فریدہ خانم وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا

قیصرانی

لائبریرین
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں
پھر سچا شعر سنائیں کیا
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے
تادیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا
پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں
پھر سچا شعر سنائیں کیا
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
اک آگ غمِ تنہائی کی
جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم سارا جلتا ہو
پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں
پھر سچا شعر سنائیں کیا
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے
ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبہ شوق سنائیں کیا
کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں
پھر سچا شعر سنائیں کیا
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
اب اس کا حال بتائیں کیا
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
اب اس کا حال بتائیں کیا
 
Top