے ليے تمام فريقين پر اشتراک عمل کے ليے زور ديا گيا ہے۔ علاوہ ازيں ہم اس حقيقت کو بھی اجاگر کر رہے ہيں کہ اس ضمن ميں پائيدار اقدامات نا اٹھانے کی صورت ميں جو ممکنہ صورت حال سامنے آ سکتی ہے اس ميں شام ميں پرتشدد واقعات ميں اضافہ خطے کے ديگر ممالک پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے جن میں ہمارے اہم ترين اتحادی اور شراکت دار بھی شامل ہيں۔

اس حوالے سے کوئ ابہام يہ غلط فہمی نہيں ہونی چاہيے کہ زمين پر پيش آنے والے واقعات کے تسلسل نا تو امريکی اختيار ميں ہيں اور نا ہی يہ امريکہ کے زير نگرانی ہو رہے ہيں

ايک وسيع اتحاد کا حصہ ہونے کی حيثيت سے ہمارا کردار اور حمايت فراہم کرنے کا فيصلہ ہمارے اس عزم کا آئينہ دار ہے جس کے تحت ہم شام کے ان باسيوں کے ساتھ کھڑے ہيں جو ايک ايسی حکومت کے خلاف برسرپيکار ہيں جس نے نا صرف يہ کہ انھيں تنہا چھوڑ ديا ہے بلکہ اپنے ہی شہريوں پر حملے کے ليے تمام تر وسائل کو استعمال کرنے سے بھی گريز نہيں کر رہی ہے۔

اسی بات کو امريکی وزير خارجہ جان کيری نے بھی اپنے ايک حاليہ بيان ميں اجاگر کيا ہے۔

"ہم يہ اس ليے کر رہے ہيں کیونکہ اس لڑائ ميں ہم ان کا ساتھ دے رہے ہيں جو ايک مرتبہ پھر شام کو ابھرتا ہوا ديکھنا چاہتے ہيں اور جو جمہوريت اور انسانی حقوق کی بالا دستی کے متمنی ہيں۔ يقینی طور پر بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور ہم اس بات کا خطرہ مول نہيں لے سکتے کہ مشرق وسطی کے دل ميں واقع ايک ملک کو ايک بے رحم حاکم کے ہاتھوں تباہ ہونے ديں يا ملک کو دہشت گردوں کے ہاتھوں ميں جانے ديں۔"

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos
 

Fawad -

محفلین
امریکہ بہادر اسرائیل شریف کو اڑتیس ارب کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے جبکہ اسکا انسانی حقوق اور فلسطینی عوام پر پھول برسانے کا شاندار ریکارڈ بھی ابو اسرائیل امریکہ بہادر پر واضح ہے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

پہلی بات تو يہ ہے کہ امريکہ اور اسرائيل کے درميان جو فوجی معاہدہ طے پايا ہے وہ دس سال کے عرصے پر محيط ہے جس کا مطلب يہ ہے کہ 38 بلين ڈالرز ايک دہائ کے دوران ديے جائيں گے جو اوسط ہر سال قريب 8۔3 بلين ڈالرز بنتے ہيں۔

دوسری بات يہ ہے کہ اگر آپ اسرائيل کے ليے امريکی فوجی امداد کو خطے کے سياسی اور جغرافيائ منظر نامے کے تناظر ميں ديکھنے پر بضد ہيں اور اس امداد کو امريکی کی جانب سے اسرائيل کی طرف داری اور عرب دنيا کے لیے مبينہ بغض سے تعبير کرتے ہيں تو پھر انصاف کا تقاضا تو يہ ہے کہ آپ ان اعداد وشمار پر بھی ايک نظر ڈالیں جو امريکہ کی جانب سے خطے کے عرب ممالک کو دی جانے والی امداد کے ضمن ميں ريکارڈ کا حصہ ہيں۔ صرف اسی صورت ميں آپ درست تناظر کو سمجھ سکتے ہيں۔

مثال کے طور پر کيا آپ جانتے ہيں سال 2010 ميں امريکہ نے فوجی ساز وسامان کے حوالے سے اپنی تاريخ کا سب سے بڑا معاہدہ سعودی عرب کے ساتھ کيا تھا جس کی لاگت قريب ساٹھ بلين ڈالرز ہے؟

Barack Obama to authorise record $60bn Saudi arms sale

علاوہ ازيں جب آپ ديگر ممالک کے ليے امريکہ کی عسکری امداد کو اجاگر کرتے ہيں تو پھر آپ اس بات کو بھی مدنظر رکھيں کہ ان فوجی معاہدوں ايک بڑا حصہ ہمارے بہت سے شراکت داروں اور اتحاديوں کی دفاعی ضروريات کو پورا کرنے کے ليے بھی خرچ ہوتا ہے جو ہماری جانب سے دی جانے والی امداد، سازوسامان، تربيت اور لاجسٹک اسپورٹ پر انحصار کرتے ہيں۔

اس تناظر ميں سال 2014 ميں بيرونی فوجی اعانت وصول کرنے والے سرفہرست ممالک کی لسٹ پيش ہے۔

اسرائيل – 1۔3 بلين ڈالرز
مصر – 3۔1 بلين ڈالرز
عراق – 300 ملين ڈالرز
جارڈن – 300 ملين ڈالرز
پاکستان – 280 ملين ڈالرز

آپ ديکھ سکتے ہيں کہ اس لسٹ ميں 5 ميں سے 4 اسلامی ممالک ہيں۔

صرف يہی نہيں بلکہ اگر ہم خطے کی سطح پر بھی امريکی امداد کی تقسيم کا تجزيہ کريں تو آپ پر واضح ہو گا کہ گزشتہ برس امريکہ کی کل فوجی امداد کا قريب 86 فيصد ان دو خطوں پر خرچ کيا گيا۔

مشرق وسطی 64 فيصد
افريقہ 23 فيصد

عالمی سطح پر سياسی، معاشی اور معاشرتی تبديليوں کے ساتھ امريکی کی جانب سے عسکری معاونت کے ضمن ميں ردوبدل بھی ملحوظ رکھنا چاہيے۔ تاہم گزشتہ تين برسوں کے دوران بيرونی ممالک کو دی جانے والی عسکری معاونت قدرے يکساں رہی ہے۔ سال 2013 ميں 7۔5 بلين ڈالرز، سال 2014 میں 9۔5 بلين ڈالرز اور سال 2015 ميں 6۔5 بلين ڈالرز بيرون ممالک کو عسکری معاونت کے ضمن ميں ديے گئے ہيں۔ ان تين سالوں کے دوران وہ پانچ ممالک جو عسکری معاونت وصول کرنے والے ممالک ميں سرفہرست رہے ہيں ان ميں اسرائيل، مصر، عراق، جارڈن اور پاکستان شامل ہيں اور ان تمام ممالک کو اس دورانيے ميں قريب يکساں فوجی امداد فراہم کی گئ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 

Fawad -

محفلین
پاکستان کو بلا امتیاز کاروائی کا کہتے ہوئے امریکہ کیوں داعش, فری سیرئین آرمی, اور شام میں متحارب دھڑوں میں تفریق کرتا ہے کیا یہ منافقت نہیں کہ پاکستان کو بلا امتیاز کارروائی کا مشورہ دیتے ہوئے اپنی امتیازی کاروائی نظر نہیں آتی... ؟؟؟؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ تاثر حقائق کے منافی ہے کہ امريکی حکومت کسی بھی ايسے گروہ کی حمايت کرے گی يا اس کی کاروائيوں کو درست قرار دے گی جو اپنے سياسی نظريات اور ايجنڈے کو آگے بڑھانے کے ليے دہشت گردی کو درست حکمت عملی قرار دے۔ امريکہ سميت تمام اتحادی ممالک کی جانب سے شام کی ظالم حکومت کے خلاف کھڑے ہونے والے باغيوں کی حمايت کا فيصلہ ہمارے اس واضح اصولی موقف کے عين مطابق ہے جو کسی بھی جارح حکمران کی جانب سے ڈھانے جانے والے مظالم کے ردعمل ميں کھڑے ہونے والے شہريوں کے حوالے سے ہميشہ سے رہا ہے۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت کی جانب سے ان بے سہارا لوگوں کی مدد سے انکار شام کے جاری سانحے کے ضمن ميں مناسب طرز عمل ہو گا؟

آپ ہميں اس بنياد پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہيں کہ ہم حکومت پاکستان سے بغير کسی تفريق کے تمام دہشت گردوں کے خلاف يکساں کاروائ کی اپيل کرتے ہيں۔ ليکن اگر اس دليل کو دوسرے زاويے سے ديکھيں تو کيا آپ کے ليے يہ بات قابل قبول ہو گی کہ کسی بھی ايسے گروہ کو اپنی دہشت گردی کی مہم جاری رکھنے کے ليے کھلی چھٹی دينا درست اقدام قرار ديا جا سکتا ہے جو پاکستان کے اندر يا باہر عام انسانوں کو نشانہ بنا رہا ہے؟ کيا آپ ايمانداری سے يہ سمجھتے ہيں کہ کسی بھی حکومت کی جانب سے کسی بھی ايسی پاليسی کی حمايت کی جا سکتی ہے جس کے تحت کسی بھی فرد يا گروہ کی دہشت گردی کو "بھول جاؤ اور معاف کرو" کے اصول کے تحت اپنی کاروائياں جاری رکھنے کی اجازت دے دی جائے؟

ايک دہشت گرد تنظيم جس کی اپنی تاريخ اور ايجنڈہ دانستہ بے گناہوں کو نشانہ بنانے سے عبارت ہو، اسے کبھی بھی سياسی اکائ تسليم نہيں کيا جا سکتا چاہے اس کے دعوے اور عزائم کتنے ہی خوشنما کيوں نہ ہوں۔

دہشت گردی کے سدباب کے ضمن ميں ہم سب متفق ہيں۔ يہ نا صرف خطے کے ليے بلکہ پاکستان کے استحکام کے ليے بھی اشد ضروری ہے۔ امريکی حکومت خطے ميں فعال دہشت گرد تنظيموں اور ان کے ليڈروں کو عالمی امن اور سيکورٹی کے ساتھ ساتھ جنوب ايشاء کے ليے بھی يکساں خطرہ سمجھتی ہے۔

ہماری جانب سے ان خونی عناصر کے تعاقب کا عزم اور پھر اپنے ايسے شراکت داروں اور اتحاديوں کے ساتھ اس ارادے کا اعادہ جو ان عناصر سے درپيش خطرات کی حقيقت کو بھی تسليم کرتے ہيں اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہم ايک مشترکہ مقصد کے ليے اپنے وسائل تک باہم رسائ کے اصول پر کاربند ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ تاثر حقائق کے منافی ہے کہ امريکی حکومت کسی بھی ايسے گروہ کی حمايت کرے گی يا اس کی کاروائيوں کو درست قرار دے گی جو اپنے سياسی نظريات اور ايجنڈے کو آگے بڑھانے کے ليے دہشت گردی کو درست حکمت عملی قرار دے۔ امريکہ سميت تمام اتحادی ممالک کی جانب سے شام کی ظالم حکومت کے خلاف کھڑے ہونے والے باغيوں کی حمايت کا فيصلہ ہمارے اس واضح اصولی موقف کے عين مطابق ہے جو کسی بھی جارح حکمران کی جانب سے ڈھانے جانے والے مظالم کے ردعمل ميں کھڑے ہونے والے شہريوں کے حوالے سے ہميشہ سے رہا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی حکومت ایک ملک میں شہریوں کی اپنی حکومت سے ناراضگی یا اختلاف کی صورت میں جبکہ وہ اس ملک کے مقبوضہ علاقے بھی ناں ہوں اور وہ شہری اس حکومت کے ظلم و جبر سے تنگ ہوں.. ان کو اسلحہ کی فراہمی کرنا جائز سمجھتی ہے چاہے ایسی صورت میں اس ملک میں خانہ جنگی ہی شروع کیوں نہ ہو جائے. جس کا براہ راست مطلب یہ ہوا کہ جسے آپ درست سمجھیں اسے اسلحہ فراہم کر دیں اور وہ درست ہوگا دوسری صورت میں وہ دہشت گرد اور ٹیررسٹ ہوگا. اگر اسی نقطہ نظر کو درست مان لیا جائے تو کشمیر میں ہونے والے ہندوستانی مظالم جو قریب ستر سال سے جاری ہیں وہاں آپ اسلحہ فراہم کیوں نہیں کرتے حالانکہ وہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور وہاں بلاجواز فوجی قوت کی موجودگی اور ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو شہید بھی کیا جا چکا ہے

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکی حکومت کی جانب سے ان بے سہارا لوگوں کی مدد سے انکار شام کے جاری سانحے کے ضمن ميں مناسب طرز عمل ہو گا؟
مدد کی صورت میں اسلحہ بانٹنے اور خانہ جنگیاں اسپارک کرنے میں امریکہ سے بہتر کون کھلاڑی ہوگا. عراق کے عوام کو آپ نے بہترین آزادی دلائی قیمت کیا تھی دس لاکھ سے زیادہ عراقیوں کا قتل عام فرقہ واریت کا جن اور داعش کا قیام نتیجہ اسرائیل کے مقابلے میں مقامی عربوں کی طاقت کا توڑ..... دوسری مثال لیبیا میں آپ نے مظلوم عوام کی مدد کی نتیجہ دو متوازی حکومتیں اور داعشی عناصر کی پناہ گاہیں..... تیسری مثال شام میں آپ نے عوام کی مدد کی نتیجہ خانہ جنگی اور داعشی پیداوار..... چوتھی مثال ایسی صورت حال تو فلسطین میں بھی ہے اور وہاں تو قبضہ بھی ہے اور مسئلہ بھی اقوام متحدہ کا تسلیم شدہ ہے تو وہاں آپ اسرائیل کو جتنی امداد دے رہے ہیں وہ آپ کے ہی پیش کردہ ٹیبل کے مطابق ان سب سے زیادہ ہے جانتے ہیں وجہ کیا ہے وجہ یہ ہے کہ وہاں کا مظلوم آپ کو مظلوم نہیں لگتا جبکہ اور جگہ آپ اپنے فارمولے ٹرائی کر سکتے ہیں چل گیا تو درست ورنہ یہ مقامی مسئلہ ہے
آپ ہميں اس بنياد پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہيں کہ ہم حکومت پاکستان سے بغير کسی تفريق کے تمام دہشت گردوں کے خلاف يکساں کاروائ کی اپيل کرتے ہيں۔ ليکن اگر اس دليل کو دوسرے زاويے سے ديکھيں تو کيا آپ کے ليے يہ بات قابل قبول ہو گی کہ کسی بھی ايسے گروہ کو اپنی دہشت گردی کی مہم جاری رکھنے کے ليے کھلی چھٹی دينا درست اقدام قرار ديا جا سکتا ہے جو پاکستان کے اندر يا باہر عام انسانوں کو نشانہ بنا رہا ہے؟ کيا آپ ايمانداری سے يہ سمجھتے ہيں کہ کسی بھی حکومت کی جانب سے کسی بھی ايسی پاليسی کی حمايت کی جا سکتی ہے جس کے تحت کسی بھی فرد يا گروہ کی دہشت گردی کو "بھول جاؤ اور معاف کرو" کے اصول کے تحت اپنی کاروائياں جاری رکھنے کی اجازت دے دی جائے؟
آپ یہ کہتے ہیں رنگ داستاں کو اپنے حق میں رنگین کرنے کے لیے. جب آپ سے بین الاقوامی امور پر آپ کی پالیسی پوچھی جاتی ہے تو جواب میں یہ الفاظ ملتے ہی ہیں کہ..... آپ کیا یہ سمجھتے ہیں... منطقی طور پر.... معروف پالیسی کے مطابق.... مظلوموں کی مدد....

معذرت کے ساتھ آپ کا مظلوم شاید کوئی اور ہے اور ہمارا مظلوم کوئی اور ہے.

ايک دہشت گرد تنظيم جس کی اپنی تاريخ اور ايجنڈہ دانستہ بے گناہوں کو نشانہ بنانے سے عبارت ہو، اسے کبھی بھی سياسی اکائ تسليم نہيں کيا جا سکتا چاہے اس کے دعوے اور عزائم کتنے ہی خوشنما کيوں نہ ہوں۔
چاہے وہ امریکہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ امریکہ بہادر نے اپنی جمہوریت کی مدد کا بہانہ بنا کر جتنے ملک تباہ کئے ہیں دہشت گردوں نے اتنی تباہی نہیں پھیلائی اور پچھلے سو برس میں جتنی اموات امریکہ کے ہاتھوں یا اسکی شروع کردہ جنگوں میں ہو چکی ہیں
دہشت گردی کے سدباب کے ضمن ميں ہم سب متفق ہيں۔ يہ نا صرف خطے کے ليے بلکہ پاکستان کے استحکام کے ليے بھی اشد ضروری ہے۔ امريکی حکومت خطے ميں فعال دہشت گرد تنظيموں اور ان کے ليڈروں کو عالمی امن اور سيکورٹی کے ساتھ ساتھ جنوب ايشاء کے ليے بھی يکساں خطرہ سمجھتی ہے۔

ہماری جانب سے ان خونی عناصر کے تعاقب کا عزم اور پھر اپنے ايسے شراکت داروں اور اتحاديوں کے ساتھ اس ارادے کا اعادہ جو ان عناصر سے درپيش خطرات کی حقيقت کو بھی تسليم کرتے ہيں اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہم ايک مشترکہ مقصد کے ليے اپنے وسائل تک باہم رسائ کے اصول پر کاربند ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ اصولی طور پر بھی اور اپنی پاليسی کے تحت بھی ہم کسی بھی ايسے گروہ کی حمايت نہيں کرتے جو دہشت گردی کی سوچ پر عمل پيرا ہو اور اپنی خواہش اور ايجنڈے کو خوف، تشدد اور افراتفری کے ذريعے مسلط کرنے پر يقین رکھتا ہے۔ ايسی کوئ‏ بھی حکمت عملی خطے ميں ہمارے واضح کردہ اہداف کی نفی کرتی ہے جس کے تحت خطے کے ان عام شہريوں کے ليے پائيدار امن کا حصول مقصود ہے جو داعش اور شامی حکومت کے مظالم کی وجہ سے دہشت گردی کا شکار ہيں۔

جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو اس ضمن ميں يہ وضاحت ضروری ہے کہ امريکہ تن تنہا فيصلے نہيں کر رہا ہے۔ ہم ايک ايسے اتحاد کا حصہ ہيں جس ميں ساٹھ سے زيادہ ممالک شامل ہيں جو عالمی دہشت گردی کے عفريت سے اپنے شہريوں کو محفوظ کرنے کے ليے مشترکہ کاوشيں کر رہے ہيں۔ اسی طرح شام ميں بھی ہم علاقائ فريقين اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہيں جو زمينی اينٹيلی جنس اور اس ضمن ميں وسائل فراہم کرنے ميں کليدی کردار ادا کر رہے ہيں۔

جہاں تک شام کے تنازعے کے حوالے سے امريکی کردار کا سوال ہے تو ہماری جانب سے اس معاملے کے پرامن حل کے ليے تمام فريقين پر اشتراک عمل کے ليے زور ديا گيا ہے۔ علاوہ ازيں ہم اس حقيقت کو بھی اجاگر کر رہے ہيں کہ اس ضمن ميں پائيدار اقدامات نا اٹھانے کی صورت ميں جو ممکنہ صورت حال سامنے آ سکتی ہے اس ميں شام ميں پرتشدد واقعات ميں اضافہ خطے کے ديگر ممالک پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے جن میں ہمارے اہم ترين اتحادی اور شراکت دار بھی شامل ہيں۔

اس حوالے سے کوئ ابہام يہ غلط فہمی نہيں ہونی چاہيے کہ زمين پر پيش آنے والے واقعات کے تسلسل نا تو امريکی اختيار ميں ہيں اور نا ہی يہ امريکہ کے زير نگرانی ہو رہے ہيں

ايک وسيع اتحاد کا حصہ ہونے کی حيثيت سے ہمارا کردار اور حمايت فراہم کرنے کا فيصلہ ہمارے اس عزم کا آئينہ دار ہے جس کے تحت ہم شام کے ان باسيوں کے ساتھ کھڑے ہيں جو ايک ايسی حکومت کے خلاف برسرپيکار ہيں جس نے نا صرف يہ کہ انھيں تنہا چھوڑ ديا ہے بلکہ اپنے ہی شہريوں پر حملے کے ليے تمام تر وسائل کو استعمال کرنے سے بھی گريز نہيں کر رہی ہے۔

اسی بات کو امريکی وزير خارجہ جان کيری نے بھی اپنے ايک حاليہ بيان ميں اجاگر کيا ہے۔

"ہم يہ اس ليے کر رہے ہيں کیونکہ اس لڑائ ميں ہم ان کا ساتھ دے رہے ہيں جو ايک مرتبہ پھر شام کو ابھرتا ہوا ديکھنا چاہتے ہيں اور جو جمہوريت اور انسانی حقوق کی بالا دستی کے متمنی ہيں۔ يقینی طور پر بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور ہم اس بات کا خطرہ مول نہيں لے سکتے کہ مشرق وسطی کے دل ميں واقع ايک ملک کو ايک بے رحم حاکم کے ہاتھوں تباہ ہونے ديں يا ملک کو دہشت گردوں کے ہاتھوں ميں جانے ديں۔"

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter

Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos
ہاں، افغانستان، عراق اور لیبیا تو آلریڈی بلند ترین مقام پر پہنچ گئے، اب شام کی باری ہے
ویسے بائی دی وے، اپنے ملک میں پولیس کے ہاتھوں نہتے سیاہ فام افراد کی ہلاکت کیا ذرا سی بھی تشویش پیدا نہیں کرتی؟ یا سیاہ فام صدر اور سیاہ فام عوام کی زندگی کی قیمت فرق ہے؟ کیا اس بات سے یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کو امریکہ میں بھی جمہوریت متعارف کرا دینی چاہیے؟ کم از کم سیاہ فام زندگیوں کی اہمیت کے بارے الگ سے چلنے والی تحریک ہی دم توڑ جائے؟
 

Fawad -

محفلین
ویسے بائی دی وے، اپنے ملک میں پولیس کے ہاتھوں نہتے سیاہ فام افراد کی ہلاکت کیا ذرا سی بھی تشویش پیدا نہیں کرتی؟ یا سیاہ فام صدر اور سیاہ فام عوام کی زندگی کی قیمت فرق ہے؟ کیا اس بات سے یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کو امریکہ میں بھی جمہوریت متعارف کرا دینی چاہیے؟ کم از کم سیاہ فام زندگیوں کی اہمیت کے بارے الگ سے چلنے والی تحریک ہی دم توڑ جائے؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکہ تمام تر خاميوں سے پاک ايک ايسا معاشرہ ہے جہاں ہر چيز قانون کے دائرے کے اندر ہے اور تشدد کا نام ونشان نہيں ہے۔ دنيا کے کسی بھی دوسرے ملک کی طرح، يہاں بھی تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہيں اور ايسا طريقہ کار اور نظام بھی موجود ہے جو اس بات کو يقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ بلاتفريق عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنايا جائے اور جرم کا ارتکاب کرنے والے عناصر کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔

علاوہ ازيں، کسی بھی آزاد، متنوع اور جمہوری معاشرے کی طرح يہاں پر افراد اور گروہوں کو اس بات کی اجازت اور مکمل آزادی ہے کہ وہ اپنی سياسی سوچ اور نظريات کا پرچار کريں۔ معاشرے ميں ايسے طبقات موجود ہيں جو اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے ان ايشوز کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہيں جو ان کے مطابق معاشرے ميں مثبت تبديليوں کا موجب بن سکتے ہيں۔

ميں کچھ رائے دہندگان کے اس تجزيے سے متفق نہيں ہوں کہ احتجاج کی يہ لہر ايک ايسے معاشرے کی غمازی کر رہی ہے جو شکست وريخت کا شکار ہے۔ بلکہ يہ عمل تو ايک آزاد جمہوری معاشرے ميں تنوع اور شعور کو اجاگر کرتا ہے جہاں کے باسی جس بات کو اپنے تئيں درست سمجھتے ہيں اس کے ليے کھڑے بھی ہوتے ہيں اور اپنی آواز بھی بلند کرتے ہيں۔ کيا آپ واقعی ايمانداری سے يہ سمجھتے ہيں کہ وہ معاشرے جو رنگ ونسل، مذہب اور سياسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنے تمام شہريوں کے ليے يکساں بنيادی حقوق کے حصول کے ليے اپنے نظام انصاف سے بھی احتساب اور شفاف عمل کا تقاضا کرتے ہيں، وہ توڑ پھوڑ اور بحران کی جانب گامزن ہيں؟

يہ دعوی انتہائ غير منطقی ہے کہ ايک جانب تو امريکہ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور زوال پذير ملک کے طور پر پيش کيا جائے اور پھر اسی ملک کو "طاقت کے نشے ميں سرشار" ايک ايسی منہ زور عالمی طاقت کا طعنہ ديا جائے جو پوری دنيا ميں کسی بھی ملک کے سياسی، معاشرتی اور معاشی نظام ميں ردوبدل کرنے کے علاوہ اسے مکمل طور پر کنٹرول کرنے کی صلاحيت بھی رکھتا ہو۔

يہ دونوں دعوے بيک وقت درست نہيں ہو سکتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
 

قیصرانی

لائبریرین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا
کہ امريکہ تمام تر خاميوں سے پاک ايک ايسا معاشرہ ہے جہاں ہر چيز قانون کے دائرے کے اندر ہے اور تشدد کا نام ونشان نہيں ہے۔ دنيا کے کسی بھی دوسرے ملک کی طرح، يہاں بھی تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہيں اور ايسا طريقہ کار اور نظام بھی موجود ہے جو اس بات کو يقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ بلاتفريق عام شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنايا جائے اور جرم کا ارتکاب کرنے والے عناصر کو کيفر کردار تک پہنچايا جائے۔

علاوہ ازيں، کسی بھی آزاد، متنوع اور جمہوری معاشرے کی طرح يہاں پر افراد اور گروہوں کو اس بات کی اجازت اور مکمل آزادی ہے کہ وہ اپنی سياسی سوچ اور نظريات کا پرچار کريں۔ معاشرے ميں ايسے طبقات موجود ہيں جو اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے ان ايشوز کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہيں جو ان کے مطابق معاشرے ميں مثبت تبديليوں کا موجب بن سکتے ہيں۔

ميں کچھ رائے دہندگان کے اس تجزيے سے متفق نہيں ہوں
کہ احتجاج کی يہ لہر ايک ايسے معاشرے کی غمازی کر رہی ہے جو شکست وريخت کا شکار ہے۔ بلکہ يہ عمل تو ايک آزاد جمہوری معاشرے ميں تنوع اور شعور کو اجاگر کرتا ہے جہاں کے باسی جس بات کو اپنے تئيں درست سمجھتے ہيں اس کے ليے کھڑے بھی ہوتے ہيں اور اپنی آواز بھی بلند کرتے ہيں۔ کيا آپ واقعی ايمانداری سے يہ سمجھتے ہيں کہ وہ معاشرے جو رنگ ونسل، مذہب اور سياسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنے تمام شہريوں کے ليے يکساں بنيادی حقوق کے حصول کے ليے اپنے نظام انصاف سے بھی احتساب اور شفاف عمل کا تقاضا کرتے ہيں، وہ توڑ پھوڑ اور بحران کی جانب گامزن ہيں؟

يہ دعوی انتہائ غير منطقی ہے کہ ايک جانب تو امريکہ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور زوال پذير ملک کے طور پر پيش کيا جائے اور پھر اسی ملک کو "طاقت کے نشے ميں سرشار" ايک ايسی منہ زور عالمی طاقت کا طعنہ ديا جائے جو پوری دنيا ميں کسی بھی ملک کے سياسی، معاشرتی اور معاشی نظام ميں ردوبدل کرنے کے علاوہ اسے مکمل طور پر کنٹرول کرنے کی صلاحيت بھی رکھتا ہو۔

يہ دونوں دعوے بيک وقت درست نہيں ہو سکتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter
براہ کرم یہاں نیچے اپنے دستخط ہٹا دیجیے کہ آپ یہاں اپنی ذاتی رائے دے رہے ہیں، امریکی حکومت کے سرکاری مؤقف کی نمائندگی نہیں کر رہے
دوسرا میں نے یہ ہرگز دعویٰ نہیں کیا کہ:
يہ دعوی انتہائ غير منطقی ہے کہ ايک جانب تو امريکہ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور زوال پذير ملک کے طور پر پيش کيا جائے اور پھر اسی ملک کو "طاقت کے نشے ميں سرشار" ايک ايسی منہ زور عالمی طاقت کا طعنہ ديا جائے جو پوری دنيا ميں کسی بھی ملک کے سياسی، معاشرتی اور معاشی نظام ميں ردوبدل کرنے کے علاوہ اسے مکمل طور پر کنٹرول کرنے کی صلاحيت بھی رکھتا ہو۔
 

Fawad -

محفلین
فیصل عظیم فیصل نے کہا:
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی حکومت ایک ملک میں شہریوں کی اپنی حکومت سے ناراضگی یا اختلاف کی صورت میں جبکہ وہ اس ملک کے مقبوضہ علاقے بھی ناں ہوں اور وہ شہری اس حکومت کے ظلم و جبر سے تنگ ہوں.. ان کو اسلحہ کی فراہمی کرنا جائز سمجھتی ہے چاہے ایسی صورت میں اس ملک میں خانہ جنگی ہی شروع کیوں نہ ہو جائے. جس کا براہ راست مطلب یہ ہوا کہ جسے آپ درست سمجھیں اسے اسلحہ فراہم کر دیں اور وہ درست ہوگا دوسری صورت میں وہ دہشت گرد اور ٹیررسٹ ہوگا. اگر اسی نقطہ نظر کو درست مان لیا جائے تو کشمیر میں ہونے والے ہندوستانی مظالم جو قریب ستر سال سے جاری ہیں وہاں آپ اسلحہ فراہم کیوں نہیں کرتے حالانکہ وہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور وہاں بلاجواز فوجی قوت کی موجودگی اور ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو شہید بھی کیا جا چکا ہے



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت نا تو کشمير اور نہ ہی شام ميں جاری خانہ جنگی ميں براہراست فريق ہے۔ عالمی برادری کا حصہ ہونے کی حيثيت سے ہم اپنے کئ علاقائ اور اسٹريجک شراکت داروں کے ساتھ تسلسل کے ساتھ روابط رکھتے ہيں تا کہ ايسے مسائل کے حل ميں اپنا موثرکردار ادا کر سکيں جسے کے مقامی اور عالمی سطح پر دوررس نتائج مرتب ہو سکتے ہيں۔ عمومی طور پر يہ کاوشيں اور روابط سفارتی سطح پر بات چيت اور مسلسل گفتگو کے ذريعے جاری رہتی ہيں۔ کشمیر کا مسلۂ بھی اس زمرے ميں آتا ہے جہاں ہم اپنے دونوں علاقائ شراکت داروں کو يہ باور کرواتے رہے ہيں کہ عام لوگوں کو خون ريزی اور تشدد سے محفوظ رکھنے کے ليے مربوط اقدامات اور کاوشوں کی ضرورت ہے۔

تاہم فريقین کی جانب سے کسی اتفاق رائے اور رضامندی کے بغير ہم زبردستی مصالحت کے ضمن ميں براہ راست کوئ کردار ادا نہيں کر سکتے ہيں۔۔ خاص طور پر ايک ايسے تنازعے کے حوالے سے جو قريب چھ دہائيوں پر محيط ہے۔

شام کے معاملے ميں يہ امريکی حکومت نہيں ہے جس نے شام کے لوگوں کے اس بات پر مجبور کيا ہے کہ وہ اپنی حکومت کے خلاف ہتھيار اٹھائيں۔ علاوہ ازيں شامی حکومت کا اپنے شہريوں پر مظالم اور اس پر عالمی اتفاق رائے ايسے عوامل نہيں ہيں جس کے ليے امريکی اقدامات کو قصوروار قرار ديا جائے۔

عالمی برادری ، اقوام متحدہ اور بے شمار عرب ممالک کی طرح ہم بھی دل کی گہرائیوں سے شام میں جاری تشدد کی وجہ سے اور خاص طور پر اسد حکومت کی جانب سے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہولناک کاروائیوں کی وجہ سے فکر مند ہیں ۔ بین الاقوامی برادری اس قتل عام اور عدم استحکام کو خاموش تماشائ بن کر نظر انداز نہيں کر سکتی۔

يہ موقف اور نقظہ نظر صرف امريکی حکومت کا ہی نہيں بلکہ عالمی برادری کا ہے۔

جہاں تک اس تنازعے کے حوالے سے امريکی کردار کا سوال ہے تو ہماری جانب سے اس معاملے کے پرامن حل کے ليے تمام فريقين پر اشتراک عمل کے ليے زور ديا گيا ہے۔ علاوہ ازيں ہم اس حقيقت کو بھی اجاگر کر رہے ہيں کہ اس ضمن ميں پائيدار اقدامات نا اٹھانے کی صورت ميں جو ممکنہ صورت حال سامنے آ سکتی ہے اس ميں شام ميں پرتشدد واقعات ميں اضافہ خطے کے ديگر ممالک پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے جن میں ہمارے اہم ترين اتحادی اور شراکت دار بھی شامل ہيں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

DOTUSStateDept (@USDOSDOT_Urdu) | Twitter


Digital Outreach Team (@doturdu) • Instagram photos and videos

Us Dot
 
Top